انتون چیخوف کا افسانہ : برسرِ پیکار (Enemies)

 

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 146 : برسرپیکار

تحریر: انتون چیخوف (روس)

مترجم: خواجہ منظور حسین

 



ستمبر کی ایک اندھیری شام کو، نو اور دس بجے کے درمیان، ضلع کے ڈاکٹر کریلوف کا چھ سال کا اکلوتا بچہ اینڈرے گل سوئی کے عارضے سے مرگیا۔ ڈاکٹر کی بیوی مردہ بچے کے بستر کے کنارے جھکی ہی تھی اور صدمے کی پہلی یورش تھی کہ اتنے میں دروازے سے  زور سے گھنٹی کی آواز آئی۔

 مرض چونکہ متعدی تھا، اس لیے تمام نوکر صبح کو باہر بھیج دیے گئے تھے۔ کریلوف جس حالت میں تھا، اسی طرح، کوٹ اتارے، واسکٹ کے بٹن کھولے، بغیر منہ کا پسینہ یا کاربالک سے جلے ہوئے ہاتھ پونچھے۔ دروازہ کھولنے گیا۔ پھاٹک میں اندھیرا تھا اور نو وارد کے میانہ قد، سفید گلوبند ، اور نہایت زرد چہرے کے علاوہ، جس سے پھاٹک کی تاریکی دب گئی تھی، اور کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔

 "ڈاکٹر صاحب گھر پر ہیں؟"

 "جی ہاں، موجود ہوں فرمایئے۔"

 اجنبی نے اطمینان کے لہجے میں کہا ۔ "اچھا آپ ہیں۔ مجھے نہایت خوشی ہوئی۔" وہ اندھیرے میں ڈاکٹر کا ہاتھ ٹٹولنے لگا، اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر زور سے دبایا۔ " مجھے نہایت ۔۔۔۔ بیحد خوشی ہوئی! ہم ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ میرا نام ابوگن ہے، اور گرمی میں نوچیف کے ہاں آپ سے نیازحاصل کرچکا ہوں۔ شکر ہے کہ آپ گھر پر مل گئے۔۔۔۔۔ خدا کے لیے، میرے ساتھ تشریف لے چلیے۔۔۔ میری بیوی یک لخت بیمار ہوگئی ۔۔۔۔ گاڑی کھڑی ہے۔۔۔۔۔"

 بولنے والے کی آواز اور حرکات و سکنات ٹپکی پڑتی تھی۔ اس آدمی کی طرح جو جلتے ہوئے مکان اور پاگل کتے سے خوف زدہ ہو، وہ ہانپ رہا تھا، سانس بمشکل قابو میں تھا اور تیز تیز کانپتی ہوئی آواز سے بول رہا تھا۔ اس کے لہجے میں بے تکلف خلوص اور بچوں کی سی دہشت تھی، سہمے اور بوکھلائے ہوئے لوگوں کی طرح چھوٹے ٹوٹے پھوٹے فقروں میں بات کررہا تھا، اور بہت سے غیر ضروری، غیر متعلق الفاظ اس کی زبان سے نکل رہے تھے۔

 "مجھے فکر تھا کہ کہیں آپ نہ ملیں۔ تمام راستہ یہی دھڑکا رہا۔ بس کپڑے پہن لیجئے اور خدا کے واسطے تشریف لے چلیے۔۔۔۔ ہوا یہ کہ الیکسانڈر سیمیو نووچ پیپ چسکی، جسے آپ جانتے ہیں، مجھے سے ملنے آیا ۔۔۔۔۔ ہم کچھ دیر باتیں کرکے چائے پینے بیٹھے ہی تھے کہ دفعتاً میری بیوی نے چیخ ماری، اپنا سینہ کھسوٹنے لگی، اور کرسی پر گر پڑی ہم نے اسے پلنگ پر لٹایا اور ۔۔۔۔۔ میں نے اس کی پیشانی پر امونیا ملا اور پانی چھڑکا۔ ۔۔۔۔ وہ اس طرح لیٹی رہی جیسے مردہ ہے۔۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ اسے اینورزم ہے۔۔۔۔ تشریف لے چلیے۔۔۔۔ اس کے والد کا بھی اینورزم سے انتقال ہوا تھا۔"

 کریلوف چپ چاپ سنتا رہا، گویا روسی زبان سے ناواقف ہے۔

 جب ابوگن نے پیپ چسکی اور اپنی بیوی کا دوبارہ نام لیا اور پھر اندھیرے میں ڈاکٹر کا ہاتھ ٹٹولنے لگا تو اس نے سر ہلایا اور افسردگی سے بدقت تمام یہ الفاظ ادا کیے۔

 "معاف فرمایئے، میں نہیں جاسکتا۔۔۔۔ میرا لڑکا مرگیا۔۔۔۔۔ پانچ منٹ ہوئے!"

 ابوگن نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر آہستہ سے کہا۔۔ "واقعی! خدایا کیسے برے وقت پہنچا ہوں! نہایت نحس دن ہے۔۔۔۔ عجب اتفاق ہے ۔۔۔۔ گویا دانستہ ہوا ہے۔"

 ابوگن نے دروازے کا دستہ پکڑا اور سرجھکا لیا ۔ وہ صریحاً شش و پنچ میں تھا  کہ کیا کرے۔ واپس چلا جائے یا ٹھہر کر پھر ڈاکٹر کی منت سماجت کرے۔

 پھر ڈاکٹر کی آستین پکڑ کر اس نے جوش کے ساتھ کہا : "سنیئے ۔۔ مجھے آپ کی حالت کا اچھی طرح اندازہ ہے! خدا شاہد ہے، ایسے موقع پر مخل ہونے سے مجھے کتنی شرمندگی ہے، مگر کیا کروں؟ خود ہی فرمایئے، کس کے پاس جاؤں؟ آپ جانتے ہیں۔ یہاں کوئی اور ڈاکٹر نہیں ہے۔ برائے خدا چلیئے! میں اپنے لیے نہیں کہتا۔۔۔۔ مریض میں نہیں ہوں!"

 کچھ دیر خاموشی رہی۔ کریلوف نے ابوگن کی طرف سے پیٹھ پھیر لی، لمحہ بھر ساکت کھڑا رہا، پھر آہستہ سے ڈرائنگ روم میں داخل ہوگیا۔ اس کی لڑکھڑاتی ہوئی چال سے، ڈرائھنگ روم کے بغیر جلے لیمپ کی ملائم جھالر کو احتیاط سے درست کرنے سے، اور میز پر جو کتاب رکھی تھی، اس پر نظریں گاڑنے سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس وقت اس کے دل میں نہ کوئی ارادہ ہے، نہ خواہش، نہ کسی بات کا خیال ہے اور نہ غالباً یہ دھیان ہے کہ پھاٹک میں ایک اجنبی کھڑا ہے۔ معلوم ہوتا تھا کہ ڈرائنگ روم کے دھندلکے اور خاموشی سے اس کی بے حسی بڑھ گئی ہے۔ وہاں سے اپنے مطالعہ کے کمرے میں جاتے ہوئے اس نے سیدھا پاؤں ضرورت سے زیادہ اٹھایا ہاتھوں سے دروازے کو ٹٹولتے وقت اس کے وجود سے ایسی حیرانی ٹپک رہی تھی جیسے وہ کسی اور کے گھر میں ہے، یا عمر میں پہلی بار شراب سے مست ہوا ہے اور متعجب ہو کر نشہ کی ترنگ کے چٹخارے لے رہا ہے۔ مطالعہ کے کمرے کی دیوار پر ، کتابوں کی الماری پر سے ہوتی ہوئی، روشنی کی ایک چوڑی لکیر پڑی تھی، یہ روشنی کاربالک اور ایژ کی کثیف، بھبک دار بو سے ملتی تھی جو خوابگاہ کے نیم وا دروازے سے آرہی تھی۔ ڈاکٹر میز کے آگے جو نیچی کرسی رکھی تھی، اس پر گر پڑا، منٹ بھر اپنے کتابوں کو جن پر روشنی پڑ رہی تھی، نیند بھری نظروں سے گھورتا رہا، پھر اٹھا اور خواب گاہ میں چلا گیا۔

 خواب گاہ میں مکمل سکوت تھا، ہر چیز سرتا سر اس طوفان، اس تھکن کا پتا دیتی تھی جسے حال میں عبور کیا گیا تھا۔ ہر چیز ساکن تھی۔ بوتلوں کے ہجوم میں ایک موم  بتی، بہت سے ڈبے، اسٹول پر پیالے پیالیاں، اور خانےدار الماری پر رکھا ہوا ایک بڑا لیمپ جو پورے کمرے پر تیز روشنی ڈال رہا تھا۔ کھڑکی کے قریب پلنگ پر ایک لڑکا لیٹا تھا جس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور چہرے سے حیرت برستی تھی۔ وہ بے حس و حرکت تھا، مگر معلوم ہوتا تھا کہ اس کی کھلی ہوئی آنکھیں ہر آن زیادہ بے نور ہوکر اس کے سر میں گھستی جاتی تھیں۔ ماں پلنگ کے کنارے اس کے جسم سے لپٹی ہوئی، بچھونے میں سر چھپائے جھکی ہوئی تھی۔ بچے کی طرح وہ بھی بے حس و حرکت تھی، مگر اس کے جسم کے خطوط سے اور بازؤوں سے زندگی کس طرح پھٹی پڑتی تھی! اس کا پورا وجود پلنگ کے سہارے پوری طاقت سے حریصانہ چمٹا ہوا تھا، گویا وہ ڈرتی تھی کہ کہیں اس پر سکون اور با آرام نشست میں خلل نہ پڑ جائے جو بالآخر اس کے جسم نے اختیار کرلیا تھا، بچھونا، چیتھڑے اور طشت، فرش پر پانی کے چھینٹے، ادھر ادھر بکھرے ہوئے چھوٹے برش اور چمچے، لیمو کے عرق کی سفید بوتل، یہاں تک کہ کثیف ہوا  جس سے دم گھٹتا تھا۔ سب پر سناٹا تھا اور سب سکون میں ڈوبے ہوئے تھے۔

 ڈاکٹر اپنی بیوی کے پاس آکر کھڑا ہوا، ہاتھ پتلون کی جیبوں میں ڈالے، اور گردن ایک طرف کو جھکا کے آنکھیں اپنے بیٹے پر گاڑیں، اس کے چہرے سے بے حسی نمایاں تھی، اور صرف ان قطروں سے جو اس کی داڑھی میں جھلک رہے تھے، یہ اندازہ ہوسکتا تھا کہ وہ ابھی رو رہا تھا۔

 کمرا اس بھیانک دہشت سے خالی تھا۔ جس کا خیال موت کے ساتھ وابستہ ہے۔ ہر چیز کی بے رخی میں، ماں کے طرزِ نشست میں ، ڈاکٹر کے چہرے کی بے حسی میں ایک خاص بات تھی جو دل کو کھینچتی اور متاثر کرتی تھی۔ یعنی انسانی غم کا وہ حسن پراں جسے عرصے تک انسان نہ سمجھ سکے گا، نہ بیان کرسکے گا، اور جسے صرف موسیقی ادا کرسکتی ہے۔ پر جمود سکون میں بھی حسن کا رنگ جھلکتا تھا۔ کریلوف اور اس کی بیوی چپ تھے اور رو نہیں رہے تھے، گویا اپنے صدمے کی تلخی کے پہلوبہ پہلو انہیں اپنی حالت کی المیت کا بھی احساس ہے، ان کی جوانی ڈھل چکی تھی، اور اس بچے کے ساتھ ان  کے صاحبِ اولاد ہونے کا حق بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا تھا۔ ڈاکٹر کی عمر جوالیس سال تھی۔ اینڈرے ان کا نہ صرف اکلوتا ، بلکہ آخری بچہ تھا۔

 برخلاف اپنی بیوی کے، ڈاکٹر ان لوگوں میں سے تھا کہ جو کسی روحانی صدمے کی حالت میں جنبش کے طالب ہوتے ہیں، پانچ منٹ تک اپنی بیوی کے پاس کھڑے رہ کر وہ خوابگاہ سے سیدھے لمبے قدم اٹھاتا ہوا ایک چھوٹے کمرے کی طرف چلا جو سوفا سے آدھا بھرا ہوا تھا، وہاں سے باورچی خانے گیا۔ آتش دان اور باورچی کے پلنگ کے قریب ٹہلنے کے بعد جھکا اور ایک چھوٹے دروازے سے پھاٹک میں پہنچا۔

 وہاں اسے پھر وہی سفید گلوبند اور زرد چہرہ دکھائی دیا۔

 ابوگن نے دروازے کے دستے کی طرف بڑھ کر آہ بھری۔ "خدا خدا کرکے آپ تشریف لائے، چلیے تشریف لے چلیے۔"

 ڈاکٹر ٹھٹکا، اس پر نظر ڈالی اور حافظہ پر زور دے کر کچھ سوچا، پھر کھرے کہجے میں کہا:

 "میں آپ سے کہہ تو چکا میں نہیں چل سکتا! کیسے تعجب کی بات ہے!"

 ابوگن نے اپنا ہاتھ گلوبند پر رکھ کر ایک انداز ِالتجا سے کہا: "ڈاکٹر صاحب، میں پتھر نہیں ہوں، آپ کی کیفیت بخوبی محسوس کررہا ہوں، آپ کے صدمے میں شریک ہوں، مگر میں آپ سے اپنے لیے نہیں کہتا۔ میری بیوی جاں بلب ہے۔ اگر آپ نے وہ چیخ سنی ہوتی، اگر آپ نے اس کا چہرہ دیکھا ہوتا توآپ میرے اصرار کی حقیقت سمجھ جاتے۔ یااللہ میں تو سمجھتا تھا آپ تیار ہونے گئے ہیں! ڈاکٹر صاحب وقت قیمتی ہے، برائے خدا تشریف لے چلیے!"

 ڈاکٹر نے سختی سے کہا: "میں نہیں جاسکتا۔" اور ڈرائنگ روم کی طرف قدم اٹھایا۔

 ابوگن اس کے پیچھے بڑھا اور اس کی آستین پکڑلی۔

 "آپ کو صدمہ ہے، میں جانتا ہوں، مگر میں آپ کو دانتوں کے درد کے علاج یا محض مشورے کے لیے نہیں بلاتا، ایک انسانی جان بچانے کو بلاتا ہوں!" برابر سائلانہ انداز سے گڑگڑائے گیا۔ "زندگی ذاتی صدمے پر مقدم ہے! میں آپ سے حوصلہ، ایثار طلب کرتا ہوں! برائے انسانیت!"

 کریلوف نے جھلا کر کہا: "برائے انسانیت۔ اس کے دوپہلو ہیں۔ برائے انسانیت میں آپ سے درخواست کرتا ہوں مجھے نہ لے جایئے۔ اور واقعی کیا مزے کی بات ہے! مجھ سے کھڑا تک نہیں ہوا جاتا، اور آپ مجھے انسانیت کا واسطہ دیتے ہیں! فی الحال میں کسی کام کے قابل نہیں ہوں ۔۔۔۔ میں ہرگز نہیں جاؤں گا، اپنی بیوی کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا، نہیں ہرگز نہیں۔۔۔۔"

 کریلوف نے بازو ہلائے، پیچھے کی طرف لڑکھڑایا، پھر خوف آمیز لہجے میں کہا۔

 "اور ۔۔۔۔ اور مجھ سے نہ کہیئے۔ مجھے معاف کیجئے۔ قانون نمبر 13 کی رو سے میں جانے پر مجبور ہوں اور آپ مجھے گردن پکڑ کے لے جاسکتے ہیں ۔۔۔۔ اگر آپ چاہیں تو زبردستی لے جاسکتے ہیں، لیکن ۔۔۔۔۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے ۔۔۔۔ مجھ سے بولا تک نہیں جاتا ۔۔۔۔ مجھے معاف کیجئے۔"

 ابوگن نے ڈاکٹر کی آستین پکڑ کر کہا: "ڈاکٹر صاحب، اس پہلو سے گفتگو نہ کیجئے مجھے نمبر 13 سے کیا! آپ کی مرضی کے خلاف آپ کو مجبور کرنے کا مجھے کوئی حق نہیں، اگر آپ کا جی چاہے تو چلیئے، نہ چاہے تو خدا آپ کا بھلا کرے، مگر میرا خطاب آپ کا ارادے سے نہیں، آپ کے جذبات سے ہے۔ ایک نوجوان عورت جاں بلب ہے۔ ابھی آپ اپنے بیٹے کی موت کا ذکر کررہے تھے، آپ سے زیادہ میری پریشانی کو اور کون سمجھ سکتا ہے؟"

 ابوگن کی آواز میں رقت کے مارے لرزہ تھا، اس لرزے اور اس کے لہجے نے اس کے لفظوں سے زیادہ کام کیا۔ ابوگن کی باتیں دل سے نکل رہی تھیں، مگر عجیب بات ہے کہ وہ جو کچھ کہتا تھا، اس کے الفاظ اکھڑے اکھڑے، بے جان اور ناموزوں طور پر مرصع معلوم ہوتے تھے، بلکہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان سے ڈاکٹر کے گھر کی، قضا کی، اور اس عورت کی جو جاں بلب تھی، بے حرمتی ہورہی ہے، اسے خود اس کا احساس تھا، چنانچہ اس خوف سے کہ شاید اس کا مطلب سمجھ میں نہ آئے، وہ پوری کوشش کررہا تھا کہ اپنی آواز میں نرمی اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھر دے، تاکہ اس کی باتوں کا نہیں تو کم از کم اس کے لیجے کا خلوص اثر کر جائے۔ عموماً خواہ کوئی فقرہ کسی قدر سلیس اور برخلوص ہو اس کا اثر صرف غیر متعلق لوگوں پر پڑتا ہے، انہیں پوری طرح تسکین نہیں بخشا جو مسرور یا مغموم ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بے زبانی اکثر خوشی یا غم کا بلند ترین طرز ادا ہوتی ہے۔ چاہنے والے ایک دوسرے کا مطلب خاموشی کے عالم میں زیادہ پالیتے ہیں، اور لب گور پر جوش ستائشی تقریر کا صرف غیروں پر اثر پڑتا ہے مرنے والے کی بیوہ اور بچوں کو وہ بارد اور خفیف معلوم ہوتی ہے۔

 کریلوف چپ چاپ کھڑا تھا ۔ ابوگن نے چند اور جملے ڈاکٹری کے شریف پیشے اور ایثار وغیرہ کے متعلق کہے، تو اس نے بگڑ کر پوچھا: "دور جانا ہے؟"

 "آٹھ نو میل کے قریب۔ میرے گھوڑے خوب قوی ہیں! قسمیہ وعدہ کرتا ہوں کہ گھنٹہ بھر میں آپ کو واپس پہنچا دوں گا۔ صرف گھنٹہ بھر میں۔"

 ان لفظوں کا اثر جذبۂ انسانیت یا ڈاکٹری کے شریف پیشے کا واسطہ دینے سے زیادہ ہوا۔ اس نے تھوڑی دیر سوچا اور آہ بھر کر کہا: "بہت اچھا چلیے!"

 پھر جلدی سے، پہلے کی بہ نسبت قدم زیادہ سنبھالے ہوئے، اپنے مطالعہ کے کمرے میں گیا اور ایک لمبا فراک کوٹ پہن کر واپس آیا۔ ابوگن نے پریشانی دور ہونے پر، اس کے چاروں طرف چکر کاٹنے شروع کیے اور اوور کوٹ پہناتے وقت اس کا پاؤں کچل دیا اور اس کے ساتھ گھر سے نکلا۔

 باہر اندھیرا تھا، گو پھاٹک سے کم۔ ڈاکٹر کا قد آور جھکا ہوا جسم، اس کی لمبی، پتلی داڑھی اور ستواں ناک اندھیرے میں صاف نمایاں تھے۔ ابوگن کا بڑا سر اور چھوٹی طالبعلوں کی وضع کی ٹوپی جس سے وہ بمشکل ڈھکا ہوا تھا، اور اس کا زرد چہرہ اب اچھی طرح دکھائی دیتے تھے۔ گلوبند صرف سامنے سے سفید نظر آتا تھا، پیچھے سے اس کے لمبے بالوں میں چھپا ہوا تھا۔

 ابوگن نے منہ ہی منہ میں، ڈاکٹر کو گاڑی میں چڑھاتے وقت کہا: "یقین مانیے میں آپ کے ایثار کی تہہ دل سے قدر کرتا ہوں۔ ابھی پہنچےجاتے ہیں۔ لوکا، جتنا تیز ہو سکے چلاؤ، شاباش!"

 کوچوان نے گاڑی تیزی سے چلائی پہلے دھندلی عمارتوں کی قطار نظر آئی جو ہسپتال کے صحن کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھیں۔ سوائے ایک تیز روشنی کے جو ایک کھرکی میں سے صحن کے ہر حصے کو روشن کررہی تھی، ہر طرف اندھیرا تھا، اور ہسپتال کی بالائی منزل کی تین کھڑکیاں گردو پیش کی فضا سے بھی زیادہ دھندلی تھیں۔ اس کے بعد گاڑی گھنی تاریکی میں گھسی۔ یہاں رطوبت اور سانپ کی کیچلی کی بو اور درختوں کی سرسراہٹ پھیلی ہوئی تھی، کوؤں نے پہیوں کی آواز سے چونک کر اپنے بسیروں میں دکھ بھری کائیں کائیں شروع کی، گویا انہیں علم ہے کہ ڈاکٹر کا لڑکا مر گیا اور ابوگن کی بیوی بیمار ہے۔ پھر الگ الگ درختوں اور جھاڑیوں کی جھلک دکھائی دینی شروع ہوئی۔ ایک تالاب، جس پر سیاہ سائے خوابیدہ تھے، ڈراؤنی روشنی میں چمک رہا تھا۔ گاڑی صاف ہموار زمین پر سے گزر رہی تھی۔ کوؤں کی چیخیں بہت دور سے دھیمی دھیمی آرہی تھیں اور تھوڑی دیر میں آنی بند ہوگئیں۔

 کم و بیش تمام راستہ کریلوف اور ابوگن چپ رہے۔ صرف ایک مرتبہ ابوگن نے ٹھنڈا سانس بھر کے ہونٹوں ہی ہونٹوں میں کہا:

 "کرب کی سی کیفیت ہے! انسان کوان لوگوں سے جو اس کے پاس ہوتے ہیں، اس وقت سے زیادہ کبھی محبت نہیں ہوتی جب ان سے جدائی کا دھڑکا ہونے لگتا ہے۔"

 جب گاڑی آہستہ آہستہ دریا پر سے گزر رہی تھی، تو کریلوف دفعتاً اس طرح ٹھٹکا جیسے پانی کے تھپیڑوں سے ڈر گیا۔ اپنی جگہ سے ہلا اور غمگین لہجے میں بولا:

 "سنیے، مجھے جانے دیجئے، ٹھہر کر آپ کے ہاں آجاؤں گا۔ اپنے مددگار کو اپنی بیوی کے پاس چھوڑ آؤں۔ آپ کو معلوم ہے وہ اکیلی ہے!"

 ابوگن چپ رہا۔ گاڑی کبھی ادھر کبھی ادھر جھکتی، پتھروں پر سے کھڑکھڑاتی،  دریا کے کنارے کنارے جارہی تھی۔ کریلوف بے چین تھا اور چاروں طرف درد بھری نظریں ڈال رہا تھا۔ ان کے پیچھے تاروں کی مدھم روشنی میں سڑک اور ساحل کے کنارے بید کے درخت اندھیرے میں غائب ہوتے دکھائی دیتے تھے۔

 دائیں جانب، آسمان کی طرح یک رنگ اور اسی قدر نامحدود، ایک میدان پڑا تھا۔ کہیں کہیں فاصلے پر، غالباً گھاس کی دلدلوں میں، مدھم روشنیاں ٹمٹما رہی تھیں بائیں طرف، سڑک کے متوازی ایک پہاڑی چلی گئی تھی جس پر چھوٹی چھوٹی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ پہاڑوں کے اوپر، کہر کے نقاب میں، ننھے ننھے بادلوں سے گھرا ہوا، سرخ چاند ساکن کھرا تھا، اور بادل ہر سمت سے اس پر نظریں جمائے نگہبانی کررہے تھے کہ بھاگنے نہ پائے۔

 تمام قدرت پر حسرت و اندوہ کا احساس چھایا ہوا تھا۔ زمین، اس غم نصیب عورت کی طرح جو کسی تاریک کمرے میں اکیلی بیٹھی گزرے ہوئے زمانے کا خیال دل سے بھلاتی ہو، بہار اور گرمی کی کیفیتوں پر غور اور اٹل جاڑے کا بے حسی سے انتظار کررہی تھی۔ جدھر نظر جاتی تھی، قدرت ایک تاریک، اتھاہ، سرد گڑھے کی طرح معلوم ہوتی تھی جس سے نہ کریلوف بچ سکتا تھا نہ ابوگن، نہ سرخ چاند۔

 گاڑی جتنی منزل مقصود کے قریب پہنچتی جاتی تھی، ابوگن کا اضطراب بڑھتا جاتا تھا۔ وہ برابر جنبش میں تھا، اچھلے جاتا تھا، کوچوان کے سر پر سے دیکھے جاتا تھا۔ جب گاڑی مکان کے  دروازے کے آگے رکی جس پر دھاری دار کپڑے کا نفیس پردا پڑا ہوا تھا۔ اور اس کی نظر دوسری منزل کی روشن کھڑکیوں پر پڑی، تو وہ دم بخود ہوکے رہ گیا۔

  ڈاکٹر کے ساتھ ہال میں جاتے ہوئے، گھبراہٹ سے ہاتھ مل کر اس نے کہا: "اگر کوئی حادثہ ہوگیا۔۔۔۔ تو میں جاں برنہ ہوسکوں گا۔ مگر کوئی ہنگامہ نہیں ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک خیریت ہے۔" یہ کہہ کر اس نے سناٹے میں کان لگائے۔

 ہال میں نہ قدموں کی آہٹ تھی، نہ بولنے کی آواز، اور باوجود اس کے کہ کھڑکیوں میں روشنی تھی، معلوم ہوتا تھا کہ پورا مکان سورہا ہے۔ اب ڈاکٹر اور ابوگن، جو اس وقت تک اندھیرے میں تھا، ایک دوسرے کو اچھی طرح دیکھ سکتے تھے۔ ڈاکٹر کشیدہ قامت اور جھکا ہوا تھا، اس کے کپڑوں سے انتشار برستا تھا۔ اور اس کی صورت اچھی نہ تھی۔ اس کے حبشیوں کی طرح موٹے موٹے ہونٹوں، ستواں ناک اور بے توجہ، بے حس آنکھوں سے ناخوشگوار درشتی، ترشی اور سرد مہری ٹپکتی تھی۔

 پریشان بال اور پچکی ہوئی پیشانی لمبی چوڑی قبل از وقت سفید داڑھی جس میں سے ٹھوڑی نظر آتی تھی،زردی مائل خاکی رنگ کی جلد، اور بے پروایانہ اکھڑ وضع قطع، ان سب کی درشتی سے سالہا سال کی غربت اور حرماں نصیبی، زندگی اور انسانوں سے بے زاری کا پتا چلتا تھا۔ اس کی بارد شکل کو دیکھ کر بمشکل یقین آتا تھا کہ اس شخص کے بیوی ہے اور یہ اپنے بچے کی موت پر آنسو بہا سکتا ہے۔ ابوگن کی شکل اس سے بہت مختلف تھی، وہ گٹھا ہوا۔ قوی الجثہ گورا، بڑے سر اور نمایاں خدوخال کا آدمی تھا اور تازہ ترین قطع کے کپڑے پہنے ہوئے تھا، اس کی گاڑی، اس کے چست کوٹ، لمبے بالوں، اور بشرے سے ایک خاص قسم کی دریا دلی، ایک گونہ شہریت کا انداز ٹپکتا تھا، وہ سر اٹھا کر اور سینہ نکال کے چلتا۔ خوشگوار لہجے میں گفتگو کرتا اور جس انداز سے اپنا گلوبند اتارتا اور بالوں کو درست کرنا۔ اس میں شائستہ بلکہ نسوانی تکلف کا رنگ جھلکتا تھا۔ اس کی زرد روئی سے اور اس طفلانہ دہشت سے جو کوٹ اتارتے وقت، زینے کے اوپر دیکھتے ہوئے، اس کے چہرے پر نمایاں تھی، نہ اس کا وقار زائل ہوتا تھا اور نہ اس کے مخصوص چمکیلے پن، تنومندی اور عمودی وضع میں کمی آتی تھی۔

 سیڑھیوں پر چڑھتے وقت اس نے کہا: "نہ کوئی انسان ہے، نہ آواز، نہ ہنگامہ خدا کرے خریت ہو!"

 وہ ڈاکٹر کو ہال میں سے ایک بڑے ڈرائنگ روم میں لے گیا۔ وہاں ایک سیاہ پیانو رکھا تھا اور سفید غلاف میں لپٹا ہوا ایک جھاڑ لٹک رہا تھا۔ وہاں سے دونوں ایک نہایت پُرتکلف چھوٹے سے خوش وضع ڈرائنگ روم میں پہنچے جس میں خوشگوار دھیمی گلابی روشنی پڑ رہی تھی۔

 "آپ یہاں تشریف رکھیے اور میں ۔۔۔۔۔ ابھی آتا ہوں، ذرا جا کر دیکھوں اور انہیں تیار کروں۔"

 کریلوف اکیلا رہ گیا۔ ڈرائنگ روم کی آراستگی، خوشگوار دھیمی روشنی، ایک انجان کے مکان میں اس کی موجودگی جس میں ایک افسانے کا رنگ پیدا تھا۔ ان باتوں سے وہ متاثر نظر نہیں آتا تھا۔ ایک نیچی کرسی پر بیٹھا ہوا وہ اپنے کاربالک سے جلے ہوئے ہاتھوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ گہرے سرخ شمع پوش اور رباب کے خانے کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی، جدھر گھنٹہ ٹک ٹک کررہا تھا، ادھر نظر ڈالی تو ایک ابوگن کا سا بھاری بھرکم اور چکنا چپڑا بھیڑیا دکھلائی دیا۔

                ہر طرف سکوت تھا۔۔۔۔ ذرا دور ایک متصل کمرے میں کسی نے بلند آواز سے آہ بھری۔ شیشے کے دروازے کھلنے کی آواز آئی جو غالباً توشہ خانے کے تھے، اور پھر خاموشی چھاگئی۔ پانچ منٹ انتظار کرنے کے بعد کریلوف نے اپنے ہاتھوں کا معائنہ چھوڑ دیا اور جس دروازے سے ابوگن غائب ہوا تھا، ادھر نظر دوڑائی۔

 دروازہ میں ابوگن کھڑا تھا، مگر اب اس کی حالت پہلے سے بہت مختلف تھی۔ چمکیلا پن اور شائستہ تکلف کا رنگ اڑ چکا تھا۔ اس کا چہرہ، ہاتھ ، وضع قطع ، سب ایک ایسے بقوارہ انداز سے مسخ ہوگئے تھے جس میں سراسیمگی اور شدید جسمانی درد دونوں کی آمیزش تھی۔ سارے خدوخال پر رعشہ تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ سب اس کے چہرے سے زبردستی اپنے تئیں نوچ رہے ہیں۔ آنکھیں کرب سے ہنستی نظر آتی تھیں۔

 

 ابوگن نے ڈرائنگ روم کی طرف آہستہ سے قدم اٹھایا، آگے جھکا، آہ کھینچی، اور مٹھی بند کرکے لفظ "دھوکا" دیا! آخر یہ دھوکا کیوں؟ یا میرے اللہ ! ۔۔۔  میرے اللہ!۔۔۔ اس ناپاک چال، اس شیطانی بہانے کی کیا ضرورت تھی؟ میں نے اس کے ساتھ کیا کیا؟ بھاگ گئی!"

 آنسو اس کی آنکھوں سے جاری ہوگئے۔ ایک پاؤں سے مڑا اور کمرے میں ٹہلنے لگا، اب اپنے چھوٹے کوٹ، قطع دار چست پتلون، جس سے اس کی ٹانگیں  نامناسب طور پر پتلی معلوم ہوتی تھیں، اور اپنے بڑے سر اور لمبے ایال کی وجہ سے وہ شیر ببر سے بہت مشابہہ تھا۔ ڈاکٹر کے بے حس چہرے میں تجّسس کی جھلک پیدا ہوئی۔ وہ اٹھا اور ابوگن کو دیکھنے لگا۔

 "معاف کیجئے گا، بیمار کہاں ہے؟"

 "بیمار!۔۔ بیمار! " ہنس کر چیخ کر، مٹھی بھینچ کر، ابوگن نے زور سے جواب دیا۔ "وہ بیمار نہیں، ملعون ہے! کمینی! ذلیل! شیطان کے ذہن میں بھی اس زیادہ گئی گزری حرکت نہیں آسکتی! مجھے چلتا کیا تاکہ ایک مسخرے، فاتر العقل، نقال کے ساتھ بھاگ جائے! کاش وہ مرگئی ہوتی! میں یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکتا! کبھی نہیں کرسکتا!"

 ڈاکٹر تن کے کھڑا ہوگیا۔ اس نے آنکھیں جھپکائیں اور ان میں آنسو بھر آئے اس کی چھدری داڑھی کانپنے لگی۔ پھر چاروں طرف تجّسس آمیز نظر ڈال کے پوچھا۔

 "یہ تو فرمایئے آخر اس کا مطلب کیا ہے؟ میرا بچہ مرا پڑا ہے، میری بیوی پورے مکان میں تن تنہا ماتم میں ہے۔۔۔ خود مجھ سے کھڑا نہیں ہوا جاتا، میں نے تین راتیں جاگ جاگ کر کاٹی ہیں ۔۔۔۔ اور یہاں مجھے مجبور کیا جارہا ہے کہ ایک بازاری تماشے میں حصہ لوں! میں بالکل نہیں ۔۔۔۔ مطلق نہیں سمجھا کہ ماجرا کیا ہے!"

 ابوگن نے ایک مٹھی کھولی، فرش پر ایک مسلا ہوا پرچہ پھینکا، اور اسے اس طرح روندا گویا وہ کوئی کیڑا ہے جسے وہ کچلنا چاہتا ہے، اور دانت پیس کر، ایک گھونسا اپنے چہرے کے آگے تان کر کہا:

 "میں نے نہ دیکھا نہ سمجھا۔ مجھے یہ نہیں سوجھا کہ وہ روز آتا ہے! یہ نہ سوجھا کہ آج بند گاڑی میں آیا تھا! بند گاڑی میں کیوں آیا تھا؟ میں اس وقت بھی نہ سمجھا۔ احمق کہیں کا!"

 ڈاکٹر بڑبڑایا "میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اس کا مطلب کیا ہے؟ یہ تو شخصی وقار کی بے حرمتی، انسانی غم کا مضحکہ ہے! یہ حرکت ناگفتنی ہے۔۔۔۔ میری زندگی میں اپنی قسم کا یہ پہلا اتفاق ہے!"

 اس شخص کی طرح جسے رفتہ حیرت کے ساتھ اندازہ ہوکہ اس کی اہانت کی گئی ہے، ڈاکٹر نے اپنے شانے ہلائے، بازو زور سے جھٹکے، اور جب سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے تو بے بس ہو کر کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔

 ابوگن روقت آمیز آواز میں کہے گیا۔۔ "اگر تمہیں مجھ سے محبت نہیں رہی اور کسی اور سے ہوگئی تو خیر یوں ہی سہی، مگر یہ دھوکا، یہ بازاری، غدارانہ چال کیوں؟ اس کا کیا مطلب ہے؟ اسے کیسے حق بجانب ٹھہرا سکتے ہیں؟ میں نے تمہارے ساتھ کیا کیا؟پھر کریلوف کے قریب آکر پُر حرارت طریقے سے کہا: "ڈاکٹر صاحب، سنیے۔ آپ نے اتفاقیہ میری بدنصیبی اپنی آنکھوں سے دیکھ لی۔ میں آپ سے اصل حقیقت نہیں چھپانی چاہتا۔ قسمیہ کہتا ہوں میں اس کو چاہتا تھا، دیوانہ وار چاہتا تھا، غلامانہ چاہتا تھا! میں نے اس کے لیے ہر چیز تج دی، اپنے عزیزوں سے لڑا، نوکری اور موسیقی چھوڑی، اپنی ماں اور بہن کو جو معاف نہ کرتا، وہ اسے معاف کیا۔۔۔۔ کبھی ٹیڑھی نظر سے نہیں دیکھا۔۔۔ کبھی کوئی بات نہیں کاٹی۔ پھر یہ دھوکا کیا؟ میں محبت نہیں چاہتا، مگر یہ مکروہ عیاری کیسی؟ اگر اسے مجھ سے محبت نہ تھی، تو صاف صاف کیوں نہ کہا؟ اس مضمون پر میرے جو خیالات ہیں، ان سے وہ واقف تھی!"

 آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی، سر سے پاؤں تک کانپتے ہوئے، ابوگن نے پورے پورے خلوص و صداقت کے ساتھ اپنا دل چیر کے ڈاکٹر کے سامنے رکھ دیا۔ جوش سے دونوں  ہاتھ سینے پر رکھے وہ اپنی نجی زندگی کے راز بلا تامل افشا کررہا تھا، اور معلوم ہوتا تھاکہ خوش ہے کہ آخر یہ راز اس کے سینے میں پوشیدہ نہ رہے۔ اگر گھنٹے دو گھنٹے اسی طرح باتیں کیے جاتا تو یقیناً اس پر اس کا اچھا اثر پڑتا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اگر ڈاکٹر اس کی باتیں سنتا اور دوستانہ دل سوزی ظاہر کرتا تو شاید جیسا اکثر ہوتا ہے، وہ بغیر چیخے چلائے، بغیر شکوہ شکایت کیے یہ صدمہ سہار لیتا۔۔۔۔ مگر ہوا کچھ اور ۔۔۔۔ ابوگن باتیں کررہا تھا کہ غضب آلود ڈاکٹر کے تیور بگڑ گئے، چہرے کی بے رخی اور حیرت، تلخ غیظ و غضب، سے بدل گئی، خدوخال اور زیادہ درشت، بھدے اور ناخوشگوار ہوگئے۔ جب ابوگن نے اس کے سامنے ایک ایسی جوان عورت کی تصویر کھینچی جس کا خوب صورت چہرہ کسی راہبہ کی مانند بارد اور علامات حسیات سے عاری ہو، اور اس سے پوچھا کہ کیا اس کا چہرہ کو دیکھ کر کوئی گمان کرسکتا ہے کہ اس میں عیاری کی صلاحیت بھی ہوگی، تو ڈاکٹر کی آنکھوں سے شعلے نکلنے لگے اور اس نے تڑپ کر شقاوت سے کہا:

 "مجھے آپ کے رازوں کی ضرورت نہیں! اب ہر لعنت ہو! ایسی عامیانہ حرکتوں کا مجھ سے ذکر نہ کیجئے آپ سمجھتے ہیں ابھی میری ذلت نہیں ہوئی؟ مجھے کوئی خوشامدی سمجھا ہے کہ چپ چاپ آپ کی باتیں سنے جاؤں؟ یہ بات ہے؟"

 ابوگن، کریلوف کے پاس سے پیچھے کی طرف لڑکھڑایا اور اس کی طرف حیرت سے گھورنے لگا۔

 ڈاکٹر نے پھر بولنا شروع کیا۔ اس کی داڑھی لرز رہی تھی۔ "مجھے آپ یہاں لائے کیوں؟ اگر تماش بینی کرتے کرتے آپ کا جی اتنا اکتا گیا کہ آپ گئے اور شادی کرلائے اور پھر اس قسم کا تماشا دیکھا تو مجھے اس سے کیا؟ مجھے آپ کی محبت کے افسانوں سے کیا؟ میرا پیچھا چھوڑیے! اپنے شریفانہ انداز سے غریبوں کو خوب ٹھگئے، رقیق خیالات کی نمائش کیجئے، گایئے، بجایئے (ڈاکٹر نے ترچھی نظر سے رباب کے خانہ کی طرف دیکھا) مرغے کی طرح پھولیے مگر شخصی وار کو پامال کرنے کی جسارت نہ کیجئے! اگر آپ سے اس کا احترام نہیں ہوسکتا، تو کم از کم اپنے التفات سے تو اسے محروم رکھیے!"

 ابوگن نے سرخ ہوکر پوچھا: "معاف کیجئے، یہ آپ کیا فرما رہے ہیں؟"

 

 "میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کے ساتھ اس طرح کا مذاق کرنا کمینہ پن ہے! میں ڈاکٹر ہوں، آپ ڈاکٹروں کو اور عموماً ان سب لوگوں کو جو ہاتھ پاؤں ہلاتے ہیں اور آپ کی طرح عطر اور زنا کاری میں ملوث نہیں ہوتے، اپنا خدمت کار سمجھتے ہیں۔ خیر، یہی سمجھیے، مگر آپ کو کسی سوگوار شخص کے ساتھ ایسا عامیانہ مذاق کرنے کا حق کس نے دیا؟"

 ابوگن نے آہستہ سے کہا: "آپ یہ کیسے کہتے ہیں؟" اور اس کے چہرے پر غصے کے مارے تشنج طاری ہوگیا۔

 "میں! میرے صدمے کو دیکھتے ہوئے، ایسی بازاری باتیں سنانے آپ مجھے لائے کیسے؟" یہ کہہ کر ڈاکٹر نے زور سے میز پر ہاتھ مارا۔  "دوسروں کے غم کا  مضحکہ اڑانے  کا حق آپ کو کس نے دیا؟"

 ابوگن نے چیخ کر کہا: "آپ کے حواس جاتے رہے ہیں، یہ سراسر ناانصافی ہے۔ میں خود نہایت غم زدہ ہوں اور ۔۔۔ اور ۔۔۔"

 ڈاکٹر طعن آمیز ہنسی ہنسا۔ "غم زدہ! یہ لفظ زبان سے نہ نکالیے، اس سے آپ کو کوئی واسطہ نہیں۔ وہ فضول خرچ بھی جسے قرض نہیں ملتا، اپنے کو غم زدہ سمجھتا ہے۔ وہ مرغا جو زیادہ ہڑپ کرنے سے کاہل ہوجاتا ہے وہ بھی غم زدہ ہوتا ہے۔ نکمےّلوگ!"

 "جناب، آپ بہت بڑھ رہے ہیں اس قسم کی حرکتوں پر ۔۔۔۔ لوگ سزا پاتے ہیں، سمجھے؟"

 ابوگن نے جلدی سے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا، ایک پاکٹ بک نکالی، اور دو نوٹ نکال کے میز پر پھینکے اور غضب ناک ہوکر کہا: "آپ کا حق ادا ہوگیا۔"

 ڈاکٹر چلایا: "فیس دینے کی جرأت آپ کیسے کرتے ہیں؟" اور نوٹ میز سے فرش پر پھینک دیے۔ "اہانت کا بدلہ روپے سے نہیں ہوتا!"

 ابوگن اور ڈاکٹر آمنے سامنے کھڑے تھے اور تاؤمیں آکر ایک دوسرے کی ناواجب توہین کررہے تھے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے عمر بھر، بحران کی حالت میں بھی، ایسی بے جا تندو تلخ اور لغو باتیں نہ کہی ہوں گی، غم گینی کی خودپرستی دونوں میں کام کررہی تھی۔ غم زدہ لوگ خود غرض، کینہ ور، ناانصاف سنگدل اور باولوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کو سمجھنے کے ناقابل ہوتے ہیں۔ غم لوگوں کو متحد نہیں کرتا، بلکہ ان میں فصیل پیدا کرتا ہے۔ خیال تو یہ ہوتا ہے کہ اشتراک غم سے گھل مل جائیں گے، مگر ہوتا یہ ہے کہ ان کے دلوں میں پر سکون حالات کی نسبت زیادہ ناانصافی اور بے رحمی راہ پا جاتی ہے۔

 ڈاکٹر نے زور سے، تیز تیز سانس لے کر کہا: "مہربانی فرما کر مجھے گھر جانے دیجئے۔"

 ابوگن نے زور سے گھنٹی بجائی۔ جب گھنٹی سے کوئی نہیں آیا، تو پھر بجائ اور غصے میں زمین پر پٹخ دی۔ وہ دھیمی آواز سے قالین پر گری اور اس میں ایک دردناک آواز نکلی گویا اس کی جان نکل رہی ہے۔ ایک خدمتگار آیا اس کے آقا نے اسے مٹھی بھینچ کر ڈانٹا "مردود، کہاں چھپا ہوا تھا؟ اس وقت کہاں تھا؟ جا اور ان صاحب کے لیے وکٹوریا گاڑی تیار کراکے لا، اور میرے لیے بند گاڑی لانے کو کہہ" خدمت گار جانے لگا تو وہ چیخا۔ "ٹھہرو، کل تک میں کسی نمک حرام کو اپنے ہاں نہیں رکھوں گا! تم سب کو نکال دوں گا! نئے نوکر رکھوں گا! حشرات الارض!"

 ابوگن اور ڈاکٹر گاڑی کے انتظار میں چپ چاپ کھڑے تھے، ابوگن کا چمکیلا پن اور شائستہ تکلف پھر عود کر آیا۔ وہ کمرے میں اِدھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔ تکلف کے انداز سے سر ہلاتا تھا اور صریحاً کسی بات پر غور کررہا تھا۔ اس کا غصہ فرو نہیں ہوا تھا۔ مگر وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا تھا کہ اپنے دشمن کو نظر انداز کررہا ہے۔

 ڈاکٹر میز کے کنارے ہاتھ ٹکائے کھڑا تھا، اور ابوگن کو اس گہری کلبی حقارت سے دیکھ رہا تھا۔ جو صرف غم و غربت کی آنکھوں میں پائی جاتی ہے۔ جب ان کا سامنا شکم سیر آسائش اور تکلف سے ہوتا ہے۔

 تھوڑی دیر میں ڈاکٹر وکٹوریا میں سوار ہوکر روانہ ہوگیا۔ اس وقت بھی اس کی آنکھوں میں حقارت کی جھلک باقی تھی۔ گھنٹہ بھر پہلے کی نسبت بہت زیادہ اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ سرخ چاند، پہاڑی اور بادلوں کے پیچھے جن کے سیاہ ٹکڑے، تاروں کے قریب، اس کی نگہبانی کررہے تھے، چھپ چکا تھا۔ سرخ لائینوں والی گاڑی نے تھوڑی دیر میں ڈاکٹر کو جالیا۔ اس میں ابوگن تھا جو شکوہ شکایت کرنے، بے سروپا حرکتیں کرنے جارہا تھا۔

 گھر جاتے وقت تمام راستہ ڈاکٹر کو نہ اپنی بیوی کا دھیان تھا، نہ اپنے اینڈرے کا۔ تھا تو ابوگن اور اس مکان کے لوگوں کا جہاں سے وہ آرہا تھا۔ اس کے خیالات شدید ناروا سنگدلی سے مملو تھے۔ وہ ابوگن اور اس کی بیوی اور پیپ چسکی اور ان سب کو جو گلابی، دھیمی روشنی میں بھینی بھینی خوشبوؤں میں رہتے ہیں۔ لعنت ملامت کرتا اور تمام راستے نفرت و حقارت سے ان کا خیال کرتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کا سر چکرا گیا، اور ان لوگوں کے متعلق ایک پکے یقین نے اس کے دل میں جڑ پکڑ لی۔

 وقت گزر جائے گا اور کریلوف کا غم زائل ہوجائے گا، مگر وہ عقیدہ، قلب انسانی کی شان سے بعید، نامنصفانہ عقیدہ نہیں جائے گا، بلکہ مرتے دم تک ڈاکٹر کے ساتھ رہے گا۔

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

 

English Title: Enemies

Written by:

Anton Pavlovich Chekhov (29 January 1860 – 15 July 1904) was a Russian playwright and short-story writer, who is considered to be among the greatest writers of short fiction in history.

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق