کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ : گڑیا گھر (The Doll's House)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 277 : گڑیا گھر (The Doll’s House)

تحریر : کیتھرین مینسفیلڈ(Katherine Mansfield) ، نیوزی لینڈ

ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شاذلی ( نیوزی لینڈ)




مسز ہے(Mrs.Hay) نے برنلس(Burnells) کے یہاں سے واپسی پر بچوں کے لیے ایک گڑیا گھر بطور تحفہ بھجوا دیا۔وہ اتنا بڑا تھا کہ پیٹ(Pat) اور گاڑیبان دونوں مل کر اسے بمشکل صحن تک لا سکے اور اسے وہاں دو لکڑی کے ڈبوں پر جانوروں کے چارہ کے کمرے کے ساتھ رکھ دیے۔چونکہ گرما کا موسم تھا اس لیے گڑیا گھر کو کوئی نقصان نہیں ہوسکتا تھا۔اور کچھ دن باہر رہنے سے اس کے رنگ کی بو بھی چلی جائیگی۔گڑیا گھر کے رنگ سے نکلنے والی بو سے ، آنٹی بےریل(Aunt Beryl) کے خیال میں کوئی بھی بیمار ہو سکتا تھا۔شائد اس کی پیکنگ کھولنے سے پہلے ہی ، اور جب وہ کھل جاے تو..........( ویسے یقیناً ، یہ مسز ہے کی فراخ دلی تھی : بہت پیاری اور بے لوث!)۔

اب یہ گڑیا گھر اپنے گہرے ہرے رنگ اور پیلے رنگ کے ساتھ وہاں کھڑا تھا۔اس کی دو چمنیاں ، سرخ اور سفید رنگ کی اس کی چھت پر گلو سے چسپاں کی گئی تھیں۔پیلی وارنش سے چمکتے دروازے ٹافی کے ٹکڑے جیسے دکھائی دے رہے تھے۔سچ مچ کی چار کھڑکیوں پر ہری دھاریوں والے شیشہ کو دو حصوں میں بانٹ کر لگایا گیا تھا۔ایک چھوٹا سا پیلے رنگ کا پورچ بھی بنا تھا جس کے کناروں سے رنگ کے تودے لٹک رہے تھے۔

لیکن وہ ایک مکمل ننھا سا گھر تھا ! یہاں آخر کون نئے رنگ کی بو کی پرواہ کرتا۔وہ تو اس خوشی ، مسرت اور نئے پن کا حصہ تھا۔

“کوئی اسے جلدی کھولیں نا!”

بازو میں لگا ہک بڑی مضبوطی سے پھنس چکاتھا۔پیٹ(Pat) نے اپنی پین نائیف (penknife) سے کھولنے کی کوشش کی اور ایک جھٹکے کے ساتھ سامنے کا حصہ کھل گیا___اور سب کی نظریں ایک ساتھ گھر کے اندر بنے ڈرائنگ روم ، ڈائنگ روم ، کچن اور دو بیڈ روم پر ٹھہر گئیں۔یہ طریقہ ہوتا ہے کسی گھر کو کھولنے کا! کیوں نہیں سارے گھر اسی طرح سے کھولے جاتے ہیں؟ اس سے زیادہ دلچسپ اور کیا ہوسکتا ھیکہ دروازے کی دراڑوں سے جھانک کر دیکھا جاے___ایک چھوٹا سا ہال جہاں ایک ہیٹ اسٹینڈ اور دو چھتریاں رکھی تھیں۔ بس یہی ! اس کے علاوہ کسی گھر میں تم اور کیا دیکھنا چاہوگے جب تم کسی گھر کے دروازے پر لگی گھنٹی پر ہاتھ رکھوگے ۔شائد خدا مر کر وہاں پہنچنے والوں کے لیے اسی طرح سے دروازہ کھولتا ہو اور خود مڑ کر فرشتہ کے ساتھ چلا جاتا ہو۔

“اوہ ۔ اوہ!” برنل خاندان کے بچے چیخنے لگے ۔ وہ بے حد حیرت انگیز ہے۔ وہ بچوں کی امیدوں سے بہت زیادہ تھا۔انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی ایسی چیز نہیں دیکھی تھی۔سارے کمرے کاغذ سے بنے تھے۔ دیواروں پر سنہری فریموں میں سجی کاغذ پر بنی تصویریں لگی تھیں۔سارے گھر میں ، سواے کچن کے سرخ قالین بچھی تھی۔میزوں اور پلنگوں پر سچ مچ کے کپڑے پڑے تھے۔ایک طرف جھولا رکھا تھا، چولھا رکھا تھا، ایک سنگھار میز جس پر چھوٹی چھوٹی طشتریاں اور ایک بڑا سا جگ رکھاتھا۔لیکن کیزیا(Kezia) کو جو چیز سب سے زیادہ پسند آئی وہ اندر رکھا لیمپ تھا جو کھانے کی میز کے بیچوں بیچ رکھا تھا___سرخی مائل پیلے رنگ کا ، سفید گلاس کے فانوس کے ساتھ۔وہ روشن کیے جانے کے لیے پوری طرح سے تیار تھا، یہ اور بات تھی کہ اسے روشن نہیں کیا گیا۔اس کے اندر تیل جیسی کوئی چیز دکھائی دے رہی تھی جو ہلانے پر حرکت کر رہی تھی۔

البتہ ان گڑیوں کے خاندان کے ماں اور باپ، جو ڈرائنگ روم میں بےہوش پڑے دکھائی دے رہے تھے ،اور ان کے دو بچے جو اوپر سورہے تھے ، اس گڑیاگھرکی مناسبت سے غیر معمولی بڑے محسوس ہورہے تھے۔ کسی بھی صورت ان کا کوئی تعلق اس گھر کے ساتھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔کیزیا کا یہ کہنا کہ “میں تو یہیں رہونگی “، سب کے چہروں پر مسکراہٹ لا دیتا ہے۔بہرحال لیمپ تو حقیقی تھا۔

برنیل خاندان کے بچوں کو دوسرے دن اسکول جانے کی بڑی جلدی تھی۔کیونکہ انھیں اپنے دوستوں کو اسکول کی گھنٹی بجنے سے پہلے گڑیا گھر کے بارے میں بتانا تھا ، بلکہ کچھ شیخی بھی بگھارنا تھا۔

“ میں بتاؤنگی” ، ایزابیل نے اعلان کردیا ، “ کیونکہ میں سب سے بڑی ہوں۔اور تم دونوں بعد میں میرے ساتھ بول سکتے ہو ، لیکن پہلے تو میں ہی کہونگی۔”

کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں بچتی کیونکہ ایزابیل حاکمانہ رویہ کی مالک تھی۔البتہ وہ ھمیشہ صحیح ہوتی تھی۔اور ویسے بھی لاٹی (Lottie) اور کیزیا اچھی طرح جانتے تھے کہ گھر میں سب سے بڑا ہونے کے کیا اختیارات ہوتے ہیں۔پھر وہ خاموشی سے سڑک کے کنارے اگی گل اشرفی کی جھاڑیوں کو چھوتے ہوے چلنے لگے۔

“ اور مما نے کہا ھیکہ مجھے ہی طئے کرنا ہوگا ،کون پہلے آکر ہمارے گڑیا گھر کو دیکھ سکتا ہے۔”

یہ طے کیا گیا کہ جب تک گڑیا گھر صحن میں رکھا ہوگا ،بچے اپنی اسکول کی دوستوں کو دیکھنے کے لیے بلا سکتی ہیں ، لیکن ایک وقت میں صرف دو۔انھیں نہ ہی چاۓکے لیے رکنے کی اور نہ ہی پورے گھر میں گھومتے پھرنے کی اجازت ہوگی۔وہ بس خاموشی سے کھڑی رہیں اور ایزابیل انھیں اس کی تفصیلات بتاتی رہیگی ، اور لاٹی اور کیزا ان لوگوں پر نظر رکھینگی۔

وہ جتنی جلدی جا سکتی تھیں ، انھوں نے پوری کوشش کی لیکن پھر بھی وہ جب لڑکوں کے کھیل کے میدان کی تارکول لگی نکیلی لکڑیوں کی باڑ تک ہی پہنچ پائی تھیں کہ گھنٹی بجنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ان کے پاس بس اتنا وقت تھا کہ وہ تیزی سے اپنی ٹوپیاں نکالیں اور اس سے پہلے کہ ان کے نام پکارے جائیں ، قطار میں کھڑی ہوجائیں۔کوئی بات نہیں۔ایزابیل نے بہت ہی اہم اور پراسرارانداز میں اپنے قریب کھڑی لڑکیوں کے کانوں میں سرگوشیاں کیں ، “تمھیں کچھ بتانا ہے ،کھیل کی چھٹی کے دوران۔”

جیسے ہی کھیل کا وقفہ شروع ہوا ، ساری لڑکیوں نے ایزابیل کو گھیر لیا۔اس کی کلاس کی لڑکیوں نے تو خود کو اس کی اسپیشل دوست ظاہر کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کے لیے لڑائی کرنے لگیں۔اس نے کھیل کے میدان کے پاس صنوبر کے درخت کے نیچے اپنا دربار لگا دیا۔ساری لڑکیاں ایک دوسرے کو کہنی سے اشارے کرتے ہوے ، ہنستے ہوے ، کھلکھلاتے ہوے ایک دوسرے کے قریب بیٹھ گئیں۔اور اس دائرے سے باہر جو دو لڑکیاں تھیں ، وہ ھمیشہ ہی باہر ہوتی تھیں ، بیچاری کیلویز(Kelveys) کی لڑکیاں۔وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ انھیں برنیل خاندان کی لڑکیوں کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔

دراصل بات یہ تھی کہ برنیل خاندان ہرگز بھی اپنی بچیوں کو اس اسکول کو نہ بھجواتے اگر ان کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ ہوتا۔کوئی اور راستہ تھا ہی نہیں۔دور دور تک کوئی اور اسکول نہیں تھا۔لہٰذہ پڑوس کے سارے بچے___جج کی لڑکیاں ، ڈاکٹر کی بیٹیاں ، دوکاندار کے بچے ، دودھ والے کے بچے ___ایک ہی اسکول میں جانے پر مجبور تھے۔کئی بچے بد اخلاق اور بے ادب اور غیر مہذب تھے۔لیکن کہیں نہ کہیں ایک علٰحیدگی کی لائن کھینچنا ضروری تھا۔اور کیلویز کو الگ کردیا گیا۔کئی بچے بشمول برنیلس کے ، جنھیں اجازت نہیں تھی کہ وہ کیلویز کے ساتھ بات بھی کریں۔کیلویز کے قریب سے گذرتے ہوے وہ اپنے سر آسمان کی طرف کرلیتے جیسے کہ شائد اخلاق کے میدان میں یہ کوئی نیا فیشن ہو۔کیلویز سے ہر ایک نے اجتناب کیا ہوا تھا۔یہاں تک کہ ٹیچر آواز بھی تبدیل ہوجاتی ان سے بات کرتے ہوے جب لل کیلوی (Lil Kelvey) نے بہت ہی عام قسم کے پھول پیش کیے، جبکہ دوسرے بچوں کے لیے وہ اسپیشل مسکراہٹ دیتی ۔

وہ ایک پھرتیلی اور محنتی دھوبن کی بیٹیاں تھیں جو دن بھر گھر گھر جاکر لوگوں کے کپڑے دھوتی تھی۔اتنی سی بات ان کے ناپسندیدہ ہونے کے لیے کافی تھی۔مسٹرکیلوی (Mr.Kelvey) کے بارے میں کوئی نہیں جانتا تھا ، البتہ ہر شخص کہتا تھا کہ وہ جیل میں تھا۔بس وہ لڑکیاں ایک دھوبن اور ایک عادی مجرم کی بیٹیاں تھیں۔اور لوگوں کے بچوں کے لیے ان کی دوستی شائد ٹھیک تھی۔لیکن یہ سمجھنا مشکل تھا کہ آخر مسز کیلوی اپنے معاشرتی معیار کو کیوں اتنا واضح اور نمایاں کرنا چاہتی تھیں۔ان کے لباس لوگوں کے گھر سے لاے گیے بچے ہوے کپڑوں کے ٹکڑوں سے بنے ہوتےتھے ۔لیل ، جو کچھ صحت مند اور چہرے پر داغ لیے تھی، ایک دن اسکول ہرے رنگ کا ڈریس پہن کر آئی جو برنیلس کے ٹیبل کلاتھ سے بنا تھا اور سرخ آستینیں لوگنس(Logans) کے پردوں سے بنی تھیں۔اس کی ہیٹ اس کے سر کے ناپ سے کافی بڑی تھی کیونکہ وہ پوسٹ مسٹریس ، مس لیکی (Miss Lecky)کی ہوا کرتی تھی۔اس کو پیچھے کی طرف سے موڑ کر اور سامنے سرخ رنگ کا پر سجا کر اس کے ناپ کا کرنے کی کوشش کی گئی۔اس کو دیکھ کر واقعی ہنسی کو روکنا مشکل تھا۔اور اس کی چھوٹی بہن ، ہماری ایلس(our Else) نے لمبا سا گاؤن پہن رکھا تھا جو ایک نائیٹ گاؤن لگ رہا تھا اور ساتھ میں لڑکوں کے جوتے پہن رکھے تھے۔ویسے ہماری ایلس جو بھی پہنتی ، وہ عجیب ہی دکھائی دیتی تھی۔وہ ایک چھوٹی سی ، دوسروں کے لیے خوش نصیبی کا پیغام دینے والی بچی تھی۔اس کے کٹے ہوے بال اور بڑی بڑی سنجیدہ آنکھوں کے ساتھ وہ ایک سفید الو نظر آتی تھی۔بہت کم بات کیا کرتی اور کسی نے اسے کبھی مسکراتے ہوے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ اپنی بہن لیل کے اسکرٹ کا دامن تھامے چلتی رہتی۔جہاں لل جاتی ، ہماری ایلس اس کے پیچھے جاتی رہتی___کھیل کا میدان ہو ، اسکول کو جانا یا آنا ہو ، یا لل مارچنگ کررہی ہو تو ہماری ایلس پیچھے سے اس کا دامن تھامے رہتی۔صرف اس وقت جب اسے کچھ لینا ہوتا ،یا وہ تھک گئی ہو تی تو سکرٹ کو جھٹکا دیتی یا ہلاتی اور لل رک کر پیچھے مڑ کر دیکھتی۔دونوں بہنیں ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھتی تھیں۔

وہ جھاڑیوں کے پیچھے منڈلانے لگیں تا کہ دوسری لڑکیوں کی باتیں سن سکیں اور وہ برابر سن ہی لیتی تھیں ۔اور اگر مڑ کر دیکھ لیتیں کہ لڑکیوں نے انھیں دیکھ لیا تو لل تو کھسیانی ہو کر ہنس دیتی جب کہ ہماری ایلس صرف دیکھتی رہتی۔

ایزابیل اونچی اور مغرور آواز میں بولتی رہی۔ قالین اتنی بہترین کہ ہم سب بےحد متاثر ہوے۔بستروں پر سچ مچ کی خوبصورت چادریں بچھی تھیں اور چولھا تندور کے ساتھ جس میں تندور کا دروازہ بھی لگا تھا۔

جب ایزابیل نے اپنی بات ختم کی ، کیزیا بول اٹھی ، “ایزابیل ، تم لیمپ کے بارے میں بتانا تو بھول ہی گئیں۔”

“ ہاں، ہاں،” ایزابیل نے کہا ، “اور پیلے رنگ کی کانچ سے بنا ایک چھوٹا سا ، نازک سا لیمپ جو کھانے کی میز کے درمیان میں رکھا ہے۔آپ کہہ نہیں سکتے کہ وہ حقیقی نہیں ہے۔”

“ لیمپ سب سے بہترین ہے۔”کیزیا نے چیخ کر کہا۔اس کے خیال میں ایزابیل نے لیمپ کی پوری طرح سے تعریف نہیں کی۔لیکن کسی نے دھیان نہیں دیا۔ایزابیل دو لڑکیوں کا انتخاب کرنے میں مصروف تھی جنھیں اس شام ان کے گھر جاناتھا۔اس نے ایمی کول(Emmie Cole) اور لینا لوگن(Lena Logan) کا انتخاب کیا۔جیسے ہی سب کو پتہ چلا کہ انھیں بھی اس گڑیاگھر کو دیکھنے کا موقعہ ملیگا ، وہ سب ایزابیل کے ساتھ اپنی دوستی کا دم بھرنے لگیں ___ کوئی اسکی کمر میں ہاتھ ڈالے سرگوشیاں کرنے لگیں ، “ایزابیل میری دوست ہے۔”

صرف کیلویز بہنیں بھلا دی گئیں۔اور وہاں ان کے سننے کے لیے کچھ بچانہیں تھا۔

دن گذرتے رہے۔اور جب بہت ساری بچیاں اس گڑیاگھر کو دیکھ چکی تھیں ، اس کی شہرت کافی پھیل چکی تھی۔یہ غصہ کی ایک وجہ بھی بن چکا تھا۔ایک عام سوال گردش کر رہا تھا ،” آپ نے برنیلس کا گڑیاگھر دیکھا؟کتنا خوبصورت ہے نا؟ “

“آپ نے نہیں دیکھا؟ اوہ ،افسوس ہے!”

یہان تک کہ رات کے کھانے پر بھی گڑیاگھر کی باتیں ہونے لگی تھیں۔دونوں بہنیں صنوبر کے درختوں کے نیچے بیٹھ کر مٹن سینڈوچ اور بٹر لگا کیک کا ٹکڑا کھاتی رہیں۔جبکہ کیلویز ، ہماری ایلس اور لل ، ان سے قریب تر ہو کر بیٹھ جاتیں تاکہ ان کی باتیں سن سکیں ، اور اخبار میں لپٹے اپنے سینڈوچ جن پر اخبار کے لال دھبے لگ چکے تھے ، نکال کر کھانے لگتیں۔

“ مما ، “ کیزیا نے کہا، “ کیا میں صرف ایک مرتبہ کیلویز کو بلوالوں؟”

“ قطعی نہیں، کیزیا۔”

“لیکن کیوں نہیں؟”

“ چلی جاؤ یہاں سے ، کیزیا؛ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کیوں نہیں۔”

آخر تمام بچیوں نے دیکھ لیا سواے کیلویز کے۔گڑیاگھر کا موضوع دب چکا تھا۔شام کے کھانے کاوقت تھا۔سارے بچے صنوبر کے درختوں کے نیچے جمع تھے ۔ اور اچانک ،جیسے ہی انھوں نے کیلویز کو دیکھا جو اخبار سے نکال کر اپنے سینڈوچ کھا رہی تھیں اور ان کی باتیں سن رہی تھیں، انھیں خیال آیا کہ ان کو ڈرایا جاے۔ ایمی کول سرگوشی کرنے لگی۔

“ لل کیلوی بڑی ہوکر ملازمہ ہی بنے گی۔”

“ کتنی حیرانی کی بات ہے!”ایزابیل برنیل نے یہ کہتے ہوے ایمی کی طرف دیکھا۔

ایمی نے معنی خیز آنداز میں اپنا گلا صاف کیا اور مثبت انداز میں سر ہلایا کیونکہ اس نے لل کی ماں کو ایسے موقع پر دیکھ چکی تھی۔

“ یہ سچ ہے ۔ یہ سچ ہے۔ یہ سچ ہے۔ “ اس نے جواب دیا۔

لینا لوگن نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں گھمائیں اور سرگوشی کی۔” کیا میں اس سے پوچھ لوں؟”

جیسی میے(Jessie May) کہنے لگیں ، “شرطیہ تم نہیں پوچھ سکتیں۔”

لینا نے فوری جواب دیا ‘ اونہہ ، میں نہیں ڈرتی۔” اور پھر چیختے ہوے ناچنا شروع کردیا۔” دیکھو! مجھے دیکھو ! اب مجھے دیکھو!” لینا نے کہا اور پھر پھسلتے ہوے ، کھسکتے ہوے ، گھسٹتے ہوے ، قہقہے لگاتے ہوے وہ کیلویز کے پاس پہنچ گئی۔

لل نے ڈنر کرتے ہوے نظریں اٹھا کر دیکھا اور جلدی جلدی بچا ہوا کھانا لپیٹ لیا۔ہماری ایلس نے چبانا بند کیا۔آخر کیا ہونے والا تھا؟

“ کیا یہ سچ ھیکہ تم بڑی ہو کر ملازمہ بنوگی ، لل کیلوی ؟” لینا نے تیز آواز میں پوچھا۔

موت کی سی خاموشی چھا گئی۔بجاے کوئی جواب دینے کہ لل نے احمقانہ مسکراہٹ دے دی۔اس نے بالکل بھی اس کے سوال کا برا نہیں مانا۔کیا بےعزتی تھی لینا کی! لڑکیاں منہ دبا کر ہنسنے لگیں۔

لینا کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ خاموش رہتی۔اس نے کمر پر ہاتھ رکھا آگے بڑھی۔ “ اچھا ، کیا تمھارا باپ جیل میں ہے !” اس نے ناگوار سی آواز نکالی۔

حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ساری لڑکیاں جذبات سے بھرپور ، خوشی سے پاگل وہاں سے بھاگتی ہوئی چلی گئیں۔کسی نے رسی اٹھا لائی اور سب رسی کھیلنے لگیں۔بہت اونچا اونچا اچھلنے لگیں ، جو اس پہلے انھوں نے کبھی نہیں کیا تھا۔

شام میں پےٹ(Pat) نے برنیل کےبچوں کو بلوایا اور وہ سب گھوڑا گاڑی میں گھر کی طرف روانہ ہوگیے۔گھر مہمان آے ہوے تھے۔ایزابیل اور لاٹی جو مہمانوں کو پسند کرتی تھیں ، فوری اسکول کا ڈریس تبدیل کرنے کے لیے اوپر چلی گئیں۔لیکن کیزیا چھپتی ہوئی پیچھے کی طرف چلی گئی۔وہاں کوئی نہیں تھا ۔کیزیا بڑی سی سفید گیٹ پر جھولنے لگی۔اور اب وہ سڑک کی طرف دیکھ رہی تھی جہاں دور اسے دو نقطے دکھائی دے رہے تھے۔نقطے بڑے ہوتے ہوے اسی کی طرف بڑھ رہے تھے۔وہ دیکھ سکتی تھی___ ایک سامنے اور ایک اس سے بہت قریب ذرا سا پیچھے۔اب وہ صاف دیکھ سکتی تھی وہ کیلویز بہنیں تھیں۔کیزیا نے جھولنا بند کیا اور گیٹ سے کود کر بھاگنے لگی۔پھر جھجک کر رک گئی۔ دونوں بہنیں قریب آچکی تھیں اور ان کے ساتھ ان کے ساے جو بے حد لانبے تھے ، سڑک سے گزرتے ہوے ان کے سر گل اشرفی کے پودوں پر تھے۔کیزیا پھر گیٹ پر چڑھ گئی اور جھولتے ہوے ہی کیلویز بہنوں سے کہا” ہیلو ۔”

دونوں بہنیں ہکا بکا ہو کر رک گئیں۔لل نے تو احمقانہ مسکراہٹ دی البتہ ہماری ایلس نے گھور کر دیکھا۔

“ اگر آپ چاہیں تو اندر آکر گڑیا گھر دیکھ سکتی ہیں ،” کیزیا نے کہا اور جھولنا بند کر کے ان کے قریب آنے کو تھی کہ لل نے نفی میں سر کو ہلایا۔

“ کیوں نہیں ؟” کیزیا نے پوچھا۔

لل نے ہانپتے ہوے بتایا ، “ تمھاری مما نے ہماری مما سے کہا کہ وہ تمھارا ہمارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کرتیں۔”

“ اوہ ، ٹھیک ہے ، “ کیزیا نے کہا، اسے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ “ کوئی بات نہیں ۔ تم آکر ہمارا گڑیا گھر دیکھ سکتی ہو۔ آجاو۔ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے۔”

لیکن لل نے اور زور سے اپنا سر ہلایا۔

“ کیا تم دیکھنا نہیں چاہتیں؟”

اچانک لل کا اسکرٹ ہلا اور زور سے کھینچا بھی گیا۔وہ پیچھے پلٹی۔ہماری ایلس بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ ماتھے پر بل ڈالے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔وہ اندر جانا چاہتی تھی۔ایک لمحہ کے لیے لل نے ہماری ایلس کو مشکوک نظروں سے دیکھا۔لیکن ہماری ایلس نے پھر اس کا اسکرٹ پکڑ کر کھینچا۔آخر وہ آگے بڑھ گئی۔کیزیا نے راستہ دکھایا۔ دو بلیاں بھی ان کے ساتھ ہی گڑیاگھر تک چلتی رہیں۔

“ یہی ہے وہ،” کیزیا نے کہا۔

کچھ دیر خاموشی رہی۔ لل گہری سانسیں لینے لگی۔ہماری ایلس تو پتھر کی مورت بنی کھڑی رہی۔

“ میں تمھارے لیے اسے کھولتی ہوں،”کیزیا نے شفقت سے کہا۔ اس نے کنڈی کھولی اور سب گڑیاگھر کے اندر دیکھنے لگے۔

“ اندر تو ڈرائینگ روم ہے ، اور ڈائینگ روم اور وہ ___”

“ کیزیا !”

یہ آنٹی بیرل(Aunty Beryl) کی آواز تھی۔بچیوں نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔دروازہ پر کھڑی آنٹی بیرل انھیں اس طرح دیکھ رہی تھیں جیسے انھیں اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا جو وہ دیکھ رہی تھیں۔

“ تم نے ہمت کیسے کی کیلویز کو اپنے صحن میں بلانے کی!” آنٹی کی بے رحم اوربرھم آواز گونجی۔” تم بھی جانتی ہو اور میں بھی کہ تمھیں ان سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔بچوں ، چلو بھاگو یہاں سے اور کبھی واپس مت آنا۔” آنٹی بیرل نے کہا۔اور وہ آگے صحن میں آئیں اور دونوں بچیوں کو ایسے باہر نکالا جیسے وہ مرغی کے بچے ہوں۔

“ فوراً یہاں سے چلے جاو!” اسی بے رحم اور مغرور انداز میں وہ چیخیں۔

دوبارہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔انتہائی شرمندگی سے اپنے آپ میں سمٹتے ہوے، لل اپنی ماں کی طرح ڈر سے دبکتے ہوے ، ہماری ایلس صدمہ سے دنگ ، کسی ظرح اس بڑے سے صحن سے گذر کر سفید گیٹ سے سکڑ کر باہر نکل گئیں۔

“ خبیث اور سرکش لڑکیاں!” بہت زیادہ کڑواہٹ کے ساتھ ، آنٹی بیرل نے کیزیا سے کہا۔اور اس نے گڑیا گھر کے دروازے کو زور سے مارا۔

شام کافی ناخوشگوار سی رہی۔ولی برینٹ(Willie Brent) کا دھمکی آمیز خط ملا کہ اگر وہ اس شام پلمینس بش( Pulman’s Bush) پر ان سے ملنے نہ آئیں تو وہ سامنے کے دروازہ سے داخل ہو کر سب کے سامنے اس کے نہ آنے کی وجہ پوچھینگے۔لیکن آنٹی بیرل نے چونکہ چوہوں کی طرح کیلویز کو ڈرا کر بھگا دیا اور کیزیا کو بھی کافی ڈانٹ پلائی تو وہ کافی ہلکا محسوس کر رہی تھیں۔ان کے دل پر چھایا بھیانک دباؤ نکل چکا تھا۔اور وہ گنگناتی ہوئی گھر کے اندر چلی گئیں۔

جب کیلویز برنیل خاندان کی نظروں سے دور چلی گئیں، وہ ،سڑک کے کنارے پڑے بڑے سے ڈرین پائیپ پر کچھ دیر اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے بیٹھ گئیں۔لل کے گال اب بھی تمتما رہے تھے۔اس نے اپنی ٹوپی نکالی اور گھٹنے پر رکھ لیا۔اونگھتے ہوے انھوں نے میدانوں پر پڑے جانوروں کے چارے کو دیکھا ،چشمہ کے پاس سے گذریں ، پھر وہ ٹہنیوں سے بنی باڑھ کے پاس سے گذریں جہاں لوگنس کی گائیںں انکا دودھ نکالے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔لل اور ہماری ایلس کیا سوچ رہی تھیں ؟

اس وقت ہماری ایلس ہلکے سے لل کو دھکا دیتے ہوے اس کے قریب آگئی۔اور اب وہ اس تند مزاج خاتون کو بھول چکی تھی۔وہ مسکراتے ہوے ہلکے سے اپنی انگلی سے لل کی ٹوپی کے پر کو مار کر کھیلنے لگی ۔

“ میں نے وہ چھوٹا سا لیمپ دیکھ لیا ،” اس نے آہستہ سے کہا۔

پھر ایک بار دونوں خاموش ہو چکی تھیں۔

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق