افسانہ نمبر 537 : چہرہ در چہرہ، افسانہ نگار : محمد حسن الکواری (قطر)، مترجم : محمد فیصل (کراچی)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 537 : چہرہ در چہرہ
افسانہ نگار : محمد حسن الکواری (قطر)
مترجم : محمد فیصل (کراچی)





وہ اس کے سامنے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ رانوںپر دھرے تھے۔ کرسی کے اوپری حصے نے اس کے آدھے جسم کو گھیرا ہوا تھا۔ وہ بے پردہ تھی۔ اس کے بال چھوٹے اور لباس عمدہ تھا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کرسی کو ایسی تیز نظروں سے گھور رہی تھی جیسے وہاں کوئی براجمان ہو۔ اس کے چہرے پر تکان تھی مگر اس کے چہرے کو دیکھ کر ہلکا سا گمان گزرتا تھا کہ اس ایک چہرے کے پیچھے بہت سے چہرے مستور ہیں۔
اس نے گہرا کش لیا اور دھواں اس کے چہرے پر چھوڑ دیا۔چہرہ مرغولوں سے گھِر جانے کے باوجود وہ آرام سے بیٹھی رہی۔ اس نے دھواں ہٹانے کی کوشش بھی نہ کی۔ دھواں آہستہ آہستہ روشن دان اور کھڑکی سے باہر نکل گیا۔ وہ اس کے سامنے آکر بیٹھا اور پوچھا ۔
’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘۔
’’میں نے اسے قتل نہیں کیا‘‘۔
’’سارے سراغ تمھاری طرف اشارہ کررہے ہیں۔ اس نے تمھیں دوسروں کے سامنے ذلیل کیا ہے اور کئی بار پیٹا بھی ہے۔ اس نے ایک درہم بھی تمھیں نہیں دیابلکہ اس نے تمھارے زیور اور رقم بھی ہتھیا لی۔ وہ تمھیں کبھی ہسپتال نہیں لے کر گیا۔ نہ اس نے تمھیں تمھارےخاندان سے ملنے کی اجازت دی اور سب سے بڑھ کر وہ بے روزگار تھا ‘‘۔
’’ہاں! اس نے یہ سب کچھ کیا مگر میں نے اسے نہیں مارا‘‘۔
’’کیا اسے مرجانا چاہیے تھا؟ کیا تم چاہتی تھیں کہ وہ مر جائے؟‘‘۔
’’ہاں اسے مرجانا چاہیے تھا مگر میں نے کچھ نہیں کیا‘‘۔
وہ کھڑا ہوگیااور اس کی طرف بڑھا۔ چند قدم چل کر وہ اس کے کرسی کے جا کھڑا ہوا۔ وہ سامنے والی دیوار پر نصب تصویر کو یوں گھوررہا تھا جیسے تصویر میں موجود شخص سے آنکھیں ملا رہا ہو۔ اس نے سگریٹ کا کش بھرا اور تصویر کی طرف دھواں اڑا کر بولا
’’اگر میں تمھاری جگہ ہوتا تو اسے کب کا مار چکا ہوتا۔ تم نے اتنا عرصہ صبر سے کیسے بسر کیا؟ تم اسے کیسے برداشت کرسکتی ہو؟‘‘۔
’’میں کیا کر سکتی تھی؟ میں ایک کم زور عورت ہوں، میں کیسے ایک مرد کو کچھ کہہ سکتی ہوں؟‘‘۔
’’پھر اس کی موت سے کس کو فائدہ ہوسکتا ہے؟‘‘۔
’’میں کیا جانوں۔ اس کے بہت سے دشمن تھے‘‘۔
’’حال ہی میں اس کا آنا جانا کن جگہوں پر تھا؟‘‘۔
’’میں نہیں جانتی۔ آخری دنوںمیںاس سے کم ہی ملاقات ہو پاتی تھی۔ وہ دو تین راتیں باہر گزارتا تھا‘‘۔
سراغ رساں اس کے قریب آیا اور بغور اس کے چہرے کا جائزہ لیا
’’یہ تمھارے چہرے پر خراشیں کیسے پڑیں‘‘۔
’’اس نے مارا تھا‘‘۔
’’اسے مرے دو مہینے ہو چکے ہیں‘‘۔
’’عورت کا جسم مرد کے جسم سے مختلف ہوتا ہے۔ عورت کے زخم جلدی نہیں بھرتے‘‘۔
اس نے یوں ظاہر کیا جیسے اس نے آخری جملہ سنا ہی نہیں۔پھر اس نے اچانک نیا پینترا آزمایا
’’کیا ایک عورت ایسے مرد کو معاف کر سکتی ہے جو اس پر ظلم ڈھاتا ہو؟‘‘۔
’’معاف تو شاید کردے، مگر بھول نہیں سکتی‘‘۔
’’تم کیا کرو گی؟ تمھارے خاوند نے تمھارے ساتھ جو کیا ہے ،کیا اس کے بعد بھی تم اسےمعاف کر سکتی ہو؟‘‘۔
’’میں نے اسے معاف کیا ہے نہ بھول سکتی ہوں۔ مگر میں نے قتل نہیں کیا‘‘۔
عورت نے اپنی ناک کو دوبار رگڑا اور پھر ذرا ہچکچاتے ہوئے سوال کیا
’’کیا تم اپنی بیوی کو زدوکوب کرتے ہو؟‘‘۔
سراغ رساں نے ایک میز پر دھرے تھرماس سے سیاہ چائے انڈیلی اور پورے اطمینان سے گھونٹ بھرکر سپاٹ چہرہ لیے بولا۔
’’ان دنوں کون نہیں مارتا؟‘‘۔
’’اسے مارنے کے بعد تم اس کے پاس بیٹھتے ہو؟‘‘۔
’’نہیں! اس کے خراشوں بھرے چہرے کی طرف دیکھنا میرے لیے ممکن نہیں ہوتا‘‘۔
عورت نے سر ہلایا۔
’’کتنی عجیب بات ہے؟ باوجود اس کے کہ وہ خراشیں تمھاری وجہ سے پڑی ہیں۔ خیر تم اسے مارنے کے بعد پیار کرتے ہو‘‘۔
’’اگر ضرورت محسوس ہو تو‘‘۔
’’ضرورت یا طلب‘‘۔
’’طلب ہی ضرورت ہے‘‘۔
اس نے ڈبی سے ایک سگریٹ آدھا باہرنکالااور عورت کی طرف بڑھایا مگر اس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔اس نے سگریٹ سلگائے بغیر منہ میں ڈالااور پوچھا
’’کیا تم نے ایسی عورتوں کے بارے میں پڑھا ہے جو قتل، ڈاکےاور چوریاں کرتی ہیں ۔ بعض تو جرائم پیشہ گروہ کی سربراہی بھی کرتی ہیں‘‘۔
’’نہیںبلکہ میں تو ایک ایسی عورت کو جانتی ہوں جس نے اس مرد کو قتل کردیا جس سے وہ بے حد محبت کرتی تھی‘‘۔
’’تو تم کس طرح کی عورت ہو؟‘‘۔
’’کسی بھی طرح کی نہیں۔ میں قاتل نہیں ہوں‘‘۔
اس نے دونوں ہاتھ پیچھے باندھے اور اس کی کرسی کے گرد چکر لگایا۔
’’تم نے نوکری کیوں چھوڑی‘‘۔
’’اس نے مجھے چھوڑنے پر مجبور کیا‘‘۔
’’کیوں؟‘‘۔
’’تاکہ میں صرف اس کی ہو کر رہوں۔ اسی کی خدمت کروں‘‘۔
’’کیا تمھارا خاوند بہت مذہبی تھا‘‘۔
’’بالکل بھی نہیں ۔ وہ شراب اور نشے کا عادی تھا‘‘۔
’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘۔
سراغ رساں نے ایک ہاتھ سے چائے کا کپ اٹھا کر گھونٹ بھرا اور دوسرے ہاتھ سے کچھ کاغذات پلٹے اور پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر مایوسی بھرے لہجے میں بولا۔
’’اگرچہ سارے سراغ تمھیں ہی قاتل قرار دیتے ہیں مگر مجھے تمھیں چھوڑنا پڑے گا۔ میرے پاس تمھارے خلاف کوئی پختہ ثبوت نہیں ہے‘‘۔
وہ کھڑی ہوئی، اپنے کپڑے درست کیے اور پوچھا۔
’’تم مجھے دوبارہ بلائو گے؟‘‘۔
وہ ساکت ہوگیا اور کچھ نہ بول سکا۔وہ باہر جانے لگی ہی تھی کہ اس نے اسے مخاطب کیا۔
’’کیا تم دوبارہ شادی کرو گی؟‘‘۔
’’کیا مرد عورت کے بنا رہ سکتے ہیں؟‘‘۔
’’میرے خیال میں نہیں‘‘۔
’’تو میں بھی شادی کروں گی‘‘۔
وہ طنزیہ انداز میں مسکرایا۔
’’بہت سے مرد۔ ایک تو یہاں کا محافظ عبدالتواب ہی خواہاں ہے‘‘۔
سرا غ رساں نے بُرا سا منہ بنایا اور گھنٹی کے بٹن سے دیر تک ہاتھ نہیں ہٹایا۔اس نے بے یقینی سے پوچھا
’’عبدالتواب؟ تم نے اسے کیسے پھانس لیا؟‘‘۔
وہ متانت سے گویا ہوئی۔
’’میں ایک بیوہ ہوں۔ شروع شروع میں اسے مجھ سے ہم دردی تھی، اب میں اس کے لیے دل میں اچھے جذبات رکھتی ہوں‘‘۔
’’تم نے اپنے خاوند کو کیوں قتل کیا ہے؟‘‘۔
عبدالتواب اندر آکر مودب انداز میں کھڑا ہوگیا۔سراغ رساں درشت لہجے میں عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
’’کیا تم اس عورت سے شادی کرنے لگے ہو؟‘‘۔
’’اگر آپ اجازت دیں تو ضرور کروں گا‘‘۔
’’کیا تمھیں علم ہے کہ اس کا خاوند قتل ہوا ہے؟‘‘۔
’’جی جناب! سب سے پہلے مجھے ہی پتا چلا تھا‘‘۔
’’اور اس عورت پر اس کے قتل کا الزام ہے‘‘۔
’’جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے، ملزم بے گناہ ہوتا ہے‘‘۔
’’آپ ہی تو ہمیشہ کہتے ہیں کہ مردوں کو عورتوں سے ڈرنا نہیں چاہیے‘‘۔
سراغ رساں کی آواز میں مایوسی در آئی۔
’’تو کب ہو رہی ہے تمھاری شادی‘‘۔
’’اس کی عدت کے خاتمے کے بعد۔ دو مہینے اور دس دب بعد‘‘۔
سراغ رساں نے اسے جانےکی اجازت دے دی۔ وہ مڑی اور کمرے سے باہر نکل گئی۔ سراغ رساں بھی سب کچھ بھول بھال گیا۔ ٹھیک تین مہینے بعد وہ پھر اسی کرسی پر اسی سراغ رساں کے سامنے، اپنے چھوٹے بال، عمدہ لباس اور بے نقاب چہرے سمیت براجمان تھی۔ سراغ رساں نے سگریٹ کا کش لے کر دھواں ایک طرف چھوڑا اور سپید کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔
’’تمھارے خاوند عبد التواب کو کس نے قتل کیا ہے؟‘‘۔
’’مجھے نہیں پتا‘‘۔
’’وہ تمھارے گھر مردہ پایا گیا ہے‘‘۔اس نے آواز میں غصہ دبانے کی کوشش کی۔
وہ بھی مضبوط آواز میں گویا ہوئی۔
’’میں نے اسے نہیں مارا‘‘۔
’’وہ تم سے کس طرح پیش آتا تھا؟‘‘۔
’’وہ ایک جیلر تھا‘‘۔
’’اور تم اس سے کیسےپیش آتی تھیں؟‘‘۔
’’اس کی خواہشات پوری کرنے کے لیے میں سخت محنت کر تی تھی‘‘۔
سراغ رساں نے خجالت بھرے انداز میں سر کھجایا، غصہ دبایا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا
’’کتنی عجیب بات ہے کہ مجھے ایک بھی ثبوت ایسا نہیں ملا جو تمھیں اس قتل سے جوڑ دے۔ تم بےگناہ ہواور جا سکتی ہو‘‘۔
وہ کھڑی ہوئی۔ کپڑے درست کیے اور باہر جانے لگی۔ دروازے کے قریب سراغ رساں نے اسے روکا۔ وہ اس کی طرف مڑی۔ سراغ رساں سکون سے اس کے قریب جا کھڑا ہوا اور رسان سے بولا
’’سچ کہوں تو مجھے اس کیس میں تم بے قصور لگ رہی ہو۔ مجھے تم سے ہم دردی ہے۔ جلد ہی کہیں ملتے ہیں‘‘۔
اس کے پژمردہ چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ ابھری۔ ایسا چہرہ جس میں بہت سے چہرے چھپے تھے۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
مصنف کا تعارف:
محمد حسن الکواری
(Mohammed Hasan Al-Kuwari)
_____________
معروف قطری ادیب جدید افسانے کے اہم لکھاریوں میں شامل ہیں۔ آج کل وہ وزارت ثقافت، فنون اور تاریخی ورثے میں بطور محقق منسلک ہیں۔ بطور محقق ان کا اہم ترین کام قطری ادیبوں کی ایک ڈائریکٹری کی ترتیب ہے۔ یہ کتاب 2012 میں شائع ہوئی اور اس میں 226 لکھاریوں کی تفصیل شامل کی گئی ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق