رسکن بانڈ کا افسانہ : فریبِ نظر (The Eyes Have it)

 

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 125 : فریبِ نظر

تحریر: رسکن بانڈ (ہندوستان)

مترجم: سیّد سعید نقوی (نیویارک، امریکہ)

 


 روھانہ تک ریل کے ڈبے میں تنہا میں ہی مسافر تھا، یہیں وہ لڑکی بھی سوار ہوئی۔غالباٌ اس کے والدین اسے سوار کرنے آئے تھے۔ وہ اس کے آرام کی طرف سے خاصے فکر مند تھے۔عورت اس لڑکی کو تفصیل سے سمجھاتی رہی کہ سامان کہاں رکھا جائے۔کھڑکی سے باہر لٹکنا ٹھیک نہیں ہے اور اجنبی مسافروں سے گفتگو سے بھی اجتناب برتے۔

ریل چلنے لگی تو انہوں نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔میں اس وقت تک مکمل نابینا ہو چکا تھا، صرف روشنی اور اندھیرے میں تمیز کے قابل رہ گیا تھا۔میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس لڑکی کی شکل وصورت کیسی تھی، لیکن اس کے قدموں کی آواز سے یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس نے چپل پہن رکھی تھی۔شاید کچھ دیر میں معلوم ہو جائے کہ اس کی شکل و صورت کیسی ہے، یا ہوسکتا ہے میں کبھی نہ جان سکوں۔لیکن مجھے تو اس کی آواز، یہاں تک کہ اس کی چپلوں سے اٹھنے والی چاپ بھی بہت دلکش محسوس ہو رہی تھی۔

’’کیا تم دہرا تک جا رہی ہو؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

میں یقیناٌ کسی تاریک گوشے میں بیٹھا تھا کہ میری بات نے اسے چونکا دیا؛ 

’’مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے علاوہ اور بھی یہاں کوئی ہے؟‘‘

خیر ، یہ تو اکثر ہوتا ہے کہ بینائی ہونے کے باوجود لوگوں کو سامنے کی چیز بھی نظر نہیں آتی، شاید اس لئے کہ ان کے سامنے بہت ساری قابلِ دید اشیا ہو تی ہیں۔جب کہ وہ لوگ جو بالکل نہیں دیکھ سکتے یا بہت ہی کم دیکھ سکتے ہیں، بقیہ حسیات کی مدد سے ایک خاکہ سا بنا لیتے ہیںیا نامکمل سی اک تصویر۔

’’میں نے بھی تمھیں نہیں دیکھا تھا‘‘ میں بولا ’’صرف تمھارے آنے کی آواز سنی تھی۔‘‘

اب میں اس فکر میں تھا کہ کیا اس سے اپنا نابینا پن چھپا سکوں گا؟ اگر میں اپنی نشست سے نہ اٹھوں تو شاید یہ اتنا دشوار نہ ہو۔

’’میں سہارن پور جا رہی ہوں، وہاں خالہ مجھے لینے آئیں گی‘‘ وہ لڑکی بولی۔

’’پھر تو بہتر یہی ہے کہ میں زیادہ بے تکلف نہ ہوں، یہ خالائیں خاصی سخت گیر ہوتی ہیں‘‘ میں نے کہا

’’آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ وہ پوچھنے لگی

’’میں ڈہرا تک جا رہا ہوں، اور پھر وہاں سے مسوری۔‘‘

’’اوہ، آپ کتنے خوش نصیب ہیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ میں بھی مسوری جائوں۔وہاں کی پہاڑیاں مجھے بہت پسند ہیں، خاص طور پر اکتوبر میں۔‘‘

’’یقیناٌ وہ سال کا سب سے خوبصورت وقت ہے‘‘  میں نے اپنی یاد داشت کے بھروسے پر کہا۔’’ پہاڑیاں خود رو ڈاہلیا سے ڈھکی ہوتی ہیں، سورج کی تمازت بھلی لگتی ہے۔ رات میں لکڑیاں جلا کے، الائو کے گرد بیٹھے برانڈی پینے کا اپنا مزا ہے۔بیشتر سیاح واپس جا چکے ہوتے ہیں، سڑکیں خاموش اور سنسان ہوتی ہیں، یقیناٌ اکتوبر ہی سب سے اچھا وقت ہے۔‘‘

وہ خاموش تھی۔ میں نے سوچا  یا  تومیرے الفاظ اسے متاثر کر گئے ہیں یا وہ مجھے ایک احمق قسم کا رومان پسند سمجھ رہی ہے۔ پھر میں ایک غلط سوال کر بیٹھا:

’’باہر کا منظر کیسا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا

شکر ہے اسے اس جملے پر حیرت نہیں ہوئی۔ شاید وہ سمجھ گئی ہے کہ میں دیکھ نہیں سکتا۔لیکن اس کے اگلے جملے نے میرا اعتماد بحال کردیا۔

’’آپ خود کھڑکی سے باہر کیوں نہیں دیکھ لیتے؟‘‘ اس نے دریافت کیا

میں آرام سے اپنی نشست پر کھسکتا کھڑکی تک آگیااور غیر محسوس طریقے سے اس کی چٹخنی ٹٹولی۔کھڑکی پہلے ہی کھلی ہوئی تھی۔میں نے غور سے باہر دیکھتے ہوئے یہ تاثر دیا گویا باہر کے منظر سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔میں انجن کے ہانپنے اور پہیوں کی گھڑگھڑاہٹ سنتا رہا۔تصور کی آنکھ سے میں نے ٹیلیگراف کے کھمبے تیزی سے پیچھے کی سمت بھاگتے دیکھے۔

’’تم نے غور کیا؟‘‘ میں نے ذرا جرات کی’’ایسا لگتا ہے جیسے درخت بھاگ رہے ہوں، اور ہم ساکت کھڑے ہیں۔‘‘

’’ہمیشہ ایسا ہی لگتا ہے‘‘ وہ بولی ’’ کوئی جانور بھی دکھائی دیا؟‘‘

’’نہیں‘‘ میں نے بہت اعتماد سے جواب دیا۔ مجھے معلوم تھا کہ ڈہرا کے اطراف کے جنگلات میں بمشکل ہی کوئی جانور باقی بچا تھا۔

میں کھڑکی سے ہٹ کر لڑکی کی طرف رخ کر کے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر ہم دونوں خاموش بیٹھے رہے۔

’’تمھارے چہرے کے نقوش بت دلچسپ ہیں‘‘ میری ہمت بڑھتی جا رہی تھی۔ لیکن یہ ایک محتاط تبصرہ تھا۔ بہت کم لڑکیاں ایسی ہیں جو اپنی تعریف سے خوش نہ ہوں۔وہ خوش دلی سے ہنس دی، اس کی  ہنسی بہت شفاف، کھنک دار تھی۔

’’یہ سن کر بہت لطف آیا کہ میرا چہرا دلچسپ ہے‘‘ وہ بولی ’’یہ سن سن کر کان پک گئے ہیں کہ میں خوبصورت ہوں۔‘‘

اوہ ، تو تم خوبصورت ہو، میں نے دل میں سوچا۔ پھر بلند آواز سے بولا ’’دلچسپ نقوش خوبصورت بھی تو ہو سکتے ہیں۔‘‘

’’آپ یقیناٌ ایک خوش وضع نو جوان ہیں ، لیکن اتنے خشک مزاج کیوں؟‘‘

میں نے سوچا اسے خوش کرنے کے لیے ہی ایک قہقہہ لگائوں۔لیکن قہقہہ کے خیال نے ہی مجھے تنہا اور اداس کر دیا۔

’’ تمھارا اسٹیشن آنے ہی والا ہے‘‘ میں نے کہا

’’شکر ہے کہ یہ سفر مختصر ہے۔میں دو تین گھنٹے سے زیادہ ریل میں نہیں بیٹھ سکتی‘‘

جب کہ میں تو گھنٹوں بیٹھنے کے لیے تیار تھا۔صرف اس کی باتیں سننے کے لیے۔اس کی آواز میں پہاڑوں سے اترنے والے جھرنوں کی سی کھنک تھی۔جیسے ہی وہ ریل سے اترے گی ، ہماری اس مختصر ملاقات کو فراموش کردے گی۔ لیکن میرے ساتھ تو اس کا سحر سارے  راستے

 رہے گا ، بلکہ اس کے بعد بھی!

انجن نے سیٹی دی، پہیوں کا سر و تال بدلنے لگا۔لڑکی کھڑی ہوکر اپنا سامان جمع کرنے لگی۔میں نے سوچا کہ اس نے جوڑا باندھ رکھا ہے یا چوٹی۔شاید اس کے بال شانوں تک پھیلے ہوں یا پھر مختصر تراش کے ہوں؟ گاڑی آہستگی سے اسٹیشن میں داخل ہوگئی۔ باہر سے قلی اور خوانچہ فروشوں کی آوازیں آنے لگیں۔ ان ہی میں ڈبے کے دروازے کے قریب سے ایک باریک سی زنانہ آواز ابھری، یقیناٌ یہ لڑکی کی خالہ کی آواز ہے۔

’’خدا حافظ‘‘  لڑکی نے کہا

وہ میرے بہت قریب کھڑی تھی۔اتنے قریب کہ اس کے بالوں سے اٹھنے والی خوشبو مجھے مسحور کرنے لگی۔میں چاہتا تھا ہاتھ بڑھا کر اس کے بالوں کو چھو لوں، مگر وہ خود تو آگے بڑھ گئی، جہاں وہ کھڑی تھی وہاں اب صرف اس کی خوشبو باقی رہ گئی۔

دروازے پر کچھ دھکم پیل ہو رہی تھی۔ ایک صاحب جو ڈبے میں داخل ہورہے تھے انہوں نے بڑبڑا کے معذرت کی۔پھر وہ دروازہ با ٓوازبند ہوگیا، اور دنیا باہر ہی رہ گئی۔میں اپنی نشست پر لوٹ آیا۔گارڈ نے سیٹی بجائی اور ہم پھر چل پڑے۔میرے لیے اب نیا ساتھی مسافر اور پھر سے نیا کھیل تھا۔ گاڑی نے رفتار پکڑی، پہیوں نے اپنا گیت الاپنا شروع کردیاتو ڈبہ نے ہلنا اور کراہنا۔ میں کھڑکی تلاش کرکے اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔باہر دن کی روشنی کو گھورتے ہوئے جو میرے لئے اندھیری تھی۔کھڑکی سے باہر بہت کچھ ہو رہا ہو گا۔ کتنا دلچسپ کھیل ہے یہ بوجھنا کہ باہر کیا ہو رہا ہے؟ جو آدمی ڈبے میں داخل ہوا تھا اس نے میری محویت کو توڑا:

’’تم یقیناٌ بہت مایوس ہوگے‘‘ وہ بولا ’’میں پچھلی ہمسفر جتنا خوبصورت بالکل نہیں!‘‘

’’بہت دلچسپ لڑکی تھی‘‘ میں نے کہا ’’کیا تم بتا سکتے ہو کہ اس کے بال لمبے تھے یا چھوٹے؟‘‘

’’مجھے یاد نہیں‘‘ اس کی آواز میں الجھن تھی’’میں تو اس آنکھوں میں اتنا کھویا ہوا تھا کہ بالوں کی طرف دھیان ہی نہیں گیا۔اتنی خوبصورت آنکھیں، لیکن اس کے کسی کام کی نہیں تھیں، وہ مکمل نا بینا تھی، تم نے دیکھا نہیں تھا؟‘‘

 

Original Title: The Eyes Have it

Written by:

Ruskin Bond (born 19 May 1934) is an Indian author of British descent.


www.facebook.com/groups/AAKUT/


Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق