جوبانی ویرگا کا افسانہ : بھیڑنی (The She-Wolf)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 492: بھیڑنی
تحریر : جوبانی ویرگا (اٹلی)
مترجم : احمد مشتاق (امریکہ)
وہ لمبی تھی اور پتلی۔ جلد کا رنگ زیتونی تھا اور سینہ
پرشکوہ اور سخت۔
لیکن اب وہ ایسی جوان نہیں لگتی تھی۔ رنگ اُس کا پیلا
تھا۔ جیسے ہمیشہ سے ملیریا کے مرض میں مبتلا ہو۔ اور اس پیلاہٹ میں دو بڑی بڑی
آنکھیں اور کھا جانے والے تازہ سرخ ہونٹ۔ گاؤں میں سب اُسے بھیڑنی کہتے، کیونکہ کسی
بھی شے سے اُس کا جی نہیں بھرتا تھا۔
عورتیں جب اسے گزرتے دیکھتیں
تو فورا صلیب کا نشان بناتیں۔ لیکن وہ اُن کے پاس سے بڑی بے نازی سے وحشی کتیا کی
طرح اکیلی گزری چلی جاتی۔ وہ چلتے ہوئے کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح لگتی جو شکار کی
تلاش میں اِدھر اُدھر سونگھتا ہوا چلا جاتا ہے۔ گاؤں کی عورتیں اس سے پناہ مانگتی
تھیں۔ کیونکہ وہ اپنے سرخ ہونٹوں کی ایک جھلک سے ان کے شوہروں اور بیٹوں کا لہو
چاٹ سکتی تھی۔ وہ چاہے گرجا ہی میں کیوں نہ کھڑے ہوں، اس کی کالی شیطانی آنکھوں کے
ایک اشارے پر اُس کے پیچھے پیچھے چل کھڑے ہوتے۔ خوش قسمتی سے بھیڑنی کبھی گرجا
نہ گئی، نہ کبھی ایسٹر پر نہ کرسمس میں،
نہ پادری کا وعظ سنے، نہ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے۔ سینٹ مری کے گرجا کا ایک
پادری بھی تو اس کے پیچھے اپنی روح کا سکون لٹا بیٹھا تھا۔
لیکن اُس کی اِن باتوں کی وجہ سے سب سے زیادہ پریشان
اُس کی بیٹی مریشیا تھی۔ مریشیا بیچاری اکیلے میں چھپ کے روتی کیونکہ بھیڑنی اُس کی
ماں تھی اور وہ جانتی کہ اِس وجہ سے گاؤں کا کوئی لڑکا بھی اُس سے شادی کرنے کو تیار
نہیں ہوتا تھا۔ اگر چہ گاؤں کی اور لڑکیوں کی طرح اُس کے پاس اچھے اچھے کپڑے بھی
تھے اور زمین بھی کافی تھی۔
ایک دفعہ بھیڑنی ایک خوبصورت نوجوان کے عشق میں مبتلا
ہوگئی۔ یہ نوجوان فوج سے تازہ تازہ لوٹا تھا۔ اور اُنہی کھیتوں میں گندم کی کٹائی
کے کام پر لگا تھا۔ جن میں بھیڑنی بھی کام کرتی تھی۔ جب وہ اُسے دیکھتی تو اُسے
کپڑوں کے نیچے اپنا جسم جلتا ہوا محسوس ہوتا۔ اُسے ایسا لگتا جیسے میدانی علاقوں میں
جون کے مہینے کی کسی بے حد گرم دوپہر کو شدت سے پیاس لگتی ہے۔ لیکن وہ گندم کے
خوشوں پر اپنی ناک جھکائے بڑے اطمینان سے کٹائی کرتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ اُسے پوچھ
لیتا۔ پینا کیا بات ہے۔ پر وہ اُسے اسی طرح دیکھے چلی جاتی۔
دُور دُور تک پھیلے ہوئے سورج بڑے زوروں سے چمکتا، اور
اس کی گرم گرم شعائیں سروں پر ہتھوڑوں کا کام کرتیں۔ لیکن بھیڑنی کٹی ہوئی فصل کے
گٹھے پر گٹھا رکھتی چلی جاتی۔ نہ اُسے کبھی تھکان محسوس ہوتی نہ ہی وہ ایک لحظہ کے
لیے کمر سیدھی کرنے کھڑی ہوتی، اور وہ یہ سب محنت اِس لیے کرتی کہ اپنے محبوب ننی
کو دیکھتی رہے جو فصل کاٹتا چلا جاتا اور بیچ بیچ میں پوچھا لیتا؛
"
مینا تم کیا چاہتی ہو۔
"
پھر ایک شام جب دُور دُور پھیلے ہوئے گاؤں کے اندھیرے میں
کُتے بھونک رہے تھے اور دن بھر کے تھکے ہارے مزدور فرش پر پڑے اُنگھتے تھے۔ پینا
نے حرفِ مطلب کہہ دیا۔
"
میں ننی چاہتی
ہوں ننی۔ تم جو سورج کی طرح خوبصورت اور شہد کی طرح شیریں ہو۔ میں ننی چاہتی ہوں۔"
"
پر مجھے تو تمہاری وہ کنواری بیٹی پسند ہے۔" ننی ہنستے ہوئے بولا۔
اِس پر بھیڑنی نے اپنی کنپٹیاں کھجانی شروع کر دیں۔ پھر
انگلیاں بالوں میں ڈال لیں، منہ سے کچھ نہ کہا اور چلی گئی۔ اس کے بعد وہ کبھی کھیتوں
میں نہ آئی۔ لیکن اکتوبر کے مہینے میں اُس نے ننی کو پھر دیکھ لیا۔ اب کی وہ بھیڑنی
کے گھر کے پاس ہی ایک چکی میں زیتون کا تیل نکالنے پر مامور ہوا تھا۔ چکی کی آواز
نے بھیڑنی کو رات بھر جگائے رکھا۔ صبح کو بھیڑنی نے اپنی بیٹی مریشیا سے کہا کہ
" زیتون سے بھرا ہوا ایک ٹوکرا اٹھا اور میرے ساتھ ہولے" ننی چکی کے
اندر زیتون کے گٹھے ڈال رہا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ اوہی اوہی کی آواز بھی مُنہ سے
نکالتا جاتا تھا تاکہ خچر چلتے چلتے رُک کر کھڑا نہ ہو جائے۔
"
تمہیں میری بیٹی مریشیا پسند ہے نا! "
"
تم اُسے جہیز میں کیا دوگی؟
"
"
اس کے پاس اپنے باپ کی ساری چیزیں موجود ہیں، اُس کے
علاوہ میں اپنا ذاتی مکان بھی دے دوں گی۔ مجھے تو سر چھپانے کو ذرا سی جگہ چاہیے
سو میں باورچی خانے کے کسی کونے میں چٹائی ڈال کے پڑ رہوں گی۔ "
"
اگر یہ بات ہے تو ہم کرسمس پر طے کر لیں گے۔ "
ننی ہر وقت تیل میں بھیگا رہتا۔ تیل میں بھیگے ہوئے
گندے میلے جسم پر زیتون کے پتے چپکے رہے۔ مریشیا اُسے کیسے پسند کر سکتی تھی لیکن
اُس کی ماں نے اُسے بالوں سے پکڑ کر آتشدان کے پاس گھسیٹتے ہوئے کہا۔ " اگر
تو اس سے شادی نہیں کرے گی تو میں تجھے جان سے مار دوں گی۔"
بھیڑنی سخت بیمار
تھی اور لوگ کہتے تھے کہ شیطان جب بوڑھا ہو جاتا ہے تو راہبوں کی طرح گوشہ نشینی
اختیار کر لیتا ہے۔ اب نہ وہ اپنی جادو بھری آنکھوں کے ساتھ اِدھر اُدھر دیکھتی نہ
کبھی دروازے میں آکر کھڑی ہوتی۔ لیکن جب وہ اپنی آنکھیں اپنے داماد پر جما دیتی تو
وہ ہنسنا شروع کر دیتا اور فوراً صلیب کا نشان بناتا۔
مریشیا بچوں کی دیکھ بھال کے لیے گھر پر رہتی اور اُس کی
ماں مردوں کے ساتھ کام کرنے کھیتوں پر چلتی جاتی۔ اور مردوں ہی کی طرح فصل کی
نندائی کرتی۔ زمین صاف رکھتی اور جانوروں کو چارہ ڈالتی۔
وہ جنوری کی منجمد کر دینے والی ہواؤں اور اگست کی
چلچلاتی دھوپ میں جب کہ کوئی شریف عورت گھر سے قدم باہر نہیں نکالتی۔ گاؤں کے پھیلے
ہوئے رستوں پر اکیلی گھومتی رہتی۔ دم گھونٹ دینے والی گرمی میں وہ رستوں کے جلے
ہوئے پتھروں پر چلتی اور کھیتوں میں کئی ہوئی فصل کے گرم گرم ٹھنٹوں کے درمیان
گزرتی چلی جاتی۔
"
اُٹھو۔۔۔ بھیڑنی ننی سے مخاطب ہوئی۔ وہ گرد آلو باڑہ کے
ساتھ ساتھ کھڑے ہوئے گڑھے میں اپنے بازوؤں پر سر رکھے سو رہا تھا۔ جاگو میں تمہارا
گلا تر کرنے کے لیے تھوڑی
سی شراب لائی ہوں۔
"
ننی نے ایک دفعہ تو اپنی نیند بھری آنکھیں کھول دیں۔
پھر وہ کھلی آنکھوں سے اُسے اپنے سامنے کھڑے دیکھا۔ وہ
اپنی اُسی پیلاہٹ میں کوئلے جیسی کالی آنکھوں اور پُر شکوہ سینے سمیت اس کے سامنے
کھڑے تھی۔ " کوئی شریف عورت ایسے اوقات میں اپنے گھر سے نہیں نکلتی دفعہ ہو
جاؤ۔ اور پھر کبھی کھیتوں کا رخ نہ کرنا۔ "
ننی نے یہ کہتے ہوئے اپنا
سر گڑھے کی خشک گھاس پر ڈال دیا۔ اور بھیڑنی اپنی کالی آنکھوں کے ساتھ اُنہی جلتے
ہوئے ٹھنٹوں میں سے گزرتی واپس چلی گئی۔
لیکن وہ ایک دفعہ پھر کھیتوں میں آئی بلکہ کئی دفعہ اور
ننی نے کوئی شکایت نہ کی۔ اُس کے برعکس جب بھیڑنی کو ذرا سی دیر ہو جاتی تو وہ بالکل اُنہی اوقات میں جب کہ کوئی
شریف آدمی اپنے گھر سے قدم باہر نہیں نکالتا۔ پسینے سے شرابور پیشانی کے ساتھ سفید
اجاڑ راستوں پر اُس کا انتظار کرتا اور ہر بار اپنے بالوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر
کہتا۔
"
دفعہ ہوجاؤ پینا رفعہ ہو جاؤ اب کبھی کھیتوں کا رُخ نہ
کرنا۔ "
مریشیا بیچاری دن رات روتی۔ اور ایک دن جب اُس کی ماں
کھیتوں سے زرد اور خاموش واپس لوٹی تو پہلے تو وہ اُس کی طرف حسد سے اور آنسوؤں سے
بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ دیکھتی رہی پھر ایک دم پھٹ پڑی۔
"
تم بدمعاش ہو۔ ماں"
"
بکواس بند کرو
"
"
تم چور ہو"
"
بکواس بند کرو
"
"
میں تھانیدار سے شکایت کروں گی۔ ضرور کروں گی۔"
"
جاؤ کرو "
اور وہ واقعی چلی گئی۔ اپنے بچوں کو گود میں اُٹھائے۔
بغیر کسی خوف کے بغیر ایک آنسو بہائے، پاگل عورت کی طرح۔۔
اب وہ بھی اس گندے اور میلے آدمی سے محبت کرنے لگ گئی
تھی جو زبردستی اُس پر ٹھونس دیا گیا تھا۔
تھانیدار نے ننی کو بلایا۔ اور اُسے جیل میں بند کر دینے
بلکہ پھانسی دے دینے کی دھمکی بھی دی۔ ننی رونکھا ہو گیا اور اُس نے اپنے بال نوچ
لیے لیکن کسی بات سے بھی انکار نہ کیا اور
نہ ہی
اپنی صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔
"
یہ ترغیب یہ جہنم کی ترغیب ہے۔ " اُس نے کہا۔ اور
اپنے آپ کو تھانیدار کے قدموں پر گرا دیا۔
"
مجھے جیل بھیج دو، مجھے اِس جہنم سے نجات دلاؤ۔ خدا کے
لیے مجھے مار دور جیل میں بند کر دو۔ میں اُسے بالکل نہیں دیکھنا چاہتا، کسی قیمت
پر بھی نہیں۔" نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ " بھیڑنی تھانیدار سے مخاطب ہوئی۔
میں نے اُسے اپنا مکان جہیز میں دیا لیکن باورچی خانے میں
ذرا سی جگہ اپنے سر چھپانے کے لیے رکھ لی۔ یہ میرا گھر ہے میں اِسے ہرگز نہیں چھوڑ
سکتی۔ کچھ عرصے کے بعد ننی کو ایک خچر نے چھاتی میں دولتی مار دی اور وہ ایسا پڑا
کہ موت کے کنارے پر پہنچ گیا۔۔ پادری نے جب مقدس رسم کے سلسلے میں کہا گیا تو اُس
نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک بھیڑنی اس گھر میں موجود ہے میں ہرگز ہرگز اندر
داخل نہیں ہوسکتا۔۔ چنانچہ بھیڑنی گھر سے نکل گئی۔
تب کہیں اُس کا داماد اِس قابل ہو سکا کہ کسی اچھے عیسائی
کی طرح اس دنیا سے رخصت ہونے کی تیاری کر سکے۔ اُس نے اپنے سارے گناہوں کا اعتراف
کیا اور کچھ اِس طرح سے اپنے کیئے پر پچھتایا اور توبہ استغفار کی کہ اُس کے بستر
کے پاس کھڑے تمام احباب اور ہمسائے رونے لگ گئے۔
"
کاش ننی اُسی روز مرجاتا تاکہ شیطان اُسے پھر نہ بہکاتا
اور اُس کی جسم اور روح میں حلول نہ کر جاتا۔
"
"
مجھے تنہا چھوڑ دو۔ " اُس نے بھیڑنی سے کہا۔
" خدا کے لیے مجھے امن سے رہنے دو۔ میں موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں
اور بچاری مریشیا بھی اب انتہائی طور پر مایوس ہو چکی ہے۔ سارا گاؤں ہمارے اِس قصے
کو جانتا ہے اب اگر میں تم سے نہ ملوں تو یہ ہم دونوں کے لیے بہتر ہوگا۔۔"
اُس نے کوشش کی کہ اُس کی آنکھیں بھیڑنی کی آنکھوں سے
نہ ملیں، کیونکہ جب وہ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیتی تو اسے اپنے جسم و روح
چھنتے ہوئے دکھائی دیتے۔ وہ چاہتا تھا کہ کسی طرح اِس جادو سے بچ نکلے۔ اُس نے خیرات
دی، پادری کے پاس جاتا رہارہا۔ تھانیدار سے
پر مانگی، ایسٹر پر وہ پھر اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے گیا۔ اُس نے پتھروں
پر پیٹ کے بل چل کر گرجا کی سیڑھویں کو چار مرتبہ بوسہ دیا اور پھر۔۔ بھیڑنی اُسے
بہکانے آگئی۔
"
سنو " اُس نے آخری دفعہ کہا۔ اب کبھی کھیتوں کا
رُخ نہ کرنا۔ اگر تم آؤ گی تو خدا کی قسم میں تمہیں ہلاک کر دوں گا۔"
ننی نے دور فاصلے پر دیکھا، وہ گندم کے سبز کھیتوں میں
چلی آرہی تھی۔ وہ انگور کے باغ میں نندائی کرتا کرتا رُک گیا اور درخت کے ساتھ لکھی
ہوئی کلہاڑی لینے کے لیے بڑھا۔ پھر بھیڑنی نے اسے اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ اس کا
رنگ زرد ہور ہا تھا، آنکھیں پھیل گئی تھیں اور اُس کی کلہاڑی دھوپ میں چمک رہی تھی۔
لیکن وہ ایک قدم بھی نہ پیچھے نہ ہٹی، نہ ہی اُس نے اپنی آنکھیں نیچی کیں۔ وہ اُس
کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ اُس کے ہاتھوں میں سرخ پھول تھے اور کالی آنکھیں اُسے کھائے
جارہی تھیں۔
"
آہ تم پر خدا کی لعنت۔ " ننی رُک رُک کر بولا۔۔
(انگریزی سے
اردو ترجمہ)
Original Title : La
Lupa
English Title: The
She-Wolf
Written by:
Giovanni Verga
(2 September 1840 – 27 January 1922) was an
Italian realist (verista) writer, best known for his depictions of life in
his native Sicily, especially
the short story and later
play Cavalleria rusticana and
the novel I Malavoglia (The House by the Medlar Tree).
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment