کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : ماپارکر کی زندگی (Life of Ma Parker)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 280 : ماپارکر کی زندگی

تحریر : کیتھرین مینسفیلڈ (نیوزی لینڈ)

مترجم : ڈاکٹر صہبا جمال شازلی (نیوزی لینڈ)




ماپارکر ہر منگل اس ادبی شخصیت کے فلیٹ پر صفائی کے کام پر مامور تھی۔حسب معمول جب وہ اس صبح آئی تو صاحب نے دروازہ کھولا اور اس کے پوتے کے بارے میں پوچھا۔ماپارکرنے اندھیرے ہال میں داخل ہو کر ، دروازہ بند کرنے میں صاحب کی مدد کی۔”ہم نے اسے کل دفن کردیا ، جناب ،” اس نے خاموشی سے جواب دیا۔

“ اوہ ، پیارا بچہ! افسوس ہوا جان کر ، “ صاحب نے چونکتے ہوے کہا۔وہ ایک خستہ اور پرانا گاؤن پہنے ، ہاتھ میں مڑا ہوا اخبار لیے ناشتہ کررہے تھے۔ایک رسمی جملہ کہہ کر وہاں سے اٹھ کر چلا جانا انھیں عجیب سا لگ رہا تھا۔ انھیں اپنی گرم نشست گاہ میں جانے سے پہلے کچھ اور کہنا چاہیے___ کچھ اور۔کیونکہ یہ لوگ تدفین کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔لہٰذہ انھوں نے بڑی ہمدردی سے کہا ، “ مجھے امید ہے تدفین اچھی طرح ہو گئی ہوگی۔”

“ معاف کیجیےگا ، جناب ؟” ماپارکر نے بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔

بیچاری بڑھیا ، جو پوری طرح سے ٹوٹ چکی تھی۔” امید ہی تدفین اچھی طرح سے ہوچکی ہوگی ، “ صاحب نے کہا۔ماپارکر نے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ جھک کر باورچیخانہ صاف کرنے میں لگی رہی ___مچھلی کی خالی تھیلیاں ، صفائی کرنے کی اشیاء ، ایپرن ، جوتے سمیٹتے ہوے۔صاحب نے اپنی بھنویں چڑھایں اور پھر ناشتہ کی طرف متوجہ ہو گیے۔

“ شائد اپنے غم پر قابو پا لیا ہو ،” انھوں نے پھلوں کا مربہ لیتے ہوے اونچی آواز میں کہا۔

ماپارکر نے اپنی ٹوپی سے سیاہ اور چمکدار ، مچھلی پکڑنے والے دو اوزار نکالے اور دروازہ کے پیچھے لٹکا دیے۔پرانا جیکٹ نکال کر وہ بھی ٹانگ دیا۔پھر ایپرن پہن کر جوتے نکالنے کے لیے بیٹھ گئی۔جوتے پہننا اور جوتے نکالنا ، اس کے لیے بڑی مصیبت تھی ___مصیبت جو وہ برسوں سے سہتی رہی تھی۔حقیقت میں وہ اس درد کی اتنی عادی ہوچکی تھی کہ اس کے آثار اس کے چہرے پر پہلے سے ہی نمودار ہوتے تھے جب وہ جوتوں کے تسمے کھولنے لگتی تھی۔اور پھر ایک گہری سانس لیتے ہوے بیٹھ جاتی اور اپنے گھٹنوں کو سہلانے لگتی تھی۔

“دادی ، دادی! ۔”اس کا پوتا کھیلتا ہوا ، دوڑتا ہوا آکر جوتوں سمیت اس کی گود میں کھڑا ہوجاتا تھا۔

“ دیکھو تم نے میرے کپڑوں کا کیا حال کردیا ___ نالائق لڑکے!”

لیکن وہ اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال کر اسکے گالوں سے خود کے گالوں کو رگڑنے لگتا۔

“ دادی ، مجھے ایک پینی (penny) دے دو !” وہ خوشامند کرنے لگتا۔

“ چلے جاؤ یہاں سے ؛ دادی کے پاس کوئی پیسے نہیں ہیں۔”

“ ہاں ، ہیں آپکے پاس۔”

“ نہیں ، میرے پاس نہیں ہے۔”

“ ہاں ،ہیں آپ کے پاس۔ دادی ایک دے دو نا !”

وہ پہلے ہی سے اپنے پرانے ، فرسودہ ،چمڑے کے پرس کو ٹٹولنے لگی تھی

“ ٹھیک ہے۔ تم اپنی دادی کو کیا دوگے؟”

وہ شرما کر ، ہنستے ہوے دادی کو لپٹ گیا۔اس نے محسوس کیا کہ اسکی پلکیں اس کے گالوں کے ساتھ لگ کر تھرتھرا رہی تھیں۔” میرے پاس پیسے نہیں ہیں، “ وہ آہستہ سے بڑبڑایا۔

بڑھیا تیزی سے اٹھی ، گیس اسٹو سے لوہے کی کیتلی اٹھا کر سنک میں ڈال دیا دھونے کے لیے۔لگتا تھا کیتلی میں گرتے ہوے پانی کی آواز نے اس کا درد ہی ختم کردیا ہو۔اس نے پانی کی بالٹی اور کپڑے دھلنے کے لیے رکھے برتن میں بھی پانی بھر لیا۔

ہفتہ بھر میں وہ ادبی شخصیت باورچی خانہ کا کیا حال بنا رکھتا تھا ، اس کو بتانے کے لیے شائد ایک پوری کتاب درکار ہوگی۔چاۓ کی ساری پتی جام(jam) کے خالی شیشے میں الٹا دی ، اور جب صاف کانٹے نہ ملیں تو گندے کانٹوں کو ہاتھ پوچھنے والی توال سے صاف کر لیا۔ ویسے وہ اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا کہ گھر کو سنبھالنا کوئی مشکل کام نہیں ۔ لوگ خوامخواہ ہنگامہ مچاتے ہیں۔

“ آپ بس سارے برتن خراب کرتے جائیں ، اور اس سارے غلاظت کے انبار کو ہفتہ میں ایک بار صاف کرلیں اور آپکا کام ختم۔”

نتیجتاً ایک دیوہیکل جسامت کا کچرے کا ڈبہ وہاں کھڑا تھا۔فرش سارا ڈبل روٹی کے بچے ٹکڑوں ، لفافوں اور سگریٹ کے ٹکڑوں سے بھرا پڑا ہوتا۔ لیکن ماپارکر بالکل بھی برا نہیں مانتی تھی۔بلکہ اس کے لیے اپنے دل میں ہمدردی محسوس کرتی کہ بیچارے کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں۔دھندلائی کھڑکی سے غمگین آسمان کی لامتناہی وسعت دیکھائی دیتی ، اور جب کبھی بھی بادل آجائیں تو وہ تھکے ہوے پرانے بادلوں نے ، ایک دوسرے سے رگڑ کر جیسے سوراخ پیدا کرلیے ہوں یا شائد چاۓ کے گہرے دھبے ہوں۔

پانی کے گرم ہونے تک ماپارکر فرش پر جھاڑو لگانے لگتی۔ جب کبھی بھی جھاڑو کسی چیز سے ٹکراتی ، وہ سوچتی “ ہاں ، میرے دکھ کا حصہ ضرور ہے۔ بڑی مشکلوں سے بھری زندگی ہے۔”

یہاں تک کہ اس کے پڑوسی بھی اس کے بارے میں یہی راۓ رکھتے تھے۔کئی مرتبہ جب وہ لنگڑاتی ہوئی ، بڑا سا سامان کا تھیلا اٹھاے گھر کی طرف آتے ہوے ، نکڑ پر کھڑے یا جنگلے پر جھکے لوگوں کی باتیں سنتی ، “ ماپارکر بڑی مشکل زندگی گذارتی ہے۔” اور یہ سچ بھی تھا کہ اس کے پاس فخر کرنے جیسی کوئی بات نہیں تھی۔وہ بیسمنٹ کے پچھلے حصہ میں نمبر ۲۷ میں رہتی تھی۔ واقعی سخت زندگی!…………

ماپارکر سولہ سال کی عمر میں اسٹریٹ فورڈ (Stratford) چھوڑ کر لندن ، ملازمہ کے طور پر کام کرنے کے لیے ، آچکی تھی۔ہاں وہ اسی اسٹریٹ فورڈ-آن-ایون (Stratford-on-Avon) میں پیدا ہوئی تھی جو شیکسپیر کی جاۓ پیدائش تھی۔لوگ اس سے ہمیشہ شیکسپیر کے بارے میں پوچھتے ، لیکن اس نے تو کبھی نام بھی نہیں سنا تھا جب تک کہ اس نے تھیٹرس میں اس کا نام دیکھا۔

ویسے اسٹریٹ فورڈ کی بھی کچھ ہی یادیں باقی تھیں۔”جیسے شام میں آتشدان کے پاس بیٹھ کر چمنی سے تاروں کو دیکھنا ، ماں کا بیکن کو اوپر لٹکاے رکھنا ۔” سامنے کے دروازہ کے قریب اگنے والی جھاڑیاں جن سے بڑی اچھی خوشبو آیا کرتی تھی۔لیکن جھاڑیوں کی یاد بہت مبہم سی تھی۔اس نے بس دو ایک بار ہی یاد کیا تھا جب وہ اسپتال میں تھی۔

اس کے رہنے کی پہلی جگہ کافی ناخوشگوار تھی۔اسے کبھی باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔چونکہ وہ نمائش کے تہہ خانہ میں رہتے تھے اس لیے صرف صبح اور شام عبادت کے لیے اوپر جانے کی اجازت تھی۔اور باورچن بہت ہی ظالم عورت تھی۔وہ اس کے گھر سے آے سارے خطوط چھین کر آگ میں ڈال دیا کرتی تھی کیونکہ وہ اسے خیالوں میں گم کردیا کرتے تھے۔اور بھنورے ! شائد آپ یقین نہ کریں ، لندن آنے سے پہلے اس نے کبھی کالے بھنورے نہیں دیکھے تھے۔اس پر ماپارکر ہنس دیا کرتی تھی۔کالے بھنوروں کو نا دیکھنا ! خیر یہ ایسی ہی بات ہوئی کہ آپ نے کبھی خود کے پیر نہ دیکھے ہوں۔

جب وہ لوگ گھر فروخت کر کے چلے گیے ، تب ماپارکر ملازمہ کے طور پر ایک ڈاکٹر کے گھر رہنے لگی ۔ دو سال کے بعد اس نے ایک بیکر سے شادی کر لی۔

“ ایک بیکر، مسز پارکر!” ادبی شخص پوچھا کرتا تھا۔ کبھی کبھار وہ اپنی ضخیم کتابیں بازو رکھ کر اس کی باتیں سنا کرتا۔ یہ تیارکردہ چیز ‘زندگی ‘کہلاتی ہے۔” کسی بیکر سے شادی کرنا واقعی بہتر تھا۔ “

مسز پارکر بہت زیادہ پریقین نہیں تھی۔

ادبی شخص نے کہا ،” بہت صاف ستھرا کاروبار۔”

مسز پارکر کچھ نہ سمجھ پائی۔

“ اور کیا تمھیں پسند نہیں گاہکوں کو ڈبل روٹی دینا؟”

“ ٹھیک ہے ، جناب ، “ مسز پارکر نے بتایا ، “لیکن زیادہ تر میں دوکان پر نہیں ہوا کرتی تھی۔ہمارے تیرہ(۱۳) بچے تھے جن میں سے سات(۷) انتقال کرگیے۔میں اکثر چھوٹے بڑے دواخانوں میں ہوا کرتی تھی۔”

“ ہاں ، ہاں ، بے شک ،!” کہہ کر ، خوف سے کپکپاتے ہوے شریف انسان نے دوبارہ اپنا قلم اٹھالیا۔

سات بچے گذر گیے اور چھے بہت چھوٹے تھے تب ہی اس کا شوہر کو تپ دق لاحق ہوگیا۔ڈاکٹر نے مسز پارکر کو بتایا کہ دراصل اس کے پھینپڑوں میں آٹا بھر گیا تھا۔پھر ڈاکٹر نے اسکے شوہر کی پیٹھ پر اپنی انگلی سے ایک دائرہ بناتے ہوے کہا ، “اگر ہم نے یہاں پر آپریشن کیا تو دکھائی دیگا کہ اس کے پھینپڑوں میں سفید پاؤڈر پوری طرح سے بھر گیا ہے۔سانس لو ، بھائی!” بیچاری مسز پارکر کبھی نہیں جان پائی کہ کیا اس نے سچ مچ دیکھا یا صرف اسکا خیال تھا کہ اس کے چہیتے شوہر کے منہ سے سفید گرد اڑ کر نکلی………

لیکن چھے بچوں کی پرورش اور خود کو سنبھالے رکھنے کی جد و جہد واقعی ایک بے حد مشکل کام تھا۔جب بچے اسکول جانے لگے تب اس کے شوہر کی بہن آکر رہنے لگی تاکہ اس کی کچھ مدد ہوجاے۔بدقسمتی سے نند کو دو ہی مہینے ہوے تھے کہ وہ سیڑھیوں سے گر پڑی اور ریڑھ کی ہڈی زخمی ہو گئی اور اگلے پانچ سال تک وہ اپنی نند کو ایک روتے ہوے بچے کی طرح سنبھالتی رہی۔ پھر ماڈی(Maudie) نے کچھ غلط عادتیں اپنالیں اور بہن ایلس(Alice) کو لیکر کہیں چلا گیا۔دو لڑکے کسی دوسرے ملک کو ہجرت کر گیے۔چھوٹا جم(Jim) فوج میں شامل ہو کر انڈیا چلا گیا۔اور سب سے چھوٹا ایتھل(Ethel) ، اس نے ایک بیکار سی ویٹر سے شادی کی جو لینی(Lennie) کی پیدائش کے ساتھ ہی السر سے متاثر ہو کر اس دنیا سے کوچ کر گئی۔اور اب یہ چھوٹا سا لینی__اس کا پوتا………

استعمال شدہ گندے کپ ، پلیٹیں دھو کر خشک کردیے گیے ۔کالی چھریوں کو آلو کے ٹکڑے سے صاف کرنے کے بعد شاہ بلوط کی چھال سے مزید صاف کردیا گیا۔کھانے کی میز اور سنگھار میز رگڑ کر صاف کرنے کے بعد سنک بھی صاف کردیا گیا جس میں چھوٹی مچھلیوں کی دمیں تیر رہی تھیں۔

لینی کوئی صحت مند بچہ نہیں تھا۔ چاندی سی چمکتی زلفوں ، نیلی آنکھوں، اور ناک کی ایک طرف ہیرے کی طرح چمکتے ہوے داغ کے ساتھ وہ ان گورے بچوں میں سے تھا جسے کوئی بھی اپنی لڑکی کے لیے پسند کرلیتا۔ماپارکر اور ایتھل کے لیے اس کی پرورش کرنا ایک مسلہ تھا۔اخبارات میں دیے گیے اشتہارات کی چیزوں کا استعمال بھی بےسود رہا۔ہر اتوار کو ایتھل اپنی ماں کو اشتہارات پڑھ کر سناتا جب وہ کپڑے دھورہی ہوتی۔

“ جناب_____ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ھیکہ میری مائرٹل(Myrtil) تقریباً موت کے قریب تھی۔اس دوا کی چار بوتلوں کے استعمال نے نو ہفتوں میں اس کے وزن میں آٹھ پاؤنڈ کا اضافہ ہوا۔اور اب بڑھتا ہی جارہا ہے۔”

فوراً ہی خط لکھا گیا اور پارسل منگوا کر دوسرے ہی دن سے اس کا استعمال شروع کردیا گیا۔لیکن اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوسکا۔کوئی بھی دوا یا تدبیر ننھے لینی کو تندرست نہیں کرپائی۔یہاں تک کہ قبرستان بھی لیجایا گیا لیکن کوئی فرق نہ پڑا۔بس کے جھٹکے بھی اس کی بھوک کو بڑھانے میں کوئی خاص مددگار ثابت نہ ہو سکے۔

لیکن وہ تو بس ابتدا ہی سے اپنی دادی کا پوتا تھا………

“ تم کس کے لڑکے ہو؟” ماپارکر نے خود کو چولھے کے اوپر سے سیدھی ہو کر دھندلی کھڑکی کے پاس جاتے ہوے پوچھا۔اور ایک ہلکی سی، گرم اور بہت قریب سے ، جیسے اس کی سانس ہی رک گئی ہو، جیسے اس کے دل کے اندر سے ____ کوئی ہنس دیا اور کہا ، “ میں اپنی دادی کا بیٹا ہوں!”

اسی لمحہ کسی کے قدموں کی آواز آئی ،ادبی شخصیت سیر کو جانے کے لیے کپڑے تبدیل کر کے نمودار ہوے۔

“ مسز پارکر میں باہر جارہا ہوں۔”

“ ٹھیک ہے جناب۔”

“ اور تمھارا آدھا کراون(half crown) میں نے سیاہی کی دوات کی کشتی میں رکھ دیا ہے۔”

“ بہت شکریہ ، جناب۔”

“ ویسے ، مسزپارکر ،” ادبی شخصیت نے پوچھا،” کہیں میرا کوکوا (cocoa) تم نے تو نہیں پھینک دیا تھا جب تم گذشتہ یہاں تھیں ___ پھینکا تھا؟”

“ نہیں ، نہیں ،جناب۔”

“ تعجب ہے۔مجھے یقین ہے کہ تھوڑا سا کوکوا ڈبہ میں چھوڑ رکھا تھا۔” پھر نرمی کے ساتھ کہا ، “ آئندہ تم کبھی بھی مجھے بتاے بغیر کوئی چیز نہیں پھینکوگی۔”

اور وہ چلا گیا ،کافی خوش اور مطمئن کہ اس نے مسز پارکر کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ وہ گھریلو کاموں میں بے حد لاپرواہ ہی صحیح لیکن وہ ایک عورت کی طرح چوکنا اور محتاط بھی تھا۔

دروازہ کے بند ہونے کی آواز آئی۔مسز پارکر صفائی کے لیے اپنے برش اور کپڑے لیکر بیڈ روم میں چلی گئی۔بستر ٹھیک کرتے ہوے لینی کے خیال نے اسے پریشان کردیا۔وہ کیوں اتنی تکلیف سہے؟ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔فرشتہ جیسے بچے کو آخر کیوں اپنی سانسوں کے لیے لڑنا پڑتا ہے؟ بچہ کی اس تکلیف کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

لینی کے سینہ سے کسی چیز کے ابلنے کی آوازیں آتی رہتیں۔اس کے سینہ میں کسی قسم کی گانٹھ بن چکی تھی جس سے بلبلے نکلتے رہتے اور اس تکلیف سے وہ شائد کبھی چھٹکارہ حاصل نہیں کر پاے۔جب وہ کھانستا تھا تو لگتا تھا کہ آنکھیں باہر نکل پڑینگی۔اس کی آنکھیں سوج کر باہر کو نکل آئی تھیں اور سینہ کی گانٹھ اس طرح سے آوازیں کرتی رہتی جیسے ابلتا ہوا آلو برتن سے ٹکراتا ہو۔اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ تھی کہ جب وہ نہیں کھانس رہا ہوتا ، تو تکیہ کے سہارے بس خاموش بیٹھا رہتا۔ وہ سنتا تو رہتا لیکن ناراضگی کا تاثر دیتا ۔

“ میرے لال ،یہ سب تمھاری غریب دادی نہیں کررہی ہے ،” اس کے گیلے بالوں کو اس کے سرخ کانوں کے پیچھے ہٹاتے ہوےمسز پارکر نے کہا۔لیکن لینی سر ہٹاتے ہوے دور چلا گیا۔وہ خوفناک طور پر ناراض اور سنجیدہ دکھائی دے رہا تھا۔اس نے سر جھکا لیا اور ترچھی نظروں سے ایسے دیکھ رہا تھا جیسے اسے اپنی دادی کی باتوں پر یقین نہیں تھا۔

آخر مسز پارکر نے چادر بستر پر پھینکی۔اب وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔اس کی قوت برداشت تقریباً ختم ہو چلی تھی۔ وہ مسلسل برداشت کیے جاری تھی بغیر کوئی شکوہ کیے۔کسی نے اسے روتا ہوا نہیں دیکھا۔یہاں تک کہ اس کے اپنے بچوں نے زیادتیاں کیں تب بھی وہ نہیں ٹوٹی۔چہرہ ہمیشہ فخر سے بھرپور رہا۔لیکن اب لینی چلا گیا۔کیا رہا اس کے پاس ؟ کچھ بھی تو نہیں۔لینی کے سواے اس کے پاس تھا ہی کیا؟ وہ خدا نے اس سے چھین لیا۔وہ حیران تھی یہ سب اسی کے ساتھ کیوں ہوا؟ “ آخر میں نے کیا کیا؟”ماپارکر نے کہا۔” آخر میں نے کیا کیا؟”

ان جملوں کو کہتے ہوے اس کے ہاتھ سے برش چھوٹ گیا اور جب اسے پتہ۔ لا کہ وہ باورچی خانہ میں تھی۔اسنے اپنی ٹوپی اور جیکٹ پہنی اور فلیٹ سے اس طرح باہر نکلی جیسے خواب میں چل رہی ہو۔اسے بالکل پتہ۔ نہیں تھا وہ کیا کر رہی تھی۔وہ ایسے حواس باختہ ہو کر چلی جارہی تھی جیسے اس نے کوئی خطرناک منظردیکھ لیا ہو۔وہ بس چلی جارہی تھی ___ کہیں بھی ، جیسے چلے جانے سے اسے غموں سےچھٹکارہ مل جائیگا………

باہر یخ بستہ ہواؤں کی وجہ سے سردی کی شدت میں کافی اضافہ ہو گیا تھا۔لوگ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔کوئی کسی کی پرواہ کیے بغیر ___ مرد قینچی کی طرح تیز جب کہ خواتین بلی کی طرح پاؤں دباتے ہوے۔کوئی کسی کو نہیں جانتا ، کوئی کسی کی پرواہ نہیں کرتا ۔ ان تمام برسوں میں جب بھی مسز پارکر ٹوٹ کر رونا چاہتی تو خود کو کسی کمرے میں مقفل کرلیا کرتی تھی۔

رونے کے خیال سے ہی اسے محسوس ہونے لگتا جیسے لینی اس کی بانہوں میں اچھل کود رہا ہو۔یہی سب تو وہ کرنا چاہتی تھی اپنے کبوتر کے ساتھ۔دادی روناچاہتی تھی۔اگر وہ اس وقت رونا چاہتی تو بہتر ہے کہ وہ کافی دیر تک ہر بات پر رو لے ___ اس کی پہلی ملازمت سے شروعات کرکے اس ظالم کوک(cook) ، ڈاکٹر کے گھر ،پھر وہ سات بچوں کی موت ، شوہر کی موت ، اس کے بچوں کا چھوڑ کر چلاجانا اور وہ سارے مصیبتوں سے بھرے سال جو لینی کے ساتھ گذرے۔لیکن ان سب کے لیے ایک مناسب چیخ نکالنے کے لیے کافی وقت درکار تھا۔ایسے ہی جیسے اب اس کا وقت آچکا تھا۔اسے یہ کرنا ہی ہوگا۔اس کو مزید آگے نہیں ہٹایا جاسکتا۔ اسے اور زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں۔وہ آخر کہاں جاسکتی تھی۔

“ بڑی سخت زندگی گذاری تھی ما پارکر نے۔” ہاں ، بے شک ،مشکلات سے بھری ۔ اس کی ٹھوڈی تک ہلنے لگی تھی۔مزید وقت گنوایا نہیں جاسکتا تھا۔لیکن کہاں ؟ آخر کہاں؟

وہ گھر تو نہیں جاسکتی تھی ؛ کیونکہ ایتھل وہاں تھا۔ہوسکتا ہے کہ ایتھل ڈر کر وہ بھی اس کی زندگی سے چلا جاے۔وہ کہیں کسی بنچ پر نہیں بیٹھ سکتی تھی ،کیونکہ آتے جاتے لوگ ہزاروں سوالات پوچھ سکتے تھے۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ اس شریف انسان کے فلیٹ پر گئی ہو۔وہ کبھی اجنبیوں کے سامنے اپنے دکھوں کو بیان کر کے نہیں رو سکتی۔اگر وہ کہیں سیڑھیوں پر بیٹھی ہو تو کوئی پولیس والا تفتیش کرنا شروع کردیگا۔

اوہ ، کیا ایسی کوئی جگہ ہوسکتی تھی جہاں وہ خود کو چھپا سکے اور خود کے وجود کے ساتھ جب تک چاہے رہے ، نہ وہ کسی کو پریشان کرے اور نہ ہی کوئی اسے ؟ کیا دنیا میں ایسی کوئی جگہ نہیں تھی جہاں وہ بلاآخر اپنی دبی ہوئی چیخ نکال سکے ؟

ماپارکر بس کھڑی تھی ، اوپر اور نیچے دیکھتی ہوئی۔یخ بستہ ہوائیں اس کا ایپرن غبارے کی طرح اڑا لے گئیں۔بارش شروع ہوگئی۔وہ جگہ کہیں نہیں تھی۔



Original Title: Life of Ma Parker

Written by:

Kathleen Mansfield Murry (14 October 1888 – 9 January 1923) was a prominent New Zealand modernist short story writer and poet who was born and brought up in colonial New Zealand and wrote under the pen name of Katherine Mansfield. At the age of 19, she left New Zealand and settled in England, where she became a friend of writers such as D. H. Lawrence and Virginia Woolf. Mansfield was diagnosed with extrapulmonary tuberculosis in 1917; the disease claimed her life at the age of 34.


#Dr_Sahba_Shazli

 

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق