اوہنری کا افسانہ : اندھیر نگری (The Cop and the Anthem)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 278 :
اندھیر نگری
تحریر : او ہنری
(امریکا)
مترجم : رومانیہ نور
(ملتان)
میڈیسن اسکوائر پارک
میں بنچ کی نشست پر سوپی نے بے چینی سے پہلو بدلا۔ موسمِ سرما کی آمد کے آثار
نمایاں تھے۔ جب بطخیں رات کو پُرشور آواز میں قیں قیں کرتی ہیں، پرندے جنوبی سمت
ہجرت کرنا شروع ہو جاتے ہیں، جب خواتین جنھیں عمدہ گرم کوٹ مطلوب ہوتے ہیں وہ بلا
وجہ ہی شوہروں پر مہربان ہونے لگتی ہیں اور سوپی پارک کی نشست پر بے آرامی سے پہلو
بدلتا ہے تو آپ کو معلوم ہو جاتا ہے کہ موسمِ سرما سر پر ہے۔
ایک مرجھایا ہوا پتا
سوپی کی گود میں آن گرا۔ یہ اس بات کا خصوصی انتباہ تھا کہ سردی آ رہی ہے۔ سرما
آنے کا نقارہ بج چکا تھا تاکہ یہاں کے باسی اس کے سامنے کے لئے تیار ہو جائیں۔
سردی سے نمٹنے کی تیاری کا وقت آگیا تھا۔
سوپی کے ذہن نے اب
حقیقت کو تسلیم کیا تھا۔ وقت آن پہنچا تھا۔ اسے سرد موسم سے بچاؤ کے لئے کوئی
طریقہ اختیار کرنا تھا۔ اسی لئے وہ بے چینی سے بار بار پہلو بدل رہا تھا۔
سوپی کی توقعات موسم
سرما کے متعلق بہت اچھی نہیں تھیں۔ وہ کسی بحری سفر پر روانگی کے متعلق نہیں سوچ
رہا تھا۔ نہ ہی وہ جنوب کے آسمانوں اور نیپالی ساحلوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ اس کا
مطمعِ نظر تو بلیک ویلز کی حوالات میں تین مہینے گزارنا تھا۔ تین مہینے کی روزانہ
خوراک، رات کے وقت ایک بستر اور شمال کی جانب سے چلنے والی ہواؤں سے بچاؤ۔
دنیا میں یہ سب ہی سوپی
کی سب سے بڑی خواہش تھی۔ سالہا سال سے سرما کی اس سہ ماہی میں بلیک ویلز کا جزیرہ
اس کا مہمان نواز چلا آ رہا تھا۔ جب اس کے خوش نصیب ساتھی نیو یارک کے باشندے
ساحلی تفریح گاہوں کے ٹکٹ خرید تے تھے وہ جزیرے پر سالانہ ہجرت کی عاجزانہ کوششوں
میں مصروف ہوتا تھا۔
اور اب وہی وقت آنے
والا تھا۔ ہفتہ وار تین ضخیم اخبار جو اس کے کوٹ اور ٹانگوں پر جابجا بکھرے ہو ئے
تھے، پچھلی رات اسے سردی سے بچانے میں ناکام رہے تھے۔ سو سوپی جزیرے ہی کے متعلق
سوچ میں مگن تھا۔
خیرات کے نام پر
ضرورتمندوں کے لئے قائم امدادی اداروں کو وہ حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ اور شہر
میں ان اداروں کا نامختمم سلسلہ تھا جہاں جا کر وہ کھانا اور خوراک طلب کر سکتا
تھا اور وہ سب اسے دستیاب بھی ہو جاتے۔ یوں محفوظ طریقے سے اس کی سردیاں گزر سکتی
تھیں۔ مگر وہ بلیک ویلز کو بہتر خیال کرتا تھا۔ سوپی کی رائے میں خدا ترس لوگوں کی
نسبت قانون کہیں زیادہ خدا ترس تھا۔
سوپی کی متکبرانہ روح
کو خیراتی اداروں کی امداد قابلِ قبول نہ تھی۔ اگرچہ اس کی ادائیگی سکوں میں نہیں
ہوتی مگر انسانی ہمدردوں کے ہاتھوں موصول ہونے والی امداد کے عوض روح کی تذلیل
گوارا کرنی ہوتی ہے۔ جس طرح قیصر کے ساتھ بروٹس کا تذکرہ ضروری ہے یونہی ایک بستر
کے حصول کے لئے جسمانی غسل ضروری ہے اور ایک روٹی کا معاوضہ نجی و ذاتی زندگی کے
متعلق تفتیش کی صورت چکانا ہوتا ہے۔
ناں ناں! حوالات اس سے
کہیں بہتر ہے۔ جیل کے کچھ اصول تو ہیں جن کی پیروی کرنا ہوتی ہے مگر جیل میں کسی
معزز آدمی کی زندگی صرف اسی کی ہوتی ہے اس میں کسی کی بے جا مداخلت نہیں ہوتی۔
سوپی جزیرے پر جانے کا پختہ ارادہ باندھ چکا تھا۔ سو اس نے فی الفور اپنی خواہش پر
عمل درآمد شروع کر دیا۔
اس کے پاس ایسا کرنے کے
بہت گُر تھے۔ سب سے پُر لطف تو یہ تھا کہ کسی معیاری ریستوران پر جا کر لذیذ ڈنر
کیا جائے۔ اور پھر کہا جائے کہ ادائیگی کے لئے تو اس کے پاس رقم ہی نہیں۔ تب ایک
پولیس اہلکار کو بلایا جائے۔ یہ تمام کام بہت آرام تسلی سے ہو جائے گا۔ سپاہی اسے
زیرِ حراست لے لے گا۔ اسے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا اور باقی کا سارا کام جج
کرے گا۔
سوپی نے اپنی نشست چھوڑ
دی اور ٹہلتا ہوا میڈیسن اسکوائر سے نکل کر ادھر آ گیا جہاں خیابانِ پنجم شاہراہ
سے ملتی ہے۔ اس نے چوڑی گلی کو عبور کیا اور شاہراہ پر شمالی سمت چلنے لگا۔ وہ ایک
بڑے اور جگ مگ کرتے ہوئے ریستوران کے سامنے جا رکا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں بہترین
کھانا ملتا تھااور ہر شام عمدہ پو شاکوں میں ملبوس طبقۂ اشرافیہ یہاں آتا تھا۔
سوپی پُر یقین تھا کہ
اپنے نچلے دھڑ سے اوپر واسکٹ کے آخری بٹن سے اس کی ہئیت خاصی معقول دکھائی دیتی
ہے۔ اس کا چہرہ منڈا ہوا تھا اور کوٹ کافی عمدہ تھا ۔ گلے میں سادہ گرہ کی ٹائی
لگی ہوئی تھی جو یومِ تشکر پر ایک مبلغہ نے ہدیہ کی تھی۔ اگر اسے ایک خالی میز مل
جاتی تو اس کی کامیابی یقینی تھی۔ میز کے اوپر سے جتنا حلیہ دکھائی دیتا ہے وہ
گزارے لائق تھا۔ بیرا اس کے لئے وہی کچھ لے کر آئے گا جو وہ طلب کرے گا۔ وہ سوچنے
لگا کہ وہ کیا کھانا پسند کرے گا۔ تصور میں اس نے عشائیے کے لئے تمام کھانوں کی
فہرست ترتیب دے لی۔ ان کی لاگت کچھ زیادہ نہیں آئے گی اس نے سارا تخمینہ لگایا۔ وہ
نہیں چاہتا تھا کہ انتظامیہ حقیقتاً طیش میں آکر کسی بڑی انتقامی کاروائی کا
مظاہرہ کر بیٹھے۔۔ لیکن کھانا پیٹ بھر ضرور ہونا چاہئیے۔ اور اسے باآسانی و بخوشی
اس کے سرمائی پناہ گاہ کے سفر پر روانہ کر سکے۔
لیکن جونہی سوپی نے
اپنا قدم ریستوران کے دروازے کے اندر رکھا تو ہیڈ ویٹر نے اسکے پرانے ٹوٹے ہوئے
جوتوں اور چیتھڑےنما پھٹے ہوئے کپڑوں سے جھانکتی ٹانگوں کا جائزہ لیا۔ دو مضبوط و
قوی ہاتھوں کے حلقے نے سوپی کے جسم کو دروازے سے دوبارہ باہر دھکیل دیا۔
سوپی دوبارہ شاہراہ کی
طرف مڑا۔ ایسا لگتا تھا کہ جزیرے تک رسائی کایہ آسان ترین اور سب سے زیادہ پسندیدہ
گُر کارآمد نہ تھا۔ اسے وہاں تک جانے کے لئے کوئی اور راہ ڈھونڈنی تھی۔
خیابانِ ششم کی نکڑ پر
ایک شیشے کی بڑی کھڑکی والی دکان تھی جو برقی قمقموں سے جگمگا رہی تھی۔ سوپی نے
ایک بڑا پتھر اٹھایا اور زور سے کھڑکی پر دے مارا۔ لوگ دوڑتے ہوئے نکڑ پر آن اکٹھے
ہوئے۔ ایک پولیس اہلکار ان میں پیش پیش تھا۔ سوپی بد ستور وہاں کھڑا رہا۔ جب اس نے
سپاہی کو دیکھا تو مسکرا دیا۔
'' کہاں ہے وہ شخص جس
کا یہ سب کیا دھرا ہے۔ '' سپاہی نے پوچھا۔ '' آپ کا خیال یہ نہیں کہ میں ہی وہ شخص
ہوں جس نے یہ سب کیا؟'' سوپی نے کہا۔ اس کا انداز خوشگوار اور دوستانہ تھا۔ جو وہ
چاہتا تھا وہی ہونے والا تھا۔
مگر سپاہی کے ذہن نے
سوپی کی بات کو تسلیم نہ کیا۔ جو لوگ کھڑکیاں توڑتے ہیں وہ سپاہیوں سے گفتگو کے
لئے وہیں نہیں رکتے۔ وہ تو حسبِ استطاعت تیز دوڑتے ہیں۔ اسی دوران سپاہی نے گلی
میں ایک دوڑتے ہوئے شخص کو دیکھا۔ وہ اس کے تعاقب میں بھاگا۔ سوپی دکھی دل سے
بوجھل قدم اٹھاتا وہاں سے چلا آیا۔ وہ دوسری مرتبہ بھی ناکام ٹھہرا تھا۔
گلی کے پار ایک اور
ریستوران تھا مگر یہ سابقہ شاہراہ والے ریستوران جتنا اعلیٰ معیار کا نہ تھا۔ یہاں
آنے والے لوگ بہت متمول نہیں تھے۔ اس کا کھانا بھی بہت عمدہ نہیں تھا۔ سوپی اس میں
اپنے پرانے جوتوں اور پھٹے کپڑوں سمیت بلا روک ٹوک داخل ہو گیا۔ وہ ایک میز پر
بیٹھ گیا اور پر تکلف کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد جب بل دینے کا وقت آیا تو اس نے
اپنی جیب الٹ کر کہا کہ وہ اور پیسے تو ایک دوسرے کے لئے بالکل اجنبی ہیں۔ ''چلو
اب مصروف ہو جاؤ اور سپاہی کو بلاؤ۔ سوپی نے تجویز دی '' اور ہاں کسی شریف آدمی کو
زیادہ انتظار نہیں کرواتے۔''
'' تمہارے لئے کسی
سپاہی کی کیا ضرورت ہے''بیرے نے مکھن کیک جیسی آواز میں کہا اور اشارے سے دوسرے
بیرے کو بلایا۔ دونوں نے اسے اٹھا کر گلی کی کھر دری زمین پر بائیں پہلو پر لا
پٹخا۔ سوپی دھیرے دھیرے دوسرے پہلو کے بل اٹھا اور اپنے کپڑوں سے گرد جھاڑی۔
حوالات اسے محض ایک خوش نما خواب لگنے لگی، جزیرہ کوسوں دور دکھائی دینے لگا تھا۔
ایک اہلکار جو پاس ہی کھڑا تھا اس نے قہقہہ لگایا اور وہاں سے چل دیا۔
سوپی ایک اور کوشش کرنے
سے قبل کوئی آدھ میل چلا ہو گا۔ وہ بہت پر یقین تھا کہ اس مرتبہ تو کامیاب ہو ہی
جائے گا۔ ایک خوبرو نوجوان عورت دکان کے باہر کھڑی اندر موجود اشیاء کو شیشے کے
پار سے دیکھ رہی تھی۔ پاس ہی ایک لحیم شحیم سپاہی کھڑا تھا۔
سوپی کا منصوبہ تھا کہ
وہ خاتون سے ہمکلام ہو گا۔ خاتون بہت ہی نفیس طبع لگ رہی تھی جو یقیناً کسی اجنبی
سے گفتگو کرنا ناپسند کرے گی۔ وہ سپاہی سے مدد مانگے گی۔ اور یوں سوپی اپنی کلائی
پر سپاہی کی گرفت پا کر خوشی محسوس کر ے گا۔ اس طرح وہ جزیرے کی راہ پر گامزن ہو
جائے گا۔
سوپی نے مبلغہ کی دی
ہوئی ٹائی کو سیدھا کیا۔ چڑھائی ہوئی آستینوں کے کف کھولے۔ ہیٹ کو کسی نواب کی طرح
سر پر جمایا۔ وہ خاتون کے قریب ہو گیا اور گلا کھنکھارا۔ اس نے کنکھیوں سے دیکھا
کہ سپاہی پہلے ہی اس پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ خاتون چند قدم آگے بڑھی۔ سوپی بھی اس کے
پیچھے ہو لیا۔ اس کے نزدیک کھڑے ہو کر وہ مخاطب ہوا'' شام بخیر بیڈیلیا! کیا تم
میرے ساتھ آنا پسند کرو گی؟''
سپاہی ہنوز انھیں تک
رہا تھا۔ خاتون کو صرف ہاتھ ہلانا تھا اور وہ اس راہ پر گامزن ہوتا جس پر وہ جانا
چاہتا تھا۔
نوجوان دوشیزہ اس کی
طرف پلٹی اور اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس نے سوپی کی کلائی تھام لی۔
'' کیوں نہیں مائیک''
وہ خوش کن ادا سے بولی'' اگر تم پہلے پینے کے لئے مجھے کچھ لے دو۔ میں تو پہلے ہی
تم سے بات کرنا چاہ رہی تھی مگر کمبخت سپاہی دیکھ رہا تھا۔ نوجوان عورت کا ہاتھ
تھامے سوپی سپاہی کے سامنے سے گزر گیا۔ اس کے اندر اداسی بھر گئی۔ وہ ابھی تک آزاد
تھا۔ کیا وہ ہمیشہ آزاد رہنے والا تھا؟ '' اگلی ہی نکڑ پر اس نے کھینچ کر اپنا
ہاتھ چھڑایا اور وہاں سے بھاگ نکلا۔
جب وہ رکا تو اس کے آس
پاس بہت سے تھیٹرز تھے۔ شہر کے اس حصے میں دیگر علاقوں کی نسبت گلیاں زیادہ روشن
اور دل زیادہ مسرور تھے۔ مرد و زن مہنگے گرم کوٹ زیب تن کئے نسیمِ سرما سے لطف
اندوز ہو رہے تھے۔
سوپی ایک اچانک خوف میں
گِھر گیا۔ کوئی سپاہی اسے گرفتار نہیں کر رہا تھا۔ وہ تھیٹر کے سامنے کھڑے دوسرے
سپاہی کے پاس چلا آیا۔ اس نے کوئی ترکیب لڑانے کی کوشش کی۔ وہ بلند آواز میں چلانے
لگا جیسے بکثرت شراب نوشی کی ہو۔ اس کی آواز حد درجہ بلند تھی۔ وہ بے ہنگم طریقے
سے ناچنے اور چلّانے لگا۔
سپاہی نے اپنی لاٹھی
گھمائی اور سوپی کی طرف اپنی پیٹھ موڑ لی۔ وہ پاس کھڑے شہری کو وضاحت دینے لگا ''
یہ ییل کالج کےان لڑکوں میں سے ہے جنھوں نے ہارٹ فورڈ کالج کے لڑکوں کو ہرایا ہے
یہ اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ وہ کسی بھی چیز کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ ہمیں
ہدایات ہیں کہ انھیں شور و غوغا کرنے دیا جائے۔''
سوپی کو چپ لگ گئی۔ ''
کیا کوئی اہل کار اس پر ہاتھ نہیں ڈالے گا؟'' وہ جزیرے کے متعلق سوچنے لگا۔ جو اسے
کسی بہشتِ بریں کے تصور کی طرح پہنچ سے باہر لگ رہا تھا۔ اس نے اپنے پتلے کوٹ کو
اچھی طرح بدن کے گرد لپیٹ کر بٹن بند کر لئے۔
ہوا بہت سرد تھی اس نے
ایک سگار سٹور پر ایک خوش پوش شخص کو سگار سلگاتے ہوئے دیکھا۔ اس کا چھاتہ دیوار
کے ساتھ رکھا تھا۔ سوپی دکان کے اندر داخل ہوا، چھاتہ اٹھایا اور آہستگی سے کھسک
گیا۔ آدمی سرعت سے اس کے پیچھے لپکا۔
'' میرا چھاتہ!'' وہ
چیخا۔
'' اوہ تو یہ تمہارا
ہے؟'' سوپی نے طنزیہ انداز میں کہا '' بہت اچھے بھئی۔ پھر تم سپاہی کو کیوں نہیں
بلاتے؟''
'' تمہارا چھاتہ میں نے
ہتھیا لیا۔ تم سپاہی کو بلاتے کیوں نہیں؟'
دیکھو تو ادھر نکڑ پر
ایک کھڑا تو ہے۔''
چھاتے کے مالک کے قدم
سست پڑ گئے۔ سوپی نے بھی اس کی پیروی کی۔ اس کا ماتھا ٹھنکا کہ قسمت ایک بار پھر
اس کے خلاف کام کر رہی ہے۔ پولیس اہلکار نے دونوں کی طرف متجسس انداز میں دیکھا۔
'' بلاشبہ۔۔ چھاتے کا
مالک بولا۔۔۔ ایسا ہی ہے۔۔ تم جانتے ہی ہو کہ کیسے یہ غلطیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔ میں۔۔ اگر یہ تمہارا ہے تو مجھے امید ہے کہ مجھے معاف فرمائیں گے۔ ۔۔۔۔ میں
نے آج صبح اسے ایک ریستوران سے اٹھایا تھا۔ ۔۔۔ اگر آپ اسےاپنے چھاتے کے بطور
شناخت کر چکے ہیں ۔۔۔۔ تو پھر کیوں۔۔۔ مجھے امید ہے کہ آپ۔۔۔۔۔''
'' بے شک یہ میرا ہے۔''
سوپی نے کمینگی سے کہا۔
چھاتے کا سابقہ مالک
پلٹ گیا۔ سپاہی سڑک پار ایک خاتون کی مدد کو لپکا جو سامنے سے آنے والی کار سے
ٹکرانے والی تھی۔
سوپی مشرقی سمت چلنے
لگا۔ اس نے پوری قوت سے چھاتہ فضا میں ا چھال دیا۔ اس کے پولیس اہلکاروں سے متعلق
جو بھی خیالات تھے وہ خود سے ہی ان کے متعلق خود کلامی کرنے لگا۔ وہ گرفتار ہونا
چاہتا تھا مگر یوں لگتا تھا کہ انہوں نے اسے"بادشاہ'' سمجھ لیا ہے جو کچھ غلط
کر ہی نہیں سکتا۔
آخر کار سوپی شہر کی
مشرقی جانب پر سکون گلیوں میں نکل آیا۔ وہ یہاں ایک موڑ مڑا اور شمالی سمت میڈیسن
اسکوائر کی طرف چل دیا۔ وہ اپنے گھر جارہا تھا اگرچہ یہ گھر پارک میں ایک بینچ پر
مشتمل تھا۔
ایک خاموش گوشے میں
سوپی رک گیا۔ یہاں ایک پرانا چرچ تھا۔ ایک کھڑکی کے رنگدار شیشے سے نرم دھیمی
روشنی چھن کر آ رہی تھی۔ ایک مدھر دھن سوپی کی سماعتوں سے ٹکرائی اور اس کے قدم
باڑ پر جم کر رہ گئے۔ آ سمان پر منور چاند خاموش تھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں میں
خوابناک انداز میں چہچہا رہے تھے۔ وہاں زیادہ گاڑیوں اور راہگیروں کی آمد و رفت
نہیں تھی۔
چرچ سے آنیوالی جس حمد
کی آواز نے سوپی کے قدم ساکت کر دئیے تھے عرصۂ دراز قبل وہ اس آواز کو بخوبی
پہچانتا تھا۔ یہ ان دنوں کہ بات ہے جب اس کی زندگی میں ماں تھی۔۔۔پھول تھے۔۔ ۔۔۔
بلند عزائم تھے اور اس کے خیالات اور لباس پاک صاف ہوا کرتے تھے۔
سوپی کا ذہن تبدیل پر
آمادہ ہو گیا تھا۔ وہ درست وقت پر چرچ پہنچا تھا۔ اس کی روح میں ایکبارگی حیران کن
انقلاب برپا ہو گیا تھا۔ اس نے نادم ہو کر سوچا کہ وہ کس قدر گر گیا تھا۔
اس نے اپنے بیکار دنوں،
ناجائز خواہشات، مردہ امیدوں اور گم گشتہ ذہنی قوت کے متعلق سوچا۔
ایک لمحے میں ہی اس کے
دل نے اپنی روح کے اس انقلاب پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ اپنی زندگی کو بدلنے کی
خاطر جد و جہد کرے گا۔ وہ خود کو کیچڑ سے بکال باہر کرے گا۔ وہ خود پر غالب آنے
والی برائیوں کو زیر کرے گا۔ وہ ابھی جوان ہے۔ کل وہ شہر جائے گا اور کوئی کام
ڈھونڈے گا۔ ایک مرتبہ ایک ٹر انسپورٹر نے اسے ڈرائیور کی ملازمت کی پیشکش کی تھی۔
وہ اس سے ملے گا اور دریافت کرے گا کہ آیا وہ پیشکش ابھی تک برقرار ہے۔ وہ خود کو
پھر سے انسان کے درجے پر فائز کرے گا۔ وہ دنیا کوکچھ بن کر دکھائے گا۔
سوپی نے اپنی کلائی پر
کسی ہاتھ کا دباؤ محسوس کیا۔ اس نے فوری نگاہ بلند کی اور ایک سپاہی کے کشادہ چہرے
کو سامنے پایا۔
'' تم یہاں لٹکے ہوئے
کیا کر رہے ہو؟'' سپاہی نے پوچھا
''کچھ بھی تو نہیں''
سوپی نے جواب دیا۔
'' تمہارا کیا خیال ہے
کہ تم جو بھی کہو گے میں اس پر یقین کر لوں گا؟'' سپاہی بولا۔
نئی پیدا شدہ قوت کے
زیرِ اثر سوپی نے بحث شروع کر دی۔ اور نیو یارک کے پولیس اہلکار کے ساتھ بحث کرنا
قطعی عقلمندی نہیں۔
'' میرے ساتھ آؤ''
اہلکار نے حکم صادر کیا
'' تم تین مہینے جزیرے
کی حوالات میں گزارو گے''
اگلی صبح جج نے سزا سنا
دی۔
Original Title: The
Cop and the Anthem
Written by:
O. Henry
نوٹ: اس افسانے پر مبنی
ایک مختصر مووی دیکھنے لیے اس لنک پر کلک کریں۔ https://www.youtube.com/watch?v=e2x6XZGoeSc
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment