افسانہ نمبر 538 : الوداع تاریخ، مصنف : ریمنڈ کارور (امریکہ)، مترجم: عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

                                                                                                                  عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 538 : الوداع تاریخ
مصنف : ریمنڈ کارور (امریکہ)
مترجم: عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)



ایک رات میں اپنے بیڈروم میں تھا جب مجھے باہر راہداری سے کچھ آواز سنائی دی ۔میں نے اپنے کام سے سر اٹھا کر دیکھا تو ایک خط دروازے کے نیچے سے دکھائی دیا ۔ یہ خاصا موٹا لفافہ تھا ۔لیکن اتنا موٹا بھی نہیں کہ دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلا نہ جا سکے ۔لفافے پر میرا نام لکھا تھا ۔اس کے اندر واضح طور پر میری بیوی کی طرف سے خط تھا ۔
میں نے لفظ " واضح " استعمال کیا ہے کیوں کہ یہ شکایات صرف اسی شخص کی طرف سے ہو سکتی تھی جس نے مجھے روزانہ کی بنیاد پر انتہائی قریب سے ہر روز کے معاملات میں دیکھا ہوے تئیس سال گزارے ہوں ۔الزامات انتہائی اشتعال انگیز تھے اور مکمل طور پر میری بیوی کے کردار سے ہٹ کر تھے ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ لکھائی میری بیوی کی نہیں تھی ۔لیکن اگر اس کی نہیں تھی تو پھر کس کی تھی ؟۔
اب میری خواہش ہے کہ کاش وہ خط میرے پاس ہوتا ۔اور میں اسے ہو بہو پیش کر دیتا۔میں اس کے مندرجات کی نہیں بلکہ اس کے لب و لہجے کی بات کر رہا ہوں ۔ لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ میں نےاسے سنبھال کر نہیں رکھا ۔ یا تو وہ گم ہو گیا یا پھر کہیں رکھ کر بھول گیا ۔افسوس کے اظہار کے بعد میں بتانے لگا ہوں کہ ہو سکتا ہے میں نے اپنا ڈیسک صاف کر نے کے دوران کہیں حادثاتی طور پر پھینک دیا ہو ۔حالانکہ ایسا کرنا میرے کردار کے خلاف ہے ۔ کہ میں اس طرح کوئی چیز نہیں پھینکتا ۔
تاہم میری یادداشت بہت اچھی ہے ۔میں نے جو کچھ پڑھا اسے مکمل دہرا سکتا ہوں ۔میری یادداشت اتنی اچھی ہے کہ میں ہمیشہ اپنے سکول میں نام ، تواریخ ایجادات ،جنگیں ،معاہدات اور اتحاد وغیرہ یاد رکھنے کی صلاحیت کی وجہ سے انعام جیت لیتا تھا ۔ میں ہمیشہ امتحانات مبنی بر حقائق میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کرتا اور بعد کے سالوں میں “حقیقی دنیا real world “ جیسا کہ کہا جاتا ہے میں اس یادداشت کی وجہ سے مجھے اعلی مقام حاصل ہوا ۔مثال کے طور پر اگر مجھ سے ابھی اسی وقت ٹرینٹ کی کونسل ( 1543 اور 1563 کے درمیان اٹلی میں منعقدہ،جس میں رومن کیتھولک کی جانب سے پروٹیسٹنٹ کو جواب دیا گیا ) Treaty of utrecht/, / یوٹریکٹ کا معاہدہ ( 1474 میں انگلینڈ اور Hanseatic league ہینسیٹک لیگ کے درمیان جنگ کے خاتمے کا معاہدہ ) کے بارے میں تفصیلات پوچھی جائیں یا پھر ،کار تھیج Carthage ( شمالی افریقی ساحل پر تیونس کے قریب ایک قدیم شہر ) کے بارے میں گفتگو کرنے کو کہا جاۓ ، جسے رومیوں نے ہنی بال کی شکست کے بعد مسمار کیا ( رومی افواج نے پورے شہر میں نمک کاشت کر دیا تا کہ وہ دوبارہ کبھی کارتھیج نہ بن سکے ) تو میں ایسا کر سکتا ہوں ۔یا اگر مجھے سات سالہ جنگ ، تیس سالہ جنگ ،یا سو سالہ جنگ یا صرف پہلی سیلیسٹن / Silesien جنگ کے بارے میں پوچھا جاۓ تو مکمل اعتماد اور جوش و خروش سے بتا سکتا ہوں مجھ سے تاتاریوں کے بارے میں ، نشاط ثانیہ کے پوپس، ،سلطنت عثمانیہ کے عروج و زوال ، Thermopylae/ تھرموپیلئ۔ ( ایک جنگ جس میں فارسیوں / ایرانیوں نے یونان کی فوج کا قلعہ قمعہ کر دیا ) ،شیلو/ Shilo یا میکسم گن کے بارے میں کچھ بھی پوچھ لیں ،سب بتانا بہت آسان ہے . ،ٹینن برگ کی لڑائی ( روس اور جرمنی کے درمیان لڑی گئی جنگ ) کے بارے میں بتانا میرے لئے اتنا ہی آسان ہے جیسے بلیک برڈ پائی ۔( مشہور بچوں کی نظم ،) سنانا “ ۔ایگنی کورٹ کے مقام پر جہاں انگریزی لمبی کمانوں نے معرکہ جیت لیا ،اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ۔ ہر ایک نے لیپانٹو/ Lepanto جنگ کے بارے میں سن رکھا ہے ،جو آخری سمندری جنگ تھی جس میں galleys ( بحری جہازوں کی ایک قسم ) جنہیں زیادہ تر غلام چلاتے تھے ،شامل تھے ۔یہ جنگ 1571 میں بحیرہ روم میں لڑی گئی ۔جب یورپی عیسائی ملکوں کی مشترکہ بحری افواج نے عرب فوجوں کو جو بدنام زمانہ آل مؤزن زادے جو اپنے قیدیوں کو قتل کرنے سے قبل خود ذاتی طور پر ان کی ناک کاٹنے میں دلچسپی رکھتا تھا ، کی قیادت میں لڑ رہے تھے، کو پیچھے دھکیل دیا ۔ لیکن کیا کسی کو یاد ہے کہ سروینٹس ( ہسپانوی مصنف ) اس سارے معاملے میں شامل تھا اور اس نے اس لڑائی میں اپنا بایاں بازو کٹوا لیا تھا ؟ ۔مذید کوئی خاص بات ۔بوروڈینو میں ایک دن کا فرانس اور روس کا مشترکہ نقصان پچھتر ہزار انسانی جانیں تھیں ۔یہ نقصان اگر ایک مکمل بھرا ہوا جمبو جیٹ ناشتے کے وقت سے لے کر غروب آفتاب تک ہر تین منٹ بعد تباہ ہوتا رہے تو اس میں ہونے والی اموات کے برابر ہوگا ۔کوٹوزوو/ Kutuzov نے اپنی افواج واپس ماسکو بلوا لیں ۔نپولین نے تھوڑا توقف کیا ،اپنی افواج کو از سرے نو ترتیب دی اور پیش قدمی جاری رکھی ۔اور ماسکو کے مرکزی حصے تک پہنچ گیا ۔ وہاں وہ ایک ماہ تک رکا رہا اور کوٹوزو کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ مقابلے پر نہ آیا ۔روسی متحدہ افواج کا سالار برفباری کا انتظار کر رہا تھا تا کہ نپولین واپس جانے پر مجبور ہو جاۓ ۔
چیزیں میرے دماغ میں چپک جاتی ہیں ۔مجھے یاد رہتی ہیں ۔اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ میں خط دوبارہ لکھ سکتا ہوں —-وہ حصہ جو میں نے پڑھا جس میں مجھ پر الزامات کی فہرست تیار کی گئی تھی ۔ میرا مطلب وہی ہوتا ہے میں جو کہتا ہوں ۔
جزوی خط درج زیل ہے ۔
پیارے ،
معاملات اچھے نہیں ہیں ۔بلکہ حالات خراب ہیں ۔معاملات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں ۔تمہیں علم ہے میں کیا بات کر رہی ہوںe۔ہمارے درمیان سب ختم ہو چکا ہے ۔اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ ہم آس پر گفتگو کریں ۔
ہمیں بات چیت کئے بہت عرصہ ہو چکا ہے ۔ میرا مطلب ہے ،صحیح معنوں میں بات چیت کئے ۔ جب ہماری شادی ہوئی تھی تو ہم باتیں کرتے رہتے تھے ۔خبروں اور خیالات پر تبادلہ خیال کرتے رہتے تھے ۔ جب بچے چھوٹے تھے بلکہ جب تھوڑے بڑے ہو گئے تھے تب بھی ہم آپس میں گفتگو کے لئے بہت وقت نکال لیتے تھے ۔ بہت مشکل ہوتا تھا لیکن پھر بھی ہم انتظام کر لیتے تھے ۔ہمیں وقت مل جاتا تھا ۔ ہم ان کے سو جانے کا انتظار کرتے تھے یا اس کے علاوہ جب وہ باہر کھیلنے کے لئے جاتے یاپھر آیا کے ساتھ ،بہرحال ہم وقت نکال لیتے تھے ۔بعض اوقات ہم آپس میں بات چیت کے لئے وقت نکالنے کے لئے بچوں کے لئے آیا کا انتظام کر لیتے تھے ۔
بعض اوقات ہم پوری رات باتوں میں گزار دیتے یہاں تک کے سورج طلوع ہو جاتا ۔ میں جانتی ہوں کچھ واقعات رونما ہو جاتے ہیں کچھ چیزیں بدل جاتی ہیں۔ بل کو پولیس کے ساتھ اس پریشانی کا سامنا کرنا پڑا اور لنڈا حاملہ ہو گئی ۔ وغیرہ ،وغیرہ ۔
ہمارا آپس کا پرسکون وقت کہیں اڑ گیا ہے ۔آہستہ آہستہ تمہاری زمہ داریاں بڑھنے لگیں ۔تمہارا کام زیادہ اہم ہوتا گیا ۔ہمارا آپس کا وقت سکڑنے لگا ۔ پھر جب بچے گھر چھوڑنے لگے تو ہمیں اپنا بات چیت کا وقت واپس مل گیا ۔ہم پھر ایک دوسرے کے ہو گئے ۔ بس ہمارے پاس گفتگو کے لئے موضوع کم سے کم ہوتے گئے ۔" ایسے ہو جاتا ہے ۔" میں نے ایک دانا کو کہتے سنا ۔اور وہ درست تھا ،” ایسا ہو جاتا ہے ۔” لیکن ایسا ہمارے ساتھ ہو گیا ۔خیر ،کوئی الزام نہیں ۔اس خط کا مقصد یہ سب نہیں ۔ میں ہمارے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ۔میں آج کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں ۔وقت آ گیا ہے کہ ہم تسلیم کر لیں کہ ناممکن ،ممکن ہو گیا ہے ۔ میں شکست تسلیم کرتی ہوں ۔ اور اس صورتحال سے نکلنا چاہتی ہوں .میں یہاں تک پڑھ کر رک گیا ،کچھ گڑ بڑ تھی ۔ ڈنمارک میں کچھ مشکوک تھا ( محاورہ ) ۔ خط میں بیان کردہ جذبات میری بیوی کے ہو سکتے تھے لیکن لکھائی اس کی نہیں تھی ۔ مجھے معلوم ہونا چاہیے تھا ۔میں اپنے آپ کو اس کی لکھائی کی شناخت کا ماہر سمجھتا ہوں ۔اگر یہ اس کی لکھائی نہیں تھی تو پھر روۓ زمین پر کون تھا جس نے یہ فقرے لکھے تھے ۔
اب مجھے اپنے بارے میں اور اپنی زندگی کے بارے میں کچھ کہنا ہے ۔جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت ہم جس گھر میں رہ رہے تھے وہ ہم نے موسم گرما گزارنے کے لئے لیا تھا ۔ ان دنوں میں نیا نیا بیماری سے صحت یاب ہوا تھا ،جس کی وجہ سے میرے بہت سے کام تعطل کا شکار ہو گئے تھے ۔اور مجھے انہیں بہار آنے تک مکمل کر لینے کی امید تھی ۔ہمیں تین اطراف سے چراہگاہوں ،سندر کے درختوں ،اور ٹیلوں نے گھیرا ہوا تھا جسے ریلٹر ( پراپرٹی ایجنٹ / وکیل عقارات) نے فون پر اس جگہ کی تفصیل بتاتے ہوے اسے “ علاقائی منظر” قرار دیا تھا ۔گھر کے سامنے ایک لان تھا جو نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے بے ہنگم اور بے ترتیب ہو چکا تھا ۔سڑک تک پہنچنے کے لئے لمبی بجری کا پیش رستہ تھا ۔سڑک سے پرے ہمیں پہاڑوں کی چوٹیاں دکھائی دیتی تھیں ۔اس طرح یہ فقرہ “ علاقائی منظر “ جس منظر نامے سے متعلقہ تھا اس کی دور سے ہی تعریف کی جا سکتی تھی ۔
اس علاقے میں میری بیوی کے دوست نہیں تھے ۔ہمارے ملاقاتی بھی نہیں تھے ۔حقیقتا” میں ان لمحات خلوت پر خوش تھا ۔لیکن وہ ایسی عورت تھی جو دوست رکھنے ، دکانداروں اور تاجروں سے بھاؤ تاؤ کرنے کی عادی تھی ۔ اس جگہ بس ہم دونوں ہی تھے اور اپنے زرائع پر قانع ہونے پر مجبور تھے ۔ ایک وقت تھا جب دیہاتی گھر ہمارا خواب تھا ۔اس طرح کا انتظام ہماری خواہش تھی ۔ لیکن اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی اچھا خیال نہیں تھا ۔ہمارے دونوں بچے عرصہ ہوا گھر چھوڑ گئے تھے ۔کبھی کبھار کسی ایک کی جانب سے خط موصول ہو جاتا تھا اور شازونادر کسی چھٹی پر کوئی ایک ٹیلیفون کر لیتا ۔اور وہ بھی واجب آل ادائیگی ( جس میں ادائیگی وصول کرنے والا کرتا ) ہوتی تھی ۔ میری بیوی اس خرچے سے بھی خوش ہو جاتی ۔ان( بچوں ) کی جانب سے یہ لاتعلقی ہی میرے خیال میں میری بیوی کی افسردگی اور عمومی بے قراری کا سبب تھی ۔ بے قراری —- مجھے تسلیم کرنا پڑے گا ۔ دیہاتی گھر منتقل ہونے سے قبل ہی مجھے اس کا احساس ہو گیا تھا ۔بہرحال زندگی کے اتنے سال شاپنگ مال اور بس سروس کے قریب رہتے جو ٹیکسی ہال میں موجود ٹیلی فون جتنی دوری پر تھے ، کے بعد ان سے دور ہو جانا ، اس کے لئے بہت مشکل تھا،بہت ہی تکلیف دہ تھا ۔میرا خیال ہے اس کے زہنی انحطاط کی وجہ ،ایک مؤرخ اسے یوں بیان کرتا ،دیہات میں جانے سے اس میں اضافہ ہو گیا ۔میرے خیال میں اسی کے بعد وہ زمینی طور پر مفلوج ہوئی ۔ میں نقصان اٹھانے کے بعد بات کر رہا ہوں جو ہمیشہ عیاں کی تصدیق کرتا ہے ۔
مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ میں اس کی لکھائی والے معاملے میں کیا کہوں ۔اور ساکھ بھی برقرار رکھ سکوں ۔ ہم گھر میں تنہا تھے ،میری معلومات کے مطابق کوئی اور نہیں تھا ۔—-تاہم گھر میں کوئی تھا جس نے یہ خط لکھا ۔بہرحال مجھے آج تک یہ یقین ہے کہ وہ لکھائی اس کی نہیں تھی جو اس خط کے صفحات پر تھی ۔ اس لئے کہ میں اپنی بیوی کی لکھائی تب سے پڑھ رہا تھا جب ہماری شادی بھی نہیں ہوئی تھی ۔ تب سے جسے قبل از تاریخ کہا جا سکتا ہے —- اس وقت سے جب وہ گرے/ سلیٹی اور سفید یونیفارم پہنے سکول جاتی تھی ۔وہ باقاعدگی سے مجھے ہر روز جب وہ دور ہوتی تو خط لکھتی۔ وہ پورے دو سال مجھ سے دور رہی ۔ جس میں چھٹیاں اور گرما کی تعطیلات شامل نہیں ہیں ۔
ہمارے تعلقات کے دوران ، اگر میں ، ہماری علیحدگی کاحساب کروں اور وہ مختصر وقفے جب میں کاروباری دورے پر یا ہسپتال میں تھا بھی شامل کروں تو میں نے کل سترہ سو یا اٹھارہ سو پچاس ہاتھ سے لکھے گئے خطوط اور ہزاروں کی تعداد میں غیر رسمی مختصر نوٹس،جیسے گھر آتے ہوۓ رستے سے میرے ڈرائی کلین کپڑے اور کچھ پالک پاستا کورٹی براس سے لیتے آنا، وصول کئے ۔ میں دنیا میں کہیں بھی اس کی لکھائی پہچان سکتا ہوں ۔ مجھے کچھ الفاظ دو ۔میں پراعتماد ہوں کہ اگر میں جافہ میں ہوں یا مراکش میں اور مجھے بازار میں بھی کوئی نوٹ ملے تو اگر وہ میری بیوی کی لکھائی ہوئی تو میں پہچان لوں گا ۔ایک لفظ مثال کے طور پر “ بات چیت” تو یہ اس کے لکھنے کا انداز نہیں ہے ۔اس کے باوجود میں ہی پہلا شخص ہوں جو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ اگر اس کی لکھائی نہیں ہے،تو کس کی ہے ؟ دوسری بات یہ کہ میری بیوی کبھی بھی لفظوں پر زور دینے کے لئے خط کشیدہ نہیں کرتی تھی ۔کبھی بھی نہیں ۔
مجھے کوئی ایک موقع بھی یاد نہیں جب اس نے ایسا کیا ہو ۔ہماری ساری شادی شدہ زندگی میں ایک بار بھی نہیں ۔شادی سے قبل بھی جو خطوط میں نے اس کی طرف سے وصول کئے ،ان میں بھی نہیں ۔یہ مناسب ہو گا اگر میں فرض کر لوں کہ ایسا کسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے ۔ کوئی بھی اپنے آپ کو ایسی غیر معمولی صورتحال میں پا سکتا ہے اور اس لمحاتی دباؤ کے تحت ایسا کام کر سکتا ہے جو اس کے کردار کا خاصہ نہیں ہوتا اور لکیر کھینچ سکتا ہے ۔محض ایک لکیر ،ایک لفظ یا پورے فقرے کے نیچے ۔
میں یہ کہنے کے لئے اس حد تک جا سکتا ہوں کہ اس نام نہاد خط کا ہر لفظ (اگرچہ میں نے اسے مکمل نہیں پڑھا اور نہ ہی پڑھ سکوں گا ،کہ اب تو وہ مل ہی نہیں رہا ) بالکل غلط ہے ۔غلط سے میری مراد مکمل جھوٹ نہیں ہے ۔اس میں الزامات کے حوالے ے کچھ سچائی ہے ۔میں الفاظ کے ہیر پھیر میں نہیں الجھنا چاہتا ۔میں اس معاملے میں چھوٹا / کم ظرف نظر نہیں آنا چاہتا ۔ معاملات پہلے ہی بہت خراب ہیں ۔میں جو کہہ رہا ہوں ،بلکہ جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خط میں بیان کردہ جذبات میری بیوی کے ہو سکتے ہیں اور ان میں کچھ سچائی بھی ہو سکتی ہے ،یہ جائز بھی ہو سکتے ہیں ۔لیکن میرے خلاف لگاۓ گۓالزامات کی طاقت کم ہو جاتی ہے اگر مکمل طور پر ختم نہ ہو تو بھی ناقابل بھروسہ ہو جاتے ہیں ۔ اس حقیقت کی موجودگی میں کہ خط اس نے خود نہیں لکھا ۔یا اگر اس نے خود لکھا بھی تو اپنی لکھائی میں نہ لکھنے کی وجہ سے وہ قابل اعتبار نہیں رہا ۔یہ حیلہ بازی انسان کو سچ جاننے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ جیسا کہ ہمیشہ اس قسم کے حالات میں ہوتا ہے ۔
جس شام کی بات ہو رہی ہے ہم نے نسبتا” خاموشی سے لیکن ناخوشگواری سے نہیں ڈنر / کھانا کھایا ، اپنے روزمرہ کے معمول کے مطابق ۔ کھانے کے دوران وقتاً فوقتاً میں اتنے اچھے کھانے( جو شکار کی گئی سالمن مچھلی ،مار چوبہ / چونگیں اور باداموں والا پلاؤ شامل تھا ) پر شکر گزاری کے طور پر اس کی طرف دیکھ کر مسکراتا رہا ۔ دوسرے کمرے سے ریڈیو کی مدھم آواز آ رہی تھی ۔ یہ پولینس کا ایک چھوٹا سا رہائشی اپارٹمنٹ تھا ،جس کے بارے میں پہلی بار میں نے ایک ڈیجیٹل ریکارڈنگ پر پانچ سال پہلے سان فرانسیسکو میں وین نیس کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک طوفان کے دوران سنا تھا ۔
جب ہم نے کھانا، مع میٹھا کھا لیا ۔ اور کافی پی لی ،میری بیوی نے کچھ کہا ،جس پر میں چونک اٹھا ۔اس نے پوچھا ، “ کیا تم شام اپنے کمرے میں گزارو گے ؟ “
“ جی ہاں ،” میرا جواب تھا ۔” تمہارا کیا ارادہ ہے ؟ تمہارے دماغ میں کیا ہے ؟
اس اپنے پیالے سے کافی پیتے ہوے کہا ،” میں تو بس جاننا چاہتی تھی ۔” لیکن اس نے میری طرف دیکھنے سے احتراز کیا ۔ جب کہ میں نے اس سے نظریں ملانے کی کوشش کی ۔
“ کیا تمہارا ارادہ شام اپنے کمرے میں گزارنے کا ہے ؟ ،جیسا سوال اس کے مزاج کے خلاف تھا ۔اب میں سوچتا ہوں میں نے اس بات کو اس وقت کیوں اہمیت نہیں دی ۔وہ میری عادات جانتی تھی ۔لیکن میرا خیال ہے وہ اپنا منصوبہ بنا چکی تھی ۔میرا خیال ہے وہ اس وقت بھی کچھ چھپا رہی تھی ۔
“ بے شک ،میں شام اپنے کمرے میں ہی رہوں گا ۔” میں نے دہرایا ۔شاید ایک چھوٹی سی بات ۔اس نے اس کے علاوہ کچھ نہیں کہا ،اور نہ ہی میں نے ۔میں نے کافی کے آخری گھونٹ بھرے ،اور گلا صاف کیا ۔
اس نے اوپر دیکھا اور ایک لمحے کے لئے میری نظروں سے نظر ملائی ۔ پھر سر ہلایا جیسے کہ ہم کسی بات پر متفق ہو گئے ہوں ( جب کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ) وہ اٹھی اور میز صاف کرنے لگی ۔
مجھے یوں محسوس ہوا ،جیسے ڈنر کا اختتام غیر تسلی بخش ہوا ہو ۔ کچھ اور —کچھ الفاظ کی ضرورت تھی معاملات کو درست کرنے کے لئے ۔
“ دھند چھانے لگی ہے ،” میں نے کہا ۔
" کیا واقعی ؟ میں نے تو محسوس نہیں کیا" ،وہ بولی ۔
اس نے سنک کے اوپر والی کھڑکی کو برتنوں والے تولیے سے صاف کیا اور باہر دیکھا ۔ایک منٹ تک وہ کچھ نہ بولی ،پھر پراسرار لہجے میں بولی ،یا مجھے اب ایسا محسوس ہو رہا ہے ۔” بالکل ،باہر واقعی دھند ہے ۔کافی گہری دھند ہے ،کیا خیال ہے ؟ “ اتنا کہا اور نگاہیں نیچی کر کے پلیٹیں دھونے لگی ۔ میں میز پر کچھ زیادہ دیر بیٹھا رہا پھر یہ کہتے ہوۓ اٹھ گیا کہ اب مجھے اپنے کمرے میں جانا چاہیے ۔اس نے اپنے ہاتھ پانی سے باہر نکالے اور کاؤنٹر کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی ۔ میں نے سوچا شاید وہ میرے کام میں میری حوصلہ افزائی کے لئےکچھ کہے ،لیکن وہ خاموش رہی ۔کوئی آواز تک نہ نکالی ۔ایسا لگا جیسے وہ میرے باورچی خانے سے جانے کی منتظر ہو تا کہ وہ اپنی تنہائی سے لطف اندوز ہو سکے ۔
یاد رہے ،میں اس وقت جب خط دروازے کے نیچے سے اندر دھکیلا گیا تو میں اپنے کمرے میں کام کر رہا تھا ۔ میں نے آتنا ہی خط پڑھا کہ میرے دماغ نے اس کی لکھائی پر سوال اور اعتراضات اٹھا دیے اور میں حیران ہونے لگا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میری بیوی گھر میں ہی کہیں سے مجھے اس وقت خط لکھ رہی ہے ۔خط مذید آگے پڑھنے کی بجاۓ میں اٹھا ،دروازے تک گیا ۔دروازہ کھول کر باہر راہداری میں جھانکا ۔ مکان کے اس حصے میں اندھیرا تھا لیکن جب محتاط ہو کر میں نے سر باہر نکالا تو مجھے ہال کے سرے پر لونگ روم / دیوان خانے میں روشنی نظر آئی ۔حسب معمول ریڈیو کی مدھم آواز سنائی دی ۔ میں کیوں ہچکچایا ؟ ۔
دھند کے علاوہ یہ ایک عام سے رات تھی جیسی بہت ساری ہم اس گھر میں گزار چکے تھے ۔لیکن اس رات میں کچھ مختلف پوشیدہ تھا ۔اس لمحے میں ڈر گیا تھا ۔ ڈر—-اگر آپ یقین کریں ،اپنے ہی گھر میں ! —- کہ میں راہداری سے ہو کر جاتا اور دیکھتا کہ آیا سب کچھ ٹھیک ہے ۔یا کچھ گڑ بڑ ہے ؟ اگر میری بیوی اسی قسم کی مشکلات سے دو چار تھی —میں کیسے وضاحت کروں ؟ —- کسی بھی قسم کی پریشانی ۔ ۔تو کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ میں اسی وقت جا کر اس کا سامنا کرتا ،بجاۓ کسی اور کی لکھائی میں لکھے گئے اس خط کے بےوقوفانہ الفاظ پڑھنے میں وقت ضائع کرنے کے معاملات کو مزید بگڑ نے سے بچا لیتا !
لیکن میں نے تحقیق نہیں کی ۔شاید میں براہراست جھگڑے سے بچنا چاہتا تھا ۔ بہرحال ،میں پیچھے ہٹا دروازہ بند کیا اسے تالا لگایا اور خط کی طرف متوجہ ہو گیا ۔لیکن مجھے غصہ آنے لگا تھا کہ بجاۓ کام کرنے کے میری شام اس بےوقوفانہ ،ناقابل فہم معاملے میں غارت ہو رہی ہے ۔میری بے چینی بڑھنے لگی تھی ۔،جب میں نے اپنی بیوی کا مجوزہ خط دوبارہ پڑھنے کا ارادہ کیا تو مجھے متلی جیسی کیفیت محسوس ہونے لگی ۔
اپنے اپنے کارڈ نکال کر میز پر رکھنے کا وقت ہمارے لئے آ کر جا چکا ہے ہمارے —-تم اور میں ۔
لینسلاٹ اور گنیور، ( انگریز بادشاہ آرتھر کے نائیٹ سر لیسلاٹ اور اس کی ملکہ گنیور کے درمیان معاشقہ ) ابی لارڈ اور ہی لوئیس ( ایبیلارڈ ،ہی لوئیس کا ٹیوٹر تھا اس سے بیس سال عمر میں بڑا تھا ،ان کے درمیان معاشقے کی وجہ سے ہی لوئیس حاملہ ہو گئی تھی ) پائراموس اور تھسبی( شہر بابل کا جوڑا ،جنہیں ان کے والدین نے شادی نہ کرنے دی ) جے اے جے اور نورا برنیکل ( بغیر شادی بطور میاں بیوی زندگی گزارنے والا جوڑا ) وغیرہ وغیرہ ۔تم جانتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں ۔ہم نے طویل عرصے تک ہر غم و خوشی ،بیماری اور تندرستی ،معدے کا بگاڑ ،آنکھوں ،ناک اور کان کی تکالیف ،اچھے اور برے دن اکٹھے گزارے ۔اور اب ؟ سچ کے سوا میں کچھ نہیں کہنا چاہتی اور سچ یہ ہے کہ اب میں ایک قدم بھی مذید نہیں اٹھا سکتی ۔
یہاں تک پہنچ کر میں نے خط پھینکا اور دوبارہ دروازے کے پاس ارادے سے پہنچا کہ اس معاملے کو ایک ہی دفعہ ہمیشہ کے لئے طے کر لیا جاۓ ۔ مجھے حساب چاہیے تھا اور ابھی چاہیے تھا ۔ میرا خیال ہے میں غصے میں تھا ۔ لیکن جب میں نے دروازہ کھولا تو مجھے دیوان خانے سے سرگوشیاں سنائی دیں ۔ایسے لگا کہ کوئی شخص فون پر کسی سے بات کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس بات کا دھیان رکھ رہا ہے کہ کوئی دوسرا سن نہ سکے ۔پھر رسیور رکھے جانے کی آواز سنائی دی ۔ بس اتنا ہی اور اس کے بعد سب پہلے جیسا ہو گیا ۔ریڈیو کی مدھم آواز اور پرسکون گھر ۔
میں نے کوئی آواز سنی
غصے کی بجاۓ میں گھبرا گیا راہداری میں دیکھتے ہوۓ میں خوفزدہ تھا ۔ سب کچھ پہلے جیسا تھا ۔دیوان خانے میں روشنی تھی ،ریڈیو بجنے کی مدہم آواز آ رہی تھی ۔میں نے کچھ قدم اٹھاۓ اور سننے کی کوشش کی ۔مجھے امید تھی کہ مجھے اس کی پرسکون ،متوازن سلائیوں کی ٹرک ٹرک کی آوازیں یا صفحے پلٹنے کی آوازیں سنائی دیں گی ۔لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔میں نے کچھ قدم مذید دیوان خانے کی طرف اٹھاۓ اور تب ،میں کیا بتاؤں —؟ میں اپنے حواس کھو بیٹھا ۔یا پھر اپنا تجسس ۔اسی لمحے میں نے دروازے کی کنڈی کھلنے کی خاموش آواز سنی اور اس کے بعد دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی مدہم آوازیں سنیں ۔
میرا فوری رد عمل بہی تھا کہ میں فورا” راہداری کو تیزی سے عبور کر کے دیوان خانے پہنچوں اور ایک ہی بار ہمیشہ کے لئے اس معاملے کی تہہ تک پہنچوں ۔لیکن میں جذباتی رد عمل سے بچناچاہتا تھا تا کہ میں ناقابل اعتبار نہ ہو جاؤں ۔میں ویسے بھی فوری رد عمل دینے والا انسان نہیں ہوں ۔اس لئے میں نے انتظار کرنا بہتر سمجھا ۔لیکن گھر میں کچھ ایسی سرگرمیاں تھیں ۔کچھ نہ کچھ ہونے والا تھا ،اس کا مجھے یقین تھا ۔ ،اگر اپنی بیوی کی حفاظت اور دیکھ بھال کا زکر نہ بھی کروں تو بھی اپنے زہنی سکون کے لئے یہ میرا فرض تھا کہ میں کچھ کروں ۔لیکن میں نے کچھ نہیں کیا ۔میں کچھ بھی نہ کر سکا ۔کچھ کرنے کی وہی ساعت تھی لیکن میں ہچکچا گیا ۔یکدم صورتحال بدل گئی اور کوئی بھی فیصلہ کن عمل ناممکن ہو گیا ۔ عمل کرنے کا لمحہ آ کر چلا گیا تھا اور اب اسے واپس لانا ناممکن تھا ۔ بالکل اسی طرح ڈاریوس، گرینیکس کی جنگ میں عمل کرنے سے ہچکچایا اور جنگ ہار گیا ۔ الیگزینڈر ،دی گریٹ نے اسے ہر طرف سے دبایا اور وہ شکست فاش سے دو چار ہوا ۔
میں نے واپس اپنے کمرے میں جا کر دروازے کو اندر سے تالا لگا لیا ۔ لیکن میرا دل بہت زور زور سے دھڑک رہا تھا ۔ میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا، کانپتے ہوۓ، خط کے صفحات پھر سے اٹھا لئے ۔لیکن یہاں ایک انوکھی بات ہوئی ۔ بجاۓ خط کو شروع سے پڑھنے یا پھر جہاں تک پڑھا تھا وہاں سے شروع کرنے کے میں نے صفحات بے ترتیبی سے اٹھا کر ٹیبل لیمپ کے نیچے رکھ کر کوئی فقرہ ادھر سے کوئی ادھر سے پڑھنے لگا ۔ اس طرح مجھے اپنے اوپر لگاۓ گئے الزامات کو ایک ساتھ رکھ کر پورے فرد جرم کو ایک نئے تناظر میں دیکھنے کا موقع مل گیا جو زیادہ قابل قبول تھی کیونکہ وہ اپنی ترتیب کھو چکی تھی اور اس کے ساتھ ہی اپنی خوفناک اثر پزیری بھی ۔
اس طرح ، صفحے پر صفحے پلٹتے ،ایک فقرہ یہاں سے ایک فقرہ وہاں سے پڑھتے ،میں نے درج ذیل مفہوم نکالا ،جو مختلف حالات میں ایک قسم کے خلاصے کے طور پر کام کر سکتا ہے ۔ ۔۔۔ اسے مذید مختصر بنانے میں ۔۔۔۔۔ لیکن ، ٹیلکم پاؤڈ کا باتھ روم میں چھڑکاؤ،بشمول دیواروں اور سائیڈ بورڈز( دیوار کے نچلے حاشیے کے تختے ) ۔۔۔۔ایک شیل/ چھلکا ۔۔۔۔ پاگل خانے کا زکر نہیں ۔۔۔۔۔۔۔یہای تک کہ آخری ۔۔۔۔۔۔متوازن نقطہ نظر / منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔قبر ۔تمہارا “ کام “ ۔۔۔۔۔۔براہ کرم مجھے وقفہ دو ۔ کوئی بھی نہیں ،یہاں تک ۔۔۔۔۔اس موضوع پر ایک لفظ اور نہیں !۔۔۔۔۔۔ بچے ۔۔۔۔۔لیکن اصل مسلۂ ۔۔۔۔۔۔۔تباہی کا زکر نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ یسوع مسیح ! حقیقتا” میرا یہی مطلب ہے ۔
اس موقعہ پر میں نے واضح طور پر داخلی دروازہ کھلنے کی آواز سنی ۔ میں نے بوکھلاہٹ میں خط کے صفحات ڈیسک پر پھینکے اور جلدی سے دیوان خانے کی طرف گیا ۔مجھے یہ دیکھنے میں ذرا بھی دیر نہ لگی ،کہ میری بیوی گھر پر نہیں ہے ۔ ( گھر بہت چھوٹا ہے —— دو سونے کے کمرے ،جن میں سے ایک کو ہم ،” میرا کمرہ یا بعض اوقات مطالعاتی کمرہ کہتے ہیں ) لیکن واقعات کی طرف آتے ہیں۔ گھر کی تمام روشنیاں جل رہی تھیں ۔کھڑکیوں کے باہر گہری دھند تھی ۔اتنی گہری دھند کہ پیش رستہ / ڈرایو وے دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ڈیوڑھی کی روشنی جل رہی تھی اور ایک سوٹ کیس ( کپڑے رکھنے کا ہلکا صندوق ) باہر ڈیوڑھی میں رکھا تھا ۔ یہ میری بیوی کا سوٹ کیس تھا ،وہی جو وہ اپنی اشیاء سے بھر کر یہاں لائی تھی ۔یہ سب کیا ہو رہا تھا ؟ میں نے دروازہ کھولا ۔اچانک۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلوم میں کیسے واضح کروں —-ایک گھوڑا دھند میں سے نمودار ہوا ۔اور پھر ایک لمحے بعد جبکہ میں ششدر کھڑا تھا ایک اور گھوڑا ۔یہ گھوڑے ہمارے سامنے والے لان میں چر رہے تھے ۔میں نے اپنی بیوی کو ایک گھوڑے کے ساتھ کھڑے دیکھا ۔ میں نے اس کا نام پکارا ۔
"باہر ،یہاں آ ؤ ، اسے دیکھو "، اس نے کہا ، "کیا کچھ یاد نہیں آیا ؟ ۔"
وہ ایک بڑے گھوڑے کے ساتھ کھڑی اس کے پیٹ پر تھپکیاں دے رہی تھی ۔ وہ اپنے بہترین کپڑوں میں ملبوس تھی ۔وہ ایڑی والے جوتوں میں تھی اور ٹوپی پہن رکھی تھی ۔ ( میں نےاسے تین سال قبل اپنی ماں کے جنازے کے بعد سے کبھی ٹوپی پہنے نہیں دیکھا تھا ) تب وہ آگے بڑھی ،اپنا چہرہ گھوڑے کی ایال سے لگایا ۔
"تم کدھر سے آۓ ہو ، تم بڑے بچے ؟ ۔پیارے ، تم کہاں سے آۓ ہو ؟"
تب میرے دیکھتے دیکھتے اس نے گھوڑے کی ایال میں رونا شروع کردیا ۔
" ارے ۔۔۔ارے ،"یہ کہتے ہوے میں سیڑھیاں اترنے لگا ۔وہاں پہنچ کر میں نے گھوڑے کو تھپکایا ،پھر اپنی بیوی کے کندھے کو چھوا ۔وہ پیچھے ہٹ گئی ۔گھوڑا ہنہنایا،ایک لمحے کے لئے سر اٹھایا ،اور دوبارہ گھاس چرنے لگا ۔
“ یہ کیا ہے ؟ “ میں نے بیوی سے پوچھا ۔” خدا کا واسطہ، یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ “
اس نے کوئی جواب نہیں دیا ۔
گھوڑے نے کچھ قدم اٹھاۓ ،لیکن بدستور گھاس کھینچتا اور کھاتا رہا ۔ دوسرا گھوڑا بھی گھاس چبا رہا تھا میری بیوی بھی گھوڑے کی ایال پکڑے ہوے اس کے ساتھ آگے بڑھی ۔ میں نے اپنا ہاتھ گھوڑے کی گردن پر رکھا تو طاقت کی ایک لہر بازو سے ہوتی کندھوں تک محسوس کی ۔ میں کپکپایا ۔میری بیوی ابھی تک رو رہی تھی ۔میں نے بے بسی محسوس کی ۔لیکن میں ڈرا ہوا تھا ۔
میں نے پوچھا ،” کیا تم مجھے بتا سکتی ہو ،یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ تم نے یہ لباس کیوں پہنا ہوا ہے ؟ وہ سوٹ کیس ڈیوڑھی میں کیوں پڑا ہے ؟ یہ گھوڑے کہاں سے آۓ ہیں ؟ خدا کے واسطے ،مجھے بتاؤ ،یہ کیا ہو رہا ہے ؟
میری بیوی نے گھوڑے کے لئے گنگنانا شروع کر دیا ۔پھر وہ رکی اور کہا،" کیا تم نے میرا خط نہیں پڑھا ،کیا پڑھا؟ تم نے ہو سکتا ہے سرسری نگاہ ڈالی ہو ،لیکن تم نے پڑھا نہیں ۔مان لو !"
" میں نے پڑھا ہے ۔" میں نے کہا ، میں جھوٹ بول رہا تھا ،جی ہاں یہ سفید جھوٹ تھا ۔ ایک جزوی جھوٹ ۔” لیکن وہ جو بے قصور ہے ، اسے پہلا پتھر پھینکنے دو ۔” لیکن مجھے بتاؤ تو سہی ،یہ سب کیا ہے ؟ “ میں نے پوچھا ۔میری بیوی نے ایک طرف سے دوسری طرف سر ہلایا ۔اس نے اپنا چہرہ گھوڑے کی گیلی گہری ایال کے اندر کر لیا ۔میں گھوڑے کی گھاس چباتے وقت منہ سے نکلنے والی ہر آواز سن سکتا تھا۔ پھر اس نے نتھنے پھلا کر زور سے ہوا اندر کھینچی ۔
وہ بولی ، “ یہ لڑکی ہوتی تھی ،تم دیکھتے ہو ۔ کیا تم سن رہے ہو ؟ اور یہ لڑکی اس لڑکے سے بہت زیادہ محبت کرتی تھی ۔وہ اپنے آپ سے بھی زیادہ اس لڑکے سے محبت کرتی تھی ۔لیکن لڑکا —- خیر ،وہ بڑا ہو گیا ۔مجھے نہیں معلوم اس کے ساتھ کیا ہوا ۔؟”
کچھ ہوا ضرور ،وہ سنگدل ہوگیا ، سنگدل ہونے کی نیت کے بغیر ،اور وہ ——-“
میں اس سے آگے نہ سن سکا ،کہ عین اسی وقت دھند میں سے پیش رستے پر ایک کار نمودار ہوئی ۔ اس کی ہیڈ لائیٹ جل رہی تھیں اور چھت پر ایک نیلی چمکتی روشنی تھی ۔ایک منٹ بعد اس کے پیچھے ایک پک آپ ٹرک داخل ہوا جو وزن لادنے والے ٹرالی جیسی کوئی چیز کھینچ رہا تھا ،دھند کے باعث یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا ۔ یہ کچھ بھی ہو سکتا تھا ۔ بہت بڑا تنور بھی ۔کار لان تک آ کر رک گئی ۔پک آپ بھی کار کے ساتھ آ کر رک گئی ۔دونوں گاڑیوں نے ہیڈ لائٹس جلتی اور انجن چلتے رہنے دیں ۔جس نے ماحول کو خوفناک اور عجیب بنانے میں کردار ادا کیا ۔ایک آدمی کاؤ بواۓ ہیٹ پہنے ہوۓ —-ایک کسان ، میرے خیال میں، ،پک آپ سے نیچے اترا ۔اس نے اپنی بھیڑ کی کھال کے بنے کوٹ کا کالر اوپر کیا ،اور گھوڑوں کو سیٹی بجائی ۔تب ایک بڑا سا شخص بارشی کوٹ پہنے کار سے اترا ۔وہ کسان سے کافی بڑا تھا ۔وہ بھی کاؤ بواۓ ہیٹ پہنے ہوۓ تھا ۔لیکن اس کا بارشی کوٹ کھلا تھا اور میں پستول اس کی کمر سے پٹی سے بندھا دیکھ سکتا تھا وہ ڈپٹی ناظم عدالت تھا ۔جو کچھ ہو رہا تھا ،اور جو پریشان کن بے چینی میں محسوس کر رہا تھا اس سب کے باوجود میں نے ان دونوں اشخاص کے ہیٹ پہننے کو قابل توجہ جانتے ہوے اپنا ہاتھ اپنے بالوں میں پھیرا اور مجھے خود ٹوپی نہ پہنے ہوۓ ہونے کا افسوس ہوا ۔
" میں نے کچھ دیر پہلے ناظم کے دفتر فون کیا تھا ۔" میری بیوی نے بتایا ، " جب میں نے پہلے گھوڑے دیکھے،" اس نے ایک منٹ انتظار کیا اور پھر مذید کچھ کہا ، "اب تمہیں مجھے گاؤں تک سواری دینے کی ضرورت نہیں ۔ میں نے اس کا ذکر خط میں کیا تھا جو تم نے پڑھ لیا ہے ۔میں نے لکھا تھا کہ مجھے شہر تک سواری کی ضرورت ہے ۔اب مجھے سواری مل جاۓ گی ۔میرا خیال ہے میں ان دونوں میں سے کسی ایک سے سواری لے سکتی ہوں ۔ اور میں کسی بھی چیز کے حوالے سے ہر گز اپنا ارادہ نہیں بدلنے والی ۔میں یہ کہہ رہی ہوں کہ میرا ارادہ ناقابل تنسیخ ہے ۔ میری طرف دیکھو ! “ اس نے کہا ۔
میں انہیں گھوڑوں کو پکڑتے دیکھ رہا تھا ۔ ڈپٹی ناظم اپنی فلیش لائیٹ پکڑے ہوۓ تھا اور کسان ایک گھوڑے کو ٹرالے میں چڑھا چکا تھا ۔میں نے مڑ کر اس عورت کو دیکھا جسے اب میں نہیں پہچانتا تھا ۔
" میں تمہیں چھوڑ رہی ہوں ،" اس نے کہا ،" یہاں یہ ہو رہا تھا،میں آج رات شہر جا رہی ہوں ۔میں نے خود ہی جانے کا فیصلہ کیا ہے ۔یہ سب کچھ اس خط میں جو تم نے پڑھا لکھا ہے ۔" جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ میری بیوی کبھی خطوط میں الفاظ کے نیچے لکیئریں نہیں کھینچتی ،وہ اب ایسے بول رہی تھی ( اپنے آنسو خشک ہونے کے بعد )جیسے کہ اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ اہم سمجھا جاۓ ۔
"تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ " میں نے اپنے آپ کو یہ کہتے سنا ۔یہ تقریباً” ایسا ہی تھا کہ جیسے میں اپنے کچھ الفاظ پر دباؤ ڈالے بغیر رہ نہیں سکتا ۔” تم یہ سب کیوں کر رہی ہو ؟ “
اس نے اپنا سر جھٹکا ۔کسان اب دوسرے گھوڑے کو ٹرالے میں لاد رہا تھا ،تیز سیٹیاں بجاتے ،ہاتھوں سے تالیاں بجاتے اور کبھی کبھی شور مچاتے ، " واؤ ! واؤ ، لعنت ہے تم پر ،اب چڑھ بھی جاؤ ،چڑھ جاؤ ۔"
نائب ناظم کلپ بورڈ ( چونڈی تختہ ) بغل میں دباۓ ہمارے پاس آیا وہ ابھی تک بڑی فلیش لائیٹ پکڑے ہوۓ تھا ۔ “ ٹیلیفون کس نے کیا تھا ؟ “ اس نے پوچھا ۔
" میں نے کیا ،" میری بیوی نے جواب دیا ۔
" تم پوری طرح تیار ہو ،" وہ بولا ۔
“ میں خاوند کو چھوڑ رہی ہوں ،” میری بیوی کا جواب تھا ۔
نائب ناظم نے سر ہلایا جیسے سب سمجھ گیا ہو ۔( لیکن وہ کچھ نہیں سمجھا تھا اور نہ سمجھ سکتا تھا )
" وہ تمہارے لئے کوئی پریشانی تو پیدا نہیں کرے گا ؟"نائب نے میرے چہرے پر فلیش لائیٹ ڈالتے ہوے کہا ۔ساتھ ہی روشنی کو اوپر نیچے تیزی سے گھمایا ۔
" کیا تم کرو گے ؟"
" نہیں ، کوئی پریشانی تو نہیں۔ لیکن میں ناراض ہوں ۔" میں نے جواب دیا ۔
" خوب ،" ناظم نے کہا ،" تو بس کافی ہے ۔"
کسان نے اپنے ٹرالر کا دروازہ بند کر کے چٹخنی چڑھا دی ۔ پھر گیلی گھاس سے گزر کر ہمارے پاس آیا ،جو اس کے بوٹوں کے اوپر تک آ رہی تھی ۔
" میں تم لوگوں کے فون کرنے کے لئے شکر گزار ہوں ،بہت ممنون ہوں ۔ دھند بہت گہری ہے ۔اگر وہ مرکزی سڑک پر پہنچ جاتے تو بہت زیادہ پریشانی کا باعث بنتے ۔"
" فرینک ، فون خاتون نے کیا تھا ۔ اسے شہر تک سواری چاہیے ۔ وہ گھر چھوڑ کر جا رہی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم ،کون قصور وار ہے ؟ لیکن وہ جانا چاہتی ہے ۔ " یہ کہتے ہوۓ وہ میری بیوی کی طرف مڑا اور کہا ، “ تم واقعی جانا چاہتی ہو ۔؟ “
میری بیوی نے سر ہلایا کہ وہ واقعی جانا چاہتی ہے ۔
“ ٹھیک ہے ، یہ فیصلہ تو ہو گیا ،فرینک ،تم سن رہے ہو ؟ میں اسے شہر نہیں لے جا سکتا ۔مجھے رستے میں ایک جگہ اور رکنا ہے ۔تو کیا تم اسے اپنے ساتھ لے جا کر شہر چھوڑ سکتے ہو ۔وہ شاید بس سٹیشن یا کسی ہوٹل جانا چاہے ۔عموما” ایسا ہی ہوتا ہے ۔کیا ایسا ہی ہے ؟ اب ناظم نے میری بیوی سے پوچھا ،” فرینک کو معلوم ہونا چاہیے ۔ “
“ وہ مجھے بس سٹیشن اتار دے ۔ “ میری بیوی نے جواب دیا ۔” راہداری میں میرا سوٹ کیس پڑا ہے ۔ “
“ تمہارا کیا خیال ہے ، فرینک “ ۔
فرینک نے اپنی ٹوپی اتار کر دوبارہ پہنتے ہوے کہا ۔ “ میں کر دوں گا ۔ مجھے خوشی ہو گی ۔لیکن میں کسی معاملے میں مداخلت نہیں کروں گا ۔”
“ نہیں ، بالکل بھی نہیں ،میں کسی کے لئے کوئی پریشانی کا باعث نہیں بننا چاہتی ۔ میں اس وقت کچھ رنجیدہ ہوں ۔لیکن یہاں سے جانے کے بعد میں ٹھیک ہو جاؤں گی، اس خوفناک جگہ سے نکل کر ۔ میں دوبارہ دیکھ لوں کوئی چیز رہ تو نہیں گئی ،کوئی بھی اہم چیز “ ۔اس نے اضافہ کیا ،تھوڑا سا ہچکچائی اور بولی ،” یہ اتنا اچانک نہیں ہوا جیسا دکھائی دے رہا ہے ۔ یہ کافی عرصے سے زیر غور تھا ۔
“ہماری شادی کو کافی عرصہ گزر چکا ہے ۔اچھا اور برا وقت ، اونچ نیچ سب اکٹھے گزارا ۔لیکن اب میں اپنے آپ ہی تھی ،تم لوگ میری بات سمجھ رہے ہو نا ؟ ۔”
فرینک نے دوبارہ ٹوپی اتاری اسے گھمایا جیسے کہ اس کے کنارے کا مشاہدہ کر رہا ہو ۔پھر اس نے ٹوپی دوبارہ پہن لی ۔
نائب ناظم بولا ،ایسا ہو جاتا ہے ،خدا جانتا ہے ہم میں سے کوئی مکمل نہیں ہے ۔ہمیں مکمل بنایا ہی نہیں گیا ۔جنت میں صرف فرشتے ہی ہوں گے ۔”
میری بیوی گیلی بے ترتیب الجھی ہوئی گھاس میں رستہ بناتی اپنی اونچی ایڑی والے جوتوں کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑی ۔اس نے داخلی دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئی ۔روشن کھڑکیوں سے میں اسے اندر گھومتے پھرتے دیکھ رہا تھا اور میرے اندر ایک احساس سا جاگا ۔کہ ہوسکتا ہے میں اسے دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکوں ۔یہ خیال میرے دماغ میں لہرایا اور میں لڑکھڑا گیا ۔
کسان ، نائب ناظم اور اور میں خاموش کھڑے انتظار کرتے رہے ۔ نم آلود دھند اور ان کی گاڑیوں کی روشنیاں ہمارے درمیان سے گزر رہی تھی ۔میں ٹرالر میں گھوڑوں کی حرکت سن رہا تھا ۔میرا خیال ہے ہم سب تکلیف دہ بے آرامی میں تھے ، لیکن میں بالخصوص اپنی بات کر رہا تھا ،مجھے نہیں معلوم وہ کیا محسوس کر رہے تھے ۔ہو سکتا ہے وہ ہر رات ایسے واقعات دیکھتے ہوں ۔ لوگوں کی زندگیاں بکھرتے ہوۓ ۔ناظم تو دیکھتا ہی ہو گا مگر فرینک ، کسان ، اس نے اپنی نگاہیں نیچے ہی کئے رکھیں ۔اس نے اپنے ہاتھ سامنے والے جیبوں میں ڈال لئے تھے اور پھر باہر نکال لئے ۔گھاس میں کسی چیز کو اس نے ٹھوکر ماری ۔میں ہاتھ باندھے وہیں کھڑا رہا بغیر یہ جانے کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔نائب ناظم بدستور فلیش لائیٹ کو کبھی جلاتا اور کبھی بجھاتا رہا ۔ٹرالر سے ایک گھوڑے کے ہنھنانے کی آواز آئی ،اور پھر دوسرے کی ۔
"دھند میں کچھ دکھائی نہیں دیتا ،" فرینک بولا ۔
مجھے معلوم تھا وہ محض گفتگو کرنے کے لئے یہ کہہ رہا تھا ۔ نائب بولا یہ بہت ہی بری ہے ۔ تب اس نے مجھے دیکھا لیکن اس دفعہ اس نے فلیش لائیٹ کا رخ میری آنکھوں کی طرف نہیں کیا ۔ لیکن اس نے کچھ کہا ۔ اس نے پوچھا ،” وہ تمہیں کیوں چھوڑ رہی ہے ؟ کیا تم نے اسے مارا ہے یا کوئی اور بات ہے ۔
کیا تھپڑ وغیرہ ؟ “
" میں نے اسے کبھی نہیں مارا ،ساری شادی شدہ زندگی میں ایک دفعہ بھی نہیں ۔بعض اوقات وجہ ہونے کے باوجود بھی نہیں ،بلکہ اس نے مجھے ایک دفعہ مارا ۔" میں نے کہا ۔
" بس اب شروع نہ ہو جانا ،میں آج رات کوئی بکواس /crap سننا نہیں چاہتا ۔ کچھ مت کہو تو کچھ بھی نہیں ہو گا ۔آج کوئی مار دھاڑ نہیں ۔ایسا سوچنا بھی نہیں ۔یہاں آج رات کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہیے ۔" نائب ناظم نے کہا ۔
نائب ناظم اور فرینک میرے حوالے سے چوکس تھے ۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ فرینک کچھ شرمسار سا تھا ۔اس نے جیب سے سگریٹ نکالی اور اسے گھمانے لگا ۔
"نہیں ،کوئی مسلمہ نہیں ۔" میں نے کہا ۔
میری بیوی ڈیوڑھی میں آئی اپنا سوٹ کیس اٹھایا ۔میں نے دیکھ لیا کہ اس نے نہ صرف آخری نگاہ دوڑائی تھی بلکہ اس نے اس سے موقعے پر تازہ ہونے کے لئے نیا سرخی پاؤڈر وغیرہ بھی استعمال کیا ۔ نائب ناظم نے جب وہ سیڑھیاں اترنے لگی تو فلیش لائیٹ سے اس کا راستہ روشن کیا اور کہا ،" محترمہ ،اس طرف سے ،احتیاط سے قدم اٹھائیں ۔ادھر پھسلن ہے ۔"
" میں روانگی کے لئے تیار ہوں ۔" وہ بولی ۔
" ٹھیک ہے ،" فرینک بولا ،" لیکن معاملات صاف رکھنے کے لئے ،" اس نے ایک بار پھر ٹوپی اتاری اور ہاتھ میں پکڑ لی ، " میں آپ کو شہر لے کر جاؤں گا اور بس سٹیشن پر آپ کو اتار دوں گا ۔آپ کو یہ سمجھ لینا چاہیے میں کسی مصیبت میں پھنسنا نہیں چاہتا ۔آپ سمجھ رہے ہیں جو میں کہنا چاہتا ہوں ۔" اس نے پہلے میری بیوی اور پھر میری طرف دیکھا ۔
" بالکل درست ،" نائب ناظم نے کہا ۔تم نے سب درست کہا ہے ۔حساب کتاب کے مطابق گھریلو جھگڑے کبھی کبھی بہت خطرناک صورتحال میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔اور خصوصا” قانونی افسران بہت بری طرح پھنس جاتے ہیں ۔لیکن میرا خیال ہے یہ معاملہ بڑی شاندار استثناء ثابت ہو گا ،ٹھیک کہا ،صاحبو ۔”
میری بیوی نے مجھے دیکھا اور کہا “،میرا نہیں خیال کہ میں تمہیں بوسہ دے کر خدا حافظ کہوں گی۔میں بس اتنا ہی کہوں گی ،اپنا خیال رکھنا ۔” ۔
“ یہ بھی صحیح کہا ،بوسہ دینا ،کون جانے یہ کدھر لے جاۓ “ یہ کہہ کر نائب ناظم ہنسنے لگا ۔
مجھے محسوس ہوا کہ وہ سب میرے کچھ کہنے کے منتظر تھے ۔لیکن زندگی میں پہلی مرتبہ مجھ سے الفاظ گم ہو گئے ۔ میں نے ہمت کر کے اپنی بیوی سے کہا ،” آخری مرتبہ تم نے ٹوپی کے ساتھ نقاب بھی پہنا تھا اور میں نے تمہارا بازو پکڑا ہوا تھا ۔تم اس وقت اپنی ماں کا ماتم کر رہی تھی ۔اور تم نے سیاہ لباس پہنا ہوا تھا ۔یہ لباس نہیں جو تم نے آبھی پہن رکھا ہے لیکن یہ اونچی ایڑی والے جوتے وہی ہیں ،مجھے یاد ہے ۔ مجھے اس طرح چھوڑ کر مت جاؤ ،” میں نے کہا ،” میں نہیں جانتا ،میں کیا کروں گا ۔”
“ مجھے جانا ہے ،سب کچھ خط میں لکھا ہے ، باقی جو کچھ ہے،مخفی راز یا قیاس ،اس کا مجھے خود بھی علم نہیں ۔ تاہم میرا گمان ہے کہ باقی سب کچھ تم خط میں پڑھ چکے ہو ۔” اس کے بعد وہ فرینک کی طرف مڑی اور کہا ،” فرینک ، اب ہمیں چلنا چاہیے ۔کیا میں تمہیں فرینک بلا سکتی ہوں ۔”
اسے جیسے چاہیں بلائیں” ،نائب ناظم نے کہا “ بشرطیکہ وہ وقت رات کے کھانے کا وقت ہو “ ۔ وہ پھر ہنسا ۔ دل کھول کر خوب ہنسا ۔
فرینک نے کہا، “ بالکل آپ بلا سکتی ہیں ،تو پھر چلیں ؟ “ اس نے میری بیوی سے سوٹ کیس لے لیا اور اپنی پک آپ کی طرف گیا اور سوٹ کیس گاڑی میں رکھا ۔ اورمسافر والی نشست کی جانب دروازہ کھول کر کھڑا ہو گیا ۔
“ میں مطمئن اور پرسکون ہونے کے بعد تمہیں لکھوں گی۔” میری بیوی نے مجھے کہا ۔ “ میرا خیال ہے ،میں ضرور لکھوں گی ۔لیکن پہلا کام پہلے ۔ ہم دیکھ لیں گے ۔”
“ اب آپ مناسب بات کر رہی ہیں” ۔نائب ناظم نے کہا ، “ بات چیت کے سارے دروازے کھلے رکھنے چاہیں ۔”
گڈ لک ،( نصیب اچھا ہو ) نائب ناظم نے مجھے کہا ۔ اور اپنی گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا ۔
پک آپ نے بمع ٹرالر پورے لان میں کھلا چوڑا موڑ کاٹا ۔ایک گھوڑا ہنہنایا ۔اپنی بیوی کی آخری جھلک میں نے اس وقت دیکھی جب پک آپ کے کیبن میں ایک ماچس کی تیلی جلی ۔اور میں نے اسے سگریٹ کے ساتھ اس شعلے پر جھکتے دیکھا جو کسان اسے پیش کر رہا تھا ۔اس کے ہاتھوں نے شعلے والے ہاتھ کے گرد پیالہ بنایا ہوا تھا ۔ نائب ناظم نے پک آپ کو ٹرالر سمیت نکل جانے دیا ،تب اس نے اپنی گاڑی موڑی ۔گیلی گھاس پر گاڑی پھسلی ،ٹائروں کے نیچے بجری ادھر ادھر اڑی ،اور آخر پیش رستے پر چڑھ گئی ۔ سڑک کی طرف جاتے ہوے اس نے ہارن سے بگلل کی طرح بجایا ۔مؤرخ اسکے لئے بہت سے دوسرے الفاظ ،بیپ اور دھماکے جیسے استعمال کر سکتا ہے خاص طور پر ان سنجیدہ لمحات کے بعد جیسے خونریزی یا کوئی خوفناک وقوعہ جس نے پوری قوم کے مستقبل پر کفن لپیٹ دیا ہو۔ کے بعد ۔
میں یہ بتانا پسند کروں گا کہ یہ وہ لمحہ تھا ،جب میں دھند میں کھڑا اسے جاتے دیکھ رہا تھا کہ مجھے اپنی بیوی کا سیاہ اور سفید وہ فوٹو ( عکسی تصویر ) یاد آ گئی ۔ جس میں وہ شادی والا گلدستہ پکڑے کھڑی تھی ۔اس وقت اس کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔—-ایک جوان لڑکی ۔اس کی ماں شادی سے ایک مہینہ قبل میرے اوپر خوب چلائی تھی ۔ اس ٹصویر سے کچھ لمحے قبل ہی اس کی شادی ہوئی تھی ۔وہ اس میں مسکرا رہی تھی ،اس نے یا تو ہنسنا ابھی ابھی بند کیا تھا یا شروع کیا تھا ۔جو بھی تھا ،اس کا منہ عجیب قسم کے احساس خوشی سے کیمرے کے سامنے کھڑے ہوتے وقت کھلا ہوا ہے ۔وہ تین ماہ کی حاملہ تھی ۔ اگرچہ کیمرے میں ایسا دکھائی نہیں دے رہا ، لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے اگر وہ حاملہ تھی ، تو بھی ۔ان دنوں حاملہ ہونا عام سی بات ہوتی جا رہی تھی ۔وہ بہرحال خوش تھی اور میں بھی ، ——- میں جانتا ہوں ،ہم دونوں خوش تھے ۔
میں اس مخصوص فوٹو میں موجود نہیں ہوں ——لیکن میں قریب ہی کچھ قدموں کی دوری پر تھا ۔جیسا کہ مجھے یاد ہے ،کسی نیک خواہشات کا اظہار کرنے والے کے ساتھ ہاتھ ملا رہا تھا ۔میری بیوی لاطینی، جرمن ، کیمسٹری ، فزکس ، ہسٹری اور شیکسپئیر اور ہر وہ چیز جو کسی پرائیویٹ / نجی سکول میں پڑاھائی جاتی ہے ،جانتی تھی ۔ اسے دستور، تہزیب کے مطابق پیالہ پکڑنا آتا تھا ۔اسے کھانا پکانا اور محبت کرنا آتا تھا ۔وہ ایک انعام تھی ۔
لیکن مجھے یہ تصویر بہت ساری دوسری تصویروں کے ساتھ گھوڑوں والے واقعے کے کچھ دنوں بعد جب میں اپنی بیوی کی اشیاء کی تلاشی لے رہا تھا تو ملی ۔میں تلاشی اس مقصد سے لے رہا تھا تا کہ مجھے معلوم ہو جاۓ کہ مجھے کیا پھینکنا ہے اور کیا رکھنا ہے ۔ میں یہاں سے جانا چاہتا تھا ۔میں نےاس تصویر کو ایک منٹ کے لئیے دیکھا اور پھر میں نے اسے پھینک دیا ۔میں اس وقت بے رحم ہو گیا تھا ۔میں نے اپنے آپ کو بتایا ،کہ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ۔ میں کیوں پرواہ کروں ؟ اگر میں کچھ جانتا ہوں —اور میں کرتا ہوں—- اگر میں انسانی فطرت کے بارے میں معمولی سی بات بھی جانتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا کہ وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتی ۔وہ واپس میرے پاس آئے گی ۔اور جلدی ۔
نہیں ، لیکن مجھے کسی چیز کے بارے میں کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی کوشش کی ۔وہ ہمیشہ کے لئے جا چکی ہے ، میں محسوس کر سکتا ہوں ۔
کبھی واپس نہ آنے کے لئیے چلی گئی ہے ۔اب ہم کبھی نہیں ملیں گے ۔ماسواۓ اس کے کہ کسی گلی بازار میں اچانک آمنا سامنا ہو جاۓ ۔
لیکن لکھائی کا معمہ جوں کا توں ہے ۔وجہ اضطراب یہی ہے ۔بے شک اب لکھائی کا معاملہ اہم نہیں رہا ۔خط کے نتائج کے بعد یہ ہو بھی کیسے سکتا ہے ؟ بذات خود خط نہیں بلکہ خط کے مندرجات جنہیں میں بھلا نہیں سکتا ۔نہیں ، سب سے اہم خط نہیں ، اس میں کچھ کسی کی لکھائی سے “بہت زیادہ “ہے ۔ “ بہت زیادہ “ کا تعلق لطیف چیزوں سے ہے ۔ مثال کے طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ بیوی رکھنا تاریخ/ ہسٹری رکھنے کے برابر ہے ۔اگر ایسا ہی ہے تو میں سمجھ سکتا ہوں کہ میں تاریخ سے باہر آ گیا ہوں بالکل گھوڑوں اور دھند کی طرح ۔یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میری تاریخ نے مجھے چھوڑ دیا ہے یا پھر اب مجھے بغیر تاریخ کے آگے بڑھنا ہو گا ۔یا تاریخ کو میرے بغیر .تاوقتیکہ میری بیوی مذید خط لکھے ، یا کسی دوست کو بتاۓ جو باقاعدہ ڈائری لکھتا ہو ،اور وہ کچھ کہے ۔ تب، سالوں بعد ، کوئی اس وقت پر نگاہ دوڑاۓ اور ریکارڈ کے مطابق اس کے جھگڑوں ، پچھتاؤں ،اس کی خاموشیوں اور اس کی رمزوں / اشارے کناروں کی تشریح کرے ۔ اور یہ سب مجھ پر اس وقت کھلا کہ سوانح عمری ایک غریب آدمی کی تاریخ ہوتی ہے اور یہ کہ میں تاریخ کو خدا حافظ / الوداع کہہ رہا ہوں ۔ خدا حافظ میری پیاری ۔
Original Title: Blackbird Pie
Written by:
Raymond Clevie Carver Jr. (May 25, 1938 – August 2, 1988) was an American short story writer and poet. He contributed to the revitalization of the American short story during the 1980s.

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق