گی دے موپاساں کا افسانہ : کون جانے؟ (Qui Sait ?)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 415 : کون
جانے ؟
تحریر : گی دےموپاساں
(فرانس)
مترجم : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی)
حصّہ اوّل
اوہ میرے خدا ! اوہ
میرے خدا ! بالآخر میں وہ واقعہ بیان کرنے لگا ہوں جو میرے ساتھ پیش آیا۔ لیکن میں
یہ کیسے بتاؤں ؟ میں یہ بیان کرنے کی کیسے ہمّت کر سکتا ہوں ؟ یہ واقعہ اتنا عجیب
و غریب، اتنا ناقابل فہم اور ناقابل یقین ہے، اتنا احمقانہ ہے !
جو کچھ میں نے اپنی
آنکھوں سے دیکھا اگر مجھے اس پر کامل یقین نہ ہوتا، اگر مجھے اپنی عقل و فہم میں
کسی فتور، اپنے بیان میں کسی غلطی، اپنے مشاہدے میں کسی ناقابل فہم نقص کی عدم
موجودگی پر اعتبار نہ ہوتا تو میں اس سارے معاملے کو صرف واہمے اور کسی بصری دھوکے
پر محمول کرتا۔ لیکن کون جانے ؟
کل میں ذہنی امراض کے
ایک ہسپتال میں تھا لیکن میں اپنے ہوش و حواس اور اپنے خوف کے مارے اپنی مرضی سے
وہاں گیا تھا۔ اس دنیا میں صرف ایک انسان میری ابتلا سے واقف ہے اور وہ اس ہسپتال
کا ڈاکٹر ہے۔ میں اسے خط لکھنے لگا ہوں۔ معلوم نہیں کیوں ؟ اپنے بوجھ سے نجات حاصل
کرنے ؟ ہاں شاید، مجھے یوں لگتا ہے کہ میں ایک ناقابل برداشت خوفناک خواب کے بوجھ
تلے کچلا جا رہا ہوں۔
میں بتاتا ہوں۔
میں ہمیشہ سے ہی
تصوراتی دنیا میں گم فلسفی قسم کا تنہائی پسند شخص ہوں۔ بہت زیادہ مال و متاع کے
بغیر بھی میں قناعت پسند ہوں۔ کبھی کسی سے بغض نہیں رکھتا، حتیٰ کہ قسمت سے بھی
کبھی شکوہ نہیں کیا۔ میں نجانے کب سے اکیلا رہتا رہا ہوں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
خود کو دوسروں کی موجودگی میں پا کر میں بہت زچ ہوتا ہوں۔ میں اس کی کیسے وضاحت
کروں ؟ مجھے معلوم نہیں۔ مجھے گھومنے پھرنے، لوگوں سے بات چیت کرنے، دوستوں کے
ساتھ ریستورانوں میں دعوتیں اڑانے پر کوئی اعتراض نہیں۔ لیکن میرے دوست چاہے کتنے
دیرینہ اور قریبی دوست ہی کیوں نہ ہو، اگر زیادہ دیر تک میرے گرد موجود رہیں، تو
مجھ پر بیزاری، ذہنی تھکاوٹ اور اضطراب طاری ہونے لگتا ہے۔ میرے اندر ایک بھاری،
تکلیف دہ خواہش ابھرنے لگتی ہے کہ یہ سب اٹھ کر یہاں سے چلے جائیں اور مجھے اکیلا
چھوڑ دیں۔
یہ محض کوئی وقتی خواہش
نہیں ہوتی، بلکہ ایک ناقابل برداشت ضرورت کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اگر میرے ارد
گرد بیٹھے لوگوں کی موجودگی طویل ہو جائے، اور اگر مجھے ان کی گفتگو نہ صرف سننے
بلکہ سمجھنے پر مجبور کر دیا جائے تو مجھے یقین ہے کوئی سنگین حادثہ رونما ہو سکتا
ہے۔ کیسا حادثہ ؟ آہ، کون جانے ؟ شاید تشنج یا فالج کا حملہ ؟ ممکن ہے۔
مجھے تنہائی اتنی پسند
ہے میں ایک ہی چھت میں سوئے ہوئے دوسرے لوگوں کا قربت بھی برداشت نہیں کر سکتا۔
میں پیرس میں نہیں رہ سکتا کیونکہ میں وہاں کے اژدھام میں شدید ترین کرب سے دوچار
رہتا ہوں۔ میں کسی بداخلاقی کا مرتکب نہیں ہوتا اس لئے اس ہجوم و انبوہ کے بیچ
جسمانی اور نفسیاتی تکلیف کا شکار رہتا ہوں جو رات کے وقت بھی جاگتا رہتا ہے۔ آہ !
دوسروں کی نیند ان کی گفتگو سے کہیں زیادہ کربناک ہوتی ہے۔ میں کبھی سکون کی نیند
نہیں سو سکتا جب میں جانتا ہوں کہ دیواروں کے اس پار متعدد ہستیاں فہم اور شعور کے
گرہن سے گزر رہے ہیں۔
میں ایسا کیوں ہوں ؟
کون جانے ؟ شاید اس کی کوئی معمولی وجہ ہو۔ میں ہر اس چیز سے بہت بیزار ہو جاتا
ہوں جو میرے اندر سے برآمد نہیں ہوتی۔ اور بھی بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔
اس دنیا میں دو الگ قسم
کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہ جنہیں دوسروں کی ضرورت ہوتی ہے، جو دوسروں سے لطف اندوز ہوتے
ہیں، جو دوسروں سے تعلق برقرار رکھتے ہیں، دوسروں سے راحت پاتے ہیں، تنہائی جنہیں
خوفزدہ کرتی ہے، تکلیف دیتی ہے، بدحواس کر دیتی، جیسے کسی دیوہیکل گلیشئیر کا
سرکنا یا کسی صحرا کا سفر کرنا۔۔۔ اس کے برعکس وہ ہوتے ہیں جنہیں دوسرے لوگ بیزار
کرتے ہیں، بے کیف کرتے ہیں، خاموشی سے عذاب دیتے ہیں، جنہیں تنہائی راحت دیتی ہے،
آزادی کا سکون دیتی ہے اور اپنے خیالات کی دنیا میں مدہوش کر دیتی ہے۔ یعنی یہ ایک
معمولی جسمانی امر ہے۔ کچھ لوگوں کی تشکیل خود سے باہر زندگی گزارنے کے لئے ہوتی
ہے اور کچھ لوگ اپنے اندر ہی زندگی گزارتے ہیں۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میرے بیرونی
روابط یک لخت اور تکلیف دہ حد تک مختصر ہوتے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنی حدود تک
پہنچتے ہیں مجھے اپنے پورے جسم اور اپنی پوری سمجھ بوجھ میں ایک ناقابل برداشت بے
چینی کا احساس ہونے لگتا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ
مجھ میں بے جان اشیاء سے انسیت ہونے لگی یا شاید یوں کہہ سکتے ہیں کہ بے جان اشیاء
سے وابستگی بڑھنے لگی جو میرے لئے اہمیت اختیار کرنے لگی ہیں اور یوں میرا گھر ایک
دنیا کی صورت اختیار کر گیا ہے جہاں میں ایک تنہا اور متحرک زندگی گزار رہا ہوں
اور میرے ارد گرد فرنیچر، سامانِ تزئین و آرائش اور نوادرات موجود ہیں جو میری
نگاہوں کو انسانی چہروں کی مانند دکھائی دیتی ہیں۔ میں رفتہ رفتہ اپنی رہائشگاہ کو
ایسی چیزوں سے بھرتا چلا گیا اور ایسی چیزوں کے درمیان میں دلی طور پر اتنا پرسکون
اور مسرور رہتا کہ کسی محبوبہ کی بانہوں میں بھی نہ ہوتا جس کے ہونٹوں کا لمس میرے
لئے ایک مسحور کن اور پرمسرت ضرورت بن چکی ہو۔
میں نے شہر کے نواح میں
ایک گھر تعمیر کروایا تھا جس کے گرد باغ میں لگے بلند درخت اسے بیرونی شاہراہ سے اوجھل
کئے رکھتے تھے۔ گھر شہر کے اتنا قریب تھا کہ وقتاً فوقتاً ضروریات زندگی کا حصول
ممکن تھا۔ میرے ملازمین گھر سے کچھ فاصلے پر باغ کے دوسرے کونے پر واقع ایک الگ
عمارت میں رہائش پذیر رہتے جو خود بھی ایک بلند دیوار کے حصار میں تھا۔ رات کی
تاریکی میں میرے گھر پر چھایا سناٹا اونچے درختوں کے درمیان نگاہوں سے اوجھل اتنا
پرسکون اور دل خوش کن تھا کہ رات کو سونے سے پہلے میں گھنٹوں یونہی ادھر ادھر
گھومتا رہتا تاکہ کچھ دیر مزید اس تنہائی سے لطف اندوز ہو سکوں۔
ایک دن شہر میں ایک
تھئیٹر میں "سنیاڈ" نامی کھیل پیش کیا جا رہا تھا۔ میں نے یہ پرفسوں
طلسماتی تمثیل پہلی مرتبہ دیکھی تھی اور حقیقت یہ تھی کہ اس کھیل سے میں بہت محظوظ
ہوا۔
کھیل کے اختتام پر میں
پرمسرت انداز میں تیز قدموں سے گھر کی جانب چل رہا تھا تو میں ذہن میں کھیل کے
مکالمے گھوم رہے تھے اور میری نگاہوں میں اداکاروں کے حسین چہرے ابھر رہے تھے۔ رات
اتنی تاریک تھی کہ مجھے بمشکل تمام راستہ دکھائی دے رہا تھا اور متعدد مرتبہ میں سڑک
کے کنارے موجود گڑھوں میں گرتے گرتے بچا۔ میرا گھر شہر سے تقریباً ایک میل یا اس
سے کچھ زیادہ فاصلے پر واقع تھا اور معمول کی رفتار سے چلتے تقریباً بیس منٹ کا
راستہ تھا۔ اس وقت ایک بجنے کو تھا یا شاید ڈیڑھ بج رہا ہو گا۔ آسمان صاف ہو رہا
تھا اور قمری مہینے کے آخری ہفتے کا بے نور ہلالی چاند دکھائی دے رہا تھا۔چاندی کی
کرنوں میں گھراپہلے ہفتے کا ہلالی چاند جو شام پانچ یا چھ بجے آسمان پر نمودار
ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ روشن، پرجوش دکھائی دیتا ہے۔ اس کے برعکس آدھی رات کو
ابھرنے والا چاند سرخی مائل، افسردہ اور حسرت و یاس سے مغلوب ہوتا ہے، یہ حقیقی
سبتی چاند ہوتا ہے۔ رات کی تاریکی میں گھات لگائے بیٹھے ہر شکاری کا یہی خیال ہے۔
دھاگے کی مانند پتلے اوّل الذکر چاند کی روشنی دھیمی اور پرمسرت ہوتی ہے جو دل میں
مسرت اور زمین پر واضح سائے پھیلا دیتی ہے۔ دوسری جانب آخرالذکر کی روشنی جیسے
عالم نزع میں ہوتی ہے اور اتنی کمزور ہوتی ہے کہ کسی چیز کا سایہ دکھائی نہیں
دیتا۔
دور فاصلے پر مجھے اپنے
باغ کے گھنے درخت دکھائی دئے اور نجانے کیوں مجھے اندر داخل ہونے کے خیال سے ہی
اضطراب پیدا ہونے لگا۔ میں نے اپنے قدم ہولے کر دئے۔ باغ کے گرد درختوں کے جھنڈ
یوں دکھائی دیتا تھا جیسے وہ مقبرہ ہو جس میں میرا گھر مدفون ہے۔
میں نے بیرونی گیٹ
کھولا اور گھر کی جانب بڑھتے مصری توت کے درختوں کی قطار کے درمیان چلتا گیا جو
ایک سرنگ کی مانند تاریکی میں نگاہوں سے اوجھل سائیوں کے درمیان لان میں لگے
پھولوں ساتھ چل رہی تھی۔
گھر کے قریب پہنچتے ہی
مجھ پر ایک عجیب سا احساس طاری ہونے لگا۔ چاروں جانب سناٹا چھایا تھا، میں رک گیا۔
درختوں کے درمیان ہوا مکمل طور پر ساکت تھی۔ میں خود کلامی میں بولا، "مجھے
کیا ہوا ہے ؟" دس سال سے میں اپنے گھر میں اسی راستے سے یونہی داخل ہوتا رہا
تھا لیکن کبھی کسی قسم کی بے چینی محسوس نہ ہوئی۔ مجھے کبھی رات کے وقت خوف محسوس
نہ ہوا تھا۔ اپنے گھر کے قریب کسی شخص کو، کسی چور اچکے کو دیکھ کر مجھ پر شاید
طیش طاری ہو جاتا اور میں ایک لمحہ توقف کئے بغیر اس پر لپک پڑتا۔ یوں بھی میں
ہمیشہ مسلح ہوتا ہوں۔ میرے پاس ہمیشہ میرا ریوالور ہوتا ہے۔ لیکن میں اس کی جانب
اپنا ہاتھ نہ بڑھایا کیونکہ میں خود پر طاری خوف و ہراس کی اس کیفیت پر قابو پانا
چاہتا تھا۔
یہ کیا تھا ؟ کیا کوئی
پیش اندیشی تھی ؟ کسی آنے والے خطرے کا اندیشہ جو ہر شخص پر غالب ہو جاتا ہے جو
کسی ناقابلِ بیان وقوعے کا شاہد ہوتا ہے ؟ شاید ؟ کون جانے ؟
میں جیسے جیسے آگے
بڑھتا گیا میرے بدن کی کپکپاہٹ بڑھتی گئی اور جب میں اپنے وسیع و عریض گھر کی
بیرونی دیوار کے قریب پہنچا تو مجھے یوں لگا جیسے مجھے دروازہ کھولنے اور اندر
داخل ہونے سے پہل چند منٹ رکنا ہو گا۔ میں اپنے ڈرائنگ روم کی کھڑکی کے قریب رکھے
ایک بنچ پر بیٹھ گیا۔ وہاں میں بے چینی کے عالم میں اپنا سر دیوار کے ساتھ ٹکائے
درختوں کے تاریک سائے میں آنکھیں کھولے بیٹھا رہا۔ پہلے چند لمحوں میں مجھے کچھ
بھی غیر معمولی محسوس نہ ہوا۔ میرے کانوں میں بھنبھناہٹ ابھر رہی تھی لیکن یہ اکثر
ہوتا تھا۔ کبھی مجھے ٹرین کے گزرنے کی آواز سنائی دیتی، کبھی دیوار پر نصب گھڑیال
کی ٹک ٹک سنائی دیتی یا کبھی یوں لگتا جیسے کوئی ہجوم گھر کے سامنے سے گزر رہا ہو۔
تھوڑی ہی دیر میں یہ
بھنبھناہٹ بلند ہونے لگی، گہری ہونے لگی، صاف سنائی دینے لگی، مجھے یوں لگا میں
خود فریبی کا شکار ہو رہا ہوں۔ یہ میرے دل کی دھڑکن نہیں تھی جو اس آواز کو میرے
کانوں تک پہنچا رہی تھی۔ یہ بہت واضح، مضطربانہ آواز تھی جو بلاشک و شبہ میرے گھر
کے اندر سے ہی برآمد ہو رہی تھی۔ دیواروں کے پار مجھے یہ آواز سنائی دی رہی تھی۔۔۔
یہ کوئی آواز نہیں بلکہ ارتعاش تھا جو مختلف چیزوں کی حرکات سے پیدا ہو رہا تھا
جیسے کوئی ہجوم میرے گھر کا سازوسامان ادھر ادھر اٹھا رہا ہو، دھکیل رہا ہو، پھینک
رہا ہو۔
پھر بھی بہت دیر تک
مجھے اپنی سماعت پر شک ہوتا رہا۔ لیکن پھر ایک دیوار کے ساتھ کان لگا کر سننے کے
بعد مجھے یقین ہو گیا کہ میرے گھر کے اندر اس عجیب و غریب الٹ پلٹ اور کھلبلی کی
جو بھی وجہ ہے وہ کوئی غیرمعمولی اور ناقابل فہم امر ہے۔ میں خوفزدہ تو نہ تھا
لیکن۔۔۔ میں کیسے بتاؤں۔۔۔ البتہ حیرت سے گنگ ہو چکا تھا۔ میں ںے اپنا ریوالور
نہیں نکالا کیونکہ مجھے ابھی ایسا کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی۔
میں دیر تک سنتا رہا
لیکن کچھ نہ سمجھ پایا حالانکہ اپنی بے چینی کے باوجود میرے ہوش و حواس مکمل طور
پر اپنے قابو میں تھے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور پوری توجہ سے ان آوازوں کو سننے لگا
کو دھیرے دھیرے ابھرتی جا رہی تھیں، کبھی کبھار کافی بلند ہو جاتی تھیں۔ یہ یقیناً
کوئی پراسرار ہلچل تھی جو گڑبڑ کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔
یکایک اپنی بزدلی پر
نادم ہوتے ہوئے، میں نے اپنی جیب سے کنجیوں کا گچھا نکالا، ان میں ایک چابی منتخب
کی، اسے تالے کے سوراخ میں داخل کیا، دو مرتبہ گھمایا اور اپنی پوری طاقت سے
دروازہ اندر کی جانب دھکیلا۔ دروازہ ایک دھماکے کے ساتھ اندرونی دیوار کے ساتھ جا
ٹکرایا۔
توپ کے گولے کی آواز کی
مانند دروازے کے دھماکے کے ساتھ ہی گھر کے اندر فرش سے چھت تک اکھیڑ پچھاڑ کی بلند
آوازیں آنے لگیں۔ کان پھاڑ دینے والی یہ آوازیں اتنی خوفناک اور یکایک تھیں کہ میں
بے ساختہ چند قدم پیچھے کی جانب ہٹا۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ اس کا کوئی فائدہ نہ
ہو گا لیکن پھر بھی میں اپنا ریوالور ہولسٹر سے نکال کر ہاتھ میں تھام لیا۔
میں چند لمحے مزید کان
لگا کر سنتا رہا۔ اب مجھے اندر سیڑھیوں پر، چوبی فرشوں پر، قالین پر عجیب سی چاپ
نما کھٹکھٹاہٹ سنائی دینے لگی۔۔۔ جوتوں یا ننگے پیروں کی آواز نہیں، بلکہ یوں جیسے
ایک ہجوم لکڑی یا لوہے کی بیساکھیاں لئے چل رہا ہو، جیسے کوئی جھانجھ بجا رہا ہو۔
اپنے بیرونی دروازے کی دہلیز پر کھڑے مجھے اچانک ایک آرام کرسی دکھائی دی جس پر
میں مطالعہ کیا کرتا تھا، کسی زندہ جانور کی مانند ٹھمک ٹھمک چلتی دکھائی دی۔۔۔ وہ
دروازے سے نکلتی باہر باغیچے تک جا پہنچی۔ اس کے پیچھے پیچھے میرے استقبالیہ کمرے
کی کرسیاں چلنے لگیں، اور ان کے ساتھ ہی کیچڑ میں اپنے چھوٹی چھوٹی ٹانگوں پر
رینگتے مگرمچھوں کی مانند میرے صوفے باہر نکلنے لگے۔ ان کے عقب میں بکریوں کی
مانند اچھلتی کودتی کرسیاں اور خرگوشوں کی مانند پھدکتی تپائیاں بھاگنے لگیں۔
اوہ میرے خدا ! یہ کیا
ہو رہا ہے ؟ میں فوراً باہر جھاڑیوں کے پیچھے بیٹھ گیا اور اپنے گھر کے فرنیچر کو
قطار اندر قطار باہر جاتا دیکھنے لگا۔ اپنے وزن اور ہجم کے مطابق گھر کا سارا
فرنیچر دھیرے دھیرے یا پھرتی سے باھر کی جانب چلتا دیکھنے لگا۔ میرا پیانو بھی
گھوڑے کی مانند دلکی چال میں باہر چل دیا۔ اس کے قدموں کے ساتھ ہلکی موسیقی کی دھن
ابھرتی گئی۔ چھوٹی چھوٹی اشیاء اور چھوٹا فرنیچر کیڑوں مکوڑوں کی مانند ہولے ہولے
رینگتا گیا، فانوس، پیالیاں، پرچیں، پلیٹیں، رکابیں چاندنی میں چمک رہی تھیں۔ پھر
مجھے گزشتہ صدی کی ایک قدیم مطالعے کی میز دکھائی دی جس میں میرے خطوط رکھے تھے،
میرے دل کی مکمل تاریخ موجود تھی، وہ تاریخ جو میرے لئے نجانے کتنے دکھ درد کا
باعث تھی۔ اسی میز کی درازوں میں میری زندگی کے عزیز ترین فوٹوگراف بھی موجود تھے۔
یکایک میرا خوف اور
میری حیرت ختم ہو گئے۔۔۔ میں لپک کر آگے بڑھا اور اچھل کر پوری قوت سے دونوں
بازوؤں سے میز کو پکڑ لیا، جیسے کوئی گھر میں آئے چور کر پکڑتا ہے، جیسے کوئی گھر
چھوڑ کر جانے والی بیوی کو پکڑتا ہے۔ لیکن میز اپنے راستے پر چلتی گئی اور میری
پوری طاقت اور پورے غصّے کے باوجود میں اس کو روکنے میں کامیاب نہ ہوا۔ اس جدوجہد
اور کشمکش میں زمین پر جا گرا۔ میز میرے اوپر سے چلتی گئی اور میں اس کے پیچھے
زمین پر گھسٹتا چلا گیا۔ میرے پیچھے آنے والا فرنیچر میرے اوپر سے چلتا گیا جیسے
گھوڑے سے گرے سپاہی کے اوپر سے پیچھے آنے والے گھڑسوار گزرتے جاتے ہیں۔
ایک مرتبہ پھر خوف کے
عالم میں میں ہاتھوں پیروں پر رینگتا ہوا راستے سے ہٹ کر جھاڑیوں کی اوٹ میں جا
گرا۔ وہاں سے میں چھوٹی سے چھوٹی، غیر معمولی، جانی پہچانی لیکن اپنی زندگی کی
عزیز ترین چیزوں کو نگاہوں سے اوجھل ہوتا دیکھتا رہا۔
پھر مجھے مکان کی اوپر
والی منزل سے گونجدار آوازیں سنائی دیں جیسے پورا گھر خالی ہو۔ یہ دروازے بند ہونے
کی آوازیں تھیں۔ دونوں منزلوں کے دروازے دھڑام دھڑام سے بند کئے جا رہے تھے۔ جب
گھر کا آخری آرائشی سامان بھی بیرونی دروازے سے باہر نکلا تو یہ دروازہ بھی جس کے
سامنے میں کھڑا رھا یکایک خودبخود زور سے بند ہو گیا۔ میں فوراً باغ سے ہوتا باہر
سڑک پر آ نکلا اور شہر کی جانب سرپٹ بھاگنے لگا۔ میں شہر کی مرکزی سڑک پر پہنچا تو
وہاں اکّا دکّا افراد دکھائی دئے۔ میں ایک قریبی ہوٹل پہنچا جہاں کا عملہ مجھے
جانتا تھا۔ میں ںے اپنے کپڑوں سے مٹی اور دھول جھاڑی اور ہوٹل کے ملازم کو بتایا
کہ میں اپنے گھر کی چابیوں کا گچھا کہیں کھو بیٹھا ہوں جس میں سرونٹ کوارٹر کے دروازے
کی چابیاں اور گھر کی عقبی طرف سبزیوں والے باغ کے گیٹ کی چابیاں بھی شامل تھیں جو
چوری چکاری سے بچنے کی خاطر لگا رکھا تھا۔
میں ہوٹل کے کمرے میں
بستر پر پیشانی تک کمبل اوڑھے لیٹ گیا لیکن نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور
یوں میں صبح پو پھوٹنے تک اپنے دل کی دھڑکن سنتا لیٹا رہا۔ میں ںے ہوٹل والوں کو
ہدایات دے رکھی تھیں کہ صبح ہوتے ہی میرے گھریلو ملازم کو بلا بھیجا جائے۔ صبح سات
بجے میرے ملازم نے ہوٹل کے کمرے پر دستک دی۔
میں نے دروازہ کھولا تو
اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
وہ بولا، "موسیو،
رات کو ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا ہے۔"
"کیا ہوا ؟"
"موسیو، کوئی
موسیو کے گھر کا سارا فرنیچر چرا لے گیا ہے، سارا فرنیچر، سارا۔۔۔ ایک چیز بھی
نہیں رہی !"
دل ہی دل میں مجھے خوشی
ہوئی۔ کیوں ؟ کون جانے ؟ میں نے اس واقعے کے بارے میں کسی کو نہ بتانے کا فیصلہ کر
لیا تھا۔ میں یہ پراسرار راز اپنے دل کی گہرائیوں میں دفن رکھنے کا مصمم ارادہ
کرچکا تھا۔ میں نے اسے جواب دیا :
"یہ یقیناً وہی
لوگ ہوں گے جنہوں نے میری چابیوں کا گچھا اڑا لیا ہو گا۔ پولیس کو فوراً مطلع کرنا
ہو گا۔ میں فوراً تیار ہوتا ہوں۔ تم نیچے میرا انتظار کرو۔"
اس مبینّہ چوری کی
واردات کی تفتیش پانچ ماہ تک جاری رہی۔ مال مسروقہ میں کوئی ایک چیز بھی برآمد نہ
کی جا سکی اور نہ ہی چوروں کو گرفتار کیا جا سکا۔ میرے خدا ! اگر میں پولیس والوں
کو بتا دیتا کہ اس واقعے کے بارے میں کیا جانتا ہوں۔۔۔ میں ںے کیا دیکھا تھا۔۔۔ وہ
یقیناً چوروں کی جگہ مجھے ہی قید خانے میں ڈال دیتے۔۔۔ کیونکہ میں وہ واحد شخص تھا
جس نے یہ واقع رونما ہوتے دیکھا تھا۔
ہاں ! لیکن میں اپنا
منہ بند رکھنا جانتا تھا۔ میں اپنے گھر میں دوبارہ کوئی فرنیچر نہیں لاؤں گا۔ یہ
سب بے سود ہو گا۔ پھر کوئی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ مجھے تو اپنے گھر میں دوبارہ داخل
ہونے کی بھی خواہش نہ تھی۔ میں واقعی اس گھر میں دوبارہ کبھی نہ گیا۔ میں پیرس میں
ایک ہوٹل میں رہنے لگا۔ اس خوفناک رات کے بعد اپنے اعصابی سکون کے لئے میں نے
ڈاکٹروں سے مشورہ لیا۔
ڈاکٹروں نے مجھے پرفضا
مقامات کے سفر کا مشورہ دیا۔ میں نے اس مشورے پر فوری عمل درآمد کرنے کا فیصلہ
کیا۔
حصّہ دوئم
سب سے پہلے میں اٹلی
پہنچا۔ چمکدار آسمان اور سنہری دھوپ سے میری طبیعت بہت سنبھلی۔ چھ ماہ کے دوران
میں جینوا سے وینس، وینس سے فلورنس، فلورنس سے روم، روم سے نیپلز گھومتا رہا۔ اس
کے بعد میں یونانیوں اور نارمنوں کی نشانیوں کے امین علاقے سِسلی پہنچا جو اپنے قدرتی
مناظر اور آثارقدیمہ کی بنا پر بہت مشہور ہے۔ پھر میں افریقہ پہنچ گیا جہاں زرد
پرسکون ریت کے سمندر میں اونٹوں، غزالوں اور عرب خانہ بدوشوں کے ساتھ میں صحرا
عبور کرتا گیا۔۔۔ جہاں روشن صاف و شفاف ماحول میں کوئی مبہم پراسرار واقعات نہ
تھے، جہاں یوں لگتا تھا کہ رات ڈھلتی ہی نہیں، ہر وقت دن چڑھا رہتا ہے۔
میں مارسائی کے راستے
واپس فرانس پہنچا۔ اس شہر کی دیہی شگفتہ مزاجی کے باوجود افریقہ کی دھوپ اور چمکتے
آسمان کی غیر موجودگی میں میں ایک مرتبہ پھر قدرے افسردہ ہو گیا۔ براعظم یورپ پر
قدم رکھتے ہی مجھے دوبارہ اس پژمردگی کا احساس ہونے لگا جس سے میں سمجھا کہ میں
چھٹکارہ پا چکا تھا۔ جسم کے رگ و پے میں وہ دھیرا دھیرا درد ابھرنے لگا جس سے مجھے
اندازہ ہوا کہ میری بیماری ابھی مکمل طور پر دور نہیں ہوئی۔
اور پھر چند دنوں بعد
میں پیرس آن پہنچا۔ مہینے کے اختتام تک میری شکستہ دلی پھر سے عود کر آئی۔ خزاں آن
پہنچی تھی اور میں نے سردیاں شروع ہونے سے پہلے ہی نارمنڈی کا سفر کرنے کا فیصلہ
کر لیا جہاں مجھے ابھی تک جانے کا موقع نہیں ملا تھا۔
میں نے نہایت خوشگوار
اور پرامید انداز میں روآں سے اپنا سفر شروع کیا۔ آٹھ دن میں اس قدیم تاریخی شہر میں
خاموش جوش و خروش اور ولولے کے ساتھ گھومتا رہا اور خصوصاً یہاں موجود حیرت انگیز
گاتھی طرزتعمیر کی حامل عمارات سے بہت محظوظ ہوا۔
ایک سہ پہر چار بجے کے
قریب میں ایک خاموش تاریک گلی میں چل رہا تھا جس کے ساتھ ہی سیاہ پانی کی ایک نالی
بہہ رہی تھی۔ اچانک قدیم طرز تعمیر کے گھروں کے درمیان ایک قطار میں موجود آثار
قدیمہ کی دکانوں نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کر لی۔ یکے بعد دیگرے دروازے کے
ساتھ دروازے میں پرانے استعمال شدہ فرنیچر کی متعدد دکانیں موجود تھیں۔
آثارقدیمہ کے ان مشکوک
بیوپاریوں نے اپنے کاروبار کے لئے بہت مناسب جگہ منتخب کر رکھی تھی۔ گندے پانی کی
نالی کے ساتھ چلتی تاریک بوسیدہ گلی جس کے ارد گرد قدیم گھروں کی کھپریل والی
چھتوں پر پرانے زمانے کے آہنی مرغ باد نما نصب تھے۔
ان دکانوں کے اندر
دیواروں کے ساتھ نقش و نگار والی الماریاں، روآں، سیورس اور موُستئے طرز کے ظروف،
کانچ اور لکڑی کے رنگین مجسمے، یسوع مسیح، مقدس مریم کی مورتیاں، پادریوں کے
چیزوبل چغے، لبادے، آب مقدس کے برتن۔۔۔ ایک دکان میں مجھے ایک سنہری کام والا چوبی
طاقچہ دکھائی دیا جس کے اندر کوئی خدا چھپا بیٹھا تھا۔ ان دکانوں اور ان کے اوپر
موجود مکانات میں کیسے خزانے موجود تھے جہاں بھانت بھانت کی آرائشی اشیاء پڑی
تھیں، جہاں چیزوں کی ہستی اپنے اختتام کو پہنچ رہی تھی، وہ چیزیں جو اپنے اصلی
مالکوں، اپنی صدیوں، سالوں، زمانوں اور طرز کے بعد بھی موجود تھیں تاکہ انہیں نسی
نسل کا کوئی گاہک انہیں نوادرات کے طور پر خرید لے۔
نوادرات سے بھرے اس شہر
میں ایسی اشیاء کے لئے میرا تجسس بیدار ہو گیا۔ میں بدبودار پانی کی نالی پر رکھے
چوبی تختوں پر قدم رکھتا ہوا ایک دکان سے دوسری کی جانب بڑھتا گیا۔
اوہ میرے خدا ! یہ کیا
ہو رہا ہے ؟ انواع و اقسام کے پرانے فرنیچر سے بھری پُری ایک دکان جو میزوں کرسیوں
الماریوں کا ایک قبرستان دکھائی دے رہی تھی، کی آخری دیوار کے ساتھ یکایک مجھے
اپنی ایک الماری دکھائی دی۔ میں کپکپاتے قدموں کے ساتھ اس کی جانب بڑھا۔ میرا سارا
جسم یوں لرز رہا تھا کہ میں اسے چھونے کی ہمّت بھی نہ کر سکا۔ میں نے ہچکچاتے ہوئے
اپنا ہاتھ بڑھایا۔ خیر یہ واقعی میری ہی الماری تھی، لوئی تیرھویں کے زمانے کی
الماری۔ جس شخص نے اس الماری پر ایک نگاہ بھی ڈالی تھی وہ اسے فوراً پہچان جاتا۔
میں دکان کے اندر تاریکی میں نگاہ دوڑائی تو مجھے اپنی تین کرسیاں دکھائی دیں۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی میری ہنری دوئم کرسیاں رکھی تھیں۔ یہ دونوں کرسیاں اتنی نادر
تھیں کہ میرے دوست پیرس سے انہیں دیکھنے آتے تھے۔
ذرا سوچیں ! سوچیں کہ
یہ سب کچھ دیکھ کر میری کیا کیفیت ہو گی ! حیرت سے کپکپاتے ہوئے میں آگے بڑھا۔۔۔
میں آگے بڑھا کیونکہ میں بزدل نہ تھا۔ پرانے زمانے کے کسی جنگجو کی مانند میں آگے
بڑھا۔
اور پھر۔۔۔ ہر چند
قدموں پر مجھے کوئی نہ کوئی ایسی چیز دکھائی دی جو میری تھی۔ میرے برش، کنگھیاں،
کتابیں، میزیں، میرے ریشمی گاؤن، میرے پستول، ہر چیز۔۔۔ میری مطالعے کی میز کے
سوا جس میں میرے خطوط رکھے تھے۔۔۔ وہ میز مجھے دکھائی نہ دی۔
میں دکان میں آگے بڑھتا
گیا، تاریک سیڑھیاں چڑھتا گیا اور چند لمحوں بعد اوپر والی منزل پر پہنچ گیا۔ میں
اکیلا تھا، میں نے آواز دی، کوئی جواب نہ آیا۔ میں وہاں اکیلا تھا۔ تاریک، وسیع و
عریض اور بھول بھلیّوں کی مانند اس دکان میں کوئی نہ تھا۔
شام ڈھلنے لگی تھی۔ میں
ایک طرف رکھی اپنی ہی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ میں اس معاملے کی تہہ تک پہنچے بغیر
یہاں سے جانے پر تیار نہ تھا۔ ہر چند لمحوں بعد میں پکار اٹھتا، "ہیلو، ہیلو،
کوئی ہے ؟"
میں وہاں شاید ایک
گھنٹے سے کچھ زیادہ ہی بیٹھا رہا تھا کہ مجھے نجانے کہاں سے قدموں کی ہلکی چاپ
سنائی دی۔ میں سمجھ نہ سکا کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ لیکن میں اٹھ کھڑا ہوا
اور ایک مرتبہ پھر پکار اٹھا۔ چند لمحوں بعد مجھے ایک بغلی کمرے میں روشنی کی ایک
کرن دکھائی دی۔
ایک آواز بلند ہوئی،
"کون ہے ؟"
میں ںے جواب دیا،
"میں خریدار ہوں۔"
"یوں اتنی دیر گئے
دکان میں داخل ہونا درست نہیں ہے۔"
میں بولا، "ایک
گھنٹے سے زیادہ ہو گیا میں آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔"
"آپ کو کل آنا ہو
گا۔"
"کل میں روآں سے
روانہ ہو رہا ہوں۔"
مجھ میں اس آواز کی
جانب بڑھنے کی ہمّت نہ تھی اور وہ بھی باہر نہ آیا۔ مجھے صرف کمرے میں روشنی کی
کرن دکھائی دے رہی تھی جو دیوار پر نصب ایک بڑی تصویر پر منعکس ہو رہی تھی جس میں
میدان جنگ کے اوپر آسمان پر دو فرشتے اڑتے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ تصویر بھی میری
ہی تھی۔ میں بولا، "آپ آ رہے ہیں یا نہیں ؟"
وہ بولا، "جی میں
حاضر ہوں۔"
میں کمرے کی جانب بڑھا۔
ایک بڑے کمرے کے وسط
میں ایک پستہ قد شخص کھڑا تھا۔۔۔ بہت پستہ قد اور بہت فربہ۔۔۔ غیر معمولی فربہ۔۔۔
وہ انتہائی کریہہ صورت شخص تھا۔
اس کے چہرے پر سفید اور
زرد رنگ کی گھنی لیکن بکھری ڈاڑھی موجود تھی۔ اس سر پر ایک بال بھی نہ تھا۔۔۔ ایک
بال بھی نہیں !
مجھے دیکھنے کے لئے اس
نے اپنے ہاتھ میں پکڑی موم بتّی بلند کی تو پرانے فرنیچر سے بھرے اس تاریک کمرے کا
گنجا سر چاند کی مانند چمکنے لگا۔ اس کا چہرہ جھرّیوں سے بھرا تھا اور گھنی بھنووں
کے نیچے اس کی آنکھیں دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔
میں نے وہیں کھڑے کھڑے
اس سے منہ مانگے بھاری داموں وہ تینوں کرسیاں خرید لیں جو میری ہی تھیں۔ میں نے اس
اپنے ہوٹل کے کمرے کا نمبر دیا اور انہیں کل صبح نو بجے سے پہلے وہاں پہنچانے کا
کہا۔
پھر میں وہاں سے روانہ
ہوا تو وہ خوش اخلاقی کے ساتھ مجھے باہر دروازے تک چھوڑنے آیا۔
میں وہاں سے سیدھا
پولیس سٹیشن پہنچا اور ڈیوٹی پر موجود پولیس کمشنر کو اپنے گھر میں ہونے والی
واردات اور چند لمحے پہلے اس دکان میں کی جانے والی دریافت کے بارے میں بتایا۔ اس
نے میرے سامنے ہی میرے شہر کی پولیس کو اس چوری کے بارے میں تار بھجوایا اور اس کے
جواب آنے تک مجھے انتظار گاہ میں بیٹھنے کا کہا۔ ایک گھںٹے بعد میرے شہر کی پولیس
کی جانب سے جوابی تار آ گیا جس سے میرے بیان کی تصدیق ہوئی۔
پولیس کمشنر بولا،
"مجھے فوری طور اس شخص کو گرفتار کرنا ہو گا اور اس سے پوچھ گچھ کرنا ہوگی،
کیونکہ مجھے خدشہ ہے کہ اگر اسے کوئی شک ہو گیا تو وہ آپ کا سارا سامان یہاں سے
غائب نہ کر دے۔ اب آپ اگر چاہیں تو جائیں اور کھانا کھا کر دو گھنٹے میں واپس آ
جائیں۔ اس وقت تک میں اسے یہاں منگواتا ہوں اور آپ کی موجودگی میں اس سے تفتیش
کروں گا۔"
"بہت شکریہ،
موسیو۔ میں آپ کا ممنون و مشکور ہوں۔"
میں اپنے ہوٹل واپس
پہنچا اور اپنی توقع سے کہیں زیادہ ڈٹ کر کھانا کھایا۔ مجھے اب یہ اطمینان تھا کہ
وہ شخص اب پولیس کے شکنجے سے نہیں بچ سکے گا۔
دو گھنٹے بعد میں پولیس
کمشنر کے دفتر میں جا پہنچا جو میرا منتظر تھا۔
مجھے دیکھتے ہی وہ
بولا، "موسیو، ہم آپ کے ملزم کو گرفتار نہیں کر پائے۔ میرے سپاہی پوری کوشش
کے باوجود اسے تلاش نہ کر پائے ہیں۔"
آوہ ! میرا دل ڈوبنے
لگا۔
میں نے پوچھا،
"لیکن آپ کو اس کا گھر اور دکان تو مل گئے ہے ؟"
"جی ہاں، اور میری
ہدایات کے مطابق اس کے گھر کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہے۔ البتہ وہ خود روپوش ہو چکا
ہے۔"
"روپوش ؟"
"جی ہاں روپوش ہو
چکا ہے۔ وہ اکثر اپنی شامیں ایک بیوہ ہمسائی مادام بیدواں کے ساتھ گزارتا ہے جو
خود بھی فرنیچر کا کاروبار کرتی ہے۔ وہ آج شام اس بیوہ کے گھر بھی نہیں گیا۔ وہ
عورت بھی اس ملزم کے بارے میں کچھ نہ پتا سکی۔ ہمیں کل تک انتظار کرنا ہو
گا۔"
میں واپس آ گیا۔ مجھے
روآں کی گلیاں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ پراسرار اور مشکوک دکھائی دے رہی تھیں۔
میں ساری رات سو نہ
سکا۔ جب بھی میری آنکھیں بند ہوتیں مجھے کوئی نہ کوئی ڈراؤنا خواب آنے لگتا۔
میں پولیس والوں کے
سامنے غیرمعمولی طور پر بے چینی یا بے قراری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے
پولیس سٹیشن جانے سے پہلے دس بجے تک انتظار کرتا رہا۔
دکاندار کی کوئی اطلاع
نہ ملی تھی اور اس کی دکان بھی بند تھی۔
کمشنر بولا،
"پولیس نے تمام ضروری اقدامات کا اہتمام کر لیا ہے۔ مقامی مجسٹریٹ کو بھی
مطلع کر دیا گیا ہے۔ ہم اس شخص کی دکان پر چھاپہ ماریں گے اور اسے کھولیں گے۔ اس
کے بعد آپ اس سامان کی نشاندہی کریں گے جو آپ کی ملکیت ہے۔"
ہم پولیس کی گاڑی میں
وہاں جا پہنچے۔ عمارت کے گرد پولیس اہلکار موجود تھے۔ دکان کے سامنے ایک پولیس
والا ایک قفل ساز کے ساتھ کھڑا تھا۔ چند ہی لمحوں میں دکان کا دروازہ کھول دیا
گیا۔
دکان میں داخل ہوتے ہی
میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں جانب دیکھا لیکن مجھے کہیں بھی اپنی الماریاں،
میزیں، تپائیاں دکھائی نہ دیں۔ مجھے اس سازوسامان میں کچھ بھی دکھائی نہ دیا جو
کبھی میرے گھر میں پڑا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ حالانکہ گزشتہ شام اسی دکان میں اپنی
کسی چیز کو دیکھے بغیر ایک قدم بھی نہ اٹھا سکتا تھا۔
پولیس کمشنر بھی ششدر
رہ گیا۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔
میں اس کی جانب مڑا اور
بولا، "اوہ میرے خدا، موسیو، کیا آپ کو حیرت نہیں ہوئی کہ میرا چوری شدہ سارا
فرنیچر اسی شام یہاں سے غائب ہو گیا جس شام وہ شخص بھی فرار ہو گیا ہے ؟"
وہ ہنسا۔
"ہاں، آپ درست کہہ
رہ ہیں۔ لیکن آپ سے غلطی ہوئی کہ آپ نے اس سے اپنی ہی کرسیاں منہ مانگی قیمت پر
خرید لیں۔ مجھے یقین ہے اسے اسی وقت شک ہو چکا ہو گا۔"
میں بولا، "لیکن
ایک بات میری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔ وہ یہ کہ جس جس مقام پر کل شام میرا فرنیچر پڑا
تھا وہاں اب اس جگہ پر دوسرا فرنیچر رکھا ہے۔"
کمشنر نے جواب دیا،
"اوہ، ہاں۔ اس کے پاس یہ کام کرنے کے لئے ساری رات تھی اور یقیناً اس کے ساتھ
اس کے دوسرے ساتھی بھی ہوں گے۔ اس گھر کے دوسرے گھروں میں جانے والے خفیہ دروازے
بھی ہوں گے۔ لیکن آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اس معاملے کی مکمل اور
تفصیلی تفتیش کروں گا۔ چونکہ ان کا اڈہ ہمارے قبضے میں ہے اس لئے وہ اب زیادہ دیر
ہمارے ہاتھوں سے بچ نہیں پائے گا۔"
******
آہ، میرا دل، میرا دل،
میرا بیچارہ دل، کیسے دھڑک رہا ہے !
میں پندرہ روز روآں میں
رکا رہا۔ وہ شخص واپس نہیں لوٹا۔ اوہ میرا خدایا ! اوہ میرے خدایا ! وہ کیا تھا جس
نے اسے یوں خوفزدہ اور فرار پر مجبور کر دیا تھا ؟
لیکن سولہویں دن صبح
سویرے مجھے اپنے مالی کی جانب سے ایک عجیب سا خط موصول ہوا جو اب میرے خالی اور
لوٹے گئے گھر کی چوکیداری کیا کرتا تھا۔ خط کی تحریر کچھ یوں تھی :
"موسیو،
آپ کی اطلاع کے لئے عرض
ہے کہ پرسوں شام ایک ایسا واقعہ پیش آیا جو پولیس سمیت ہم سب کی سمجھ سے بالاتر
ہے۔ موسیو کے گھر کا تمام تر فرنیچر واپس لوٹا دیا گیا ہے، کوئی ایک بھی چیز غائب
نہیں ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی ہر ایک چیز واپس عین اپنے مقام پر رکھ دی گئی ہے۔ گھر
بالکل اسی حالت میں ہے جیسے چوری سے پہلے ہوا کرتا تھا۔ سب لوگ سوچ سوچ کر پاگل ہو
رہے ہیں۔ یہ واقعہ جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات کو پیش آیا۔ سڑک کی جانب جانے
والے راستے پر ایسے نشانات دکھائی دے رہے ہیں جیسے سارے فرنیچر کو گھسیٹ دھکیل کر
واپس گھر کی جانب لایا گیا ہو۔ ایسے ہی نشانات اس وقت بھی دکھائی دئے تھے جب
فرنیچر غائب ہوا تھا۔
ہم موسیو کی واپسی کے
منتظر ہیں۔ آپ کا وفادار خادم، فلیپ روداں"
نہیں، نہیں، کبھی نہیں
! میں اس گھر میں کبھی واپس نہیں لوٹوں گا ! کبھی نہیں !
میں فوراً خط لے کر
پولیس سٹیشن پہنچ گیا۔
پولیس افسر بولا،
"کسی نے نہایت چالاکی سے آپ کے نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کی ہے۔ خیر، اب
یہ معاملہ اتنا سنگین نہیں رہا لیکن پھر بھی ایک نہ ایک دن ہم اس چور کو پکڑ ہی
لیں گے۔"
******
لیکن چور پکڑا نہ گیا۔
نہیں۔ وہ پکڑا نہیں گیا۔ اور اب میں اس سے خوفزدہ ہوں جیسے کوئی وحشی درندہ میرے
پیچھے چھوڑ دیا گیا ہو۔
یہ سب ناقابل فہم ہے !
چاند کی چاندنی میں چمکتی ہوئی اس گنجی کھوپڑی کی مانند ناقابل فہم ہے ! یہ معمّہ
کبھی حل نہ ہو گا۔ میں کبھی واپس اپنے گھر لوٹ نہ پاؤں گا۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے
؟ مجھے دوبارہ اس شخص سے آمنا سامنا ہونے سے خوف آتا ہے اور میں یہ خطرہ مول نہیں
لے سکتا۔
اور اگر وہ واپس آ بھی
گیا اور اپنے دکان کا مالک ثابت بھی ہو گیا تو یہ کیسے ثابت ہو گا کہ میرا چوری
شدہ فرنیچر وہاں موجود تھا ؟ میرے علاوہ کسی اور نے اسے وہاں دیکھا ہی نہ تھا۔ صرف
میرا بیان ہی تھا۔ اور مجھے شک ہے کہ میرا بیان بھی اب مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔
آہ نہیں ! یہ زندگی اب
ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔ میں جو کچھ دیکھ چکا ہوں وہ اب راز نہیں رہا۔ اس خوف کے
بوجھ تلے میں باقی دنیا کی مانند معمول کی زندگی گزار نہیں سکتا تھا کہ کہیں وہ
واقعہ دوبارہ وقوع پذیر نہ ہو جائے۔
اس لئے میں ذہنی امراض
کے اس ہسپتال میں اس کے نگران ڈاکٹر سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ میں نے اسے سب کچھ بتا
دیا ہے۔
دیر تک مجھ سے پوچھ گچھ
کرنے کے بعد وہ بولا، "کیا آپ یہاں کچھ عرصہ ٹھہرنے پر تیار ہیں ؟"
"جی ہاں، بالکل
!"
"کیا آپ کی مالی
حالت اس کی اجازت دیتی ہے ؟"
"جی ہاں۔"
"کیا آپ اکیلے
کمرے میں رہنا پسند کریں گے ؟"
"جی ہاں۔"
"کیا آپ اپنے
مہمانوں یا ملاقاتیوں سے ملنا پسند کریں گے ؟"
"نہیں، ڈاکٹر
صاحب، بالکل نہیں۔ مجھے شک ہے کہ کہیں روآں والا شخص انتقام لینے یہاں تک نہ آن
پہنچے۔"
******
میں تین ماہ سے مکمل
تنہائی میں رہ رہا ہوں۔ میں رفتہ رفتہ پرسکون ہو رہا ہوں۔ میرا خوف بتدریج ختم ہو
رہا ہے۔ لیکن اگر وہ آثارقدیمہ والا بھی پاگل ہو گیا۔۔۔ اور اسے بھی اس پاگل خانے
میں میں لا پھینکا گیا ؟ قید خانے بھی تو مکمل طور پر محفوظ جگہ نہیں ہوتے۔
ترجمہ :13 مارچ 2022ء
(فرانسیسی زبان سے
براہِ راست اردو ترجمہ)
Original Title : Qui
Sait ?
English Title : Who
Knows
Written by:
Guy de Maupassant (5 August 1850 - 6 July 1893) French
Novelist, short story writer, poet.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment