ارنسٹ ہیمنگوے کا افسانہ : مردوں کی فطری تاریخ (A Natural History of The Dead)
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 484 : مردوں کی فطری
تاریخ
مصنف : ارنسٹ ہیمنگوے (امریکہ)
مترجم : عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
مجھے ہمیشہ سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے
جنگ کو ماہر فطرت کے مشاہدات کے میدان کے طور پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ہمارے پاس مرحوم
ڈبلیو ایچ ہڈسن کے پیٹا گو نیا کے پودوں اور حیوانات پر دلکش اور اچھے مراسلے ہیں
۔ محترم گلبرٹ وائیٹ نے ہوپو/
Hoopoe( ہد ہد کی نسل کا
گلابی رنگ کا پرندہ ) کے بارے میں اپنے سیلبورن
/Selborneکے اتفاقیہ دوروں کے دوران بہت دلچسپ
انداز میں لکھا ،اور بشپ سٹینلے نے ہمیں پرندوں کی قابل قدر اور مقبول عام تاریخ
بتائی ہے ۔ کیا ہم قارئین کو مرنے والوں کے بارے میں چند عقلی اور دلچسپ حقائق سے
آگاہ کرنے کی امید نہیں کر سکتے ؟ ۔
جب وہ ثابت قدم سیاح ،منگو پارک ایک
سفر کے دوران افریقہ کے وسیع و بیاباں صحرا میں برہنہ اور تنہا بے ہوش ہو گیا تھا
۔وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے دن گنے جا چکے ہیں ۔اس وقت اس کے پاس سواۓ لیٹنے اور مرنے کے کچھ نہیں بچا تھا ،تب اسے ایک غیر معمولی
خوبصورت کائی کا پھول دکھائی دیا ۔اس کا کہنا ہے کہ “ اگرچہ پورا پودا اس کی انگلی
سے بڑا نہیں تھا ،میں اسکی جڑوں ،پتوں اور ڈنڈوں کی نزاکت پر غوروغوض کیے بغیر نہ
رہ سکا ۔ کیا وہ جس نے اسے دنیا کے اس غیرمعروف دقیق حصے میں اگایا پانی پہنچایا
،اور بہترین تکمیل تک پہنچایا ،اور جو اتنا غیر اہم دکھائی دیتا ہے ۔کیا وہ اپنی
شباہت پر پیدا کی گئی مخلوق کی حالت اور مصائب سے بے نیاز ہو سکتا ہے ؟ یقینا”
نہیں ۔ اس قسم کی سوچوں نے مجھے مایوس نہیں ہونے دیا ۔میں اٹھا اور بھوک اور نقاہت
کو نظرانداز کرتے ہوے سفر جاری رکھا ،اس یقین کے ساتھ کہ مدد قریب ہے ۔ مجھے
مایوسی بھی نہیں ہوئی ۔
بشپ سٹینلے کہتے ہیں ، حیرت اور تعظیم
کے جذبے کے ساتھ کیا فطری تاریخ
/ natural history کی کسی بھی
شاخ کا مطالعہ اس ایمان ،محبت اور امید میں اضافہ کئے بغیر کیا جا سکتا ہے ،جس کی
ہمیں اور ہم میں سے ہر ایک کو زندگی کے بیاباں میں اپنے سفر میں ضرورت ہے ؟ اس لئے
چلیں دیکھتے ہیں کہ مرے ہوؤں سے ہم کیا فیض حاصل کرتے ہیں ۔
جنگ میں مرنے والے عموما” نوع انسانی
کے نر ہوتے ہیں ۔لیکن ایسا جانوروں میں نہیں ہوتا ۔میں نے مرے ہوۓ گھوڑوں میں کثرت سے گھوڑیاں بھی دیکھی ہیں ۔جنگ کا ایک دلچسپ
پہلو یہ ہے کہ یہ صرف وہاں ہوتی ہیں ۔جہاں ماہر فطرت کو مردہ خچر دیکھنے کا موقعہ
ملتا ہے ۔ وگرنہ شہری زندگی کے بیس سالہ مشاہدے کے دوران میں نے ایک بھی مردہ خچر
نہیں دیکھا ،جس سے میرے اندر ان شکوک نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا کہ آیا یہ جانور
فانی ہے ؟ شازونادر ہی مجھے مردہ خچر دیکھنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی قریب سے
دیکھنے پر زندہ ثابت ہوے جو اپنے سستانے کے اعلی معیار کی وجہ سے مردہ دکھائی دیے
۔ لیکن جنگ کے دوران یہ بھی زیادہ عام اور کم سخت جان گھوڑوں کی طرح مر جاتے ہیں ۔
زیادہ تر مردہ خچر جو میں نے دیکھے وہ
پہاڑی سڑکوں پر یا کھڑی ڈھلوانوں کے دامن میں تھے ،جہاں انہیں ان کے بوجھ سے نجات
دلانے کے لئے دھکیل دیا گیا تھا ۔ وہاں ان کی موجودگی سے سب مانوس ہوتے ہیں ۔ اس
لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ،بہ نسبت سمیر نا کے ،جہاں یونانیوں نے سامان
ڈھونے والے تمام جانوروں کی ٹانگیں توڑ کر انہیں گھاٹ سے سمندر کے اتھلے پانی میں
ڈوبنے کے لئے دھکیل دیا تھا ۔ڈوبنے والے ٹوٹی ہوئی ٹانگوں والے گھوڑوں اور خچروں
نے اپنی صورتحال کی منظر کشی کے لئے گویا
/ Goya (ہسپانوی مصور) کو
بلانے کا مطالبہ کر دیا ۔ لیکن چونکہ” گویا “ایک ہی تھا جو بہت پہلے مر چکا تھا اس
لئے یہ بھی مشکوک ہے کہ یہ جانور کسی کو بلوانے ،اپنی حالت زار کی نمائندگی بذریعہ
تصاویر کروانے کے مطالبے کے قابل تھے ۔زیادہ امکان ہے کہ اگر وہ کوئی مطالبہ کرنے
کے قابل ہوتے تو کسی کو اپنی حالت زار کو بہتر کرنے کے لئے بلواتے ۔
مرنے والوں کے حوالے سے حقیقت ہے کہ
آدمی نر مردے دیکھنے کا اتنا عادی ہو جاتا ہے،کہ کسی مردہ عورت کو دیکھنا بہت صدمے
کا باعث بنتا ہے ۔ مرنے والوں کی جنس کا الٹ پھیر پہلی دفعہ میں نے اسلحہ فیکٹری
کے دھماکے کے بعد دیکھا ۔یہ فیکٹری ملان ( اٹلی ) کے قریب مضافاتی علاقے میں تھی ۔
ہم جاۓ وقوعہ پر ٹرکوں
میں پوپلر کے درختوں کے ساۓ والی سڑکوں ہر سفر کرتے پہنچے ،جن کے
تباہ شدہ کناروں پر گڑھے تھے ۔ جن میں بے تحاشا چھوٹے جانور تھے ۔ لیکن ہمارے ٹرکوں
کی وجہ سے اٹھنے والے گردوغبار کی وجہ سے میں انہیں واضح طور پر نہیں دیکھ سکا ۔
اسلحہ فیکٹری پہنچ کر ہم میں سے کچھ کو گولہ بارود کے ان بڑے ذخیروں کی نگرانی پر
لگا دیا گیا جو کسی وجہ سے پھٹ نہیں پاۓ ۔جب کے باقیوں کو آگ بجھانے کی ذمہ داری
سونپی گئی ،جو ملحقہ کھیت کے گھاس تک پہنچ چکی تھی ۔آگ پر قابو پانے کے بعد ہمیں نزدیکی
علاقہ اور ملحقہ کھیتوں سے مردہ اجسام اکٹھا کرنے کا حکم ملا ۔انہیں ڈھونڈ کر ہم
نے ایک ترمیم شدہ بہتر مردہ خانے میں پہنچایا ۔یہ جان کر کہ یہ لاشیں مردوں کی
نہیں بلکہ عورتوں کی ہیں جو صدمہ پہنچا اسے تسلیم کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔ ان
دنوں عورتوں نے اپنے بال ابھی چھوٹے کروانے شروع نہیں کیے تھے ۔جیسا کافی سالوں
بعد امریکہ اور یورپ میں ایسا ہونے لگا ۔سب سے زیادہ پریشان کن بات ، شاید اسی لئے
، لمبے بالوں کی جگہ غیر مانوس چھوٹے بالوں کی موجودگی تھی ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے
کہ جب ہم نے سالم مردہ اجسام تلاش کر لئے تو پھر ہم نے مردہ اجسام کے ٹکڑے اکٹھا
کرنا شروع کیے ۔ ان میں سے اکثریت بھاری خار دار تاروں کی باڑ جو کارخانے کو گھیرے
ہوے تھی ،سے الگ کیے گئے ۔اس سب سے ا س دھماکے کی شدت کا اندازہ ہوتا تھا ۔ کچھ
بڑے بڑے ٹکڑے ہم نے بہت فاصلے سے کھیتوں سے چنے جو وزنی ہونے کے باعث بہت دور جا
کر گرے ۔
ملان (اٹلی ) سے واپسی پر ہم میں سے
کچھ اس واقعے پر بحث کر رہے تھے اور اس بات پر متفق تھے کہ غیر حقیقی/ تصوراتی کے
معیار اور یہ حقیقت کہ وہاں کوئی زخمی نہیں تھا ،نے اس تباہی کو مذید ہولناک ہونے
سے بچا لیا ۔اس کے ساتھ ہی یہ سچائی کہ یہ اتنا آنا” فانا” تھا کہ مردہ اجسام ابھی
اتنے ناخوشگوار نہیں ہوۓ تھے کہ انہیں اکٹھا کرنا میدان جنگ کے
تجربات جیسا خوفناک ہو جاتا ۔
واپسی پر خوشگوار اگرچہ گرد آلود
خوبصورت لومبارڈ دیہی علاقوں سے گزرنا اس فرض کی ناخوشگواری کا نعم البدل تھا ۔
واپسی پر جب ہم نے اپنے تاثرات کا تبادلہ کیا تو ہم سب متفق تھے ،کہ آگ پر ہمارے
پہنچنے اور گولہ بارود کے بڑے ذخیرے تک پھیلنے سے قبل ہی قابو پا لینا بڑی خوش
قسمتی تھی ۔ہم اس پر بھی متفق تھے کہ جسمانی آعضاء چننا بھی غیر معمولی کام تھا
۔یہ حیران کن عمل ہے کہ جسم انسانی کو اس طرح ٹکڑوں میں اڑا دیا جاۓ کہ وہ اپنی ساخت کے مطابق نہ رہیں ۔
ایک فطرت پسند ، مشاہدے کی درستگی کے
لئے اپنے مشاہدات کو کسی ایک عرصے تک محدود کر لیتا ہے ۔میں اس پر عمل کرتے ہوے
اٹلی میں جون 1918 کی آسٹرین جارحیت کو لوں گا ،جس میں بہت زیادہ اموات ہوئیں
۔پہلے مجبوری کی پسپائی اختیار کی گئی اور بعد میں ہاری ہوئی زمین لینے کے لئے پیش
قدمی کی گئی ۔ اس طرح لڑائی سے قبل اور لڑائی کے بعد کی صورت حال ایک جیسی رہی ۔
دفنانے تک مردے کی ظاہری حالت ہر روز بدلتی ہے . قفقاز ی
( Caucasian ) نسل کے مردوں کی رنگت سفید سے پیلی پھر
پیلا ہٹ لئے سبز اور آخر میں کالی ہو جاتی ہے۔ اگر گرمی میں کافی دیر رہنے دیا جاۓ تو گوشت کول تار جیسا ہو جاتا ہے ۔خاص طور پر اس جگہ سے جہاں سے
وہ کٹا پھٹا ہوتا ہے ۔ اور اس میں تار کول کی طرح کی ست رنگی جھلملا ہٹ آ جاتی ہے ۔
مردہ ہر روز حجم میں پھیلتا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ وہ یونیفارم کے قابل نہیں رہتا
اور یونیفارم پھٹنے کے قریب آ جاتا ہے ۔ مردہ جسم ناقابل یقین حد تک پھیل جاتے ہیں
،چہرے غباروں کی طرح کھچے ہوے کرے بن جاتے ہیں ۔ان کی مسلسل فر بہی کے ساتھ ساتھ
حیران کن چیز ان کے ارد گرد بکھرے کاغذوں کی تعداد ہے ۔دفنانے سے قبل ان کی آخری
حالت ان کے یونیفارم کی جیبوں پر منحصر ہوتی ہے ۔آسٹرین فوج میں جیب پتلونوں کی
پشت پر ہوتے ہیں اور کچھ ہی وقت میں مردے منہ کے بل پڑے ہوتے ہیں ۔دونوں کولہوں کے
جیب ابھر کر باہر کی طرف نکل آتے ہیں ان کے اندر موجود کاغزات ارد گرد گھاس پر
بکھر جاتے ہیں ۔ گرمی ،مکھیاں ، گھاس میں پڑے اجسام کی حالت اور کافی تعداد میں
بکھرے کاغذات ایسے تاثرات ہیں جو حافظے میں محفوظ رہ جاتے ہیں ۔میدان جنگ کی بو
اور گرم موسم یاد نہیں رہتا ۔آپ کو یہ تو یاد رہتا ہے کہ وہاں بو تھی ،لیکن آپ کسی
طرح اسے واپس نہیں لا سکتے ۔یہ رجمنٹ کی بو سے مختلف ہو تی ہے ۔جب آپ سٹریٹ کار
میں ہوتے ہیں تو یہ بو آپ تک پہنچ جاتی ہے ،تب آپ سامنے دیکھتے ہیں تو آپ کو وہ
آدمی نظر آ جاتا ہے جو اس بو کو آپ تک پہنچانے کا باعث بنتا ہے ۔ لیکن میدان جنگ
والی بو مکمل طور پر جا چکی ہوتی ہے بلکل اسی طرح کہ جب آپ محبت میں گرفتار تھے تب
آپ جن واردات قلبی سے گزرے آپ کو یاد ہیں لیکن آپ ان سے وابستہ سنسنی خیز احساس کو
دوبارہ محسوس نہیں کر سکتے ۔
انسان حیران ہوتا ہے کہ منگو پارک
جیسا سیاح گرم موسم میں میدان جنگ میں کیا دیکھ کر اپنا اعتماد بحال کرتا ۔ جون اور
جولائی میں کھیتوں میں گندم کے ساتھ ہمیشہ پوست کے پھول ہوتے ہیں اور شہتوت کے
درخت پتوں سے بھرے ہوتے ہیں ،انسان اس وقت بندوق کی نالیوں سے نکلنے والی گرم
ہوائیں دیکھ سکتا ہے ،جنہیں سورج پتوں کی آوٹ سے پہنچتا ہے : مسٹرڈ /رائی گیس کے
گولوں سے بننے والے گڑھوں کے کناروں والی زمین شوخ / چمکدار پیلا رنگ اپنا چکی
تھی،اور متوسط ٹوٹا پھوٹا گھر بھی گولاباری سے تباہ شدہ گھر سے بہتر دکھائی دیتا
تھا ،لیکن بہت کم سیاح اس موسم گرما کے ابتدائی دنوں کی ہوا میں بھر پور سانس لیتے
ہوۓ منگو پارک جیسی امید افزا سوچیں سوچ سکتا ہے ۔
سب سے پہلی بات جو مرنے والوں کے بارے
میں معلوم ہوئی کہ انہیں اس بری طرح ضرب لگائی گئی کہ وہ جانوروں کی طرح مر گئے ۔
کچھ تو چھوٹے / معمولی سے زخم سے جس سے ایک خرگوش کا مرنا مشکل ہے ،فورا” مر گئے ۔
ہاں کبھی کبھار تین یا چار چھوٹی گولیوں / شاٹس سے جو بمشکل جلد پھاڑ سکیں ،سے
خرگوش مر جاتا ہے ۔ بعض بلیوں کی طرح مرتے ہیں ،جو ٹوٹی ہوئی کھوپڑی اور دماغ میں
گھسی گولی لیئے دو دن کوئلے کے ڈبے میں رینگتی رہتیں ہیں اور اس وقت تک نہیں مرتیں
جب تک آپ ان کے سر نہ کاٹ دیں ۔ ۔ہوسکتا ہے بلیاں تب بھی نہ مریں کیونکہ کہا جاتا
ہے کہ بلیاں نو جنم جیتی ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم لیکن بہت سارے مرد مردوں کی طرح
نہیں بلکہ جانوروں کی طرح مرتے ہیں ،میں نے کبھی کسی کی نام نہاد طبعی موت نہیں
دیکھی ،اس کا الزام میں جنگ پر رکھتا ہوں ۔ اور ثابت قدم سیاح منگو پارک کی طرح
جانتا ہوں ،کہ کہیں کچھ اور بھی ہے اور وہ کچھ اور ہمیشہ غائب رہتا ہے ۔اور پھر
میں نے اسے دیکھ لیا ۔
واحد قدرتی موت ، جس کی وجہ خون کا
ضیاع نہیں تھا ، جو میں نے دیکھی ،وہ اتنی بری نہیں تھی ، وہ ہسپانوی انفلوئنزا سے
تھی ۔ اس میں آپ بلغمی سیال میں ڈوب جاتے ہیں ،دم گھٹتا ہے ۔آپ کو کیسے پتہ چلتا
ہے کہ مریض مر چکا ہے ۔ آخر میں وہ پھر سے ایک چھوٹا بچہ بن جاتا ہے ۔اپنی مردانہ
قوت کے باوجود ایک آخری پیلے سیال سے چادروں کو ڈائیپر کی طرح بھر دیتا ،جو مریض
کے مرنے کے بعد بھی ٹپکتا رہتا اور فرش پر بہتا رہتا ۔اور اب میں کسی بھی اپنے آپ
کو انسانیت پرست کہنے والے کی موت کا مشاہدہ کرنا چاہتا ہوں ،کیونکہ کوئی اور منگو
پارک جیسا ثابت قدم سیاح یا میں خود زندہ ہیں اور اس ادبی فرقے کے ارکان کی حقیقی
موت دیکھنے کے لئے زندہ رہیں اور ان کا باعزت خروج دیکھ سکیں ۔ بہ حیثیت فطرت پرست
، استغراق کے دوران مجھے خیال آیا کہ تہزیب اور شائستگی بہت شاندار چیز ہے لیکن اس
وقت بد تہذیب / ناشائستہ ہونا پڑے گا جب بات نسل کی ہو گی اور افزائش نسل کے لئیے
تجویز کردہ شرط غیر مہذب ہوگی بلکہ بہت زیادہ غیر مہذب ہو گی ۔مجھے یہ بھی خیال
آیا کہ شاید یہ لوگ ایسے ہی ہیں یا تھے : غیر مہذب / ناشائستہ مباشرت کی پیداوار ۔
لیکن اس سے ہٹ کر کہ ان کا آغاز کیسا تھا میں ان میں سے کچھ کا انجام دیکھنے کی
امید رکھتا ہوں ، اور اندازہ لگاتا ہوں کہ اس طویل عرصے سے محفوظ بانجھ پن کو کیڑے
کیسے آزمائیں گے ۔ اس کے ساتھ ہی ان کے عجیب خیالاتی پمفلٹ شکست و ریخت کا شکار ہو
جائیں گے ۔ساتھ ہی ان کی ہوس حواشی میں لکھے گئے الفاظ کی طرح بے وقعت ۔
مرے ہوؤں کی قدرتی تاریخ میں شاید ان
خود نامزد شہریوں سے معاملات طے کرنا جائز ہے ۔ اگرچہ اس تحریر کے شائع ہونے تک اس
خود نامزدگی کی کوئی وقعت / حیثیت نہ رہے ،پھر بھی یہ دوسرے مرنے والوں کے ساتھ نا
انصافی ہے ۔ جو اپنی پسندیدہ جوانی میں مرے نہیں تھے ۔جن کے پاس رسالے نہیں تھے
،جن میں سے بہت ساروں نے بلا شبہ ایک ریویو/تجزیہ تک نہیں پڑھا اور انہوں نے گرم
موسم میں آدھا پنٹ کیڑوں کو ان کے منہ کے پاس اپنا کام کرتے دیکھا۔ مرنے والوں کو
ہمیشہ گرم موسم ہی نہیں ملا ۔بہت دفعہ بارش ہوئی اور مردوں کو جہاں بھی پڑے تھے
صاف کر گئی ۔دفن کرنے کے لئے زمین نرم ہو گئی ۔بعض اوقات جب زمین کیچڑ بن جاتی تو
انہیں نہلا کر دوبارہ دفن کرنا پڑتا ۔موسم سرما میں پہاڑوں پر برف میں چھوڑ دیا
جاتا اور جب بہار میں برف پگھلتی تو کوئی اور انہیں دفن کر دیتا ۔ پہاڑوں میں بہت
خوبصورت قبرستان ہوتے ہیں ۔پہاڑوں پر لڑی گئی جنگ سب سے خوبصورت جنگ ہوتی ہے ۔
ایسی ہی ایک جگہ پوکول
/ Pocol میں ایک جنرل کو دفنایا گیا .جسے ایک
سنپر/ Sniper ( چھپ کر گولی چلانے والا ) نے سر میں گولی
ماری تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مصنفین بلکل غلط ہیں جو “ جنرلز بستر پر مرتے
ہیں “ جیسی کتابیں لکھتے ہیں ۔ کیونکہ یہ جنرل پہاڑوں پر برف میں کھودی گئی خندق
میں مرا تھا ۔ اس نے الپائنی ہیٹ پہنا ہوا تھا جس میں عقاب کا پر لگا ہوا تھا ۔
ہیٹ کے سامنے والے حصے میں سوراخ تھا ،جس میں آپ چھوٹی انگلی بھی نہیں ڈال سکتے
اور اس کے پیچھے کی طرف بھی ایک سوراخ تھا جس میں آپ چھوٹی مٹھی ڈال سکتے تھے ,اگر
آپ ڈالنا چاہتے تو ۔ برف پر بہت زیادہ خون تھا ۔ وہ ایک شاندار جنرل تھا ۔ایسا ہی
جنرل وون بہر/ Von Behrبھی تھا جو کیپوریٹو کی جنگ میں
بویرین الپینکارپس دستوں کی کمانڈ کر رہا تھا ۔ اسے اپنی سٹاف کار میں اطالوی عقبی
دستے نے اس وقت مارا جب وہ اپنے دستوں کے آگے آگے یوڈین میں داخل ہو رہا تھا ۔اس
لئے اگر ہمیں ان معاملات میں درستگی رکھنی ہے تو ایسی تمام کتابوں کے عنوانات اس
طرح ہونے چاہیں ،” جنرلز عموما” بستر پر مرتے ہیں ۔ “ ۔
پہاڑوں پر بھی بعض اوقات ڈریسنگ سٹیشن
سے باہر پڑے مردوں پر برف گرتی تھی ۔ ڈریسنگ سٹیشن پہاڑ کی اس جانب تھا جو گولہ
باری سے محفوظ تھا ۔ انہیں ، ایک غار میں جو زمین کے برف سے منجمد ہو جانے سے قبل
کھودا گیا تھا میں لے گئے تھے ۔ اس غار میں ایک آدمی جس کا سر پھولوں کے گملے کی
طرح ٹوٹ گیا تھا ،اگرچہ وہ ابھی تک جھلیوں اور بڑی مہارت سے کی گئی پٹیوں کی وجہ
سے اکٹھا تھا ۔ اس کے دماغ میں ٹوٹے ہوۓ سٹیل کا ایک ٹکڑا گھس جانے کی وجہ سے
خلل پڑا تھا ۔وہ ایک دن ،رات اور پھر ایک دن لیٹا رہا ۔ سٹریچر برداروں نے ڈاکٹر سے
غار میں جا کر اس کا معائنہ کرنے کی استدعا کی ۔ وہ جب غار کا چکر لگاتے تو اسے
دیکھتے ۔اگر نہ بھی دیکھتے تو بھی ا نہیں اس کی سانس لینے کی آواز سنائی دیتی تھی
۔ ڈاکٹر کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں اور پپوٹے آنسو گیس کی وجہ سے سوجے ہوے
تقریباً” تقریباً” بند تھے ۔ اس نے اس آدمی کا دو دفعہ معائنہ کیا تھا ۔ایک دفعہ
دن کی روشنی میں اور دوسری مرتبہ ٹارچ کی روشنی میں ۔ٹارچ کی روشنی سے کیا گیا
معائنہ “گویا” ( ہسپانوی پینٹر ) کے لئے بہت اچھی ایچنگ ( دھات کی تختی پر تیزاب
ڈال کر نقش و نگار بنانا ) / بنانے کا باعث بنتا ۔ دوسرے معائنے کے بعد ڈاکٹر کو
بھی سٹریچر برداروں پر یقین آ گیا تھا کہ وہ زندہ ہے ۔
“ آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں کہ میں کیا کروں ،” ڈاکٹر نے پوچھا
۔ایسا کچھ بھی نہیں تھا جو وہ ڈاکٹر سے کروانا چاہتے تھے ،لیکن پھر بھی کچھ دیر
بعد انہوں نے ڈاکٹر سے اسے اٹھا کر باہر شدید زخمیوں میں اسے لٹانے کی اجازت مانگی
۔
“نہیں ،نہیں ،نہیں ،ڈاکٹر نے کہا ،جو بہت مصروف تھا ۔ “ کیا
معاملہ ہے ؟ کیا تم اس سے خوفزدہ ہو ؟ ۔”
“ ہمیں اس کا مردوں میں سانس لیتے سننا اچھا نہیں لگ رہا ۔”
“ تو مت سنو ، اگر تم اسے وہاں سے اٹھاؤ گے تو تمہیں اسے فورا”
وہاں واپس لے جانا پڑے گا
“
کیپٹن ڈاکٹر ،ہمیں یہ برا نہیں لگے گا
۔
“ نہیں ،کیا تم نے نہیں سنا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ،نہیں ۔”
ڈاکٹر بولا ۔
“ تم اسے مارفین زیادہ مقدار میں کیوں نہیں دیتے ۔ “ ایک آرٹلری
افسر جو اپنے بازو کے زخم کی پٹی کے لئے انتظار کر رہا تھا نے ڈاکٹر سے پوچھا ۔
“ تمہارے خیال میں میرے پاس مارفین کا صرف یہی استعمال ہے ؟ ،کیا
تم یہ چاہتے ہو کہ میں مارفین کے بغیر آپریشن کروں ۔ تمھارے پاس پستول ہے ،جاؤ اور
اسے خود گولی مار دو ۔
“
افسر نے جواب دیا ،” اسے پہلے ہی گولی
لگی ہوئی ہے ۔ اگر تم ڈاکٹروں میں سے کسی کو گولی لگی ہوتی تو تمہارا رویہ مختلف
ہوتا ۔ “
“ تمہارا شکریہ ، “ ڈاکٹر نے چمٹی
/ forceps ہوا میں لہراتے ہوے کہا ۔ “ ایک ہزار
مرتبہ شکریہ ،ان آنکھوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ “ ڈاکٹر نے چمٹی کا رخ آنکھوں
کی طرف کرتے ہوے کہا ۔” تم انہیں کیسے پسند کرو گے ؟”
“ آنسو گیس ۔ ہم اسے خوش قسمتی کہتے ہیں۔”
“ اس لئے کہ تم اس طرح محاز جنگ چھوڑ دیتے ہو ۔اپنی آنسو گیس
نکلوانے کے لئے بھاگتے ہوے یہاں آ جاتے ہو , “ ڈاکٹر نے جواب دیا ،” تم آنکھوں میں
پیاز رگڑتے ہو ۔تم حواس باختہ ہو ۔ میں تمہاری توہین کی پرواہ نہیں کرتا ،تم پاگل
ہو ۔”
سٹریچر بردار داخل ہوتے ہیں ۔
“ کیپٹن ڈاکٹر ،” ان میں سے ایک نے کہا ۔
“ یہاں سے نکل جاؤ ،” ڈاکٹر نے کہا ۔
وہ چلے گئے ۔
“ میں اس غریب کو گولی مار دوں گا ۔” آرٹلری افسر نے کہا ۔” میں
رحم دل انسان ہوں ،میں اسے تکلیف برداشت نہیں کرنے دوں گا “ ۔
“ مار دو گولی ،” ڈاکٹر بولا ۔ “ مار دو ، زمہ داری اٹھا لو ،میں
رپورٹ لکھ دوں گا ۔زخمی کو آرٹلری لیفٹینینٹ نے معالجہ چوکی نمبر ایک پر گولی مار
دی ۔جاؤ ،جاؤ ،اور گولی مار دو ۔”
“ تم انسان نہیں ہو ۔”
“ میرا کام زخمیوں کی دیکھ بھال کرنا ہے ،انہیں قتل کرنا نہیں
۔یہ کام آرٹلری شرفاء کا ہے ۔”
“ تو پھر تم اس کی دیکھ بھال کیوں نہیں کر رہے ؟ ۔ “
“ وہ میں کر چکا ہوں ۔وہ سب کر چکا ہوں جو کیا جا سکتا ہے ۔”
“ تم اسے ریلوے کیبل پر کیوں نہیں بھیج دیتے ؟ ۔”
“ تم مجھ سے سوال پوچھنے والے کون ہوتے ہو ؟ کیا تم اعلی افسر ہو
۔ ؟ کیا اس معالج چوکی کے نگران تم ہو ؟ مجھے جواب دینے کے شرف سے نوازو ۔ “
آرٹلری آفسر نے خاموشی اختیار کر لی
۔کمرے میں اس وقت سب سپاہی تھے ۔ کوئی اور آفسر نہیں تھا ۔
“ جواب دو ،” ڈاکٹر نے چمٹی سے سوئی پکڑتے ہوے کہا ، “ جواب دو؟
۔”
“ تمہاری۔۔۔۔” آرٹلری افسر نے گالی دی ۔
“ تو۔۔،” ڈاکٹر بولا ،” تو تم نے یہ کہا ، “ ٹھیک ، ٹھیک ،ہم
دیکھتے ہیں ۔”
آرٹلری لیفٹینینٹ کھڑا ہو گیا ،ڈاکٹر
کی طرف چلتے ہوے گالیاں دینے لگا ۔ “ تمہاری ۔۔۔۔۔۔، تمہاری ماں ۔۔۔۔، تمہاری بہن
۔۔۔۔”
ڈاکٹر نے آیوڈین سے بھری طشتری اس کے
منہ پر دے ماری ۔ ڈاکٹر کی طرف بڑھتے ہوے ،اندھا ہوتے ہوے اس نے پستول ٹٹولا
۔ڈاکٹر نے تیزی سے اس کے پیچھے چھلانگ لگائی اور اسے گرا لیا ۔ جونہی وہ فرش پر
گرا اسے زور دار ضربیں لگائیں اور اپنے ربڑ کے دستانے پہنے ہاتھوں سے اس کا پستول
اٹھا لیا ۔ لیفٹینینٹ فرش پر بیٹھ گیا ۔ اپنا صحت مند ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھ لیا
۔
“ میں تمہیں قتل کر دوں گا ! “ اس نے کہا ۔ “ جونہی مجھے دکھائی
دینے لگے گا ،میں تمہیں قتل کر دوں گا ۔”
“ میں یہاں کا کرتا دھرتا ہوں ،تم مجھے قتل نہیں کر سکتے ،کیوں
کہ تمہارا پستول میرے پاس ہے ۔ سرجنٹ ! ایڈجوٹینٹ ! ایڈجوٹینٹ ! “
“ ایڈجوٹینٹ کیبل ریلوے میں ہے ۔” سرجنٹ نے جواب دیا ۔
“ الکوحل اور پانی سے اس افسر کی آنکھیں صاف کرو ،آیوڈین اس کی
آنکھوں میں چلی گئی ہے ۔ میرے ہاتھ دھونے کے لئے تسلہ/ بیسن لاؤ ۔ اگلی باری اس
افسر کا معائنہ ہے ۔”
“ تم مجھے ہاتھ نہیں لگاؤ گے ۔”
“ اسے مضبوطی سے پکڑو ,یہ تھوڑا خبطی ہے ۔”
سٹریچر برداروں میں سے ایک اندر داخل
ہوا ۔
“ کیپٹن ڈاکٹر ۔”
“ تمہیں کیا چاہیے ؟
“
“ مردے خانے والا آدمی
———“
“ فورا” ،نکلو یہاں سے ۔”
“مر چکا ہے ، کیپٹن ڈاکٹر ، میں نے سوچا ،آپ یہ جان کر خوش ہوں
گے ۔”
“ دیکھا ،میرے بے چارے لیفٹینینٹ ،ہم بلا وجہ لڑ رہے تھے ،جنگ کے
دنوں میں ہم بلا وجہ جھگڑتے ہیں ۔”
“ تمھاری ۔۔۔۔۔” آرٹلری افسر نے پھر گالی دی ۔اب تک اسے دکھائی
نہیں دے رہا تھا ،” تم نے مجھے اندھا کر دیا ۔”
“ یہ کچھ بھی نہیں ، تمہاری آنکھیں بلکل ٹھیک ہو جائیں گی ۔ یہ
سب بلا وجہ ہے ، بلا وجہ کا جھگڑا—“
“ۂاۓ ! ہاۓ ! ہاۓ ! “ لیفٹینینٹ اچانک چلانے لگا ۔ “ تم نے مجھے اندھا کر دیا !
تم نے مجھے اندھا کر دیا
! “
“ اسے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو ،” ڈاکٹر نے کہا ،” یہ بہت تکلیف
میں ہے ،بہت زیادہ مضبوطی سے پکڑو ۔
“
Original Title:
A Natural History of The Dead
Written by:
Ernest Hemingway
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment