خوشونت سنگھ کا افسانہ : فلسفۂ عمل (KARMA )
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 295 :
فلسفۂ عمل
تحریر : خوشونت سنگھ (
بھارت)
ترجمہ : ڈاکٹر صہبا
جمال شاذلی (نیوزیلینڈ)
سر موہن لال نے ریلوے
اسٹیشن کی فرسٹ کلاس انتظار گاہ کے آئینہ میں اپنے آپ پر ایک نظر ڈالی۔آئینہ چونکہ
ہندوستان میں بنا تھا ، لہٰذا اس کے پیچھے لگا سرخ آکسائیڈ (red oxide) جگہ جگہ سے نکل چکا تھا۔اور آئینہ کی بیرونی نیم شفاف سطح پر آڑی
ترچھی لکیریں ابھر آئی تھیں۔ سر موہن نے ایک رحم دلانہ اور مشفقانہ مسکراہٹ کے
ساتھ دیکھا۔
" تم بھی اس ملک
کی اور چیزوں کی طرح نااہل ، آلودہ اور لاتعلق ہو ۔" وہ بدبداے۔
آئینہ بھی جواب میں سر
موہن کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔
"تم ، بیوقوف شخص
، شایدکچھ حد تک صحیح ہو ۔" آئینہ نے کہا۔"ممتاز ، قابل ، یہاں تک کہ
وجیہہ۔ان سنوری ہوئی موچھوں کے ساتھ ، سیول رو(Saville Row) کے گلابی پھول سے سجے اس سوٹ کے ساتھ ___او ڈو کولون( eau de cologne) ، ٹیلکم پاؤڈر ، اور
خوشبو دار صابن کی مہک کے ساتھ تم ! ہاں تم ، بیوقوف شخص ، تم کسی حد تک صحیح
ہو۔"
سر موہن نے سینہ کو
پھیلا کر اپنی بیلیل (Balliol) کی ٹائی کو متعدد بار
سہلایا اور ہاتھ ہلا کر آئینہ کو الوداع کہہ دیا۔
اس نے گھڑی پر نظر
ڈالی۔ ابھی کچھ وقت تھا۔اس نے آواز دی ، " کوئی ہے !"
جالی کے دروازہ سے ،
سفید وردی میں ملبوس ملازم داخل ہوا۔
"ایک چھوٹا
،"سر موہن نے آرڈر دیا اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ،بانس کی کرسی پر
آرام سے بیٹھ گیے ۔
انتظار گاہ سے باہر ،سر
موہن لال کا سامان دیوار سے لگا رکھا تھا۔ ایک اسٹیل کے صندوق پر لچھمی ، موہن لال
کی بیوی پان کھاتی ہوئی اور اخبار سے پنکھا کرتی بیٹھی تھی۔وہ ایک چالیس سال کے آس
پاس ،چھوٹے قد کی ، فربہ عورت تھی۔
وہ لال بارڈر کی سفید
میلی سی ساری میں ملبوس ، ناک میں ہیرے کی نتھنی اور ہاتھوں میں بہت ساری سونے کی
چوڑیاں پہنے ملازم سے باتیں کر رہی تھی۔باتوں کا سلسلہ اس وقت قطع ہوگیا جب موہن
لال نے اس ملازم کو اندر بلا لیا۔پھر لچھمی نے پلیٹ فارم پر گذرتے ہوے قلی کو
بلایا۔
"زنانہ ڈبہ کہاں
رکے گا ؟"
" سیدھے پلیٹ فارم
کے آخر پر۔"
قلی نے اپنی پگڑی کو
تھوڑا سا پھیلایا اور اسٹیل کا صندوق اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لیا ، اور پلیٹ فارم
پر آگے بڑھنے لگا۔مسز لال بھی پیتل کا توشہ دان اٹھاکر سبک رفتاری سے قلی کے پیچھے
چلنے لگیں۔راستہ میں ایک اسٹال پر رک کر اپنے پاندان کو پُر کرلیا ،اور پھر سے قلی
کے ساتھ چلنے لگی۔قلی نے صندوق نیچے رکھا ،مسز لال اس پر بیٹھ گیں اور قلی سے
باتیں کرنے لگیں۔
"کیا اس راستہ پر
ٹرینوں میں ہجوم ہوتا ہے ؟"
"آج کل تو ساری ہی
ٹرینوں پر بھیڑ ہوتی ہے ، لیکن آپ کو زنانہ ڈبہ میں جگہ مل جائیگی۔"
" میرے خیال سے
بہتر ہوگا کہ میں کھانے کے مسٔلہ کو حل کرلوں۔"
مسز لال نے پیتل کا
توشہ دان کھولا ، اینٹھی ہوئی چپاتیوں کا پلندہ اور آم کا اچار نکالا۔اس کے کھانے
تک ، قلی بھی وہیں زمین پر بیٹھ گیا اور وقت گذاری کے لیے ریت پر لکیریں بنانے
لگا۔
"بہن ، کیا آپ
اکیلی سفر کر رہی ہیں ؟"
"نہیں بھائی ، میں
تو اپنے شوہر کے ساتھ ہوں۔ وہ انتظار گاہ میں ہیں۔وہ فرسٹ کلاس میں سفر کرتے
ہیں۔دراصل وہ ایک بیرسٹر اور وزیر ہیں ، اس لیے انھیں ٹرین میں بھی کئی اعلیٰ
عہدیداروں اور انگریزوں سے ملنا ہوتا ہے۔میں تو سادی سیدھی دیسی عورت ہوں۔ نہ میں
انگریزی زبان سمجھتی ہوں اور نہ ہی ان کے طور طریقوں سے واقف ہوں ، اس لیے زنانہ
ڈبہ میں سفر کرنا میرے لیے زیادہ آرام دہ ہے۔"
لچھمی گپ شپ کی دلدادہ
خاتون تھی ۔گھر میں تو اس سے کوئی بات کرنے والا تھا نہیں ، لہٰذا وہ قلی سے بات
کرتے ہوے کافی خوشی محسوس کر رہی تھی۔شوہر کے پاس تو بیوی کے ساتھ گذارنے کے لیے
وقت تھا ہی نہیں۔گھر کی اوپر والی منزل پر وہ ہوتی اور نچلی منزل پر اس کا
شوہر۔مسٹر لال کو قطعی پسند نہیں تھا کہ بیوی کے غریب ، ان پڑھ رشتہ دار ان کے
بنگلہ پر آتے جاتے رہیں۔اس لیے وہ کبھی آتے ہی نہیں تھے۔مسٹر لال خود بھی بیوی کے
پاس کبھی کبھار بس کچھ منٹوں کے لیے جایا کرتے۔وہ صرف اسے حکم دیا کرتے تھے ،
انگلش زدہ ہندوستانی میں ، جسے وہ خاموشی سے بجالاتی۔یہ رات کی مختصر ملاقاتیں ،
بہرحال ،لاحاصل ہی رہیں۔
سگنل دے دیا گیا اور
گھنٹی کی آواز نے ٹرین کے پہنچنے کا اعلان کردیا۔مسز لال نے عجلت میں اپنا کھانا
ختم کیا ، اور اچار کی کیری کا ٹکڑا چوستی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی۔ پلیٹ فارم پر لگے
نل سے ہاتھ اور منہ دھوے ،کلیاں کیں ، بڑی سی ڈکار لی ، ساری کے پلو سے ہاتھ اور
منہ خشک کیے ۔ پھر ڈکاریں لیتی ہوئی اور پیٹ بھر کھانے کے لیے خدا کا شکر ادا کرتی
ہوئی اپنے اسٹیل کے صندوق کو دیکھتی قلی کے پیچھے چل پڑ ی۔
ٹرین اسٹیشن پر کھڑی
تھی۔ٹرین کے آخر میں ، گارڈ کے ڈبہ کے بعد زنانہ ڈبہ تقریباً خالی تھا۔جبکہ باقی
ساری ٹرین لوگوں سے بھری پڑی تھی۔مسز لال بڑی محنت سے اپنے بھاری جسم کے ساتھ
سیڑھیوں پر بیٹھ بیٹھ کر ڈبہ میں داخل ہوئیں اور کھڑکی کے پاس والی سیٹ پر بیٹھ
گئیں۔پلو میں بندھے دو آنے نکال کر قلی کو دیے اور اسے رخصت کیا۔پھر وہ پاندان
کھول کر بیٹھ گئیں۔ پان پر کتھا اور چونا کے ساتھ چھالیہ اور الائچی ڈال کر منہ
میں ٹھونس لیا جس کی وجہ سے ان کے دونوں گال پھول چکے تھے۔اب وہ اطمینان سے ٹھوڈی
کے نیچے ہاتھ رکھے بے مقصد ہی پلیٹ فارم پر لوگوں کے ہجوم کو ادھر سے ادھر بھاگتے
ہوے ، ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوے اور دھکے دیتے ہوے ،دیکھنے لگیں۔
ٹرین کے پلیٹ فارم پر
پہنچنے کی وجہ سے سر موہن لال کے سکون میں کوئی خلل واقع نہیں ہوا۔ انھوں نے آرام
سے اسکاچ کے ہلکے ہلکے گھونٹ لیتے ہوے ملازم کو ہدایت دی کہ جب وہ سامان فرسٹ کلاس
کمپارٹمنٹ میں پہنچادے تب انھیں بتادینا۔ جوش ، افراتفری ، عجلت یہ سب گنواروں کے
اظہار کے طریقے تھے۔اور سر موہن لال ایک باعزت اور مہذب شخصیت کے مالک تھے۔انھیں
ہر چیز عمدہ اور منظم چاہیے تھا۔ان کے اخلاق اور انداز فکر دراصل ان کے اعلیٰ
معاشرے کی دین تھے۔سر موہن لال کو ہندوستانی زبان میں بات کرنا بالکل پسند نہیں
تھا ، اور اگر کہیں ضرورت پڑ ہی جاے تو ، بہت مختصر ، انگلش نما ہندوستانی (Anglicized) بولتے تھے۔انھوں نے
انگریزی کو انتہائی خوش اسلوبی سے آکسفورڈ یونیورسٹی میں بولی جانے والی انگریزی
زبان کے مماثل خالص اور نفیس بنا دیا تھا۔ انھیں بات کرنا اچھا لگتا تھا ، لہٰذہ
جب وہ مختلف موضوعات ___ کتب ، سیاست ، شخصیات ___ پر گفتگو کرتے تو لگتا تھا کوئی
متمدن انگریز بول رہا ہو۔انگریزوں کو اس بات کا اعتراف تھا کہ سر موہن لال بالکل
انگریزوں کی طرح بولتے تھے۔
سر موہن لال حیران تھے
کہ اس ڈبہ میں کہیں وہ اکیلے ہی تو سفر نہیں کر رہے تھے۔وہ فوجی چھاؤنی (Cantonment) کا علاقہ تھا ، اس
لیے کچھ انگلش عہدیدار ضرور ٹرین پر ہونے چاہئیں۔ان کا دل مسرت سے کھل اٹھا تھا یہ
سوچ کر کہ بڑی متاثر کن گفتگو رہیگی۔لیکن کبھی وہ اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیتے
کہ وہ انگریزوں سے بات کرنے کے لیے بیقرار ہوں، جیسے کہ عام طور پر ہندوستانیوں کی
عادت ہوا کرتی تھی۔اور نہ ہی وہ ان کی طرح پُر زور ، جارحانہ اور کٹر رویہ رکھتے
تھے۔وہ جذبات سے عاری حقیقت پسندی کے ساتھ اپنے کام سے کام رکھنا پسند کرتے تھے۔وہ
کھڑکی سے لگی اپنی سیٹ پر بیٹھے ‘ دی ٹائمس” (The Times) کھول کر پڑھنے لگتے۔ لفظی معمہ حل کرنے کے لیے وہ اخبار کو کچھ
اس طرح سے تہہ کرتے کہ لوگوں کو اخبار کا نام اچھی طرح دکھائی دیتا۔کیونکہ "
دی ٹائمس " دراصل لوگوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرلیتا۔کوئی نہ کوئی ضرور ان
سے مانگ لیتا جب وہ اخبار کو تہہ کرکے اس تاثر کے ساتھ بازو رکھ دیتے “ میں نے تو
ختم کرلیا ہے۔” شائد کوئی مسافر یہ جان کر ان سے متاثر بھی ہوجاے کہ انھوں نے
بیلیل کی ٹائی پہن رکھی تھی ، جو اکثر سفر کے دوران ضرور پہنا کرتے تھے۔جس سے
پریوں کی دنیا کا ایک وسیع منظر کھل جاتا___ آکسفورڈ کے کالجس ، ماسٹرس کی ڈگریاں
، یونیورسٹی کے استاد اور ٹیوٹرس ، کشتی کی دوڑ ، اور رگر کے میچس( بیضوی شکل کے
فٹ بال کا کھیل جسے رگبی Rugby بھی کہا جاتا ہے۔)۔اگر ‘دی ٹائمس’ اور برانڈیڈ ٹائی ، دونوں بھی
لوگوں کو متاثر نہ کرسکے تو سر موہن لال اپنے ملازم کو آواز لگاتے ‘ کوئی ہے ‘ اور
اس سے اسکاچ لانے کا کہتے۔وہسکی کبھی بھی انگریزوں کو متاثر کرنے میں ناکام نہیں
رہتی۔ پھر سر موہن لال کا انگلش سگریٹوں سے بھرا خوبصورت طلائی سگریٹ کیس نکل
آتا۔ہندوستان میں انگلش سگریٹ ؟آخر اس نے کہاں سے حاصل کیے ہونگے ؟اگر پوچھیں تو
برا تو نہیں مانے گا؟ اور سر موہن لال دل ہی دل میں مسکراتے ___ بالکل بھی نہیں۔
کیا کبھی انھوں نے
انگلینڈ میں اپنے قدم جمانے کے لیے کسی انگریز کو ذریعہ بنایا ہوگا ؟ وہ پانچ سال
کا عرصہ کچھ ایسے گذرا ___ ، سرمئی بیگس اور گاؤنس کے ساتھ، کھیلوں کے کوٹ (blazers) اور مکسڈ ڈبلس ، کورٹ
کی ہوٹل میں کھانا کھانا ، اور راتیں پیکاڈیلی (Piccadilly) کی عصمت فروش خواتین کے ساتھ گذارنا۔وہ پانچ سال معزز شخصیتیات
کے درمیان شاندار زندگی گذری۔وہ پانچ سال ہندوستان میں گذارے پینتالیس سال جو
ناپاک اور واہیات لوگوں کے درمیان گذرے ،کامیابی کے راستوں کے بارے میں گھٹیا قسم
کی تفصیلات ، وہ بالائی منزل پر رات کی مختصر ملاقاتیں اس پیاز اور پسینہ سے بھری
بدبو والی موٹی لچھمی کے ساتھ گذارنے سے بہت بہتر تھے۔
سر موہن لال کے خیالات
کا سلسلہ ٹوٹ گیا جب ملازم نے بتایا کہ ان کا سامان انجن کے ساتھ والے فرسٹ کلاس
کے ڈبہ میں رکھ دیا گیا۔سر موہن مہذب انداز میں اپنے مخصوص ڈبہ کی طرف چل پڑے۔ڈبہ
میں داخل ہونے پر وہ یہ دیکھ کر بڑے مایوس ہوے کہ ڈبہ خالی تھا۔ایک گہری سانس لے
کر وہ اپنی سیٹ پر بیٹھ گیے اور دی ٹائمس کو دوبارہ کھول لیا جو وہ اب تک کئی بار
پڑھ چکے تھے۔
سرموہن کھڑکی سے باہر
مجمع سے بھرے پلیٹ فارم پر نظریں دوڑانے لگے۔اچانک ان کا چہرہ چمک اٹھا جب انھوں
نے پلیٹ فارم پر دو انگلش سپاہیوں کو بھاری قدموں سے ، ہر ڈبہ میں جگہ تلاش کرتے
ہوے دیکھا۔ان کے وزنی کینوس کے تھیلے ان کی پیٹھ پر لٹکنے کی وجہ سے وہ ڈگمگاتے
ہوے چل رہے تھے۔سر موہن نے طئے کیا کہ وہ ریلوے گارڈ سے بات کر کے انھیں اپنے ڈبہ
میں بلالیں اگرچہ کہ وہ سکنڈ کلاس کے اہل تھے۔
ایک سپاہی نے اس آخری
ڈبہ میں جھانک کر دیکھا کہ کافی سیٹیں دستیاب تھیں۔
" ارے ، بل(Bill) "، اس نے آواز
لگائی ، " یہاں ہے۔"
اس کے ساتھی نے بھی
قریب آکر ڈبہ میں جھانکا، اور اس کی نظر سر موہن پر پڑی۔
" اس سیاہ فام کو
باہر کرو " ، اس نے آہستہ سے اپنے ساتھی سے سرگوشی کی۔
انھوں نے دروازہ کھولا
اور کچھ مسکراتے ہوے اور کچھ احتجاجاً سر موہن کی طرف دیکھا۔
" کیا یہ محفوظ
ہے!" بل نے پوچھا۔
" جنتا __آرمی کے
لیے محفوظ __ فوج،" جم(Jim) نے شور مچایا اور ان کی خاکی قمیص کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا
،"ایک دم نکل جاؤ ۔ نکل جاؤ!"
“ میری بات سنو ، میں
کہہ رہا ہوں ، یقیناً ،” سر موہن نے اپنے آکسفورڈ والے لہجہ میں کہنا چاہا۔سپاہی
کچھ رکے۔یہ تو انگریزوں کی طرح بولتا تھا۔ لیکن ان کے گوری چمڑی کے نشہ میں ڈوبے
کان کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھے۔تب ہی انجن کی سیٹی سنائی دی اور گارڈ نے
ہری جھنڈی ہلا دی۔
سپاہیوں نے سر موہن کا
سوٹ کیس پلیٹ فارم پر پھینک دیا۔پھر ان کا تھرماس فلاسک(thermos flask)، بریف کیس ، بستر بند اور دی ٹائمس بھی پھینک دیا۔
سر موہن غصہ سے آگ بگولہ
ہو گئے۔
“ انتہائی نامعقول ،
بیہودہ، “ سر موہن بھرائی ہوئی آواز میں چیخ اٹھے۔” میں تمھیں گرفتار کروادونگا۔
گارڈ ، گارڈ ! “
بل اور جم نے پھر سے
توقف کیا۔یہ تو واقعی انگریز کی طرح لگتا تھا۔لیکن پھر بھی حکومت کی طرف سے ان کو
سہولتیں مہیا کرنا شائد ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھا۔
" اپنا لال لال
منہ بند رکھو !" اور جم نے سر موہن کے چہرے پر تھپڑ رسید کیا۔انجن نے دوسری
سیٹی دی اور ٹرین حرکت میں آگئی تھی۔دونوں سپاہیوں نے سر موہن کو بازؤں سے پکڑا
اور پوری طاقت سے انھیں ٹرین سے باہر پھینک دیا۔وہ گھوم کر بستر بند سے ٹھوکر کھا
کر ان کے سوٹ کیس پر رکے۔
" الوداع !"
سر موہن کے پیر جیسے
زمین میں گڑ چکے تھے اور وہ اپنی بولنے کی طاقت کھوچکے تھے۔وہ بس تیزی سے گذرنے
والی ٹرین کی روشن کھڑکیوں کو دیکھتے رہے۔یہان تک کہ ٹرین کا آخری ڈبہ بھی گذر گیا
جہاں گارڈ ہاتھوں میں جھنڈیاں لیے دروازہ پر کھڑا تھا۔زنانہ کمپارٹمینٹ میں ، موٹی
لچھمی ،ناک میں چمکتی ہوئی ہیرے کی نتھنی پہنے بیٹھی تھی۔ منہ پان سے اور تھوک سے
بھرا لیکر اس انتظار میں تھی کہ جیسے ہی ٹرین پلیٹ فارم سے باہر ہو تو وہ تھوک کر
اپنا منہ صاف کر لے۔ٹرین جیسے ہی تیز رفتار ہوئی اور پلیٹ فارم کی روشنیاں دور
ہوتی چلی گئیں ، مسز لال نے سرخ رنگ کا فوارہ تیر کی طرح فضا میں بکھیر دیا۔
Original Title : KARMA
Written by:
Khushwant Singh (born Khushal Singh, 2 February 1915 – 20
March 2014) was an Indian author, lawyer, diplomat, journalist and politician.
His experience in the 1947 Partition of India inspired him to write Train to
Pakistan in 1956 (made into film in 1998), which became his most well-known
novel.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment