گی دے موپاساں کا افسانہ : مس ہیریٹ (Miss Harriet)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر28: مس ہیریٹ
تحریر: گی دے موپاساں (فرانس)
اردو ترجمہ: حمرا خلیق (کراچی، پاکستان)
بگھی میں ہم سات آدمی سوار تھے، جس میں سے چار عورتیں
تھیں اور تین مرد۔ ایک شخص کوچوان کے پاس بالائی نشست پر پیٹھا تھا۔ بگھی خراماں
خراماں اپنی منزل کی طرف رواں تھی۔ ہم لوگ "تنکارویل"
(Tancarville) کے کھنڈرات دیکھنے کے لیے جا رہے تھے۔ جن کی
خوبصورتی طلوعِ سحر کے وقت دیکھی جاسکتی تھی۔ صبحِ کاذب کی خُنک ہوا کے جھونکوں میں
تمام مسافر نیم غنودگی کی کیفیت میں مبتلا تھے۔ خاص طور پر خواتین، جو عموما"
اتنے سویرے اُٹھنے کی عادی نہیں ہوتیں، آنکھیں موندے پڑی تھیں۔ ہو اس ابھرتی ہوئی
خوب صورت صبح کے حسن سے لطف اندوز نہیں ہورہی تھیں۔
وہ خزاں کا موسم تھا۔ سڑک کے دو رویہ زرد کھیت اور خزاں
رسیدہ درخت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ زمین ایک کہر کی چادر میں لپٹی ہوئی معلوم
ہوتی تھی۔ البتہ جھاڑیوں میں سے پرندوں کی آوازیں آرہی تھیں اور دور آسمان کی بلندیوں
پر اڑتے ہوئے لارک نغمہ سرا تھے۔ آخر کار سورج طلوع ہو گیا۔ اس کی جلوہ سامانیاں
سے اُفق دور دور تک لالہ زار ہوگیا۔ جُوں جُوں سورج ابھررہا تھا، معلوم ہوتا تھا
کہ گاؤں، کھیت اور کائنات تاریکی کی چادر جھٹک کر مسکراتی ہوئی جاگ اٹھی ہے۔
کومتے دی تریل
(Comte d'Etraille) جو بگھی کے بالائی حصے پر کوچوان کے
ساتھ تھا، جوش سے چلا اُٹھا، "دیکھو!" سب کی نظریں بیک وقت اُٹھیں۔ قریب
ہی جھاڑیوں سے ایک ہرن نمودار ہوا۔ وہ ایک سیکنڈ کو رُکا اور پھر خطرے کی بو سونگھ
کر اس نے ایک جست لگائی اور آخرکار اپنی منزل کا تعین کرکے قلانچیں برتا ہوا نظروں
سے اُوجھل ہوگیا۔ ہم سب کی نظریں واپس لوٹ آئیں۔
رینے لیجاتوئر
(Rene Lamanoir) نے اپنے قریب بیٹھی ہوئی بارون دی سیرین ( Baroness de Serennes) سے،
جو مسلسل نیند کے خمار سے جاگنے کی کو شش کر رہی تھی، سرگوشی کی، "تم شاید
اپنے شوہر کے متعلق سوچ رہی ہو۔ پریشان نہ ہو، وہ ہفتے تک واپس نہیں آئے گا۔ ابھی
تمھارے پاس چاردن ہیں۔"
وہ ایک نیند بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولی، "بے وقوف
نہ بنو--- اچھا کوئی دلچسپ بات کرو۔ تم تو بہترین قصہ گوہو۔ کوئی اپنے ہی عشق کا
قصہ سناؤ۔"
موسیو شینال، جو ایک عمر رسیدہ مصور تھا لیکن اب تک صحت
اور چُستی میں جوانوں سے بہتر تھا، کچھ سوچ کر مسکرایا۔ وہ اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر
رہا تھا۔ پھر یکلخت سنجیدہ ہو گیا۔
"خواتین،
حضرات! میں آپ لوگوں کو ایک قصہ سناتا ہوں۔ اگرچہ یہ تفریحی نہیں ہے، لیکن یہ میری
زندگی کا سچا اور الم ناک ترین واقعہ ہے۔" اور پھر اس نے کہانی اس طرح شروع کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اس وقت پچیس سال کا نوجوان تھا۔ میں نارمنڈی کے
ساحل پر مصوری کے سلسلے میں دورے کر رہا تھا۔ میرا مطلب ہے کہ میں ایک بیگ کاندھے
پر اُٹھائے قریہ قریہ، گاؤں گاؤں، فطرت اور قدرت کی انمول نعمتوں کو سمجھنے اور
پرکھنے کے لیے گشت کرتا پھررہا تھا۔ خانہ بدوشوں اور صحرا نوردوں کی یہ زندگی میری
فطرت کے عین مطابق تھی۔ ایسے میں انسان ہر بندش، فکر پریشان نہیں کرتی۔ قدرت کی بے
کراں پھیلی ہوئی خوبصورتی دنیا کے کسی حصہ میں اسے کھینچ بلاتی ہے اور وہ ایک لمحہ
میں فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے کدھر جانا ہے۔ کہیں گنگناتےہوئے چشمے اس کے قدم روک لیتے
ہیں اور کہیں کسی سرائے کے دروازے سے آتی ہوئی اشتہاانگیز خوشبوئیں اسے رکنے پر
مجبور کر دیتی ہیں۔ کبھی کسی مے خانے کی حسین ساقی کی دبی دبی مسکراہٹ خوش آمدید
کہتی ہے تو کہیں کسی کے لباس کی مہک زنجیر پا بن جاتی ہے۔ گاؤں کی یہ سیدھی سادی
دوشیزائیں نفرت کے قابل نہیں ہیں۔ ان کی بھی روح ہوتی ہے، جذبات ہوتے ہیں۔ ان کے
سرخ گال، شاداب ہونٹ، بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے جنگل سے توڑا ہوا تازہ پھل۔
محبت ہمیشہ قابلِ تکریم ہے، خواہ کہیں سے ملے۔ وہ دل جو آپ کے گزرنے پر تیزی سے
دھڑکتا ہے، ہو آنکھ جو آپ کی جدائی پر آنسو بہاتی ہے، یہ سب کچھ انمول ہے۔ بہت عظیم
ہے، اور بہت پیارا۔ اور ایسی باتوں، ایسے لوگوں سے نفرت نہیں بلکہ ان کی قدر کرنا
چاہیئے۔
لیکن اس صحرا نوردی میں جو چیز سب سے زیادہ پُرکشش ہے
اور وہ دیہات کی فضا، جنگل، کھیت، طلوع آفتاب اور چاندنی راتیں ہیں۔ یہ سب کچھ ایک
مصور کے ماہِ عسل کے سامان ہیں۔
ہم تنہا ہوتے ہیں دھرتی کی آغوش میں، ان پُر سکون فضاؤں
میں، جذبات سے پُر دل لیے، اس خاموش اور پُر سکون فضا میں سر سبز گھاس پر آنکھیں
بند کر کے لیٹ جائیں اور گاؤں میں گھڑیال بارہ کے گھنٹے بجا رہا ہو۔ کبھی کسی چشمے
کے کنارے کسی درخت کی ٹوٹی ہوئی شاخ پر پیر لٹکا کر بیٹھ جاؤ اور پیروں سے اس مخملی
گھاس کی نرمی کو محسوس کرو۔ کبھی اس چشمے کے ٹھنڈے پانی کو پینے کے لیے اس پر جھک
جاؤ اور جب وہ پانی چہرہ، ہونٹوں اور مونچھوں سے مس ہو تو یہ محسوس ہو جیسے اس
چشمے کو لب بہ لب بوسے دے رہے ہو اور اس وقت کس قدر لطف اور راحت محسوس ہوتی ہے۔
کبھی کسی تالاب میں لباس کی قید سے آزاد نہانے کے لیے
اُتر جاؤ تو جسم پر پانی کی لہروں کا لمس ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی جان دار شے
ہم کنار ہے۔ کبھی کسی پہاڑی کی چوٹی پر بشاش، اور کبھی کسی چشمے کے کنارے جب ڈوبتے
سورج کی کرنٰیں پانی پر پڑ رہی ہوں تو افسردہ دل لیے اس نظارے کو دیکھ رہے ہوں۔ اور
رات کو چاندنی میں ہزاروں خیالات اور تصورات جو خواب بن بن کر ذہن پر چھا جاتے ہیں
اور جن خوابوں کو سورج کی تمازت میں نہیں دیکھا جاسکتا۔
اور میں اس وقت بھی اسی علاقے میں جہاں آجکل ہم لوگ ہیں،
مارا مارا پھر رہا تھا۔ ایک شام چلتے چلتے میں ایک چھوٹے سے گاؤں پینوول پہنچا۔ یہ
گاؤں ساحل سے دور دو پہاڑیوں کے درمیان واقع ہے۔ صبح سے میں ہری بھری مخملی گھاس
پر ساحل کے قریب پھر رہا تھا۔ میں اس وقت اپنی پوری آواز سے گنگنارہا تھا۔ سمندر میں
تیرتے ہوئے جہازوں اور کشتیوں کے بادبان کس قدر خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے۔ صبح
سے میں نے قدرتی مناظر سے جی بھر کے لطف اُٹھایا تھا۔ قیام کے لیے مجھے کسی نے ایک
سرائے کا پتا دیا جو ایک عورت نے کھول رکھی تھی۔ یہ سرائے نارمنڈی کے درمیان واقع
تھی اور اس کے دونوں طرف ساحل تھا۔ چنانچہ پہاڑی راستوں کو چھوڑ کر میں درختوں کی
چھاؤں میں بنی ہوئی مادام لیکاشر( Mother Lecacheur) کی
سرائے کی طرف روانہ ہو گیا۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ ایک ضعیف دیہاتی عورت تھی،
جس کے چہرے پر ہمیشہ حزن و ملال اور غصے کی کیفیت رہتی تھی اور جو ہر نئے مسافر کی
آمد پر پریشان جاتی تھی۔
مئی کا مہینہ تھا۔ پورے احاطے میں درخت سیبوں سے لدے
پڑے تھے اور ان کی خوشبو سے فضا تھی۔ گلابی گلابی پتیاں ہری گھاس پر بکھری پڑی تھیں۔
"کہیے
مادام لیکاشر، کوئی کمرہ میرے لیے خالی ہے؟"
وہ چونکی کہ میں اس کا نام کس طرح جانتا ہوں، پھر سنبھلی
۔"ممکن ہے کوئی انتظام ہوجائے۔ ویسے تو سرائے پوری بھری ہوئی ہے۔"
پانچ منٹ کے اندر سب ٹھیک ٹھاک ہو گیا۔ مجھے ایک پُرانا
سا کمرہ دیا گیا تھا۔ اس کمرے کا دروازہ باورچی خانہ میں خُلتا تھا۔ اسی باورچی
خانہ میں تمام مہمان اپنی بیوہ میزبان کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے۔ میں نے اپنا
سامان رکھا اور ہاتھ منہ دھو کر باہر آگیا۔ وہ بوڑھی خاتون رات کے کھانے کے لیے
مرغی تل رہی تھی۔ میں نے اس سے کہا، "تو تمہارے اور بھی مہمان ہیں؟"
ہمارے یہاں ایک اڈھیر عمر انگریز خاتون ٹھری ہوئی ہے جو
دوسرے بیڈ روم میں ہے۔" میزبان خاتون نے نہایت حقارت سے کہا۔
سرائے کے قیام و طعام کے اور کرایہ کے علاوہ چھ پینس
روزانہ بڑھا کر میں نے یہ طے کر لیا تھا کہ میں جب چاہوں گا کھانا دوسرے مہمانوں
سے الگ لان میں کھایا کروں گا۔ چنانچہ میرا کھانا اس وقت بھی باہر لان میں ہی دے دیا
گیا۔ میں نے مرغی پر دانت آزمانا شروع کر دیے اور ساتھ ساتھ سنہری شراب کے مزے لینے
لگا۔ اس کے ساتھ سفید روٹی کے ٹکڑے بھی تر کرتا جا رہا تھا، جو اگرچہ چار دن کی
باسی تھی لیکن اب تک نہایت لذیذ تھی۔
اچانک سڑک پر کھلنے والا لکڑی کا پھاٹک کھلا اور اس میں
سے ایک عجیب و غریب ہستی نمودار ہوئی۔ وہ بے حد دبلی تھی، بہت لمبی تھی اور سرخ
تاتاری شال میں اس طرح لپٹی ہوئی تھی کہ دور سے دیکھ کر یہ محسوس ہوتا تھا جیسے اس
کے بازو اور ہاتھ نہیں ہیں۔ اچانک اس کی ایک ٹانگ کے پاس ایک نہایت لمبے سوکھے
دبلے ہاتھ کا احساس ہوا۔ اس کا چہرہ ممی سے ملتا تھا اور ماتھے پر سفید بالوں کی
لٹیں بکھری ہوئی تھیں جو حلیے میں اوپر نیچے ہوئی تھیں۔ اسے دیکھ کر نہ معلوم کیوں
خشک کی ہوئی مچھلی کا خیال آیا۔ وہ میرے پاس سے نیچی نظریں کیےتیزی سے گزر کر اس
کاٹیج میں غائب ہو گئی۔ اس عجیب و غریب وجود نے مجھے خاصا محظوظ کیا۔ یقینا" یہ
وہی اڈھیر عمر انگریز عورت تھی جس کا خاتونِ خانہ نے ذکر کیا تھا۔ اس دن پھر وہ
مجھے نظر نہیں آئی۔ اگلی صبح میں وادی میں ایک تصویر بنانے کی غرض سے پہنچا تو
مجھے سامنے کی پہاڑی کی چوٹی پر کوئی کھڑا نظر آیا جو دور سے بلکل ایک جھنڈے کی
طرح لگ رہا تھا۔ یہ وہی خاتون تھی۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو غائب ہو گئی۔
دوپہر کو میں کھانا کھانے سرائے پہنچا تو کھانے کی اس
عام میز پر ہی پر بیٹھ گیا۔ تاکہ اس خاتون سے رسم و راہ پیدا کر سکوں لیکن اس نے میری
طرف بلکل توجہ نہیں دی اور میرا قطعا" نوٹس نہیں لیا۔ میں نہایت اخلاق سے اس
کی طرف پلیٹیں پڑھاتا رہا، اس کے گلاس میں پانی دیتا رہا۔ لیکن اس کے جواب میں محض
ایک سر کی جنبش تھی یا نہایت دھیمی آواز میں کہا ہوا کوئی انگریزی لفظ جو میں سمجھ
بھی نہیں سکا۔ آخرکار میں نے اپنی اس تعارف کی کوشش کو ختم کر دیا۔ اگرچہ مجھے اس
کے بارے میں خاصہ تجسس تھا۔ تین دن میں مجھے اُس کے بارے میں وہ تمام تفصیلات
معلوم ہو چکی تھی جو مادام لیکاشر کو تھیں۔ اس کا نام مس ہیریٹ تھا۔ گرمیاں گزارنے
کے لیے ایک پُرسکون جگہ کی تلاش میں چھ ہفتے پہلے یہاں پہنچی تھی اور لگتا تھا کہ
اب اس کا آگے جانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ کھانے کے دوران کبھی نہیں بولتی، باسی
کھانا تیزی سے کھاتی تھی اور اس کے درمیان پُروٹسٹنٹ مذہب کے کتابچے پڑھتی رہتی تھی
اس کی عادت تھی کہ یہ کتابچے سب کو بانٹتی تھی اور اتوار کو گرجے میں رہتی تھی۔
گرجے کے پادری کو بھی ایسی چار پانچ کتابیں موصول ہو چکی تھیں، جو اس نے ایک لڑکے
کو کچھ پیسے دے کر بھجوائی تھیں۔ کبھی کبھی ہماری میزبان سے وہ مغیر کسی تمہید کے
فرانسیسی میں کہنا شروع کردیتی تھی، " میں ہر چیز سے زیادہ خدا سے محبت کرتی
ہوں۔ میں اس کی ہر تخلیق کے روپ میں اس عشق کرتی ہوں۔ وہ ہمیشہ میرے دل میں موجود
رہتا ہے۔" اور پھر وہی اپنی چھوٹی سی کتاب سرائے کی مالکہ کو پیش کر دیتی تھی
جو اس کا ایک لفظ سمجھنے سے قاصر تھی۔
گاؤں کوئی اسے پسند نہیں کرتا تھا۔ اسکول کا استاد اسے
دہریہ کہتا تھا۔ لہذا وہ ایک غیر پسندیدہ ہستی تھی۔ مادام لیکاشر نے پادری سے اس
کے بارے میں گفتگو کی۔ پادری نے بتایا، "وہ ایک گناہگار انسان ہے، لیکن
بہرحال خدا گناہ گاروں کو بھی مارنا پسند نہیں کرتا اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ نہایت
کٹر قسم کی اصول پرست ہے۔" دہریہ اور مرتد کے الفاظ نے جن کا وہاں کے لوگ اچھی
طرح مطلب بھی نہیں سمجھتے تھے۔ اس کو اور بھی زیادہ مشتبہ بنا دیا تھا۔ لوگوں کا خیال
تھا کہ وہ نہایت امیر عورت ہے اور اس نے اپنی تمام عمر سیاحی میں گزار دی تھی۔ کیوں
کہ اس کے خاندان والوں نے اسے مرتد ہونے کی وجہ سے نکال دیا تھا۔
درحقیقت وہ ان کنواری انگریز کٹر اور متعصب پارسا
عورتوں میں سے تھی جو انگلستان میں بہت عام ہیں۔ جنھوں نے یورپ کے ہوٹلوں کے طعام
خانوں کو پُر آسیب بنر رکھا تھا، اٹلی کی فضاؤں کو تباہ کر رکھا تھا اور سوئزرلینڈ
کے ماحول کو زہرآلود کر دیا تھا۔ ان کے یہ سنکی پن کے اور کٹر مذہبی خیالات ہر جگہ
ان کے ساتھ تھے۔ ان کی سخت اقدار اور ناقابلِ تسخیر اصول، ان کے عجیب بے ڈھنگے
لباس اور ان میں سے آتی ہوئی ہندوستانی ربرکی بو، جیسے ان کو کسی ربر کے تھیلے سے
نکالا گیا ہو۔ مجھے اس سے پہلے جب بھی کسی ایسی خاتون سے سابقہ پڑا میں اس طرح جان
چھڑا کر بھاگا جیسے کوے ہکنی سے چڑیاں،لیکن یہ عورت کچھ ایسی عجیب و غریب تھی کہ
مجھے اس سے دلچسپی پیدا ہوگئی۔
مادام لیکاشر جو ایک دیہاتی باشندہ ہونے کی وجہ سے ہر
اس شے سے نفرت کرتی تھی جس کا تعلق کاشت کاروں یا کسانوں سے نہ ہو۔ لہذا وہ اس
عورت کے مذہبی خیالات سے پیر رکھتی تھی۔ اس نے اس عورت کے لیے ایک لفظ مقرر کر
رکھا تھا۔ جو اس کی نفرت اور حقارت کا آئینہ دار تھا۔ نہ معلوم کس وجہ سے اس کے
ذہن نے اس لفظ کو جنم دیا۔ بہرحال وہ مس ہیریٹ کو شیطانی صفات کی حامل قرار دیتی
تھی اور اسے چڑیل کے نام سے پکارتی تھی۔ مجھے یہ لفظ نہایت مضاحقہ خیز لگا۔ جب بھی
میری اس پر نظر پڑتی۔ مجھے یہ لفظ زور سے دہرانے میں بڑا لطف آتا۔ میں مادام لیکاشر
سے بھی اسی طرح سوال کیا کرتا تھا۔ "آج ہماری چڑیل کیا کر رہی ہے؟؟" اور
وہ بے چاری کسان عورت چونک کر پوچھتی، "جناب کیا آپ بھی اس پر یقین رکھتے ہیں؟"
مس ہیریٹ ایک مرتبہ ایک مینڈک کو اٹھا کر اپنے کمرے میں
لے گئی تھی۔ مینڈک کی ٹانگ ٹوٹ تئی تھی۔ اس نے طشت میں اسے دھو کر بالکل اسی طرح
اس کی مرہم پٹی کی جیسے وہ کوئی انسان ہو۔
یہ صحیح واقعہ ہے کوئی افواہ نہیں۔ ایک مرتبہ جب وہ
پہاڑی پر چہل قدمی کر رہی تھی۔ اس نے ایک مچھیرے سے ایک مچھلی خریدی جو اسی وقت
پانی سے نکالی گئی تھی اور پھر اسے پانی میں پھینک دیا۔ اس مچھیرے کو حالاں کہ اس
نے بہت کافی رقم دی تھی، لیکن وہ بھڑک گیا اور اس پر اس طرح برس پڑا جیسے اس نے
مچھیرے کی جیب سے پیسے چرالیے ہوں۔ ایک مہینے بعد بھی مچھیرا اس خاتون کا ذکر بغیر
گالی کے نہیں کرتا تھا۔ یقینا" وہ کوئی پرسرار ہستی تھی اور مادام لیکاشر نے
اس کا نام بلکل صحیح اور مناسب رکھا تھا۔
اصطبل کا ملازم لڑکا جو افریقہ میں ملازمت کرنے کی وجہ
سے سیپر کہلاتا تھا، اس عورت کے متعلق عجیب و غریب خیالات رکھتا تھا۔ وہ آنکھ مار
کر کہتا تھا، "یقینا" اس بڑھیا میں کوئی راز ہے۔" سلیستے جو وہاں کی
کم عمر ملازمہ تھی، اس خاتون کا کام کرنا بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ معلوم نہیں ایسا
کیوں تھا۔ ممکن ہے محض اس لیے کہ وہ بدیسی تھی، جس کی نسل، رنگ، زبان اور مذہب بھی
ان لوگوں سے مختلف تھا۔ بہرحال وہاں کے ماحول میں وہ ایک 'چڑیل' تھی۔
وہ اپنا تمام وقت گاؤں میں گھوم کر گزارتی تھی۔ وہ خدا
کو تلاش کرتی تھی اور فطری چیزوں میں اس کی عبادت کرتی تھی۔ ایک شام میں نے اسے
جھاڑیوں میں سجدے میں پڑا ہوا پایا۔ مجھے شاخوں کے درمیان کوئی لال لال چیز نظر آئی۔
میں نے شاخیں ہٹائیں تو مس ہیریٹ کو جھکا ہوا دیکھا۔ وہ اس طرح دیکھے جانے پر نہایت
پریشان ہوئی۔ وہ مجھے خوفزدہ نظروں سے ایسے دیکھ رہی تھی جیسے اُلو دن کی روشنی میں
پریشان ہو جائے۔
کبھی کبھی میں چٹانوں پر تصویر کشی کرتا تھا تو وہ اکثر
چوٹی پر کھڑی نظر آتی تھی جو بالکل سائے کی طرح لگتی تھی۔ اس کی جذبات سے پُر نظریں
سمندر کی وسعت میں گڑی رہتی تھیں، اس سمندر کی جو سونے کی طرح جگمگاتا تھا۔ اور
آسمان جو شفق کی وجہ سے لالہ زار بنا ہوتا تھا، اس کی پُر شوق نگاہوں کا مرکز ہوتا
تھا۔
اکثر میں اسے ایک کھیت کے کنارے ہری بھری گھاس پر کسی سیب
کے درخت کے سائے میں اپنی مذہبی کتاب لیے بیٹھے دیکھتا۔ وہ دور فاصلے پر کچھ گھورتی
رہتی۔ اس علاقے کی خوب صورت اور پُر سکون فضاؤں کی محبت نے میرے بھی قدم روک لیے
تھے۔ میں اس تنہا اور ہر شے سے دور جگہ پر بے حد مسرور تھا۔ یہ جگہ سرسبز تھی،
خوبصورت تھی اور اس کی دھرتی کی سوندھی مہک ہمارے جسموں میں رچ بس جاتی تھی اور سچ
تو یہ تھی کہ مس ہیریٹ جیسی معما شخصیت کے بارے میں جاننے کی جستجو نے مجھے مادام
لیکاشر کے یہاں روکے رکھا۔ میں معلوم کرنا چاہتا تھا کہ آخر ان سن دراز کنواری
انگریز عورتوں کی روحوں میں کیا پوشیدہ ہے۔
ہم لوگ ایک دوسرے سے نہایت عجیب طرح متعارف ہوئے۔ میں
نے اسی وقت ایک تصویر مکمل کی تھی جس کو میں سمجھتا تھا کہ نمائش کے قابل ہے اور
واقعی میرا خیال صحیح تھا کیوں کہ پندرہ سال بعد وہ دس ہزار فرانک میں فروخت ہوئی۔
بظاہر وہ دو اور دو چار سے بھی زیادہ آسان تھی۔ میرے کینوس پر سیدھی طرف ایک چٹان
بنی تھی جس پر ہرے پیلے اور لال رنگ کی سمندری گھاس اگی تھی اور اس پر سورج کی
روشنی پڑ رہی تھی۔ سورج نظر نہیں آرہا تھا لیکن اس کی چٹان پر پڑتی ہوئی روشنی نے
اسے سونے کی طرح جگمگا رکھا تھا۔ اس تصویر میں صرف یہی تھا۔ یعنی پیش منظر میں چکا
چوند کر دینے والی شعلہ فشاں شاندار روشنی۔ بائیں طرف سمندر تھا جو سُرمئی یا نیلا
نہیں بلکہ جو ذمرد کے رنگ کا تھا، ہریالی مائل۔
میں اپنی تصویر پر اتنا خوش تھا کہ میں خوشی سے ہوا میں
اڑ رہا تھا۔ جب وہ تصویر گھر لایا تو میرا جی چاہ رہا تھا کہ اسے دنیا دیکھے۔ مجھے
یاد ہے کے آتے آتے میں نے وہ تصویر ایک گائے تک کو دکھائی تھی اور چیخا تھا،
" اسے دیکھو اے بوڑھی خاتون، تمھیں ایسی چیزبہت کم دیکھنے کو ملے گی۔"
جب میں سرائے کے دروازے پر پہنچا تو میں پوری آواز میں چیخا۔ "ہیلو! مادام لیکاشر
یہاں تو آؤ، ذرا اس پر نظر ڈالو۔"
وہ کسان عورت آئی تو بغیر کچھ سمجھے ہوئے اس نے میری
تصویر کو دیکھنا شروع کیا۔ اسے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ قطعا" نہیں سمجھ رہی
تھی کہ وہ کوئی بھینسا ہے یا گھر یا کچھ اور۔۔۔۔۔۔۔ مس ہیریٹ عین اس وقت میرے پاس
سے گزری جب میں تصویر ہاتھوں میں اُٹھائے اپنی خاتونِ خانہ کو دکھا رہا تھا۔ وہ چڑیل
اس تصویر کو نظر انداز یہ کر سکی کیوںکہ میں نے وہ تصویر اس انداز سے اٹھا رکھی تھی
کہ وہ اسے اچھی طرح دیکھ سکے۔ وہ ایک دم رک گئی اور بالکل سکتے میں رہ گئی۔ اس کے
منہ سے ایک حرف نہ نکل سکا۔ یہ وہی اس کی پسندیدہ چٹان تھی جس پر وہ اکثر چہل قدمی
کیا کرتی تھی اور یہاں وہ بغیر کسی کے مخل ہوئے اپنے خوابوں کی دنیا میں پہنچ جاتی
تھی۔ اس نے انگریزی میں 'اوہ' کہا۔ اس 'اوہ' میں اس قدر تعریف اور تحسین کا تاثر
پوشیدہ تھا کہ میں مسکرا کے اس سے مخاطب ہوا:
"مس
ہیرہٹ! یہ میری تازہ ترین کوشش ہے۔"
وہ نہایت شرمیلے انداز میں بدبدائی۔
"اوہ
! جناب آپ نے فطرت کو بہت اچھی طرح سمجھا ہے۔"
آپ لوگ چاہے یقین کریں یہ نہ کریں لیکن میں اس کی تعریف
پر شرم اور جذبات کی شدت سے سرخ ہوگیا۔ مجھ پر اس کی تعریف کا اتنا اثر ہوا کہ کسی
ملکہ کے تعریفی جملے کا بھی نہ ہوتا۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں اس کا غلام ہوں اور
اس نے مجھ مکمل فتح حاصل کرلی ہے۔ میں نے یقینا" اس کا بوسہ لے لیا ہوتا۔
رات کے کھانے پر میں حسبِ معمول اس کے پاس بیٹھا۔ پہلی
مرتبہ وہ بولی اور وہ وہی سب ہولی جو کچھ وہ سوچتی تھی۔ "میں قدرت سے کس قدر
محبت کرتی ہوں۔" میں اسے روٹی، پانی، شراب اور کھانے کی دوسری چیزیں پیش کرتا
رہا اور اس دن اس نے میری پیشکش کو ایک ہلکی سی مسکرہٹ کے ساتھ قبول کرلیا۔ اس کے
بعد میں مناظرِ قدرت پر بات کرتا رہا۔
کھانے کے بعد ہم دونوں ساتھ ساتھ اٹھے اور احاطے سے
باہر نکل آئے۔ یقینا" ہم دونوں ڈوبتے سورج کی شفق آلود سرخی سے متاثر ہو رہے
تھے۔
میں نے پھاٹک کھولا اور ہم دونوں ایک دوسرے کے پہلو بہ
پہلو پہاڑی کی طرف نکل آئے۔ ایسا لگتا تھا کہ آج پہلی مرتبہ ہم نے ایک دوسرے کو صحیح
طور پر سمجھا تھا۔ وہ ایک گرم اور خوشگوار شام تھی۔ ایک ایسی شام جس میں انسان کا
جسم اور روح دونوں ہم آہنگی اور سکون محسوس کرتے ہیں۔ ہر چیز مکمل ہوتی ہے اور
انسان بلکل خوش و خرم ہوتا ہے۔ ہوا جو گھاس اور سمندری کائی کی خوشبو سے معطر تھی۔
ناک میں گھنس رہی تھی اور روح کو اپنی مہک سے ترو تازہ کر رہی تھی۔ اب ہم دونوں
پہاڑی کی چوٹی پر چل رہے تھے اور اس وسیع سمندر کی لہریں اتنی بلندی سے کس قدر
چھوٹی معلوم ہو رہی تھی۔ منہ کھولے اور سینہ تانے ہم لوگ تازہ ہوا میں سانس لے رہے
تھے جو سمندری پانی سے نمکین ہو گئی تھی۔
وہ انگریز عورت اپنی سرخ تاتاری شال میں لپٹی سورج کو
سمندر میں ڈوبتے ہوئے سکتے کے عالم میں کھڑی دیکھ رہی تھی۔ اس کے بڑے بڑے دانت اور
باہر نکل آئے تھے۔ ہمارے سامنے لیکن بہت نیچے بالکل افق کے پاس ایک فیل پیکر جہاز
ساکت کھڑا تھا۔ اسی کے بالکل قریب ایک کشتی رواں تھی، جس کے پیچھے دھویں کی ایک
لمبی دھاری پورے افق پرپھیلی ہوئی تھی۔
قرمزی گیند آہستہ آہستہ ڈوب رہی تھی۔ بہت جلد وہ سمندر
میں اس ساکت جہاز کے پیچھے عائب ہو گئی۔ وہ جہاز اس ڈوبتے سورج کی کرنوں سے سنہرا
ہو رہا تھا۔ دھیرے دھیرے سورج سمندر میں ڈوب گیا۔ ہم اسے پانی تک پہنچتے ہوئے دیکھتے
رہے۔ اس کا ہالہ چھوٹا ہوتا گیا اور آخرکار وہ نظروں سے اُوجھل ہو گیا۔ سب کچھ ختم
ہوگیا۔ صرف سنہری آسمان کے پس منظر میں کشتیوں کے بادبان نظر آرہے تھے۔
مِس ہیریٹ نہایت مجذوبانہ انداز میں اس منظر کو دیکھ رہی
تھی۔ یقینا" اس وقت اس کا دل آسمان، سورج اور سمندر سے ہم کنار ہونے کو چاہ
رہا تھا۔
اس نے سرگوشی کی۔ "میں محبت کرتی ہوں، میں محبت
کرتی ہوں۔" اور میں نے اس کی آنکھوں میں آنسو لرزاں دیکھے۔ وہ کہتی چلی گئی،
"کاش ! میں ایک چھوٹی سی چڑیا ہوتی تو آسمان میں وسعتوں میں پرواز کرسکتی۔"
وہ وہاں بلکل تنی کھڑی تھی۔ وہ اس وقت بالکل اس طرح سرخ ہو رہی تھی جس طرح اس کی
شال۔ میرا جی چاہا کے اس کی ایک تصویر بناؤں۔ لیکن دنیا کے لیے وہ محض ہڈیوں کا ایک
ڈھانچہ تھی۔ میں اپنے خیال پر خود ہی مسکرانے لگا۔ اور اس مسکراہٹ کو چھپانے کے لیے
منہ پھیر لیا۔ اس کے بعد میں اس سے مصوری کے بارے میں اس طرح بات کرتا رہا جیسے میں
اپنے کسی ساتھی طالبعلم سے کرتا تھا۔ میں گفتگو میں تمام تکنکی اصطلاحیں استعمال
کرتا رہا۔ وہ بغور سنتی رہی اور یہ کوشش کرتی رہی کہ میرے ان عجیب و غریب الفاظ کے
معنی سمجھ سکے اور میرے خیالات کو اچھی طرح پڑھ سکے۔ کبھی کبھی بات کاٹ کر وہ کہتی،
" اوہ! اب میں سمجھی، یہ بہت پُر لطف باتیں ہیں۔ "ہم لوگ واپس چلے آئے۔
دوسرے دن جیسے ہی اُس نے مجھے دیکھا وہ تیزی سے میرے پاس آئی اور مجھ سے ہاتھ ملایا۔
ہم ایک دوسرے کے دوست بن گئے۔
وہ ایک ایماندار اور نیک عورت تھی۔ وہ ہر فوشیلے کام کے
لیے فورا" تیارہو جاتی تھی جیسے وہ اس کے لیے ہی بیٹھی تھی۔ البتہ وہ ہر پچاس
سالہ کنواری عورت کی طرح پڑی سے اتری ہوئی تھی۔ اس کے اندر ایک ایسی معصومیت تھی
جس میں اب تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن اب بھی اس کے اندر کچھ جذبات ایسے موجود تھے
جو آسانی سے مشتعل ہو سکتے تھے۔
وہ قدرت اور جانوروں سے بے حد محبت کرتی تھی۔ اس کی
محبت ایسی تھی جیسے پرانی رکھی ہوئی شراب۔ ایک ایسا عشق جو وہ کسی مرد سے نہیں کر
سکتی تھی۔ کسی کتیا اپنے پلوں سے پیار کرتے دیکھ کر یا کسی گھوڑی کو اپنے بچوں کے
ساتھ دیکھ کر یا کسی چڑیا کے گھونسلے سے آتی ہوئی چڑیا کے بچوں کی چوں چوں اس کے
جسم میں تھرتھری پیدا کر دیتی تھی۔
"اوہ!
تم بے چاری تنہا رو!" جو ہوٹل کے طعام خانوں میں افسردہ چہرے لیے بیٹھی رہتی
ہو۔ مضحکہ خیز غم ذدہ مجسمے" میں نے جب سے مِس ہیریٹ کو دیکھا ہے، میں سب سے
بے انتہا محبت کرنے لگا ہوں۔ میں نے بہت جلد اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ مجھ سے کچھ
کہنا چاہتی ہے لیکن اس کی جراٰت نہیں کرتی اور اس کی یہ شرم اور جھجھک مجھے بہت
محظوظ کرتی۔ ہر صبح جب میں اپنا رنگ کا ڈبہ اور برش لے کر نکلتا تو گاؤں کے نکڑ تک
وہ میرے ساتھ آتی۔ وہ بالکل خاموش رہتی اور صاف ظاہر ہوتا کہ وہ پریشان سی ہے۔ وہ
کچھ کہنے کے لیے الفاظ تلاش کرتی رہتی اور پھر یک لخت وہ مجھے چھوڑ کر واپس چلی
جاتی۔
آخرکار ایک دن اس نے ہمت کر لی۔ "میں تمہیں تصویر
بناتا دیکھنا چاہتی ہوں۔" وہ سرخ ہو گئی جیسے اُس نے کوئی خطرناک تجویز پیش
کر دی ہو۔ میں اسے اپنے ساتھ وادی کے زیریں حصے میں لے گیا جہاں ان دنوں میں ایک
تصویر بنا رہا تھا۔ وہ تصویر بنانے کے دوران میرے پیچھے کھڑی رہی اور بغور دیکھتی
رہی۔ پھر جیسے خود کو میرے کام میں حائل سمجھ کر وہ اچانک "شکریہ" کہہ
کر واپس چلی گئی۔
لیکن وہ بہت جلد اسکی عادی ہو گئی اور روزانہ بہت خوشی
خوشی بغل میں ایک اسٹول دبائے میرے ساتھ وہاں آنے لگی۔ اس اسٹول پر بیٹھ کی وہ
مجھے تصویر بناتے ہوئے دیکھتی رہیتی۔ وہ گھنٹوں ساکت و جامد وہاں بیٹھی رہتی اور
جب میں چاقو اور برش کی مدد سے تصویر میں مناسب رنگ بھرتا تو وہ پر جوش لہجے میں
"اوہ" کہتی۔ وہ میری تصویروں کی بہت عزت کرتی تھی اور شاید انھیں بھی
قدرت کا انمول شاہکار سمجھتی تھی۔ اس کی نظر میں میری تصویریں ایک پرسرار چیز تھیں
اور کبھی کبھی اس دوران وہ مجھے خدا کے متعلق بہت زور دار انداز میں بتانے لگتی۔
اسکا خدا عجیب وغریب ہستی تھا۔ جیسے گاؤں کا کوئی
دانشمند جس میں بے انتہا قدرت اور صلاحیت موجود ہو لیکن جو انسانوں کی نا انصافیوں
پر پریشان ہو جاتا ہو اور ان کو دور کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ ویسے زیادہ تر وہ
خدا سے بہت اچھے تعلقات رکھتی تھی جیسے وہ اس کے تمام اسرار و رموز اور پریشانیوں یا
فکروں سے اچھی طرح واقف ہو، بالکل اسی طرح جیسے فوج کے سپاہی کمانڈر کے احکامات کے
بارے میں بات کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے پریشان رہتی تھی کہ میں خدا کے بارے میں
بالکل نا واقف ہوں۔ چناچہ وہ مجھ پر یہ انکشافات کرنا چاہتی تھی اوراکثر میری جیسوں
یا رنگ کے ڈبوں میں یا میرے جوتوں کے پاس اور میرے سونے کے کمرے میں اس کے مذہبی
کتابچے ملتے تھے۔ یقینا" اس کے خیال میں یہ کتابچے براہِ راست جنت سے اس کے
پاس آتے تھے۔ میں اسے بالکل ایک پرانے بے تکلف دوست کی طرح سمجھنے لگا تھا لیکن
کچھ دنوں سے مجھے اسے بالکل ایک پرانے بے تکلف دوست کی طرح سمجھنے لگا تھا لیکن
کچھ دنوں سے مجھے اس میں ایک قسم کی تبدیلی کا احساس ہورہا تھا۔ جب میں کسی وادی یا
سڑک کی ڈھلوان پر کام کرتا تو وہ تیز تیز قدم اٹھاتی نمودار ہوتی۔ وہ وہاں اکھڑے
سانسوں کے ساتھ اور ہانپتی ہوئی بیٹھ جاتی جیسے وہ وہ لمبی مسافت طے کر کے آئی ہویا
بہت جذباتی ہو رہی ہو۔ اس کا منہ سرخ ہوتا۔ پھر جیسے وہ ایک دم سے اس طرح سفید پڑ
جاتی جیسے بے ہوش ہونے والی ہو لیکن رفتہ رفتہ اس کا چہرہ اپنی اصل حالت پر آنے
لگتا اور وہ مطمعین انداز میں باتیں کرنے لگتی۔ پھر اچانک بات کرتے کرتے وہ اٹھ
کھڑی ہوتی اور نہایت تیز رفتاری سے واپس چلی جاتی۔ میں اکثر سوچتا کہ میں نے اسے
ناراض تو نہیں کر دیا۔
پھر مجھے اندازہ ہوا کہ مجھ سے تعلقات پیدا کرنے کے بعد
اس کا یہ معمول سا ہو گیا ہے۔ گھنٹوں پہاڑیوں پر چہل قدمی کرنے کے بعد جب وہ سرائے
واپس آتی تھی تو اس کے ماتھے پر سفید بالوں کی لٹیں اس طرح بکھری ہوتیں جیسے ہوانے
انھیں منتشر کردیاہے۔ پہلے اس نے ان کو کبھی اہمیت نہیں دی تھی لیکن اب چہل قدمی
سے واپس آنے کے بعد رات کے کھانے پر وہ بالوں میں باقاعدگی سے کنگھی کرکے آتی تھی
اور میں جب بھی اس سے کہتا، "مس ہیریٹ تم تو آج ستارے کی مانند پیاری معلوم
ہو رہی ہو۔" تو وہ ایک پندرہ سالہ لڑکی کی طرح شرما کر سرخ ہوجاتی۔
پھر ایک دم اس نے مجھ سے دوری اختیار کرلی اور میرے تصویر
بناتے وقت میرے پاس آنا چھوڑ دیا۔ میں نے سوچا، یہ ایک دُور ہے، یہ بھی گزر جائے
گا۔ لیکن وہ دور نہیں گزرا۔ اب جب بھی اس سے بات کرتا تو وہ جھنجھلاکر اور نہایت
بے رُخی سے جواب دیتی۔ وہ بے حد بے چین اور گھبرائی ہوئی رہنے لگی تھی۔
مجھے اب وہ صرف کھانے کے وقت ملتی اور ہم دونوں میں بہت
کم بات چیت ہوتی۔ مجھے اب یقیین ہو چلاتھا کہ وہ میری کسی بات پر برا مان گئی ہے۔
آخر ایک شام میں نے اس سے یہ پوچھ لیا، "تم بدل کیوں گئی ہو؟ میں نے تمھیں
ناراض کرنے کی کیا بات کر دی ہے؟ تمھارے برتاؤ سے میں بہت افسردہ ہوں۔"
وہ بے حد غصے میں بولی، "میں بالکل نہیں بدلی ہوں۔
یہ جھوٹ ہے۔" اور پھر اپنے کمرے میں غائب ہوگئی۔ کبھی کبھی وہ مجھے بے حد عجیب
نظروں سے دیکھتی جیسے کوئی کہنا چاہ رہا ہوکہ اب تمھارا آخری وقت آپہنچا ہے۔ ظاہر
ہے کہ ایسی بات کہنے والے کو انسان قطعا" برداشت نہیں کرسکتا۔ اس کی نظروں میں
جنون کی سی کیفیت ہوتی، بالکل ایسی کیفیت کہ وہ ابھی کوئی مجنونانہ اقدام کرنے والی
ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کا چہرہ، اس کی نظریں، بے بسی اور مایوسی کی غمازی کرتی تھیں
جیسے وہ کسی ناممکن چیز کی تمنا کر رہی ہے اور اس کے لیے اسے اپنے آپ سے ایک جنگ
کرنا پڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ بھی تھا جسے میں سمجھ نہیں سکتا تھا۔
ان سب باتوں کا جواب نہایت دھماکہ خیز تھا۔ میں ان دنوں
ایک تصویر پر دن رات کام کررہا تھا۔ وہ ایک وادی تھی جو سرکنڈوں اور درختوں کے درمیان
واقع تھی۔ وہ بالکل سنسان تھی اور اس پر سفیدی روئی کے گالوں کی طرح پھیلی ہوئی تھی
جس طرح عموما" صبح طلوع ہوتے وقت وادیوں پر ہوتی ہے۔ اس دھندے کے پس منظر میں
جو بیک وقت دبیز اور شفاف بھی تھی، دو انسانی پیکر نظر آرہے تھے۔ ایک لڑکی ایک مرد
کی بانہوں میں جکڑی ہوئی اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ مرد اس کے چہرے پر جھکا
ہوا تھا اور اس کے ہونٹوں پر بوسہ دے رہا تھا۔ سورج کی پہلی کرنیں جو درختوں کی
شاخوں سے چھن چھن کر آرہی تھیں اور جنھوں نےکہر کے پردے کو پھاڑ دیا تھا، ان محبت
کرنے والوں پر ایک سنہری روشنی پھینک رہی تھیں۔ یہ ہقینا" ایک نہایت عمدہ
منظر تھا۔
میں ان دنوں کی انٹیریاٹ کی ڈھلوانوں میں تصویر بنا رہا
تھا اور اس صبح مجھے کہر کا وہ منظر مل گیا جس کی مجھے ضرورت تھی۔ اچانک میرے
سامنے ایک آسیب ذدہ پیکر نمودار ہوا۔ وہ مس ہیریٹ تھی۔ جوں ہی اس نے مجھے دیکھا وہ
واپس دوڈ نے کو ہوئی۔ میں چیخا، "مس ہیریٹ یہاں آؤ۔ دیکھو! یہ تصویر دیکھو۔
وہ نہایت بے دلی سے میری طرف آئی۔ میں نے اسے اپنی تصویر دے دی۔ اس نے اس پر کچھ
نہ کہا بلکہ بہت دیر تک اسے گھورتی رہی، پھر اچانک پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ وہ اس
طرح رو رہی تھی جیسے وہ مدتوں ان آنسوؤں کو روکنے کی کوشش کرتی رہی ہو اور اب مزید
انھیں روکنا اس کی پرداشت سے باہر ہو گیا ہو۔ وہ ضبط کرنے کی بالکل کوشش نہیں کر
رہی تھی۔
میں اس جذبے کی شدت پر اُچھل پڑا۔ میں نے اس کے نہایت
محبت اور ہمدردی سے تھام لیا۔ اسی انداز میں جیسے عموما" فرانسیسی مرد بغیر
سوچےکوئی اقدام کر بیٹھے ہیں۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو میرے ہاتھوں میں رہنے دیا۔ اس
کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور اس کے ایک ایک رگ و ریشے میں کھنچاؤ کی کیفیت تھی۔ پھر
اس نے اپنے ہاتھ تیزی سے میرے ہاتھوں میں سے کھینچ لیے۔۔۔۔۔۔ ہاتھوں کی وہ لرزش، میں
غلطی پر نہیں تھا، میں فورا" سمجھ گیا تھا۔ وہ محبت میں گرفتار عورت کے
ہاتھوں کی لرزش تھی۔ خواہ وہ پندرہ برس کی ہو یا پچاس برس کی۔ خواہ وہ گھریلو عورت
ہو یا شمع محفل۔۔۔۔ میں خوب اچھی طرح جانتا تھا۔ اس کا پورا وجود لرز رہا تھا۔ پھر
وہ گھاس کے تنکوں کی طرح بکھر گئی اور یک لخت نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ میں دم بخود
کھڑا رہ گیا۔ لگتا تھا جیسے میں نے ابھی کوئی معجزہ دیکھا ہے یا پھر جیسے کوئی جرم
مجچھ سے سرزد ہوگیا ہے۔ میں دوپہر کے کھانے پر واپس نہیں کیا۔ میں پہاڑوں پر خاموش
اور افسردہ ٹہلتا رہا۔ میرا دل اس وقت رونے کو چاہ رہا تھا یا ہنسنے کو، مجھے خود
نہیں معلوم۔ اس وقت میری بڑی مضحکہ خیز اور پریشان کن حالت ہوگئی تھی۔ اگرچہ وہ
نہایت معمولی سی بات تھی لیکن میں جانتا تھا کہ وہ اس طرح پاگل ہو جائے گی۔ شام تک
میں ذہنی الجھنوں میں گرفتار رہا۔ پھر رات کو کھانے پر واپس سرائے میں لوٹا۔ ہم سب
حسبِ معمول کھانے کی میز پر بیٹھ گئے۔ مس ہیریٹ بھی وہاں موجود تھی۔ وہ نیچی نظریں
کیے نہایت خاموشی سے کھانا کھاتی رہی۔ اس کا اندازہ اور رویہ قطعا" معمول کے
مطابق تھا۔ میں کھانا ختم ہونے کا انتظار کرتا اور اس کے بعد میں نے خاتون خانہ سے
مخاطب ہو کر کہا:
"اچھا
مادام لیکاشر! اب میں بہت جلد تمھیں چھوڑ کر جانے والا ہوں۔"
وہ نیک عورت حیران و پریشان ہوکر بولی، "کیا مطلب
جناب! کیا آپ جارہے ہیں اب تو میں آپ کی بہت عادی ہوگئی تھی۔"
میں کن انکھیوں سے مس ہیریٹ کی طرف دیکھ رہا تھا لیکن
اس کے چہرے کا تجزیہ کرنا بہت مشکل تھا۔ البتہ وہ کم عمر ملازمہ سلسیتے مجھے بغور
دیکھ رہی تھی۔ وہ اٹھارہ سال کی گول مٹول لڑکی تھی۔ اس کا چہرہ نہایت شاداب تھا۔
وہ ایک گھوڑے کی طرح مضبوط اور طاقتور تھی اور دیہاتی عورتوں کے پر خلاف بے حد صاف
ستھری تھی۔ میں نے اکثر چھپا کر کونے کھدروں میں اس کا پیار لے لیا تھا، جو
عموما" اس طرح کی ملازماؤن کا لے لیا جاتا ہے۔
آخر کھانا ختم ہو گیا۔ میں اپنا پائپ لے کر باہر احاطے
میں نکل آیا اور سیب کے درختوں کے نیچے ٹہلنے لگا۔ میرے ذہن میں وہ تمام واقعات جو
آج دن بھر رونما ہوئے، یکے بعد دیگرے آنا شروع ہوگئے۔ صبح کا عجیب و غریب انکشاف۔
وہ مضحکہ خیز جذبات جو اس وقت میں نے محسوس کیے تھے۔ اس کم عمر ملازمہ کی وہ نظر
جو میرے جانے کے ذکر پر اس نے مجھ پر ڈالی تھی اور پرانی جوشیلی اور پیاری یادیں۔
ان سب نے میرے اعضا اور دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ مجھے اپنے ہونٹوں پر بوسوں کا
لمس اور خون میں وہ حرکت محسوس ہونے لگے جو کسی کو کچھ کر گزرے پر اکساتی ہے۔
رات سر پر آپہنچی تھی اور درختوں کے نیچے اندھیرا بڑھتا
جارہا تھا۔ میں نے اس وقت سلسیتے کو مرغیوں کا ڈربا بند کرنے کے لیے آتے دیکھا۔ میں
اتنی سرعت لیکن دبے قدموں سے اس کے قریب پہنچا کہ اسے بالکل خبر نہ ہوئی۔ جوں ہی
وہ مرغیوں کو ڈربے میں بند کر کے واپس پلٹی، میں نے اسے ہاتھوں میں جکڑ لیا اور
اسکے موٹے اور تروتازہ چہرے پر پیار کی بارش کر دی۔ وہ ہنستی رہی اور بظاہر میری
بانھوں سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی کیوں کہ یہ اس کے لیے کوئی ئی بات نہیں تھی۔
پھر نہ معلوم کیوں میں نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ چلی گئی۔ نہ
جانے کس طرح مجھے احساس ہوا کہ وہاں کوئی اور بھی موجود ہے۔ مس ہیریٹ وہاں آرہی تھی۔
اس نے ہم لوگوں کو پیار کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور وہ ٹھٹک کر اس طرح دم بخود کھڑی
ہوگئی تھی جیسے اس نے کسی بھوت پربت کو دیکھ لیا ہو اور پھر وہ اندھیرے میں غائب
ہوگئی۔
میں اندر گیا تو بے حد پریشان اور شرمندہ تھا۔ اگرچہ وہ
مجھے کوئی گناہ کرتے ہوئے پکڑلیتی تو شاید میں اتنا حیران نہ ہوتا جتنا اس کے اس
طرح دیکھ لینے پر ہوا۔ میں نہایت بےچین نیند سویا۔ میرے اعصاب ٹوٹ رہے تھے اور برے
برے خیالات رات پھر میرے ذہن کو پرگندہ کرتے رہے۔ مجھے لگا جیسے کوئی دروازہ کھول
کر باہر جارہا ہے۔ صبح ہوتے میں اس قدر تھک چکا تھا کہ میں بے خبر سوگیا اور دوپہر
کے کھانے تک نہ اُٹھ سکا۔ اس وقت بھی میں بہت بے چین تھا اور موقع کی نزاکت کو
نبھانا میرےبس سے باہر ہورہاتھا۔ مس ہیریٹ نظر نہیں آئی ہم لوگ بہت دیر اسکا
انتظار کرتے رہے لیکن وہ نہیں آئی۔ مادام لیکاشر نے اس کے کمرے میں جا کر دیکھا لیکن
وہ وہاں نہیں تھی۔ وہ وہاں نہیں تھی۔ ممکن ہے حسبِ عادت وہ طلوعِ آفتاب دیکھنے صبح
ہی چلی گئی ہو۔ اس سے زیادہ کچھ اور نہ سوچا گیا اور ہم لوگ خاموشی سے کھانا کھانے
لگے۔ وہ نہایت گرم دن تھا۔ کھانے کی میز باہر سیب کے درخت کے نیچے لگا دی گئی تھی۔
سیپر کو بار بار جگ میں پانی لانا پڑ رہا تھا کہ کیوں کہ ہر شخص کو بہت پیاس لگ رہی
تھی۔ سیلستے باورچی خانے سے اسٹوؤ، آلو، اُبلے ہوئے خرگوش کا گوشت اور سلاد کی
رقابیں باہر لارہی تھی۔ پھر اس نے موسم کی سب سے پہلی رس بھری کی پلیٹ لاکر میز پر
رکھ دی۔
میں نے اس سے کہا کہ مجھے ایک بالٹی میں پانی لاکر دے
تاکہ میں ان رس بھریوں کو پانی میں ڈال کر خوب ٹھنڈا کر سکوں۔ بانچ منٹ بعد اس نے
واپس آکر اطلاع دی کہ کنویں کا پانی خشک ہوگیا ہےکیوں کہ پوری رسی کنویں میں ڈالنے
کے باوجود ڈول کنویں سے خالی نکل آیا۔
مادام لیکاشر یہ سن کر خود کنواں دیکھنے چلی گئیں۔ وہ
نہایت غصے میں تھی۔ کنویں میں کچھ پڑا ہوا تھا۔ ان کو خیال ہوا کہ کسی پڑوسی نے
دشمنی میں کوڑا کنویں میں ڈال دیا ہے۔ میں صحیح اندازہ لگانے کے لیے کنویں کے پاس
گیا تو میری نظر کسی سفید چیز پر پڑی لیکن یہ سمجھ میں نہ آسکا کہ وہ کیا ہے۔
چنانچہ میں نے ڈوری میں لالٹین باندھ کر نیچے لٹکائی۔ ہم چاروں کنویں کی منڈیر پر
جھکے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ لالٹین کی روشنی ایک کالی اور سفید قسم کی چیز پر پڑی۔ سیپر
چلایا یہ گھوڑا ہے جناب، مجھے اس کا کھر نظر آرہا ہے۔ میرا خیال ہے وہ رات کو کھیتوں
سے بھاگ کر ادھر آیا اور اس میں گر پڑا۔
مادام لیکاشر اور سلیستے یہ سن کر چیخ مار کر بھاگ گئیں۔
صرف سیپر پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا کیوں کہ اس نے افریقہ میں بہت لاشیں دیکھی تھیں۔
ہمیں وہ لاش بہرحال کنویں سے نکالنا تھا۔ چنانچہ میں نے سیپر کی کمر میں ایک موٹا
سا رسا باندھ کر اسے کنویں میں اتارا اور اندھیرے میں اسے اندر اترتا دیکھتا رہا۔
اس کے ایک ہاتھ میں لالٹین اور ایک میں رسی تھی۔ تھوڑی دیر اس نے مجھے رکنے کے لیے
کہا۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس نے مس ہیریٹ کی دوسری ٹانگ بھی پانی سے کھینچ لی اور
دونوں ٹانگوں کو ملا کر ان میں رسی باندھ دی۔ پھر وہ چیخا۔ اب مجھے اوپر کھنچو۔ میں
نے اسے اوپر کھنچنا شروع کیا۔ میرے ہاتھوں میں انتہائی کمزوری محسوس ہورہی تھی۔
لگتا تھا کہ میرے اعصاب پر فالج کا اثر ہو گیا ہے۔ میں ڈر رہا تھا کہ کہیں رسا میرے
ہاتھ سے چھوٹ نہ جائے اور سیپر دوبارہ پانی میں نہ گر جائے۔ جوں ہی مجھے اس کا سر
نظر آیا، میں نے خیال کی تصدیق چاہی۔ اس کے بعد ہم دونوں نے رسی میں بندھی ہوئی
لاش اوپر کھینچنا شروع کر دیا۔
مادام لیکاشر اور وہ ملازمہ دور سے ہم لوگوں کو دیکھ رہی
تھیں۔ جوں ہی انھیں مس ہیریٹ کے سفید موزے اور کالے جوتے نظر آئے، وہ پھر غائب ہو
گئیں۔ سیپر نے مس ہیریٹ کے پیر پکڑ رکھے تھے اور ہم دونوں اس بیچاری کو بہت بھونڈے
طریقے سے گھسیٹ رہے تھے۔ اس کا سر اور چہرہ بالکل کچلا ہوا تھا اور مسخح ہوچکا
تھا۔ اس کے سفید بالوں کی لٹیں کیچڑ میں لت پت بے ترتیبی سے بکھری ہوئی تھی۔
سیپر بے حد حقارت سے بولا، "اف میرے خدا یہ تو
بالکل ڈھانچہ معلوم ہورہی ہے۔"
ہم دونوں اسے اس کے کمرے تک لے گئی۔ وہ دونوں عورتیں تو
پھر نظر ہی نہیں آئیں۔ چنانچہ میں نے اس لڑکے کی مدد سے اسے اس کے بستر پر لٹا دیا۔
میں نے خود اس کے مسخ شدہ چہرے کو دھویا۔ جب میں یہ سب
کر رہا تھا تو مجھے محسوس ہوا کہ اس نے ایک آنکھ کھولی۔ وہ دوسری دنیا سے سرد اور
بے جان نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ میں نے اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو کنگھی کرکے
باندھا اور اس کے ماتھے پر اس طرح سجا دیا جیسا زندگی میں کبھی نہیں سجایا گیا
ہوگا۔ میں نے اس کے کیچڑے سے بھرے ہوئے کپڑے اتارے۔ اس کا سینہ، اس کی سوکھی لمبی
بانہیں اور شانے پرہنہ ہوگئے۔ یہ سب ماچس کی تیلیوں کی طرح پتلے تھے۔ میں یہ سب
کرتے ہوئے ایسی شرمندگی محسوس کر رہا تھا جیسے میں نے کسی مقدس مقام کی بے ادبی
کردی ہو۔ اس کے بعد میں نے مختلف قسم کے پھول جمع کیے تاکہ اس کے تابوت پر سجائے
جاسکیں۔ تنہا ہونے کی وجہ سے تمام رسومات مجھے ادا کرنا تھیں۔ اس کی جیب سے ایک خط
نکلا جس میں یہ وصیت تھی کہ اس کو اسی گاؤں میں، جہاں اس نے زندگی کے آخری ایام
گزارے تھے، دفن کیا جائے۔ اور مجھے یہ سوچ کر بے حد صدمہ ہوا کہ اس نے یہ وصیت صرف
وجہ سے کی تھی۔
شام کے وقت گاؤں کی عورتیں اسے دیکھنے کے لیے آنے لگیں،
لیکن میں نے کسی کو اسے دیکھنے نہیں دیا۔ میں اس کے پاس تنہا رہنا چاہتا تھا اور
پوری قوت اس پر کڑی نظر رکھنا چاہتا تھا۔ میں موم بتی کی مدھم روشنی میں تمام رات
اس مجبور اور محروم عورت کو دیکھتا رہا جو اپنوں سے دور اجنبیوں میں اس بےبسی کی
موت مر گئی تھی۔ میں سوچتا رہا، کیا اس کے کوئی رشتےدار اور دوست ہوں گے؟ اس کا
بچپن کس طرح گزرا ہو گا؟ نہ جانے وہ کہاں سے آئی تھی۔ تنہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا کوئی
دوست نہ ہو۔ ایک کتے کی طرح۔۔۔۔۔ جس کو گھر سے دھتکار دیا گیا ہو۔ نہ جانے اس
بدصورت جسم میں کیا کیا مایوسیاں، غم اور راز پوشیدہ تھے۔ یہ بدنما جسم۔۔۔۔۔۔ جواس
کی روح پر ایک غلاف کی طرح چڑھا ہوا تھا۔ یہ مضحکہ خیز دردی ۔۔۔۔۔۔ جس نے اس کی
محبت اور پیار پر دھوکے کی تہ جما دی تھی۔
بعض انسان کتنے خوش قسمت ہوتے ہیں۔ میں اس وقت قدرت کے
اس ستم پر غور کر رہا تھا جس نے ایک انسانی روٖح کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ اب وہ ختم
ہوچکی تھی اور اسے تمام زندگی محبت یا سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آیا تھا۔ اب
وہ ختم ہوچکی تھی اور اسے تمام زندگی محبت یا سکون کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آیا
تھا۔ جب ہی تو وہ تمام انسانی تعلقات سے الگ تھلگ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ قدرت کی
ہر چیز سے محبت کرنے کے باوجود مردوں سے بات کرتے ڈرتی تھی۔ اب میری سمجھ میں آرہا
تھا کہ وہ خدا پر اتنا پختہ یقین کیوں رکھتی تھی۔ یقینا" وہ سمجھتی تھی کہ اس
زندگی کی محرومیوں کے بدلے میں دوسری دنیا میں اسے اچھا اجر ملے گا۔ اب وہ ختم
ہوچکی تھی۔ اب اس کے جسم کی خاک سے دوبارہ برگ و گل اُگیں گے۔ اس کی خاک سے دوبارہ
پیدا ہونے والے پتے مویشیوں کی غذا بنیں گے اور بیج دوسری شکلوں میں ڈھل ڈھل کر
دوسرے انسانی جسموں میں پہنچیں گے۔ لیکن اس کی روح تو کچلی جاچکی تھی۔ اب اس کی
مشکلات کا خاتمہ ہو چکا تھا۔
اس نے اپنی زندگی کو دوسروں کی زندگی کے لیے قربان کر دیا
تھا۔
میں اسے بغور دیکھتا رہا اور وقت دھیمے دھیمے گزرتا
رہا۔ ایک ہلکی سی روشنی نے نئی صبح کی آمد کی اطلاح دی۔ جلد ہی سورج کی کرنیں اس
کے بستر پر پھیل گئیں۔ اس کی چادر اور اس کے ہاتھ میں نہا گئے۔
یہ وہی لمحہ تھا جو اسے سب سے زیادہ عزیز تھا۔ چڑیاں نئی
صبح کے گیت گارہی تھیں۔
میں نے کھڑکی پوری طرح کھول دی۔ پردے ہٹا دیے تاکہ آفاقی
نگاہیں ہم دونوں کودیکھ سکیں۔ میں اس سرد جسم پر جھکا اور اس کے مسخح شدہ چہرے کو
اپنے ہاتھوں میں لے کر نغیر کسی جھجک یا کراہت کے اس کے ہونٹوں پر ایک طویل بوسہ دیا۔
وہ بوسہ جو شاید اس کے ہونٹوں پر پہلا اور آخری بوسہ تھا۔"
* * * * * * * *
موسیوں شینال نے اپنی کہانی ختم کی تو بگھی میں بیٹھی
ہوئی تمام خواتین سسکیاں بھر رہی تھیں۔ کومیٹ جو اوپر کی نشست پر بیٹھا ہوا تھا،
زور زور سے اپنی ناک صاف کررہا تھا۔ صرف کوچوان ہی ایک شخص تھا جو اس وقت بھی
اونگھ رہا تھا۔
گھوڑے اپنی پیٹھ پرچابک کی مار نہ پا کر بہ مشکل چل رہے
تھے ۔ بگھی تقریبا" رُک چکی تھی۔ محسوس ہوتا تھا کہ ہر شے، جان دار یا بے
جان، غم کی شدت سے نڈھال ہوگئی تھی۔
(انگریزی سے اردو ترجمہ)
English Title: Miss
Harriet
Written by:
Guy de Maupassant
(5 August 1850 – 6 July 1893) was a French writer, remembered as a master of
the short story form, and as a representative of the naturalist school of
writers, who depicted human lives and destinies and social forces in
disillusioned and often pessimistic terms.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment