یش پال کا افسانہ : پردہ
عالمی ادب کے اردو
تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 133 : پردہ
تحریر: یش پال (بھارت)
مترجم: تنویر غلام حسین
(لاہور، پاکستان)
چودھری پیر بخش کے دادا
چونگی کے محکمے میں داروغہ تھے۔ آمدن اچھی تھی۔ اُنھوں نے ایک چھوٹا لیکن پکا
مکان بھی بنالیا تھا۔ لڑکوں کو بھی تعلیم دلوائی۔ دونوں لڑکے انٹرنس پاس کرکے
ریلوے کے محکمے اور ڈاک خانے میں بابو ہوگئے۔ چودھری صاحب کی زندگی میں ہی دونوں
کی شادی ہوئی اور بال بچے بھی ہوئے۔ لیکن عہدے میں کوئی خاص ترقی نہ ہوئی، وہی تیس
اور چالیس روپے ماہ وار کا درجہ رہا۔ چودھری صاحب اکثر اپنے زمانے کو یاد کر کے
کہتے:
"وہ بھی کیا وقت
تھا کہ لوگ مڈل پاس کرکے ڈپٹی کلکٹری کرتے تھے اور آج کی تعلیم ہے کہ انٹرس تک
انگریزی پڑھنے کے باوجود لڑکے تیس چالیس سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔"
اپنے بیٹوں کو اونچے
عہدوں پر دیکھنے کا ارمان دل میں لیے ہوئے ہی انھوں نے آنکھیں موند لیں۔ چودھری
خاندان اپنے مکان کو حویلی کہہ کر پکارتا تھا۔ نام بڑا دینے کے باوجود جگہ تنگ ہی
رہی۔ داروغہ صاحب کے زمانے میں زنان خانہ اندر تھا اور باہر بیٹھک میں وہ موڑھے پر
بیٹھے حقہ گڑگڑایا کرتے۔ لیکن اُن کے بعد جگہ کی تنگی کی وجہ سے بیٹھک بھی زنانے
میں شامل ہوگئی اور گھر کی ڈیوڑھی پر پردہ لٹک گیا۔ بیٹھک نہ ہونے کے باوجود بھی
چوں کہ گھر کی عزت کا خیال تھا اسی لیے پردہ بوری کے ٹاٹ کا نہیں بلکہ اعلٰی قسم
کا رہتا۔
چودھری پیر بخش نے بھی
کم تعلیم حاصل کی اور جلد ہی اُن کا بیاہ ہوگیا۔ اللہ کےکرم سے بیوی کی گود بھی
جلد بھر گئی۔ پیر بخش نے خاندان کی عزت کے خیال سے روزگار کے طور پر تیل کی مل میں
منشی گیری کی ملازمت حاصل کرلی۔ اُن کی تعلیم زیادہ نہیں تو کیا ہوا؟ سفید پوش
خاندان کی عزت کا پاس تو اُنھیں تھا۔ مزدوری اور دست کاری اُن کے شایانِ شان نہیں
تھی۔ مل کے گودام میں چوکی پر بیٹھتے۔ صرف قلم دوات کا کام تھا۔
بیس روپے ماہ وار زیادہ
نہیں ہوتا۔ اسی لیے چودھری پیر بخش کو ایک کچی بستی میں دو روپے کرایے پر مکان
لینا پڑا۔ آس پاس غریب لوگوں کی بستی تھی۔ گلی کے درمیان میں دیوار کے ساتھ لگے
کمیٹی کے نل سے پانی کی کالی دھار ٹپکتی رہتی تھی۔ اس وجہ سے نالی کے کنارے گھاس
اُگ آئی تھی اور اُس کے اوپر مچھروں اور مکھیوں کے بادل اُمڈتے رہتے۔ سامنے
رمضانی دھوبی کا گھاٹ تھا جس میں سے دھواں اور کپڑوں کا گند اُمڈتا رہتا۔ دائیں
طرف ناگرہ جوتا بنانے والے موچیوں کے گھر تھے اور بائیں طرف ورک شاپ میں کام کرنے
والے قلی رہتے تھے۔
پوری بستی میں صرف
چودھری پیر بخش ہی پڑھے لکھے اور سفید پوش تھے۔ صرف اُن ہی کے گھر کے دروازے پر
پردہ لٹکا ہوا تھا۔ سب لوگ اُنھیں چودھری جی، منشی جی کہہ کر سلام کرتے تھے۔ کبھی
کسی نے اُن کے گھر کی عورتوں کو گلی میں نہیں دیکھا تھا۔ گھر میں اولاد تھی تو وہ
بھی ماشااللہ زیادہ لڑکیاں ۔۔۔ بچیاں چار پانچ برس کی عمر تک تو کسی نہ کسی کام کے
سلسلے میں باہر نکل آتیں لیکن پھر گھر آبرو کے خیال سے باہر نکلنا مناسب نہ
سمجھتیں۔ چودھری صاحب خود ہی صبح و شام کمیٹی کے نل سے مسکراتے ہوئے گھڑے بھرلاتے۔
پندرہ برسوں میں چودھری
صاحب کی تنخواہ بیس سے پینتیس روپے ہوگئی۔ اُن کے یہاں خدا کی برکت ہوئی بھی تو
روپے پیسے کی شکل میں نہیں بلکہ اولاد کی صورت میں اور وہ بھی پندرہ برس میں پانچ
بچے۔ پہلے تین لڑکیاں بعد میں دو لڑکے۔ دوسری لڑکی کے وقت پیر بخش کی والدہ مدد کے
لیے آگئیں۔ والد صاحب کا تو انتقال ہوچکا تھا۔ کوئی دوسرا بھائی بھی والدہ کی فکر
میں نہیں آیا اس لیے وہ چھوٹے بیٹے کے ہاں ہی رہنے لگے۔
جہاں گھر بار اور بال
بچے ہوتے ہیں وہاں سو طرح کے جھنجھٹ بھی ہوتے ہیں۔ کبھی بچے کو تکلیف ہے تو کبھی
ماں کو۔ ایسے وقت میں قرض کی ضرورت کیسے نہ ہو، گھر بار ہوتو قرض بھی ہوگا۔ مل کی
نوکری کا تو قاعدہ پکا ہوتا ہے ہر مہینے کی سات تاریخ کو گِن کر تنخواہ مل جاتی ہے
اور پیشگی سے مالک کو چڑ تھی کبھی انتہائی ضرورت پڑنے پر ہی مہربانی کرتے تھے۔
چودھری صاحب ضرورت کے وقت گھر کی کوئی چھوٹی موٹی چیز گروی رکھ کر اُدھار لے آتے
تھے۔ گروی رکھنے میں روپے کے آٹھ آنے ملتے اور بیاج ملا کر سولہ آنے ہوجاتے۔
پھر وہ چیز کبھی واپس نہ آتی۔
محلے میں چودھری پیر
بخش کی بہت عزت تھی اور اُس عزت کی وجہ تھی گھر کے دروازے پر لٹکا ہوا پردہ – اندر
جو بھی ہو پردہ سلامت رہتا۔ اگر کبھی بچوں کی کھینچا تانی یا ہوا کے بے درد
جھونکوں سے اُس میں چھید ہوجاتے تو پردے کی آڑ سے ہاتھ سوئی دھاگہ لے کر اُس کی
مرمت کردیتے۔
دِنوں کا کھیل دیکھیے
کہ مکان کے بیرونی کواڑ گلتے گلتے بالکل ہی گل گئے۔ کئی دفعہ کسے جانے سے پیچ بھی
ٹوٹ گئے اور سوراخ ڈھیلے پڑگئے۔ مالک مکان سورج پانڈے کو اس کی فکر نہیں تھیں۔
کبھی اگر چودھری صاحب جاکر کہتے تو آگے سے جواب ملتا:
"کون سی بڑی رقم
تھما دیتے ہو؟ دو روپے کرایہ اور وہ بھی چھے چھے مہینے کا بقایا۔ جانتے ہو لکڑی کا
کیا بھاؤ ہے؟ نہ رہو مکان میں، چھوڑ جاؤ۔"
آخرکار کواڑ گر ہی
گئے۔ رات کو تو چودھری صاحب جیسے تیسے اُنھیں چوکھٹ سے لٹکا دیتے لیکن رات بھر
دہشت رہتی کہ اگر کوئی چور آجائے۔ سفید پوشی اور محلے میں عزت کے باوجود بھی گھر
میں چور کے لیے کچھ نہ تھا۔ شاید چور کو لے جانے کے لیے ایک بھی ثابت کپڑا یا برتن
نہ ملتا۔ لیکن چور تو پھر چور ہے چھیننے کے لیے کچھ بھی نہ ہو تو بھی چور کا ڈر
ہوتا ہے وہ چور جو ٹھہرا! لیکن اُنھیں چور سے زیادہ گھر کی آبرو کی فکر تھی۔ کواڑ
نہ رہنے پر گھر کی آبرو کا رکھوالا صرف پردہ ہی تھا آخرکار وہ پردہ بھی تار تار
ہوتے ایک رات آندھی آنے پر بالکل لٹکنے کے لائق نہ رہا۔ صبح سویرے گھر کی اکلوتی
خاندانی دری دروازے پر لٹک گئی۔ جب محلے والوں نے دیکھا تو چودھری صاحب کو مشورہ
دیا:
"ارے چودھری صاحب
اس زمانے میں یوں ایسی درّی کا ہے خراب کرو گے؟ بازار سے ٹاٹ کا ٹکڑا لا کر لٹکا
دو۔"
"کیا ہے؟ ہونے دو!
ہمارے ہاں پکی حویلی میں بھی ڈیوڑھی پردری ہی کا پردہ رہتا تھا۔"
وہ ہنس کر جواب دیتے۔
مہنگائی کے اس دور میں
گھر کی پانچوں عورتوں کے جسم کے کپڑے بھی خستہ ہوکر یوں گر رہے تھے جیسے پیڑ اپنی
چھال تبدیل کرتے ہیں۔ لیکن چودھری صاحب کی آمدنی سے دن مٰں ایک دفعہ پیٹ بھر سکنے
کے علاوہ کپڑوں کی گنجائش کہاں رہتی تھی۔ خود انھیں بھی تو نوکری کے لیے جانا ہوتا
تھا۔ اُن کے پاجامے میں جب اور پیوند سنبھالنے کی تاب نہ رہتی تو اُن کے لیے
مارکین (کپڑے کا نام) کا نیا کرتا پانجامہ خریدنا ضروری ہوجاتا تو وہ لاچار ہو
جاتے۔
جب گھر میں گروی رکھنے
کے لیے کچھ نہ ہوتو غریب کا اکیلا سہارا ہوتا ہے، پنجابی خان۔۔۔! وہ بھی رہنے کی
جگہ دیکھ کر ہی پیسے اُدھار دیتا ہے۔ دس ماہ گود والے بیٹے "برکت" کی
پیدائش کے وقت جب پیر بخش کو پیسوں کی ضرورت پڑی تھی اور کہیں سے بھی ملنے کا
وسیلہ نہ بنا تو اُنھوں نے پنجابی خان "ببر علی خان" سے چار روپے اُدھار
لیے تھے۔ ستیوا کے اس کچے محلے میں ببر علی خان کا روزگار خوب چلتا تھا۔ موچی، ورک
شاپ کے مزدور اور کبھی کبھی رمضانی دھوبی سبھی ببر میاں سے قرض لیتے رہتے تھے۔
چودھری پیر بخش نے اکثر دیکھا تھا کہ قرض اور سود کی قسط نہ ملنے پر ببر علی اپنے
دو ہاتھ کے ڈنڈے سے اِن لوگوں کے درمیان بچ بچاؤ کروایا تھا۔ چودھری صاحب، خان کو
شیطان سمجھتے تھے لیکن جب لاچار ہو گئے تو پھر اُسی سے مدد لینی پڑی۔ اُنھوں نے
خود بھی اُن لوگوں کے درمیان بچ بچاؤ کروایا تھا۔ چودھری صاحب، خان کو شیطان
سمجھتے تھے لیکن جب لاچار ہو گئے تو پھر اُسی سے مدد لینی پڑی۔ انھوں نے چار آنہ
روپیہ ماہانہ پر چار روپے قرض لیا۔ ببر علی نے صرف خاندانی اور مسلمان بھائی کا
خیال کرکے ایک روپیہ ماہ وار کی قسط مان لی اور آٹھ مہینے میں قرض ادا ہونا طے
پایا۔
چودھری صاحب کے رونگٹے
اسی بات پر کھڑے ہوجاتے۔ جب وہ خیال کرتے کہ اگر خان کی قسط ادا نہ ہوسکی تو وہ ان
کے گھر کے دروازے کو بھی اسی طرح پیٹے گا۔ اسی وجہ سے وہ سات مہینے تک بھوکوں رہ
کر بھی کسی نہ کسی طرح قسط ادا کرتے رہے۔ لیکن جب ساون میں برسات شروع ہوئی اور
باجرہ بھی تین سیر ایک روپے کا ملنے لگا تو چودھری صاحب کے لیے قسط دینا ممکن نہ
رہا۔ سات تاریخ کی شام کو خان آیا تو چودھری پیر بخش نے اُس کی ڈاڑھی چھو کر اور
اللہ کی قسم کھا کر خوشامدی لہجے میں ایک مہینے کی مہلت مانگی اور اگلے مہینے ایک
کا سوا دینے کا وعدہ کیا۔ اس طرح خان ٹل گیا۔
لیکن بھادوں میں اور
بھی پریشان کن حالت ہوگئی۔ بچوں کی ماں کی طبیعت روز بہ روز گرتی جارہی تھی۔ کھایا
پیا اُس کے پیٹ میں نہ ٹھہرتا۔ ہاضمہ کے لیے اُسے گیہوں کی روٹی دینا ضروری ہوگیا۔
گیہوں بھی روپے کا اڑھائی سیر مشکل سے ملتا تھا اور پھر بیمار کا دل تو کبھی پیاز
کے ٹکڑے یا دھنیے کی خوش بو کے لیے بھی مچل جاتا ہے اور کبھی کالا نمک اجوائن اور
سونف کی ہی ضرورت پڑجاتی ہے تو کوئی چیز بھی پیسے سے کم نہیں ملتی۔ اب تو بازار
میں ان چیزوں کا نام ہی رہ گیا ہے۔ بات بات پر اَنی (ایک آنہ) نکل جاتی ہے۔
چودھری صاحب کو تو دو روپے الاؤنس بھی ملتا تھا لیکن پیشگی لیتے لیتے تنخواہ والے
دن صرف چار روپے ہی حساب میں باقی رہتے۔
اب پچھلے ہفتے سے بچے
تقریباً فاقے سے تھے۔ چودھری صاحب گلی سے کبھی دو روپے کی چولائی خرید لاتے اور
کبھی باجرہ اُبال کر سبھی کٹورا بھر بھر پی لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ چار روپوں میں سے
بھی خان کو سوا روپیہ دینے کی ہمت چودھری صاحب میں نہ ہوئی۔ اس لیے مل سے گھر
لوٹتے ہوئے وہ منڈی کی طرف نکل گئے اور دو گھنٹے بعد جب سوچا کہ خان ٹل گیا ہوگا
تو اناج کی گھٹڑی لے کر گھر پہنچے۔ لیکن اب خان کے خوف سے دل ڈر رہا تھا۔ دوسری
طرف چار بھوکے بچوں، اُن کی ماں، جو دودھ نہ اُترنے کے سبب سوکھ کر کانٹا ہورہی
تھی وہ اور گود کا بچہ اور چلنے پھرنے سے لاچار بوڑھی ماں۔ ان سب کی بھوک سے بلکتی
صورتیں جب آنکھوں کے سامنے ناچتیں تو وہ دھڑکتے دل کے ساتھ کہتے:
"مولا سب دیکھ رہا
ہے وہ ضرور رحمت کرے گا۔"
سات تاریخ کی شام گزر
گئی اور آٹھ کی صبح سویرے خان اپنا ڈنڈا ہاتھ میں لیے چودھری صاحب کے مل پر جانے
سے پہلے ہی دروازے پر آپہنچا۔
چودھری صاحب نے رات بھر
سوچ سوچ کر خان کے لیے جواب تیار کیا کہ مل کے مالک لالہ جی چار روز کے لیے باہر
گئے ہیں۔ اُن کے دستخط کے بغیر کسی کو بھی تنخواہ نہیں مل سکتی۔ تنخواہ ملتے ہی وہ
سوا روپیہ ادا کردے گا۔ معقول وجہ بتانے پر بھی خان بہت دیر تک غراتا رہا:
"ایسے روپیہ
چھوڑنے کے واسطے تو ام اپنا وطن چھوڑ کر پردیس میں نہیں پڑا، امارا بھی بال بچہ
ہے۔ چار روز میں روپیہ نہیں دے گا تو ام تمارا۔۔۔۔۔!"
لیکن پانچویں روز بھی
روپیہ کہاں سے آتا؟ تنخواہ ملے ہوئے تو ابھی ہفتہ ہی گزرا تھا اور مالک نے بھی
پیشگی دینے سے انکار کردیا تھا۔ مل میں چھٹی ہونے کے باوجود چودھری صاحب، خان کے
ڈر سے صبح ہی سے نکل گئے۔ اپنی جان پہچان کے کئی آدمیوں کے پاس گئے۔
"ارے بھئی، اگر
تمھارے پاس بیس آنے یا روپیہ ہو تو روز کے لیے ذرا دینا۔ ایسے ہی ضرورت آپڑی
ہے۔"
اِدھر اُدھر کی بات چیت
کے بعد وہ اُن سے کہتے:
"میاں اِس زمانے
میں پیسے کہاں ۔۔۔۔ پیسے کا تو مول کوڑی بھی نہیں رہ گیا ہاتھ میں آنے سے پہلے ہی
اُدھار میں تمام اُٹھ جاتا ہے۔"
جواب ملتا۔
اِسی طرح دوپہر ہوگئی۔
"اگر خان آیا بھی ہوگا تو اِس وقت بیٹھا نہیں رہا ہو گا۔" چودھری صاحب
نے سوچا اور گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچنے پر معلوم ہوا کہ خان آیا تھا اور
گھنٹہ بھر دروازے پر لٹکے دری کے پردے کو پکڑے گالیاں دیتا رہا اور پردے کی اوٹ سے
بڑی بی کے قسم کھاکر یقین دلانے پر کہ چودھری صاحب روپیہ لینے باہر گئے ہیں۔ خان
گالیاں دیتا رہا اور کہا:
"نہیں بدذات چور
اندر ہی چھپا ہے۔ ام چار گھنٹے میں پھر آتا ہے اور روپیہ لے کر جائے گا۔ اگر وہ
روپیہ نہیں دے گا تو اُس کی کھال اُتار کر بازار میں بیچ دے گا ۔۔۔۔ امارہ روپیہ
ارام کا ہے کیا؟"
اور پھر چار گھنٹے سے
پہلے ہی خان کی آواز سنائی دی:
"چودھری"
پیر بخش کے جسم میں
بجلی سی تڑپ گئی۔ اُس کے ہاتھ پیر سُن ہوگیا۔ خان نے پردے کو پکڑ کر گالی دی اور
چودھری کو دوبارہ نکالا۔ چودھری صاحب کا جسم بالکل بے جان ہوگیا اور وہ اُٹھ کر
باہر آگئے۔
"پیسہ نہیں دینے
کے واسطے چھپتا ہے۔"
خان آگ بگولا ہورہا
تھا۔ خان کے منہ سے مسلسل پیر بخش کے آباؤ اجداد کے لیے گالیاں نکل رہی تھیں۔ اس
بھیانک صورتِ حال کی وجہ سے پیر بخش کا خاندانی لہو بھڑکنے کے بجائے اور بے جان
ہوگیا۔ وہ خان کے گھٹنوں کو چھوکر اپنی حالت بتا کر معافی کے لیے درخواست کرنے
لگے۔ لیکن خان اور زیادہ بھڑک اُٹھا۔ اُس کی گرج دار آواز سے پڑوسی، موچی اور
مزدور بھی چودھری کے دروازے کے سامنے اکٹھے ہوگئے۔
"پیسہ نہیں دینا
تو لیا کیوں؟ تمارا تنخواہ کدھر جاتا ہے، ارامی امارہ پیسہ مارے گا۔ ام تمارا کھال
کھینچ لے گا۔ اگر پیسہ نہیں تو پھر گھر کے دروازے پر پردہ لٹکا کر کیوں شریف زادہ
بنتا ہے؟ تم چاہے ام کو بی بی کا گینا دو، برتن دو کچھ بھی دوام ایسے واپس نہیں
جائے گا۔"
خان نے غصے سے ڈنڈا
لہرا کر کہا۔
پیر بخش نے بے بسی اور
لاچاری سے دونوں ہاتھ اٹھا کر خان کو دعا دی اور قسم کھائی کہ ایک پیسہ بھی گھر
میں نہیں ہے اور نہ ہی کپڑا ہے۔ خان چاہے تو بے شک اُس کی کھال اُتار کر بیچ دے۔
"ام تمارا دعا کا
کیا کرتے گا؟ امارا تمارا کھال کا کیا کرے گا۔ اُس کا تو جوتی بھی نہیں بنے گا اور
تمارا کھال سے تو یہ ٹاٹ اچھا ہے۔"
خان نے آگ بگولا ہوکر
کہا اور ڈیوڑھی پر لٹکا دری کا پردہ جھٹک لیا۔ ڈیوڑھی سے پردہ ہٹتے ہی چودھری صاحب
کے جیسے جیون کی ڈور ٹوٹ گئی۔ وہ ڈگمگا کر زمین پر گر پڑے۔ کیوں کہ اگلا منظر
دیکھنے کی تاب چودھری صاحب میں نہ تھی۔ لیکن اردگرد کھڑی بھیڑ نے دیکھا کہ پردے کے
دوسری طرف گھر کی عورتیں اور بچیاں پردہ گرتے ہی لوگوں کی دہشت اور خوف سے کانپتی
ہوئیں ایک دوسرے کے ساتھ چمٹ گئیں۔ اُن کے جسم پر باقی بچے چیتھڑے اُن کے ایک
تہائی اعضاڈھکنے میں بھی ناکام تھے۔
بھیڑ نے نفرت اور شرم
سے آنکھیں پھیر لیں۔ اس ننگے پن کی جھلک سے خان کی سختی بھی پگھل گئی:
"لاحول واللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
غلاظت سے تھوک کر پردے
کو واپس آنگن میں پھینک کر، غصے بھری نظروں سے چودھری صاحب کو دیکھ کر خان نے کہا
اور ناکام لوٹ گیا۔
خوف سے چلاتی، اوٹ میں
چھپتی ہوئی عورتوں پر رحم کھاتے ہوئے بھیڑ چھٹ گئی۔ چودھری صاحب ابھی بھی بے سدھ
تھے۔ جب انھیں ہوش آیا تو دیکھا کہ ڈیوڑھی کا پردہ آنگن میں پڑا تھا۔ لیکن اب
اُسے دوبارہ لٹکانے کی ہمت اُن میں نہ تھی۔ اور شاید اب اس کی ضرورت بھی نہ رہی
تھی۔ کیوں کہ پردہ جس عزت کا سہارا تھا وہ مرچکی تھی۔
(ہندی سے اردو ترجمہ)
Written by:
Yashpal (3 December
1903 – 26 December 1976) was a Hindi-language author.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment