گی دے موپاساں کا افسانہ : الوداع (A dieu)
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 116 :
الوداع
افسانہ نگار : گی
دموپاساں (فرانس)
مترجم : شوکت نواز
نیازی [راولپنڈی]
دونوں دوست کھانے سے
فراغت کے بعد ریستوراں کی کھڑکی سے باہر سڑک پر گہما گہمی اور موسمِ سرما کی شاموں
میں پیرسؔ کی گلیوں میں آوارہ پھرنے والے ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہو رہے
تھے۔ ہوا کی بھینی بھینی خوشبو سے چہل قدمی کرنے والوں کا جی چاہ رہا تھا کہ پر
لگا کر کہیں اڑجائیں۔۔ ۔ دور بہت دور۔۔۔ نجانے کہاں!اور دریاؤں کے پانی کی لہروں
پر کھیلتی چاندنی،ستاروں کی مانند جھلملاتے جگنؤوںاور بلبل کے گیتوں والے خوابوں
میں کھو جائیں۔
پہلے دوست، ہنری
سیموںؔ، نے ایک گہری سانس بھری اور بولا،"آہ! بوڑھا ہو گیا ہوں میں ۔کتنی
اداس بات ہے۔کسی زمانے میں ایسی ہی شاموں میں مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے
میرے تن بدن میں آگ بھر دی گئی ہو۔اور آج۔۔۔ آج مجھے تاسّف اور مایوسی کے علاوہ
اور کچھ محسوس نہیں ہو رہا۔زندگی بھی کیسے پلک جھپکتے میں بیت جاتی ہے !"
وہ شاید پنتالیس کے
پیٹے میں ہو گا، قدرے فربہی کی مائل اور ابھی سے مکمل طور پر گنجاہو چکاتھا۔
اس کے
دوست،پیئیرکارنیئےؔ،جو عمر میں اس سے کچھ ہی بڑا لیکن قدرے دبلا پتلا اور چست تھا،
نے جواب دیا، "میرے دوست! مجھے تو احساس ہی نہیں ہوا کہ میں کب بوڑھا ہو
گیا۔میں ہمیشہ ہی سے بہت خوش مزاج،پرجوش اور چاق و چوبند ہوا کرتا تھا۔لیکن چونکہ
ہم ہر روز ہی آئینے میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں اس لئے ہمیں گزرتی ہوئی عمر کی شکست
و ریخت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔وقت یوں گزرتا ہے اور ہمارے چہروں پر یوں دھیرے دھیرے
اور تواتر سے نقش چھوڑ تا جاتا ہے کہ ہمیں ان تبدیلیوں کا احساس ہی نہیں ہوتا۔یہی
تو وجہ ہے کہ ہم عمر کی ان ستم ظریفیوں کے ہاتھوں دو تین سال ہی میں مر کھپ نہیں
جاتے۔ہمیں ان کا احساس ہی نہیں ہوتا۔اس کا درست اندازہ اس وقت ہو گا جب چھ ماہ تک
آئینے میں اپنا چہرہ دیکھے بغیر رہیں۔۔۔ہاں ! پھر معلوم ہو گا!اور عورتیں؟آہ میرے
دوست، مجھے تو ان بیچاریوں پر ترس آتا ہے۔ان کی ساری خوشی، ساری طاقت اور ان کی
ساری زندگی ان کے ظاہری حسن میں ہی پنہاں ہے جو صرف پانچ چھ سال تک قائم رہتا
ہے۔"
مجھے اپنے بڑھاپے کا
احساس ہی نہ ہوا۔ میری عمر پچاس سال ہو چکی تھی لیکن میں خود کو جوان سمجھتا تھا۔
اور چونکہ مجھے کوئی جسمانی بیماری لاحق نہ تھی اس لئے میں خوش باش اور پر سکون
زندگی گزار رہا تھا۔
اپنی جوانی کے زوال کا
انکشاف مجھ پر یوں ہی ایک روز اس یکلخت خوفناک لیکن قطعاً غیر محسوس انداز میں
ہواکہ میں چھ ماہ تک بستر سے نہ اٹھ سکا۔۔۔اور پھر میں نے اپنے حالات سے سمجھوتہ
کر لیا۔
سب مردوں کی طرح میرے
دل کو بھی بہت سی عورتیں بھائی تھیں، لیکن سچی محبت صرف ایک ہی سے ہوئی تھی۔بارہ
سال ہو گئے ،جنگ کے کچھ عرصے بعد وہ مجھے پہلی مرتبہ عطریتاہؔ کے ساحلی شہر میں
ملی تھی۔صبح کے وقت اس ساحل سے زیادہ پرسکون جگہ اور کوئی نہ تھی۔
ساحل گھوڑے کی نعل کی
شکل کا تھا جس کی تین اطراف میں اونچی بلند و بالاسفید کھڑی چٹانیں تھیں جن میں
چیچک کے داغوں کی مانند چھوٹے چھوٹے غار دکھائی دیتے تھے۔یہیں سے گول چمکدار
پتھروں والی ایک چوڑی پٹی سمندر میں دور تک چلی جاتی تھی۔اوراسی پٹی پر دھوپ سے
روشن دنوں میںدور دور سے علاقے کی مکین اور سیاح خواتین سمندر میں نہانے آتی
تھیں۔اس وقت یوں دکھائی دیتا تھا کہ جیسے سمندر کے بیچوں بیچ رنگدار پھولوں کا ایک
باغ اگ آیا ہو۔ لوگ سمندر کے کنارے جا بیٹھتے اور نہانے والیوں کو دیکھتے۔پیراکی
کے لباس کے اوپر فلالین کے گاؤن اوڑھے ہوئے وہ دھیرے دھیرے پانی میں اترتیں اورجب
لہروں کی جھاگ گھٹنوں تک آن پہنچتی تو اپنا گاؤن اتار پھینکتیں اور تیز قدموں سے
سمندر میں کود جاتیں۔انہی چند قدموں میں پانی کی ٹھنڈک کی وجہ سے کپکپاہٹ طاری ہو
جاتی اور چند لمحوں کیلئے سانس رک سا جاتا۔سمندر میں نہانابھی ایک امتحان ہوتا
ہے۔یہیں کسی عورت کے اصلی حسن اور خدوخال کا اندازہ ہوتا ہے ۔ٹخنوں سے لیکرگلے
تک۔۔۔خصوصاً پانی سے باہر نکلتے ہوئے تو سب خوبیاں خامیاں عیاں ہو جاتی ہیں حالانکہ
ٹھنڈا پانی تو یوں بھی ڈھیلے ڈھلکے عمر رسیدہ گوشت کو کھینچ تان کر کس دیتا ہے۔
پہلی مرتبہ میری اس
لڑکی پر نظر پڑی تو میں ہکا بکا کھڑا رہ گیا۔وہ کسی جل پری کی مانند پانی سے نکل
رہی تھی۔کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں جن کا جادو پہلی ہی نظر میںدیکھنے والے کے دل و
دماغ پر سحر طاری کر دیتا ہے۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ زندگی کا واحد مقصد ہی صرف اس
لڑکی کی محبت کا حصول ہے۔اس کو دیکھتے ہی میں بھی اسی سحر میں گرفتار ہو گیا تھا۔
ہمارا تعارف کرایا گیا
اور مجھے یقین ہو گیا کہ میں اس لڑکی سے اتنا پیار کرتا ہوں جتنا میں نے ساری
زندگی میں کسی سے نہیں کیا ہو گا۔میرا دل ہر وقت اس ہی کی چاہ میں کڑھتا رہتا۔کوئی
لڑکی یوں آپ کے حواس پر سوار ہو جائے اس سے زیادہ اذیت ناک اورپر مسرت چیز اور
کوئی نہیں ہو سکتی ۔ یہ بیک وقت انبساط اور عذاب کی انتہا ہے۔اس کی نگاہیں، اس کی
مسکراہٹ،ہوا میں بکھری اس کی زلفیں،اس کی چہرے کے نشیب و فراز۔۔۔اس کے چہرے کے
نقوش کی ہلکی سی جنبش بھی میرے دل و دماغ کو بے چین کردیتی۔اس کی ساری ہستی میرے
اعصاب پر قابو پا چکی تھی،اس کی حرکات و سکنات ،اس کا اٹھنا بیٹھنا،حتیٰ کہ اس کا
لباس بھی اس کے بدن پر پہلے سے کہیں زیادہ حسین دکھائی دیتا تھا۔کسی جگہ اس کا
سکارف دکھائی دیتا یا اس کا دستانہ کسی کرسی پر پڑا ہوا نظر آتا تو میرے دل کی
دھڑکن تیز ہو جاتی۔ اس جیسے فیشن ایبل اور جدید ہیٹ تو سارے شہر میں کسی کے پاس نہ
تھے۔
وہ شادی شدہ تھی۔ اس کا
شوہر ہر ہفتے اس سے ملنے آتا اور سوموار کے روز واپس چلا جاتا۔لیکن مجھے اس کی
کوئی پرواہ نہ تھی اور نہ ہی میں اس سے حسد کرتا تھا۔میرے لئے میری ساری زندگی میں
اس کے شوہر سے زیادہ غیر اہم شخص کوئی نہ تھا اور نہ ہی اس شخص سے کم توجہ میں نے
کسی اور کو دی تھی۔
لیکن اس لڑکی
کو۔۔۔!آہ،اس لڑکی کو میں نے کیسے ٹوٹ کر چاہا ۔وہ بھی تو کتنی حسین ، پر وقار اور
نازک اندام تھی۔ وہ سراپاجوانی،نفاست اور تازگی تھی۔اس سے پہلے مجھے کبھی احساس ہی
نہ ہوا تھا کہ عورت کتنی خوبصورت ، ممتاز، نازک، سحر انگیز چیز کا نام ہے۔میں نے
کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ کسی کے مرمریں رخسار کا خم بھی اس قدر دلفریب ہو سکتا
ہے،کسی کے سرخ ہونٹ کا ایک ارتعاش ، کسی کے کان کی گلابی لوَ اور ناک جیسے مضحکہ
خیز عضو میں بھی اتنا جادو ہو سکتا ہے۔
تین ماہ یوں ہی گزر گئے
اور میں حسرت و یاس سے بھاری دل کے ساتھ امریکہ چلا آیا۔لیکن اس کی شبیہہ میرے دل
میں کندہ رہی ، فاتحانہ انداز میںمسکراتی ہوئی ۔۔۔میں اس سے جتنا دور ہوا میرے دل
پر اس کی محبت کا شکنجہ مزید مضبوط ہوتا گیا۔سالہا سال گزر گئے۔لیکن میں اس کو
بھول نہ پایا۔اس کا حسین اور معصوم چہرہ میرے دل کی اندر اور میری نگاہوں کی سامنے
رہتا ۔میری محبت اور میری وفا میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ لیکن میری محبت اب پرسکون
اور خاموش روپ دھار چکی تھی۔اپنی پوری زندگی میں سب سے خوبصورت اور دلفریب چیز کی
یادکا روپ۔۔۔
مر دکی زندگی میں ماہ
سال کتنی تیزی سے گزر جاتے ہیں۔سال گزرنے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ایک کے بعد دوسرا
سال۔ ۔ ۔ ایک سال کتنا لمبا ہوتا ہے اور کیسے پلک جھپکتے میں ختم بھی ہو جاتا
ہے۔ایک دوسرے کے پیچھے سال اتنی جلدی اکٹھے ہو جاتے ہیں، اور کوئی نقش چھوڑے بغیر
یوں مکمل طور پر غائب ہو جاتے ہیں کہ اگر پیچھے پلٹ کر گزرے ہوئے سالوں پر ایک نظر
ڈالیں تو کچھ دکھائی نہیں دیتا اور کچھ سمجھ نہیں آتا کہ ہم یکدم اتنے بوڑھے کیسے
ہو گئے۔مجھے بھی یوں ہی لگتا ہے کہ آج اور بارہ سال ان دنوں میں جومیں نے
عطریتاہؔ کے ساحل پر گزارے تھے صرف چند مہینوں کا ہی فرق ہو گا۔
ابھی گزشتہ بہار ہی کی
بات ہے کہ میں اپنے دوستوں کے ہاں میزاں لافیطؔ میں ایک دعوت پر مدعو تھا۔جیسے ہی
ٹرین روانہ ہوئی ایک بھاری بھرکم عورت اور اس کے پیچھے پیچھے چار کم سن بچیاں میری
بوگی میں داخل ہوئیں۔میں نے اس عورت پر ،جو ایک مرغی کی طرح اپنے چوزوں کو سنبھالے
ہوئے تھی، ایک اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔ اس کے چاند جیسے روشن گول مٹول چہرے کے گرد اس
کا سیاہ فیتوں والا ہیٹ بادلوں کی مانند ہالہ بنائے ہوئے تھا۔تیزی سے چلنے کے باعث
اس کا سانس پھول چکا تھا ۔بچیاں فوراً ہی آپس میں باتوں میں مشغول ہو گئیں۔میں نے
اپنا اخبار کھولا اور مطالعے میں مصروف ہو گیا۔
ٹرین آسنیئیرؔ سے گزری
ہی تھی کہ مجھے اپنی لحیم شہیم ہمسفر کی آواز سنائی دی، "معاف کیجئے ! کیا
آپ موسیو کارنئیےؔ تو نہیں ہیں؟"
"جی ہاں
مادام!"
اس پر وہ کھلکھلا کر
ہنس دی۔اس کی ہنسی میں گو ایک متانت اور وقار تھا لیکن نجانے کیوں مجھے اس کی ہنسی
میں حزن و ملال کا شائبہ بھی دکھائی دیا۔
"آپ نے مجھے
پہچانا نہیں ؟"
میں کچھ گڑبڑا سا
گیا۔مجھے یقین تھا میں نے یہ چہر ہ پہلے کہیں دیکھا ہوا ہے۔لیکن کہاں؟ کب؟میں نے
جواب دیا،"جی ہاں۔۔۔اور نہیں بھی۔۔۔میں آپ کویقیناً جانتا ہوں، مادام۔ ۔ ۔
لیکن آپ کا نام ذہن سے اتر رہا ہے!"
اس کے چہرے پر سرخی سی
دوڑ گئی۔
"میں۔ ۔ ۔ مادام
جولی لفاورؔ!"
میرے دل میں جیسے کسی
نے چھرا گھونپ دیا ہو۔ایک لمحے کیلئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ساری کائنات ختم
ہو گئی ہو۔مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری آنکھوں کے سامنے سے جیسے کوئی پردہ اٹھا
لیا گیا ہو اورنجانے کیسے کیسے خوفناک راز افشا ہو نے کو ہیں۔
یہ وہی تھی!یہ موٹی
عورت وہی تھی؟ اور اس دوران اس نے چار بچیاں بھی پیدا کر ڈالی تھیں۔اور یہ چار
بچیاں بھی میرے لئے اتنی ہی حیرت کا باعث تھیں جتنی ان کی ماں۔۔۔یہ اس کا ایک حصّہ
تھیں۔اور ابھی سے بڑی ہو چکی تھیں۔زندگی میں اپنا مقام بنا رہی تھیں۔ جبکہ وہ خود
ختم ہو چکی تھی۔وہ جو مجسّم نزاکت اور نفاست تھی۔ایسا لگتا تھا کہ ابھی کل ہی تو
اس سے ملاقات ہوئی تھی اور آج مجھے وہ کس حال میں ملی ؟یہ کیسے ہو سکتاہے؟میرے دل
میں اچانک دکھ درد کا ایک طوفان اٹھا ۔ قدرت کی اس ستم ظریفی کے خلاف زور زور سے
چیخنے کو جی چاہا۔اتنی حسین چیز کی تباہی اور بربادی کے خلاف غم و غصّے کا لاوا سا
اگلنے لگا۔
لیکن بظاہر میں سکتے کے
عالم میں اس کو تکتا رہا۔پھر میں نے اس کے ہاتھ تھام لئے۔مجھے اپنی آنکھوں میں
آنسؤ بھر آتے محسوس ہوئے۔میں آنسؤ بہا رہا تھا اس کی گم شد ہ جوانی پر۔۔۔اور
اس کی موت پر۔۔۔ و ہ مر ہی تو چکی تھی کیونکہ چار بچوں کی اس موٹی ماں کو تومیں
نہیں جانتاتھا۔
میں شائد اپنے جذبات کو
چھپا نہ پایا تھا کیونکہ وہ شکست خوردہ لہجے میں بولی، "میں بہت بدل گئی ہوں
ناں؟ کیا کریں! ہر چیز کا وقت ہوتا ہے۔دیکھیں، میں ماں بن گئی ہوں۔ ایک اچھی
ماں۔باقی سب کچھ ختم۔۔۔میںسوچتی تھی کہ اگر کبھی ہم دوبارہ ملے تو آپ یقینا مجھے
پہچان نہیں پائیں گے۔ آپ بھی تو بہت بدل چکے ہیں۔میںبھی کافی دیر سوچتی رہی کہ
کہیں مجھے کوئی غلط فہمی نہ ہو جائے۔آپ کے بال بھی بالکل سفید ہو گئے ہیں۔ذرا
سوچیں! بارہ سال ہو گئے ہیں۔۔۔بارہ سال! میری بڑی بیٹی دس سال کی ہو گئی ہے۔"
میںنے اس کی بڑی بیٹی
کو دیکھا۔مجھے اس کے چہرے پر بھی اس کی ماں کے حسن کا ایک شائبہ دکھائی دیا۔لیکن
کچھ نامکمل ،آنے والے دنوں کا ایک موہوم سا احساس۔۔۔مجھے زندگی بھی کسی ٹرین کی
مانند تیزی سے گزرتی ہوئی دکھائی دی۔
میزاں لافیطؔ کا سٹیشن
آ گیا۔میں نے اپنی محبوبہ کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔میرے پاس اسے کہنے کو کچھ نہ
تھا۔اس کو اس حال میں دیکھ کر میری زبان گنگ ہو چکی تھی۔
شام کو اپنے گھر میں ،
اکیلا، میں نجانے کتنی دیر آیئنے کے سامنے کھڑا رہا ۔بہت دیر۔۔۔پھر مجھے یاد
آیاکہ میں خود کیسا ہوا کرتا تھا۔۔۔پھر میرے ذہن میں اپنی جوانی کی شبیہہ ابھری،
بھوری مونچھیں، سیاہ بال اور چہرے پر نوجوانی کا جوش و خروش۔ لیکن اب میں بوڑھاہو
چکا تھا۔۔۔الوداع!
(فرانسیسی زبان سے
براہِ راست اردو ترجمہ)
Original Title: A dieu
English Title:
Farewell
Written by:
Guy de Maupassant
(5 August 1850 – 6 July 1893) was a French writer, remembered as a master of
the short story form, and as a representative of the naturalist school of
writers, who depicted human lives and destinies and social forces in
disillusioned and often pessimistic terms.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment