گی دے موپاساں کا افسانہ : بغاوت (Coup d’Etat )
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 367 :
بغاوت
تحریر : گی دے موپاساں
(فرانس)
مترجم : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی)
سیداںؔ میں شاہی فوج کی
شکست فاش کی اطلاع پیرس پہنچ چکی تھی۔ جمہوریہ کے قیام کا اعلان ہو چکا تھا۔ پورا
فرانس اس دیوانگی کے دہانے پر کھڑا تھا جو جو پیرس کمیون کے قیام تک جاری رہی۔ ملک
کے ایک کونے سے دوسرے تک ہر شخص سپاہی بنا ہوا تھا۔
ٹوپیاں بنانے والے کرنل
بن بیٹھے اور جرنیلوں کے فرائض سر انجام دینے لگے۔بھرے پُرے پیٹوں کے گرد سرخ کمر
بندوں کے ساتھ پستول اور تلواریں بندھ گئیں۔ چھوٹے موٹے تاجر شہرت و رتبے کے حصول
کے لئے لڑنے مرنے پر تیار رضاکار جتھوں کے کمانڈر بن گئے۔
آتشیں اسلحے کے حصول
اور اس کی نمائش کی خواہش میں وہ تمام لوگ بھی پاگل ہوئے جاتے تھے جنہوں نے ساری
عمر صرف ترازو سنبھالے تھے اور یوں اپنے ارد گرد سب کے لئے بلا وجہ خطرے کا باعث
بن چکے تھے۔ محض یہ ثابت کرنے کے لئے یہ انہیں بندوق چلانا آتا ہے، وہ بے گناہوں
پر گولی چلا دیتے تھے۔ جس جنگل ویرانے میں کبھی کسی جرمن نے قدم بھی نہ رکھا تھا
وہاں آوارہ کتّے، چرتی ہوئی گائیں بھینسیں اور گھوڑے ان گولیوں کی کا نشانہ بن
گئے۔
ہر شخص سمجھتا تھا کہ
ملک کے دفاعی معاملات میں اسے ہی ایک اہم ترین اور ناگزیر کردارادا کرنا ہو گا۔
فوجی وردیوں میں ملبوس تاجروں سے کھچا کھچ بھرے چھوٹے چھوٹے قصبوں اور گاؤں کے
شراب خانے اور ریستوران کسی فوجی کیمپ یا ہسپتال کا منظر پیش کرنے لگے۔
تاہم کانویلؔ کا چھوٹا
سا شہر ابھی تک فوجی مہمات اور دارلخلافے کی اطلاعات سے بے خبر تھا۔ تاہم ایک
مہینے سے لوگوں میں جوش و جذبہ بڑھتا جاتا تھا اوراکثر مخالفین گروہوں کی آپس میں
مڈبھیڑ ہوجاتی۔
شہر کا مئیر ،
وائیکاؤنٹ دوارنیتوؔ، ایک دبلا پتلا اعتدال پسند تھا جس نے کچھ عرصہ قبل ہی اعلیٰ
عہدے کی توقع میں بادشاہ کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ اس کا بڑا مخالف ڈاکٹر
ماساریل ؔ نامی اعلیٰ حسب نسب کا حامل ایک جمہور پسند مقامی راہنما تھا ۔ وہ مقامی
فیری میسن جماعت کااعلیٰ عہدے دار، کسانوں کی انجمن اور شہر کی فائربرگیڈ کا صدر
بھی تھا۔ مزید برآں وہ دیہی رضاکار ملیشیا کا ناظم اعلیٰ تھا جو مبیّنہ طور پر ملک
کو تباہی سے بچانے کے لئے تیار کی گئی تھی۔
پچھلے دو ہفتوں کے دوران
وہ تریسٹھ رضاکار وں کا اندراج کر چکا تھا جن میں شریف خاندانوں کے سربراہ، کسان
اور تاجر شامل تھے۔ ہر صبح وہ میونسپلٹی کے دفتر کے عین سامنے چوک میں انہیں جمع
کرتا اور انہیں پریڈ کرنے کے تربیت دینا۔
کبھی کبھار جب مئیر کی
میونسپل ہال میں آمد ہوتی تو کمانڈر ماساریلؔ اپنی پیٹی میں پستول اڑسے ہاتھ میں
تلوار تھامے اپنے سپاہیوں کے سامنے سینہ تانے کھڑا ہوجاتا اور انہیں نعرے لگانے کا
حکم دیتا، "مادر ِوطن زندہ باد۔" لوگوں نے دیکھا کہ اس نعرے بازی پر
وائیکاؤنٹ ؔکا چہرہ سرخ ہو جات جسے اس ان نعروں میں خطرے کا اندیشہ دکھائی دیتا
تھا۔ یوں بھی اس کے لئے ایسے نعروں کے ساتھ انقلابِ فرانس کی تلخ یادیں وابستہ
تھیں۔
پانچ ستمبر کی صبح
ڈاکٹر ماساریلؔ مکمل وردی میں اپنے مریضوں کا معائنہ کر رہا تھا ۔ اس کا پستول
سامنے اس کی میز پردھرا تھا۔ مریض ایک بوڑھا کسان تھا جسے پچھلے سات سال سے رگوں
کے ورم کا مرض لاحق تھا لیکن وہ اس انتظار میں رہا کہ جب اس کی بیوی کو بھی یہی
مرض لاحق ہو جائے تو پھر ڈاکٹر کے پاس آئے۔ اسی دوران ڈاکیا اندر داخل ہوا اور
ڈاکٹر کے سامنے اخبار لا رکھا۔
ڈاکٹر نے اخبار کھولا
اور اس پر نگاہ ڈالتے ہی اس کا چہرہ زرد پڑ گیا ۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اوراپنے قریب
بیٹھے خوفزدہ مریضوں کے سامنے آسمان کی جانب ہاتھ بلند کرتے ہوئے بلند آواز میں
چلاّنے لگا، "جمہوریہ زندہ باد۔ ۔ ۔ جمہوریہ زندہ باد۔ ۔ ۔ جمہوریہ زندہ
باد۔"
پھر وہ فرطِ جذبات سے
واپس اپنی کرسی پر بیٹھ گیا۔
کسان مریض نے اپنی بات
جاری رکھی، "ڈاکٹر صاحب، یہ اس وقت شروع ہوا جب میری ٹانگوں پر چیونٹیاں اوپر
نیچے چلنے لگیں۔ ۔ ۔ "
ڈاکٹر ماساریلؔ چیخا،
"بکواس بند کرو، میں پاس تمہاری واہیات باتوں کے لئے وقت نہیں ہے۔ جمہوریہ کے
قیام کا اعلان ہو چکا ہے ۔بادشاہ کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔فرانس بچ گیا ہے۔
جمہوریہ زندہ باد۔"
یکایک وہ دروازے کی
جانب بھاگا اور چیخ کر بولا، "سلیسطؔ، جلدی آؤ، سلیسطؔ۔۔۔"
ملازمہ گھبرائے انداز
میں نمودار ہوئی۔ وہ اتنی تیزی سے بولنے کی کوشش کررہا تھا کہ اس کی زبان اس کا
ساتھ نہیں دے پارہی تھی۔
"میرے بوٹ، میری
تلوار، میرا کارتوسوں کا بکس۔ ۔ ۔ اور میرے بستر کے پاس میز پر میرا ہسپانوی خنجر۔
۔ ۔ فوراً لاؤ۔ "
وہ جیسے ہی ایک لمحے کے
لئے خاموش ہوا ، کسان مریض نے موقع پاتے ہی دوبارہ بونا شروع کیا، " جب میں
دیر تک چلتا ہوں تو بڑی بڑی گلٹیاں بن جاتی ہیں جن میں بہت درد ہوتا ہے ۔۔۔"
ڈاکٹر برانگیختہ انداز میں چنگھاڑ ا، "بکواس بند کرو اور دفع ہو جاؤ۔ ۔ ۔
اگر تم اپنے پیروں کو دھوتے تو یہ کبھی نہ ہوتا۔ "
پھر اس نے کسان کو اس
کے گریبان سے پکڑا اور چیخا، "احمق، تمہاری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جمہوریہ
قائم ہو چکی ہے۔" پھر یکایک اس نے خود پر قابو پایا او روہ دونوں مریضوں کو
دروازے کی جانب دھکیلتے ہوئے بولا، "کل واپس آنا، کل واپس آنا میرے دوست۔ ۔ ۔
آج میرے پاس وقت نہیں ہے۔ "
پھر وہ تیار ہونے لگا،
اس دوران وہ اپنی ملازمہ کو اہم ہدایات دیتا چلا گیا۔ "فوراً لیفٹیننٹ پیکار
ٹؔ اور سیکنڈ لیفٹیننٹ پومیل ؔکے پاس جاؤ اور انہیں کہو کہ فوری طور پر یہاں
پہنچیں۔ اور ٹورچبوف ؔکو کہو کہ اپنا نقارہ کے کر یہاں پہنچے۔ جلدی کرو۔جلدی
کرو۔"
جیسے ہی سلیسطؔ باہر
گئی وہ ایک مرتبہ پھر بیٹھ گیا اور حالات اور ان تمام مشکلات کے بارے میں سوچنے
لگا جن پر اسے قابو پانا ہو گا۔
تھوڑی دیر بعد وہ تینوں
اپنے روزمرّہ کے لباس میں ملبوس پہنچے ۔ کمانڈر جو انہیں وردی پہنے دیکھنے کی توقع
کئے بیٹھا تھا ، حیرت زدہ رہ گیا ، " تم لوگوں کو کچھ اندازہ بھی ہے ؟ بادشاہ
کو گرفتار کر لیا گیا ہے ، جمہوریہ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا ہے ۔ہمیں ابھی
حرکت میں آنا ہو گا۔ میری حیثیت بہت حساس ہے، میں تو کہتا ہوں بہت خطرناک ہے۔
"
وہ اپنے ماتحتوں کے
سامنے کچھ دیر سوچ میں گم کھڑا رہا اور پھر بولا۔ "ہمیں فوری عمل کرنا ہوگا ۔
ہچکچاہٹ کا وقت نہیں ہے ۔ایسے حالات میں منٹ گھنٹوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
ہر چیز کا دارومدار ہمارے بروقت فیصلوں پر ہے۔ پیکارٹؔ ، تم پادری کے پاس جاؤ اور
اسے فوری طور پر گرجے کی گھنٹی بجانے کا حکم دو تاکہ تمام لوگ جمع ہو جائیں تا کہ
میں انہیں یہ اطلاعات دے سکوں۔ اور ٹورچبوف ؔتم اپنا نقارہ بجاتے ہوئے جیریسسئے
ؔاور سالمار ؔتک جاؤ اور تمام رضاکاروں کو شہر کے چوک میں جمع کرو۔ اور پومیلؔ تم
فوراً اپنی وردی پہنو، صرف کوٹ اور ٹوپی کافی ہے۔ ہم دونوں میونسپل ہال جائیں گے
اور موسیو دوارنیتوؔ سے مطالبہ کریں گے کہ وہ اپنے تمام اختیارات مجھے سونپ دے۔
کیاتم سمجھ رہے ہو ؟"
"جی ہاں۔ "
"یہ سب فوراً
ہوجانا چاہئیے۔ پومیل ؔمیں تمہارے ساتھ تمہارے گھر جاؤں گا کیونکہ ہم اکٹھے ہی
میونسپل ہال جائیں گے۔"
تھوڑی دیر بعد کمانڈر
اور اس کے ماتحت مکمل طور پر مسلح حالت میں میونسپل ہال کے سامنے واقع چوک میں
پہنچے۔عین اسی لمحے دوسری جانب سے وائیکاؤنٹ دوارنیتو ؔشکاری پتلون پہنے ایک
کاندھے پر بندوق رکھے تیزی سے آتا دکھائی دیا۔ اس کے عقب میں سبز کوٹ پہنے ہاتھوں
میں تلواریں تھامے اور کاندھوں سے بندوقیں لٹکائے تیز قدموں چلتے آ رہے تھے۔
ڈاکٹر اپنی جگہ حیرت
زدہ کھڑا رہ گیا۔ دوسری جانب وائیکاؤنٹ اپنے ساتھیوں سمیت میونسپل ہال میں داخل
ہوا اور دروازہ ان کے عقب میں بند ہو گیا۔
ڈاکٹر بڑبڑایا، "
وہ ہم سے پہلے پہنچ گئے۔ اب ہمیں کمک کا انتظار کرنا ہوگا۔ فی الحال کچھ نہیں ہو
سکتا۔ "
ایک جانب سے لیفٹیننٹ
پیکارٹ نمودار ہوا۔
وہ بولا، "پادری
نے میرا حکم ماننے سے انکار کر دیا ہے ۔اس نے خود کو گرجے میں بند کر لیا ہے۔
گورکن اور اس کا ملازم بھی اس کے ساتھ ہیں۔ "
چوک کے دوسری جانب
میونسپل ہال کے عین سامنے خاموش اور تاریک گرجے کی عمارت تھی جس کا آہنی کیلوں
والا شاہ بلوط کا بھاری دروازہ بند تھا۔
ارد گرد کے گھروں کی
کھڑکیوں یا چھتوں چوباروں سے پریشان شہریوں کے سر دکھائی دے رہے تھے کہ یکایک ایک
جانب سے نقارے کی آواز بلند ہوئی اور زور و شور سے ڈھول پیٹتا ٹورچبوف نمودار
ہوا۔وہ بھاگتا ہوا چوک سے گزرا اور شہر سے باہر جانے والی سڑک پر غائب ہو گیا۔
کمانڈر نے میان سے اپنی
تلوار نکالی اور اسے اپنے سر کے اوپر لہراتا ہوا گرجے اور میونسپل ہال کے درمیان
پہنچا پوری قوّت سے چلاّیا، "جمہوریہ زندہ باد۔ غدّاروں کے لئے موت۔"
پھر وہ اپنے افسروں کے
ساتھ آن کھڑا ہوا۔
قصائی، نانبائی اور دوا
فروش پریشانی کے عالم میں اپنی اپنی دکانوں کے کواڑ نیچے کھینچ کر دکانیں بند کر
رہے تھے۔ صرف پنساری کی دکان کھلی رہی۔
اب ملیشیا کے جوان
پہنچنے لگے ۔ ہر سپاہی نے مختلف انداز کی وردی پہن رکھی تھی۔ لیکن سب کے سروں پر
سنہری پٹی والی سیاہ ٹوپی دکھائی دے رہی تھی۔ یوں بھی ٹوپی کسی بھی وردی کا اہم
جزو ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں پرانی زنگ آلود بندوقیں تھیں جن میں اکثر تیس سال
سے گھر کی دیوار پرلٹک رہی تھیں۔یہ سب کسی فوج کے بجائے خانہ بدوشوں کا جتھہ
دکھائی دے رہے تھے۔
جب تقریباً تیس افراد
جمع ہو گئے تو کمانڈر نے مختصراً انہیں صورتحال سے آگاہ کیا۔ پھر وہ اپنے افسروں
کی جانب مڑا اور بولا، "اب عمل کا وقت گیا ہے۔"
اس دوران شہری ایک جگہ
جمع ہو چکے تھے اور اایک دوسرے سے اس صورتحال کے متعلق باتیں کر رہے تھے۔
ڈاکٹر نے فوری طور پر
اس جنگی مہم کے لئے ایک حکمتِ عملی ترتیب دی۔
"لیفٹیننٹ پیکارٹ،
تم میونسپل ہال کی کھڑکی کے قریب پہنچو گے اور جمہوریہ کے نام پر موسیو وائیکاؤنٹ
سے ہال کی چابیاں میرے حوالے کر دینے کا مطالبہ کرو گے۔"
لیکن لیفٹیننٹ نے، جو
پیشے کے لحاظ سے معمار تھا،دوٹوک انکار کر دیا۔
"آپ بہت عقل مند
ہیں۔ میرا اپنی جان گنوانے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔یہ مت بھولیں کہ وہ لوگ جو وہاں
چھپے بیٹھے ہیں وہ بہت اچھے نشانہ باز ہیں اور تاک تاک کر نشانہ لگاتے ہیں۔ اپنے
کام خود کریں۔ "
کمانڈر کا چہرہ لا ل
بھبوکا ہو گیا۔
"میں تمہیں فوجی
نظم و ضبط کےنام پر وہاں جانے کا حکم دیتا ہوں۔ "
لیفٹیننٹ ابھی تک بغاوت
پر آمادہ تھا، "جب تک مجھے وجہ نہیں بتائی جائے گی میں اپنی جان خطرے میں
نہیں ڈالوں گا۔"
قریب ہی ایک گروہ کی
شکل میں کھڑے شہر کے معززین کھلکھلا کر ہنس دئیے۔ ایک زور سے بولا، "تم درست
کہہ رہے ہو پیکارٹ۔ ابھی جان خطرے میں ڈالنے کا وقت نہیں آیا۔"
ڈاکٹر بڑبڑایا،
"بزدل۔ "
اس نے اپنی تلوار اور
پستول ایک سپاہی کو تھمائے اور ہولے قدموں سے میونسپل ہال کی جانب بڑھا۔ اس کی
نگاہیں متواتر کھڑکیوں پر مرکوز تھیں کہ کہیں کوئی بندوق کی نال اس کی جانب تنی تو
نہیں۔
جیسے ہی وہ میونسپل ہال
سے چند قدموں کے فاصلے پر پہنچا تو یکایک قریب واقع دونوں سکولوں کے دروازے کھلے
اور بچوں کا ایک جمِّ غفیر بھاگتا ہوا باہر نکلا۔ ایک دروازے سے لڑکے او ر دوسرء
دروازے سے لڑکیاں۔ وہ سب ہنستے کھلکھلاتے چیختے چلاّتے چوک کے چاروں طرف ڈاکڑ کے
گرد بھاگنے دوڑنے اور کھیلنے لگے ۔انہوں نے اپنی آوازوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا
اورڈاکٹر کی آواز دب کر رہ گئی۔
جیسے ہی آخری بچہ سکول
سے باہر نکلا دونوں دروازے ایک مرتبہ پھر بند ہو گئے۔
تھوڑی ہی دیر بعد سب
بچے اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے اور کمانڈر باآوازِ بلندپکار کر بولا،
"موسیو دوارنیتو۔"
پہلی منزل کی ایک کھڑکی
کھلی اور موسیو دوارنیتو کا چہرہ نمودار ہوا۔
کمانڈر کہنے لگا،
"موسیو، آپ جانتے ہیں حالات میں اہم ترین تبدیلیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں اور
یوں حکومت کی صورتحال مکمل طور پر بدل چکی ہے۔ آپ جس حکومت کے نمائندہ ہیں اب وہ
حکومت ختم ہو چکی ہے۔ میں جس حکومت کی نمائندگی کرتا ہوں اس نے اقتدار سنبھال لیا
ہے ۔ اس تکلیف دہ لیکن فیصلہ کن صورتحال میں جمہوریہ کے نام پر میں آپ کے پاس آیا
ہوں کہ آپ اپنے وہ تمام اختیارات میرے حوالے کر دیں جو سابقہ حکومت کے تحت آپ کو
تفویض کئے گئے تھے۔"
موسیو دوارینتو نے جواب
دیا، "ڈاکٹر صاحب ، میں کانویل کاباضابطہ متعین کردہ مئیر ہوں اور اس وقت تک
کانویل کا مئیر رہوں گا جب تک میرے اعلیٰ حکاّم ایک باضابطہ حکم نامے کے ذریعے
مجھے برخواست نہیں کر دیتے۔ بطور مئیر میں اس وقت اپنے سرکاری دفتر میں موجود ہوں
اور یہی موجود رہوں گا۔ آپ مجھے یہاں سے نکالنے کی کوشش تو کر کے دیکھیں۔" یہ
کہہ کر اس نے کھڑکی بند کر دی۔
کمانڈر واپس اپنے
سپاہیوں کے پاس آن کھڑا ہوا۔ لیکن انہیں کچھ بتانے سے پہلے اس نے خشمگین نگاہوں سے
لیفٹیننٹ پیکارٹ کا جائزہ لیا اور بولا، "تم بھی خوب رہے۔ بڑے مرد بنے پھرتے
ہو۔ تم ہماری فوج کے نام پر دھّبہ ہو۔"
"میری بلا سے۔ ۔ ۔
"
یہ کہہ کر لیفٹیننٹ مڑا
اور قریب کھڑے شہریوں کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔
اب ڈاکٹر ہچکچاہٹ کا
شکار ہو رہا تھا۔ اب کیا کرنا ہو گا ؟ حملہ ؟ لیکن کیا اس کے سپاہی حملے کا حکم
مانیں گے ؟ اور پھر، کیا اسے حملے کا حکم دینے کا اختیار بھی ہے یا نہیں ؟
یکایک اس کے ذہن میں
ایک خیال لپکا۔ وہ بھاگ کر میونسپل ہال کے سامنے تار گھر پہنچا اور فوری طور پر
تین تار بھیجے۔ پہلا پیرس میں نئی جمہوری حکومت کو، دوسرا روؤآں میں سین زیریں ؔ
کے پولیس کمانڈر کو اور تیسرا دئیپؔ میں پولیس کے نائب کمانڈر کو۔
تینوں تاروں میں اس نے
حالات کی سنگینی بیان کی اور بادشاہ کے وفادار مئیر کی موجودگی میں یہ شہر جن
خطرات میں گھر سکتا ہے ان کا ذکر کیا۔اس نے اپنی وفادارانہ خدمات بھی پیش کیں اور
مزید احکامات طلب کئے۔ نیچے اس نے اپنا نام اور مکمل القابات اور خطابات درج کئے۔
بعد ازاں وہ اپنے
سپاہیوں کے پاس لوٹ آیا اور اپنی جیب سے دس فرانک نکالتے ہوئے بولا، "یہ لو
میرے دوستو، جاؤ کچھ کھا پی لو۔ بس یہاں دس سپاہیوں کی نفری چھوڑ دو تاکہ میں
میونسپل ہال سے کسی بھی فرار کی کوشش کو ناکام بنا سکوں۔ "
لیکن قریب ہی کھڑےگھڑی
ساز سے گفتگو میں مشغول سابقہ لیفٹیننٹ پیکارٹ نے یہ بات سن لی اور ہنس کر کہنے
لگا، "اگر وہ باہر نکلے تو تمہیں اندر جانے کا موقع مل جائے گا۔ ورنہ مجھے تو
لگتا ہے کہ تم ساری عمر یہیں انتظار میں کھڑے رہو گے۔"
ڈاکٹر نےکوئی جواب نہ
دیا اور دوپہر کے کھانے پر گھر چلا گیا۔
دوپہر میں اس نے اپنے
تمام سپاہیوں کو شہر کے مختلف مقامات پر تعینات کر دیا جیسے شہر پر حملے کا فوری
خطرہ لاحق ہو۔
اس دوران وہ گاہے بگاہے
میونسپل ہال اور گرجے کے سامنے ٹہلتا رہالیکن دونوں عمارتوں میں یوں سنّاٹا چھایا
تھا جیسے وہاں کوئی شخص نہ ہو۔
قصائی، نانبائی اور
دوافروش نے ایک مرتبہ پھر سے اپنی دکانیں کھول لیں۔
ہر شخص کی زبان پر یہی
موضوع تھا۔ اگر بادشاہ کو واقعی گرفتار کر لیا گیا تھا تو کسی نہ کسی نے بادشاہ سے
بغاوت تو کی ہو گی۔انہیں تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ جمہور پسندوں میں کس گروہ کے
ہاتھ میں حکومت تھی۔
رات ڈھل گئی۔
رات کے نو بجے کے قریب
ڈاکٹر کو یقین ہو چکا تھا کہ دشمن سو چکا ہو گا ۔ وہ خاموشی سے دبے پاؤں میونسپل
ہال کے دروازے کے قریب پہنچا۔ اس کے ہاتھ میں دروازہ توڑنے کے لئےایک بھاری کلہاڑا
تھا۔یکایک ایک سنتری کی بھاری آواز تاریکی میں گونجی، "کون ہے ؟"
موسیو ماساریل پوری
رفتار سے بھاگتا ہوا واپس لوٹ گیا۔
صبح ہونے تک صورتحال
جوں کی توں تھی۔
چوک پر مسلح ملیشیا کا
قبضہ جاری تھا۔ ان کے ارد گر دشہریوں کا منتظر ہجوم جمع تھا۔ کچھ لوگ تو نواحی
قصبوں سے بھی تماشہ دیکھنے پہنچ چکے تھے۔
اب ڈاکٹر کو احساس
ہوچلا تھا کہ اس کی شہرت داؤ پر لگی تھی، اس لئے اس نے جیسے تیسے اس معاملے کو
نکتہِ انجام تک پہنچانےکا فیصلہ کر لیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات
اٹھانے پر تیار ہو چکا تھا کہ یکایک تار گھر کا دروازہ کھلا اور ایک ملازمہ ہاتھ
میں دو کاغذ تھامے باہر نکلی۔
پہلے وہ کمانڈر کے پاس
پہنچی اور اسے ایک تار تھمایا۔ پھر وہ چوک کے دوسری جانب میونسپل ہال کے دروازے کی
جانب چل دی۔ ارد گرد کھڑے ہجوم کی نگاہیں خود پر مرکوز دیکھ کو وہ پریشان ہو گئی۔
وہ اپنا سر جھکائے تیز قدموں کے ساتھ ہال کے دروازے تک پہنچی اور ہولے سے دروازےپر
دستک دی جیسے اسے احساس ہی نہ ہو کہ بند دروازے کے دوسری جانب جنگ کے لئے تیار
مسلح افراد موجود ہیں۔
دروازہ کھلا اور اس کی
اوٹ سے ایک ہاتھ برآمد ہوا اور تار پکڑتے ہی دوبارہ بند ہو گیا۔ ملازمہ جو سارے
شہر کی نگاہوں کا مرکز بنتے ہوئے اب روہانسی ہو چلی تھی، سرخ چہرے کے ساتھ واپس
تار گھر میں غائب ہو گئی۔
ڈاکٹر نے گلا صاف کرتے
ہوئے اونچی آواز میں کہا، "براہِ مہربانی، خاموشی۔"
جب چاروں جانب سنّاٹا
چھا گیا تو وہ بولا، "حکومت کی جانب سے مجھے یہ ہدایات موصول ہوئی ہیں۔
"
پھر تار کے کاغذ کو
سامنے رکھتے ہوئے وہ پڑھنے لگا۔ "سابقہ مئیر برخواست۔ انہیں فوری طور پر مطلع
کیا جائے۔ مزید احکامات کا انتظار کیا جائے۔ از موسیو ساپیں، کونسلر۔ بحکم نائب
کمانڈر پولیس۔"
وہ جیت گیا ۔ اس کا دل
خوشی سے دھڑکنے لگا اور اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔لیکن اس کا سابقہ ماتحت پیکارٹ بول
اٹھا، " یہ توٹھیک ہے لیکن اگر وہ پھر بھی باہر نہ آئے تو اس تار کا تمہیں
کیا فائدہ ہو گا ؟"
موسیو ماساریل کا چہرہ
زرد پڑ گیا۔ اس نے تو اس کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ اگر وہ سب باہر نہ نکلے تو
اسے کوئی نہ کوئی فیصلہ کن اقدام اٹھانا پڑے گا۔ یہ نہ صرف اس کا اختیار تھا بلکہ
اب اس کا فرض بھی تھا۔
اس نے فکرمند نگاہوں سے
میونسپل ہال کی جانب دیکھا۔ دل ہی دل میں وہ امید کر رہا تھا کہ دروازہ کھلے اور
اس کا دشمن ہتھیار ڈال دے۔
لیکن دروازہ بند رہا۔
اب کیا کیا جائے ؟ہجوم کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی اور اب شہری ملیشیا کے قریب جمع
ہونے لگے تھے۔وہ قہقہے لگا رہے تھے۔
لیکن ڈاکٹر کو ایک اور
ہی خیال پریشان کئے ڈالتا تھا۔ اگر اس نے حملے کا حکم دیا تو اسے اپنے سپاہیوں کے
سامنے سب سے آگے رہنا ہو گا۔ اور اس کے دشمن جانتے تھے کہ اس کی موت کی صورت میں
سارا مسئلہ ختم ہو جائے گا۔اس لئے موسیو دوارنیتو اور اس کے تینوں محافظ صرف اس کا
نشانہ لیں گے۔ اور جیسا کہ پیکارٹ نے کہا تھا وہ سب بہت اچھے نشانہ باز تھے۔ پھر
اسے ایک اور تجویز سوجھی اوراس نے پومیل کی جانب مڑتے ہوئے اسے حکم دیا،
"فوراً دوافروش کے پاس جاؤ اور اسے کہو ایک سفید تولیہ اور ایک چھڑی
دے۔"
لیفٹیننٹ بھاگتا ہوا
چلا گیا۔
وہ صلح کا جھنڈابنائے
گا۔ ۔ ۔ سفید جھنڈا ۔ ۔ ۔ امن کا جھنڈا۔ ۔ ۔ اسے دیکھ کر یقیناً بادشاہ کے وفادار
مئیر کادل موم ہو جائے گا۔
جلد ہی پومیل ہاتھ میں
ایک تولیہ اور جھاڑو کا ڈنڈہ اٹھائے واپس لوٹا۔ رسّی کے ایک ٹکڑے کی مد د سے جلد
ہی جھنڈا تیار ہو گیا۔موسیو ماساریل اپنے سامنے دونوں ہاتھوں میں جھنڈا تھامے
میونسپل ہال کی جانب بڑھا۔ جب وہ دروازے کے سامنے پہنچا تو پکار کر بولا،
"موسیو دوارینتو۔" اچانک دروازہ کھلا۔ موسیو دوارینتو اور اس کے تینوں
محافظ دہلیزپر کھڑے تھے۔
ڈاکٹر نے پیچھے کی جانب
ایک قدم لیا اور اپنے دشمن کے سامنے تعظیم میں جھکتے ہوئے جذبات سے مغلوب آواز میں
بولا، "موسیو دوارنیتو، میں یہاں آپ کو ان احکامات سے آگاہ کرنے آیا ہوں جو
مجھے وصول ہوئے ہیں۔ "
مئیر نے اس کی تعظیم کا
جواب دئیے بغیر جواب دیا، "موسیو، میں اس عہدے سے استعفیٰ دیتا ہوں۔ لیکن جان
لیجئے کہ کہ میرا استعفیٰ نہ خوف کی بنا پر ہے اور نہہی اس قابلِ نفرت حکومت کی
وفاداری میں جس نے حکومت غصب کر لی ہے۔" پھر اس نے ایک ایک لفظ چبا چبا کر
کہا، "میں نہیں چاہتا کہ میں ایک دن کے لئے بھی جمہوریہ کی خدمت کرتا دکھائی
دوں۔ بس۔"
ششدر موسیو ماساریل
خاموش کھڑا رہا۔ موسیو دوارنیتو تیز قدموں سے ایک جانب چل دیا اور ایک عمارت کے
کونے سے نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے محافظ اب بھی اس کے ساتھ تھے۔
ڈاکٹر سینہ پھلائے واپس
ہجوم کے سامنے آن کھڑا ہوا۔ جیسے ہی وہ ان کے قریب پہنچا تو زور سے چلاّیا ،
"مبارک ہو۔مبارک ہو۔ جمہوریہ کی جیت ہوئی۔"
جواب میں دادو تحسین کا
کوئی جواب بلند نہ ہوا۔
ڈاکٹر بولتا چلا گیا،
"ہم سب آزاد ہیں۔ آپ سب آزاد ہیں۔ خود مختارہیں۔ آپ کو فخر ہونا
چاہئیے۔"
شہر کے تمام باسی ساکت
کھڑے اسے تکتے رہے۔ کسی کی آنکھوں میں فتح کی روشنی نہ چمک رہی تھی۔
وہ ان کی بے اعتنائی سے
طیش میں آنے لگا تھا۔وہ سوچنے لگا کہ کیا کہا جائے کہ اس پرسکون مجمعے کی رگ و پے
میں بجلی بھر جائے اور بطور ان کے قائد اس کا مقصدپورا ہو سکے۔
وہ پومیل کی جانب مڑا
اور بولا، "لیفٹیننٹ ، میونسپل ہال کے اجلاس والے کمرے میں معزول بادشاہ کا
ایک مجسّمہ رکھا ہے ۔ وہ مجسّمہ اور ایک کرسی اٹھا کر فوراً یہاں لے آؤ۔"
پومیل واپس لوٹا تو اس
کے دائیں کاندھے پر بادشاہ بوناپارٹ کا مجسّمہ اور بائیں ہاتھ میں بید کی ایک کرسی
تھی۔
وہ اس کی جانب بڑھا۔
کرسی زمین پر رکھی اور اس کے اوپر مجسّمہ رکھا۔ چند قدم پیچھے کو لئے اور بلند
آواز میں بولا، "جابر، غاصب، تمہارا جاہ و جلال اب مٹّی میں مل چکا ہے۔
تمہارے ظلم و ستم کے تلے مادرِ وطن اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔ لیکن مقدّر اپنا
کام دکھا چکا ہے۔ شکست اور ذلالت تم تک آن پہنچے ہیں۔ اب تم مفتوح ہو۔ جرمنوں کے
قیدی ہو۔ اور اب تمہاری شکست خوردہ سلطنت کی راکھ سے ایک نئی اورعظیم الشان
جمہوریہ بلند ہو گی۔ اس زمین سے تمہاری ٹوٹی ہوئی تلوار۔ ۔ ۔ "
وہ دادوتحسین کے نعروں
کی توقع میں ایک لمحہ رکا، لیکن اس کے کانوں میں سنّاٹے کے علاوہ کچھ نہ پڑا۔ دم
بخود کسان خاموش کھڑے رہے۔ کرسی پر رکھا شاہی لباس میں ملبوس بادشاہ کا سفید پلستر
سے بنا مجسّمہ جیسے موسیو ماساریل کو دیکھ رہا ہو، اس کے ہونٹوں پر جیسے ایک انمٹ
طنزیہ مسکراہٹ کھیل رہی ہو۔
یوں وہ ایک دوسرے کے
سامنے کھڑے رہے۔ کرسی پر دھرا نپولین اور اس کے سامنے چند فٹ دور ڈاکٹر ماساریل۔
یکایک کمانڈر کے اندر قہرو غضب کا لاوا ابلنے لگا۔ اسے ہر حال میں اس مجمعے کے جوش
و ولولے کو بھڑکانا ہو گا اور شہر کی رائے عامہّ کو اپنی حمایت میں کرنا ہوگا۔
وہ اسی مخمصے میں اپنے
پیٹ کو سہلا رہا تھا کہ اچانک اس کا ہاتھ سرخ پیٹی میں اڑسے ہوئے اپنے پستول سے
ٹکرایا۔
اس کے بعد اس کے ذہن
میں کوئی اور خیال کوئی اور تجویز نہ ابھری۔ اس نے اپنا پستول پیٹی سے نکالا ، چند
قدم پیچھے کی جانب لئے اور معزول بادشاہ پر گولی چلا دی۔
گولی نے مجسّمے کے
ماتھے پر داغ کی مانند ایک سیاہ سوراخ کر دیا۔ مجمعے میں کسی قسم کی سنسنسی پیدا
نہ ہوئی۔ ماساریل نے دوسری گولی چلائی اور ماتھے میں ایک اور سوراخ ہو گیا۔ ۔ ۔
پھر تیسری اور پھر متواتر گولیاں چلاتا گیا ۔ چھ گولیوں کے بعد نپولین کے ماتھے کے
پرخچے اڑ گئے۔ تاہم اس کی آنکھیں، ناک اور نوکدار مونچھیں ابھی بھی باقی تھیں۔
اب ڈاکٹر کا غیظ و غضب
اپنی آخری حدود چھونے لگا تھا، اس نے آگے بڑھتے ہوئے کرسی کو لات ماری۔مجسّمہ زمین
پر لڑھک گیا۔ ڈاکٹر نے ایک پاؤں مجسّمے پر رکھا جیسے کوئی شکاری فاتحانہ انداز
میں اپنے شکار پر پیر رکھتا ہے۔ پھر وہ حیرت زدہ ہجوم کی جانب مڑا، "تمام
غدّاروں کو یہی انجام ہوگا۔ "
تماشائی ابھی تک حیرت
میں گنگ کھڑے تھے۔ کمانڈر نے اپنے سپاہیوں کی جانب مڑ کر حکم دیا، "تم سب
اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔"
جب وہ اپنے گھر پہنچا
تو اس کی ملازمہ نے بتایا کہ مریض تین گھنٹوں سے اس کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ فوراً
اندر داخل ہوا۔ یہ وہی کسان میاں بیوی تھے جو گزشتہ صبح آئے تھے ۔ وہ جیسے ہی اندر
داخل ہوا، بوڑھا کسان بولنے لگا، " ڈاکٹر صاحب، یہ اس وقت شروع ہوا جب میری
ٹانگوں پر چیونٹیاں اوپر نیچے چلنے لگیں۔ ۔ ۔ "
(فرانسیسی زبان سے
براہِ راست اردو ترجمہ)
Original Title : Coup
d’Etat (1883)
Written by:
Guy de Maupassant (5 August 1850 – 6 July 1893) was a
19th-century French author, remembered as a master of the short story form, and
as a representative of the Naturalist school, who depicted human lives and
destinies and social forces in disillusioned and often pessimistic terms.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment