اوہنری کا افسانہ : کیکٹس (The Cactus)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 135 : کیکٹس

تحریر: اُوہنری (امریکہ)

مترجم: سیّد سعید نقوی (نیویارک)




وقت کی سب سے بے رحم خاصیت یہ ہے کہ وہ ایک نسبتی اکائی ہے۔ ایک بڑی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ یاد آوری کا بیشتر حصہ کسی ڈوبتے آدمی کا ورثہ ہے۔ یہ بات بھی کچھ ایسی ناقابل یقین نہیں کہ کوئی اپنے مکمل رومانوی تعلق کو اتنی دیر میںدہرا لے کہ جتنی دیر میں وہ اپنا دستانہ اتار سکے۔

ٹرس ڈیل اپنے کنواروں کے اپارٹمنٹ میں میز کے پاس کھڑا یہی تو کر رہا تھا۔میز پر ایک سرخ مٹی کے گملے میں ایک سبز، بہت کمیاب پودا لگا ہوا تھا۔یہ کیکٹس کی نسل کا کوئی پودا تھا جس کے بڑے پتے ہلکی ہوا کے جھونکے میں بھی ایک مستقل سرشاری میں جھومنے لگتے۔

ٹرس ڈیل کا دوست ، جو دلہن کا بھائی بھی تھا، سائیڈ بورڈ کے نزدیک کھڑا شکوہ کررہا تھاکہ اسے پینے کے لیے تنہا کیوں چھوڑ دیا گیا تھا؟ دونوں شام کا لباس زیب تن کیے تھے۔ اپارٹمنٹ کے ملگجے میں ان کے کوٹ پر رسم ازدواج کی یاد میں لگے ستارے چمک رہے تھے۔

اپنے دستانے کے بٹن کھولتے ہوئے ٹرس ڈیل کے ذہن میں گزشتہ چند گھنٹوں کا منظر گھوم گیا۔اس کی حس مشام ابھی تک گرجا میں پھولوں کے ڈھیر سے اٹھتی خوشبو سے معطر تھی۔اس کی سماعت ہزاروں تربیت یافتہ آوازوں کی سرگوشیوں سے گونج رہی تھی۔ خوبصورت ملبوسات کی سرسراہٹ، اور سب سے زیادہ نکاح خواں کے وہ الفاظ جن کی ادائیگی سے وہ پرائی ہوگئی تھی۔

ناامیدی کے اس مقام پر بھی اس کا دماغ حسب عادت وہ وجوہات تلاش کررہا تھا، جن کے سبب وہ اسے کھو بیٹھا تھا۔اس تلخ حقیقت نے اسے جھنجھوڑ کر اسے ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا تھا جو اس کے لیے بہت اجنبی تھا: خود اس کی غیر آراستہ، برہنہ ذات کا آئنہ ۔ اس نے اپنی خود ساختہ نمائش اور انا کو بکھرتے دیکھا۔ وہ اس احساس سے شرمندہ تھا کہ آج سب کے سامنے اس کی روح کتنی مضمحل، کتنی عریاں رہی ہوگی۔ پر فریب خود نمائی ہی تو اس کا سب سے موثر ہتھیار تھا۔ لیکن وہ ہمیشہ ان مکروہات سے کتنی پاک رہی تھی، مگر پھر بھی کیوں کر؟

جب وہ دھیمے قدموں سے پادری کی جانب بڑھ رہی تھی، تب بھی اسے ایک بے نام ، اداس سی امید تھی جس نے اسے سہارا دیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو یقین دلایا تھا کہ دلہن کا رنگ اس دکھ سے زرد تھا کہ وہ اپنا آپ اپنی محبت کے بجائے کسی اور کے سپرد کر رہی تھی۔ لیکن یہ جھوٹی تسلی بھی وقتی تھی۔ کیوں کہ جب اس مرد نے اس کا ہاتھ تھاما تو اس نے کس والہانہ اپنائیت سے فوراـ " اس مرد کی جانب دیکھا تھا۔ تب وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ماضی کا ایک باب بن چکا ہے۔ کبھی وہی نگاہ اس کے لیے اٹھی تھی اور اس نے اس نگاہ کی تپش محسوس کی تھی۔ مگر اب اس کے مکر کی

دیوار گر چکی تھی، اس کی آخری امید بھی مٹی میں مل چکی تھی۔ آخر یہ بات کیوں ختم ہو گئی تھی، ان کے مابین تو کبھی کوئی تلخ کلامی بھی نہیں ہوئی تھی، کبھی کچھ بھی نہیں۔۔۔

اس نے اپنے ذہن میں ان چند آخری دنوں کی یاد ہزاروں دفعہ دہرائی جب اچانک ہوائوں نے رخ بدل لیا تھا۔

وہ ہمیشہ اسے دیوتا کی مانند سمجھتی، اور وہ بھی اس خراج کو اپنا حق سمجھ کر ایک شاہانہ وقار سے قبول کرلیتا۔ اس نے ٹرس ڈیل کے گرد عقیدت کا ایک ہالہ بن دیا تھا۔ وہ اسے اس کی معصومانہ محبت اور عقیدت سمجھتا۔ یہ وہ دور تھا کہ وہ اس کی وفا اور خلوص کی قسم کھا سکتا تھا۔ وہ اسے کسی کوئی

مافوق الفطرت ہستی سمجھتی جو صلاحیتوں اور خصوصیات کا شاہکار تھا۔ اور ٹرس ڈیل بھی کسی پیاسے صحرا کی مانند عقیدت کی اس بارش کو ثمر آوری کی کوئی امید دلائے بغیر جذب کرلیتا۔

جب ٹرس ڈیل اپنے دستانے کے آخری حصے سے الجھ رہا تھا، تو اس کے ذہن میں اپنی جھوٹی طلسماتی شخصیت کے انہدام کا عکس ابھر رہا تھا، جو اس محبت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔اس منظر نامے میں ٹرس ڈیل نے اپنی محبت کو اپنے برابر لاکھڑا کیا تھا۔ اس شب اس کا حسن جہاں سوز، دراز گیسو ، نگاہوں کی شراب اور الفاظ کا سحر اتنا فسوں خیز تھا کہ اب انہیں یاد کے خانوں میں واپس لانا بھی دکھوں کے راستے کی مسافرت تھی۔ اس شب اس کے سحر سے بچنا ناممکن تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی گفتگو سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ اس گفتگو کے درمیان وہ بولی تھی:

ـ" کیپٹن کروتھر کا کہنا ہے کہ تم ہسپانوی بالکل اہل زبان کی مانند بولتے ہو۔ یہ بات تم نے مجھ سے کیوں چھپائی؟ کوئی ایسا علم بھی ہے جس سے تم ناواقف ہو؟"

اب کروتھر تو خیر احمق تھا۔ بلاشبہ ٹرس ڈیل نے محض مرعوب کرنے کی خاطر لغت کے پچھلے صفحات سے کچھ الفاظ یاد کرکے استعمال کیے تھے۔ کروتھر جو اس کے چرب زبان پرستاروں میں سے ایک تھے، اس نے ہسپانوی میں اس کی قدرت کو خوب گل پھول لگا کر بیان کیا۔

اس کی ستائش اتنی سحر انگیز تھی کہ ٹرس ڈیل نے بلا تردید اسے قبول کرلیا۔بنا احتجاج اس نے ہسپانوی زبان میں قدرت کا جھوٹا لبادہ اوڑھ لیا۔ اس نے اپنی یہ صلاحیت بھی ذہن کی گہرائیوں میں کہیں بسا لی۔ اسے جھوٹ کی وہ چبھن محسوس نہیں ہوئی جو بعد میں اسے تنگ کرے گی۔

وہ حیا کی پتلی، کتنی خوش لیکن کتنی نروس تھی۔ جب گٹھنوں کے بل بیٹھ کر اس نے اپنی عظمت اس قدموں میں نچھاور کردی تھی، تو وہ اسی وقت جان گیا تھا اور اب بھی قسم کھا سکتا تھا کہ اس کی آنکھوں میں قبولیت رقصاں تھی۔لیکن اس نے شوخی سے اس وقت کوئی براہ راست جواب نہ دیا۔

"میں اپنا جواب تمھیں کل بھیجوں گی" وہ بولی۔

اسے اپنی کامیابی کا اتنا یقین تھاکہ اس نے یہ تاخیر بخوشی قبول کرلی۔ اگلے دن وہ بے چینی سے اپنے کمرے میں اس کے جواب کا منتظر رہا۔محض اس کا ہونے والا دولہا اس کے اپارٹمنٹ کے دروازے تک آیا اور سرخ گملے میں وہ عجیب سا کیکٹس چھوڑ گیا۔ اس کے ساتھ کوئی نوٹ ، کوئی پیغام نہیں تھا ، بس ایک پرچی پر کسی اجنبی زبان میں اس پودے کا نباتاتی نام یا کچھ الا بلا درج تھا۔ وہ رات گئے تک منتظر رہا مگر

جواب نہ آیا۔اس کی انا اور مجروح عظمت نے اسے رابطہ کرنے سے باز رکھا۔ دو روز بعد وہ کسی جگہ رات کے کھانے پر ملے۔ان کی تہنیت رسمی سی تھی۔لیکن اس کی نگاہوں میں بے چینی، امید اور سوال نقش تھے۔ ٹرس ڈیل محتاط لیکن مہذب اس کے جواب کا منتظر رہا۔اس پھرتی سے جو اجتنابی رویے کو بھانپ کر کوئی عورت اپنا لیتی ہے، وہ بھی اس کی جانب فورا" سرد مہر ہوگئی۔اس لمحے کے بعد وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے گئے۔ اس کا قصور کیا تھا؟ اس میں قصور کس کا تھا؟ بڑبڑاتے ہوئے، اس نے اپنی ذات کے منہدم ملبے میں جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔

کمرے میں موجود دوسرے آدمی کی آواز مخل ہوئی اور اسے حقیقی دنیا میں واپس لے آئی۔

" ٹرس ڈیل، میں پوچھتا ہوں، تمھارے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے شادی کی تقریب میں تم مہمان نہیں تھے بلکہ تمھاری ہی شادی تھی۔ مجھے دیکھو، ایک اور مہمان، جو جنوبی امریکہ سے دو ہزار میل کا سفر ایک لہسن، کاک روچ اور کیلوں کی بو سے آلودہ بحری جہاز میں طے کرکے آیا ہے، تاکہ اس قربانی میں ہاتھ بٹا سکے۔ دیکھو میں نے اپنا غم کتنی آسانی سے اپنے شانوں پر اٹھا رکھا ہے۔ ایک ہی چھوٹی بہن اور وہ بھی آج پرائی ہو گئی۔ چلو کچھ انڈیلو، اپنا غم غلط کریں۔"

" شکریہ، لیکن میں اتنی جلدی نہیں پیتا " ٹرس ڈیل نے جواب دیا۔

" تمھاری برانڈی قابل مذمتکی جانب نہیں دیکھنا چاہتا تھا مگر اس کے بھونکنے کی آواز سے یہ گمان ہورہا تھا کہ شاید وہ دوبارہ پیچھے ہوتا جارہا ہے ہے" وہ اس کے نزدیک آکر کھڑا ہوگیا۔" کبھی پنٹا روٹنڈا آئو اور وہ چکھو جو بوڑھا گارسیا اسمگل کرکے لاتا ہے۔ تمھارا سفر ضائع نہیں جائے گا۔ ارے یہ کیا ہے؟ یہ تو میرا پرانا شناسا ہے، تمھارے پاس کہاں سے آیا یہ کیکٹس، ٹرس ڈیل؟"

" ایک دوست کا تحفہ ہے" ٹرس ڈیل نے جواب دیا۔" تمھیں اس پودے کی اسپیسی معلوم ہے؟"

" بہت اچھی طرح، یہ منطقہ حارہ کی مخلوق ہے۔ پنٹا میں تو روز ہی ایسے سینکڑوں دیکھتا ہوں۔ یہاں شاید اس پودے کا نام بھی اس پرچی پر لکھا ہے۔ تمھیں ہسپانوی آتی ہے، ٹرس ڈیل؟"

"نہیں " ٹرس ڈیل کے ہونٹوں پر زخمی سی مسکراہٹ بکھر گئی۔ " کیا ہسپانوی میں لکھا ہے؟"

" ہاں، مقامی آبادی کا خیال ہے کہ اس کے پتے بڑھ کے تمھارا استقبال کرتے ہیں۔ وہ اسے وینٹومامی کہتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا مطلب ہوگا آئو اور مجھے اپنالو۔"



Original Title: The Cactus

Written by:

William Sydney Porter (September 11, 1862 – June 5, 1910), known by his pen name O. Henry, was an American short story writer.

 

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 


Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق