رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : پوسٹ ماسٹر ( The Postmaster)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 79 : پُوسٹ
مَاسٹر
تحریر: رابندر ناتھ
ٹیگور (ہندوستان)
مترجم: ابُوالحیات
بَردُوانی (ہندوستان)
ملازمت شروع کرتے ہی
پوسٹ ماسٹر کی تعیناتی ایک گاؤں میں ہوئی۔ اُولا پُور ایک بہت چھوٹی سی بستی تھی۔
قریب ہی ایک نیل کوٹھی (indigo
factory)تھی
جس کے مالک نے بڑی کوششوں سے اس ڈاک خانہ کو قائم کرایا تھا۔ ڈاک بابو نے کلکتہ
میں پرورش پائی تھی۔ اُن کی حالت اس اجڑے گاؤں میں پانی سے باھر نکالی ہوئی مچھلی
کی سی ہورہی تھی۔ پھونس کے چھپر سے ڈھکی ہوئی ایک اندھیری کوٹھری میں ڈاک گھر تھا،
نزدیک ہی سیواروں سے بھرا ہوا ایک تالاب تھا اور اس کے چاروں طرف جھاڑ جھنکاڑ۔
کوٹھی (indigo factory) کے ملازمین کو کام سے
کبھی فرصت ہی نہ ہوتی کہ وہ اُن کے پاس آتے۔ پھر وہ لوگ شرفا، میں بیٹھنے کے لائق
بھی نہ تھے۔ بات دراصل یہ ہے کہ کلکتہ والوں کو باہر والوں سے ملنا جُلنا ہی نہیں
آتا۔ کسی اجنبی جگہ پہونچ کر یا تو وہ اکڑتے پھرتے ہیں یا الگ تھلک رہتے ہیں۔ یہی
وجہ تھی کہ ڈاک بابو بستی والوں سے گُھل مل نہ سکے حالانکہ انھیں کام زیادہ نہیں
رہتا تھا۔ اس لئے جی بہلانے کوکبھی کبھار وہ شعر گوئی کی کوشش کرتے۔ اُن کی نظموں
کا موضوع یہی ہوتا کہ تمام دن بیلے کے پودوں کا ہوا میں ہناا اور آسمان پر بادلوں
کا گزرنا دیکھ کر زندگی بظاہر خوش بسر ہورہی ہے لیکن دلوں کی حالت جاننے والا ہی
واقف ہے کہ میں کیا چاہتا ہوں اگر الف لیلٰی کی کہانیوں کا کوئی دیو رات ہی بھر
میں شاخوں سمیت درختوں کو اکھیڑ کر پکی سڑک بنا دے اور اونچے اونچے مکانوں کی
قطاریں بادلوں کو نظر سے اوجھل کردیں تو اس نیم جاں کو نئی زندگی ملے۔
پوسٹ ماسٹر کی تنخواہ
بہت ہی تھوڑی تھی۔ انھیں اپنا کھانا آپ ہی پکانا پڑتا۔ اُسی گاؤں کی ایک بارہ
تیرہ سالہ مسکین یتیم لڑکی کام کاج میں ان کا ہاتھ بٹادیتی۔ اس کے بدلے اُسے تھوڑا
بہت کھانا مل جاتا۔ اس کا نام رتن تھا۔ اس کے شادی بیاہ کی کوئی اُمید نہ تھی۔
شام کے وقت جب بستی کے
گؤشالوں سے دُھواں بل کھاتا ہوا نکلتا۔ جنگل اور جھاڑیوں میں جھینگرشور مچاتے اور
وہاں سے دُور بستی کے لوگ نشے میں مَست ہوکر ڈھول مجیرے بجاتے اور اونچی آواز سے
کیرتن گانے لگتے۔ اس وقت ہوا میں بیلے کے پودوں کو جھومتا دیکھ کر اندھیری جھونپڑی
میں تنہا بیٹھے ہوئے شاعر کا دل بھی ناچ اُٹھتا۔ گھر کے اندر ٹمٹماتے ہوئے دئے کی
مدھم روشنی میں بیٹھے ہوئے پوسٹ ماسٹر بابو پکارتے "رتن "۔ رتن اسی پکار
کے انتظار میں دروازے پر بیٹھی رہتی۔ مگر ایک ہی آواز میں گھر کے اندر داخل نہیں
ہوتی۔ کہتی "کیوں بابو جی کیا ہے؟ "
پوسٹ ماسٹر: تُو کیا
کررہی ہے؟
رتن: بابو جی! ابھی
چوکے میں چولھا سُلگانا ہے۔
پوسٹ ماسٹر: چَوکے کا
کام بعد میں کرلینا۔ ذرا چلم تو بھر لا۔
تھوڑی ہی دیر میں گالوں
کو پُھلا کر چلم پھونکتی ہوئی رتن داخل ہوتی ہے۔ اس سے چلم لے کر پوسٹ ماسٹر یکایک
پوچھ بیٹھتے "رتن تجھے اپنی ماں یاد ہے۔ " وہ کہتی "یہ تو ایک لمبی
کہانی ہے کچھ یاد ہے کچھ نہیں۔ ماں سے زیادہ باپ ہی مجھے چاہتا تھا۔ " باپ کی
کچھ کچھ یاد باقی ہے۔ شام کو باپ کام سے لوٹتا۔ ایسی ہی ایک دو شاموں کا نقشہ اس
کی آنکھوں کے سامنے آجاتا۔ باتوں باتوں میں رتن پوسٹ ماسٹر کے پاؤں کے پاس بیٹھ
جاتی۔ اُسے یاد آتا کہ اس کا ایک چھوٹا بھائی تھا عرصہ ہوا برسات کے موسم میں ایک
دن دونوں نے مل کر ایک چھوٹے سے تالاب پر درخت کی ٹوٹی ٹہنی سے جھوٹ موٹ مچھلی کا
شکار کھیلا تھا۔ زندگی کے بڑے بڑے واقعات میں سے یہی سب سے زیادہ اُسے یاد آیا
کرتا ہے۔ اسی طرح باتوں باتوں میں رات زیادہ ہوجاتی تو پوسٹ ماسٹر کو کھانا پکانے
میں سُستی معلوم ہوئی۔ رتن جلدی جلدی چولھا سُلگا کر دو چار روٹیاں سینک لیتی۔ دن
کا بچا ہوا سالن ہوتا اُسی سے دونوں کا رات کا کھانا ہوجاتا۔
کبھی کبھی شام کو اُسی
پُھوس کی بڑی کوٹھری کے ایک کونے میں آفس کی چوکی پر بیٹھے پوسٹ ماسٹر اپنے گھر
کی باتیں اس سے کہا کرتے۔ چھوٹے بھائی ماں اور بڑی بہن کی باتیں۔ گھر سے دُور
تنہائی میں جن کی یاد دل کو ستایا کرتی اُن کی باتیں۔ دل میں جو باتیں اکثر آیا
کرتیں اور جنھیں نیل کوٹھی کے عَملہ والوں کے سامنے کہنا کسی حالت میں بھی مناسب
نہ تھا۔ وہ باتیں ایک اَن پڑھ چھوٹی لڑکی سے کہہ جانے میں انھیں کوئی جھجک محسوس
نہ ہوتی۔ آخر ایسا ہوا کہ لڑکی بات چیت میں اُن کے گھر والوں کا ذکر ماں، بہن اور
بھائی کہہ کر پُرانے جان پہچان والوں کی طرح کرتی۔ یہاں تک کہ لڑکی نے اپنے ننھے
سے دل میں اُن لوگوں کی خیالی تصویر بھی بنالی۔
برسات کی ایک دوپہر کو
جب آسمان صاف تھا اور کچھ گرمی لئے ہوئے ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ دھوپ لگنے پر
بھیگی ہوئی گھاس اور پتیوں سے ایک طرح کی سوندھی خوشبو آرہی تھی۔ معلوم ہورہا تھا
کہ تھکی ماندی زمین کی گرم سانس بدن پر لگ رہی ہے۔ کوئی ضدی چڑیا دربارِ قدرت میں
دوپہر سے درد بھری آواز کے ساتھ اپنی فریاد کی رَٹ لگائے جارہی تھی۔ اس وقت پوسٹ
ماسٹر کا کوئی مشغلہ نہ تھا۔ بارش سے دُھلے ہوئے خوش نُما پودوں کا ہوا میں
جُھومنا اور دُھوپ میں چمکتے ہوئے پانی سے خالی تہہ بہ تہہ بکھرے ہوئے سفید بادلوں
کا منڈلانا اس دن واقعی دیکھنے کے قابل تھا۔ پوسٹ ماسٹر یہ سماں دیکھ رہے تھے اور
دل میں سوچ رہے تھے کاش اُس گھڑی کوئی اپنا عزیز نزدیک ہوتا۔ ایک نہایت محبت بھری
پیاری انسانی مُورت۔ اُنھیں معلوم ہورہا تھا کہ اس دن چڑیا بھی بار بار یہی کہہ
رہی تھی۔ اور درختوں کے سایہ تلے دوپہر کے سَناٹے میں شاخوں کا بھی یہی کہنا تھا۔
نہ کسی کو اس کا یقین آسکتا تھا۔ نہ کسی کو اس کا پتہ چل سکتا تھا۔ لیکن لمبی
چھٹیوں کے دن دوپہر کی خاموشی میں ایک چُھوٹے سے گاؤں کے کم تنخواہ پانے والے سب
پوسٹ ماسٹر کے دل میں اسی طرح کے خیالات پیدا ہوا کرتے تھے۔
پوسٹ ماسٹر نے لمبی
سانس لے کر پکارا "رتن"۔ رتن اس گھڑی اَمرود کے پیڑ تلے پَیر پھیلائے
بیٹھی کچے امرود چبارہی تھی۔ آقا کی آواز سنتے ہی جھٹ پٹ دوڑی اور ہانپتی ہوئی
بُولی۔ "دادا (بڑے بھیا) تم نے پکارا تھا؟" پوسٹ ماسٹر نے کہا
"تجھے تھوڑا لکھنا پڑھنا سکھاؤں گا۔" یہ کہہ کر اُسے لے بیٹھے اور
دوپہر کا وقت اُسے ابتدائی حروف بتانے میں کَٹ گیا۔ اسی طرح تھوڑے ہی دنوں میں رتن
نے سب حرفوں کا سبق ختم کرلیا۔ ساون کے مہنے میں بارش کی کوئی حد نہ تھی۔ ندی نالے
سب پانی سے بھر گئے۔ رات دن بارش اور مینڈکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ گاؤں
کی سڑکوں پر چلنا قریب قریب بند ہی ہوگیا اور لوگ کشتیوں پر ہاٹ جانے لگے۔ ایک دن
صبح ہی سے بدلی چھائی ہوئی تھی اور پوسٹ ماسٹر کی شاگرد بہت دیر سے انتظار کررہی
تھی۔ لیکن دوسرے دنوں کی طرح حسبِ معمول بُلاوا نہ آنے پر خود ہی کتاب، کاپی،
قلم، دوات، لئے دھیرے دھیرے اندر داخل ہوگئی۔ پوسٹ ماسٹر کو چارپائی پر لیٹا ہوا
پایا۔ یہ سوچ کر کہ بابو جی آرام کررہے ہیں وہ۔ دبے پاؤں گھر کے باہر اُلٹے
پاؤں لوٹنے لگی۔ اتنے میں سُنا "رتن" فوراً واپس آئی اور پوچھا۔
"دادا سو رہے تھے" پوسٹ ماسٹر کراہتے ہوئے بولے ۔ "طبیعت ٹھیک نہیں
ہے۔ ذرا دیکھ تو پیشانی پر ہاتھ رکھ کر۔" پردیس میں بارش کے دنوں میں ایک
بالکل تنہا بیمار آدمی تیمارداری اور خبر گیری کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ اس کے
تپتے ہوئے بدن پر کسی شفقت بھرے نازک ہاتھ کے آہستہ آہستہ پھیرے جانے کی یاد
اُسے ستاتی ہے۔ اس موقعہ پر پردیسی کے دل کی تمنا رائگاں نہ گئی۔ رتن اُس وقت
چھوٹی سی لڑکی نہ رہی بلکہ اس نے ماں کی جگہ لے لی۔ ڈاکٹر بلایا۔ دوا پلائی۔ رات
بھر سرہانے بیٹھی جاگتی رہی۔ اور مریض کا کھانا بھی پکایا۔ بار بار پوچھتی۔
"کیوں دادا۔ کہو طبیعت کچھ اچھی معلوم ہوتی ہے۔ " بہت دنوں بعد پوسٹ
ماسٹر کمزور جسم کے ساتھ بسترِ علالت کو چھوڑ کر اُٹھے۔ دل میں ٹھان لی بس اب یہاں
نہیں رہوں گا۔ اب کسی طرح تبادلہ کرانا ہی ہوگا۔ یہاں کی آب و ہوا کی ناموافقت کا
ذکر کرکے اُسی وقت افسروں کے پاس تبدیلی کی درخواست کلکتہ روانہ کردی۔ تیمارداری
سے فرصت پاتے ہی رتن نے دروازے کے باہر اپنی پرانی جگہ اختیار کرلی لیکن پہلے کی
طرح اب اس کا بُلاوہ نہیں آتا۔ کبھی کبھی جھانک کر دیکھتی۔ پوسٹ ماسٹر نہ معلوم
کس دھیان میں چوکی پر بیٹھے یا چارپائی پر لیٹے نظر آتے جبکہ رتن پکارے جانے کی
آس میں بیٹھی رہتی۔ اس وقت پوسٹ ماسٹر اپنی بھیجی ہوئی درخواست کے جواب کا بے
چینی سے انتظار کرتے ہوتے، باہر دروازے پر لڑکی بیٹھی بیٹھی اپنا پرانا سبق بار
بار دہرایا کرتی۔ اسے اندیشہ تھا کہ جس دن یکایک اُس سے سبق پوچھا جائے گا اس دن
وہ مرکب حرفوں میں کہیں غلطی نہ کربیٹھے۔ آخر ایک ہفتہ بعد شام کو اس کی پُکار
ہوئی۔ آرزو بھرے دل کے ساتھ وہ اندر داخل ہوئی۔ پوچھا۔ "دادا پکار رہے
تھے۔" پوسٹ ماسٹر نے کہا ۔ "رتن میں کل ہی یہاں سے روانہ ہوجاؤںگا۔
"
"کہاں جاؤ گے
دادا؟"
"گھر جارہا
ہوں۔"
"کب لوٹو
گے؟"
پوٹ ماسٹر: "اب
کبھی نہ آؤں گا۔"
رتن خاموش ہورہی۔
پوسٹ ماسٹر خود کہنے
لے۔ "بدلی کے لئے جو درخواست بھیجی تھی نامنظور ہوئی۔ اب نوکری چھوڑ کر جارہا
ہوں۔"
بہت دیر تک دونوں خاموش
رہے۔ اپنی مدھم روشنی میں چراغ جلتا رہا۔ گھر کے پرانے ٹوٹے ہوئے چھپر کے ایک
سوراخ سے مٹی کے برتن پر بارش کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد رتن روٹی پکانے
کے لئے دھیرے دھیرے چوکے میں گئی۔ ہر روز کی طرح جلدی جلدی نہ پکا سکی۔ شاید طرح
طرح کے خیالات اس کے دماغ میں چکر لگارہے تھے۔ پوسٹ ماسٹر کھا چکے تو لڑکی نے ان
سے پوچھا۔ "دادا مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلو گے؟" پوسٹ ماسٹر ہنس کر
بولے۔ "یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ " جن وجوہ سے یہ بات ناممکن تھی لڑکی کو
سمجھانے کی ضرورت انھوں نے نہ سمجھی۔
ساری رات سوتے جاگتے پوسٹ
ماسٹر کی ہنستی ہوئی آواز ۔۔ "یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔" لڑکی کے کانوں
میں گونجتی رہی۔ صبح اٹھ کر پوسٹ ماسٹر نے دیکھا کہ نہانے کا پانی تیار ہے۔ کلکتہ
کی عادت کے مطابق وہ گھر ہی میں نہایا کرتے۔ ان کی روانگی کا وقت نہ معلوم لڑکی
کیوں دریافت نہ کرسکی تھی۔ شاید صبح ہوتے ہی ضرورت ہو۔ اس خیال سے رتن رات ہی کو
ان کے نہانے کا پانی ندی سے لے آئی تھی۔ نہانا ختم ہوتے ہی رتن کی پکار ہوئی۔ رتن
چُپ چاپ گھر میں داخل ہوتی۔ کیا حکم ہو، اِس انتظار میں اس نے آقا کی طرف نظر
اٹھائی۔ آقا نے کہا۔ "رتن میری جگہ پر جو صاحب آئیں گے تمھارے بارے میں
اچھی طرح انھیں سمجھا کرجاؤں گا۔ وہ میرے ہی طرح تمھارا خیال کریں گے۔ میں جارہا
ہوں اس کی کی کوئی فکر نہ کرنا۔" اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ الفاظ گہری محبت
اور سچی ہمدردی سے بھرے ہوئے دل سے نکلے تھے۔ لیکن عورتوں کے دل کو کون سمجھے رتن نے
بارہا اپنے آقا سے خفگی کی باتیں سکوت کے ساتھ سُنی تھیں۔ لیکن ان کی یہ پیار کی
باتیں برداشت نہ کرسکی۔ یک بیک بلبلا کر رو پڑی اور کہا۔ "نہیں۔ نہیں ۔ کسی
سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ میں کسی کے پاس رہنا نہیں چاہتی۔"
پوسٹ ماسٹر رتن کی اس
کیفیت سے واقف نہ تھے۔ وہ دنگ رہ گئے۔
نئے پوسٹ ماسٹر
آپہونچے۔ انھیں کُل چارج سمجھا کر پرانے پوسٹ ماسٹر جانے کو تیار ہوئے۔ جاتے وقت
رتن کو بلا کر کہا۔ "رتن تمھیں کبھی کچھ دے نہ سکا تھا۔ آج جاتے وقت کچھ دئے
جارہا ہوں۔ اس سے چند روز آرام سے گزر جائیں گے۔" تنخواہ کے روپے جو ملے
تھے۔ ان میں خرچِ راہ رکھ کر باقی روپے جیب سے نکالے اور رتن کو دینے لگے۔
رتن ان کے دونوں پاؤں
پر گر کر بولی۔ "دادا تمھارے پاؤں پکڑتی ہوں۔ مجھے کچھ دینے کی تکلیف نہ
کرو۔ میرے لئے کچھ بھی فکر نہ کرو۔" اتنا کہہ کر وہ وہاں سے بھاگ گئی۔
پوسٹ ماسٹر نے ٹھنڈی سانس
لی۔ ہاتھ میں کینوس کا بیگ اور کندھے پر چھتری رکھی قلی کے سر پر سبز و سفید دھاری
دار بکس رکھ کر دھیرے دھیرے ناؤ کی طرف بڑھے۔ جب ناؤ پر سوار ہوئے اور ناؤ کھُل
چکی اور برسات کی اُبلتی ہوئی ندی سے زمین کے امنڈتے ہوئے آنسو چاروں طرف ڈبڈبانے
لگے۔ اس وقت انھیں بہت ہی دکھ محسوس ہوا۔ ایک معصوم لڑکی کی مغموم صورت ایک پوشیدہ
اور بے پایاں دردِ دل کا اظہار کرنے لگی۔ ایک مرتبہ جی چاہا کہ لوٹ جائے اور دنیا
کی ٹھکرائی ہوئی اسی مسکین لڑکی کو اپنے ساتھ لے آئے مگر اس وقت بادبان ہوا کے رخ
پر تھا اور دھارا تیز چل رہا تھا۔ گاؤں کو چھوڑ کر کشتی ندی کے کنارے شمشان تک
چاچکی تھی۔ بہتے دریا میں کشتی پر سوار مسافر کے اداس دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ
زندگی میں ایسی جدائی اکثر ہوا کرتی ہے، لوٹنے سے کیا فائدہ۔ دنیا میں کوئی کسی کا
نہیں ہوتا۔
لیکن رتن کے دل میں کسی
طرح کے خیالات پیدا نہ ہوئے۔ وہ صرف پوسٹ آفس کے چاروں طرف آنسو بہاتی گھومتی
رہتی۔ اس کے دل میں یہ امید تھی کہ شاید دادا واپس آجائیں۔ اُسی امید پر وہ کسی
طرح وہاں سے دور نہیں جاسکتی تھی۔
اُف رے انسان کی سادہ
لوحی! اُس کی غلط فہمی، اس کی خود فریبی کبھی اس سے دور نہیں ہوتی۔ عقل کی بات
دماغ میں بڑی دیر میں آتی ہے۔ وہ واقعات کا بھی اعتبار نہیں کرتا۔ جان بُوجھ کر
بھی جھوٹی اُمیدوں کو سینے سے لگائے رہتا ہے۔ اور آخرکار ایک دن یہی اُمیدیں اس
کا خونِ جگر چُوس کر اس کے رگ و ریشے سے جدا ہوکربھاگ کھڑی ہوتی ہیں۔ اس وقت ہوش
آتا ہے لیکن پھر جلدی کسی دوسرے فریب میں گرفتار ہونے کو اُس کا جی بے چین ہونے
لگتا ہے۔
English Title: The
Postmaster
Written by:
Rabindranath Tagore (7 May 1861 - 7 August 1941)
- Famous Indian
Writer, song composer, playwright, essayist, painter
- Winner of Nobel
Prize in Literature (1913)-
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment