سیمین دانشور (ایران) کا افسانہ : وکیل بازار
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
انتخاب افسانہ نمبر 494 : وکیل بازار
افسانہ نگار :سیمین دانشور (ایران)
مترجم: حمزہ حسن شیخ
(ڈیرہ اسمعیل
خان)
وکیل
بازار کے داخلی دروازے پر، مرمر نے بچی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ اس نے اپنا پردہ دُرست
کیا اور کہا،
”پیاری! تم آہستہ
آہستہ آگے کی جانب بڑھو۔ میں نے کچھ میوہ جات وغیرہ خریدنے ہیں۔ احتیاط کرنا
اورسڑک کے کنارے پر ہی رہنا۔“ وہ سیدھی میوہ جات کی دوکان کی جانب بڑھی۔ جب چھوٹی
لڑکی نے اپنی آیا کے ہاتھوں کو چھوڑا تو اُس کا ہاتھ گیلا تھا۔ اس نے اسے اپنے
کپڑوں کے ساتھ رگڑ کر خشک کیا، اپنے اُسی ہاتھ میں اپنی گڑیا تھامی اور ہجوم نے
فورا اُسے آگے بازار کی جانب دھکیل دیا۔ بازار کا فرش ہموار نہ تھا لیکن لڑکی اپنی
گڑیا کے ساتھ اتنی مگن تھی کہ اُس نے گڑھوں میں پڑنے والے اپنے قدموں کی پرواہ نہ
کی اور نہ ہی اُسے اپنی آیا کی غیر موجودگی کا احساس ہوا۔ گڑیا اگرچہ بہت بھدی سی
تھی لیکن اُس کے لیے بہت ہی پیارا اثاثہ تھی اور جیسے جیسے وہ ٹہلتی گئی، وہ بچوں
کی طرح اس کے ساتھ سارے وعدے کرتی گئی جو کچھ وہ اپنے لیے پسند کرتی تھی۔ اُس نے
بد صورت کٹھ پتلی سی گڑیا کے ساتھ چاپلوسی جاری رکھی اور پھراپنی ماں اور آیا کی
نقل اُتارتے ہوئے اس کو ڈانٹ دیا۔ اُن کی طرح بات کرتے ہوئے اُس نے خود کو بوڑھا
محسوس کیا اوراپنے آپ کو حقیقتاً ماں ہی
تصور کیا اگرچہ وہ صرف چھ سال کی تھی۔
اُس نے مدتوں اپنی آیا سے
درخواست کی تھی کہ وہ اُسے ایک کھلونا بنا دے لیکن آیا نے کافی عرصے یہ کام نہ
کیا۔ آخرکار، ایک دن، فرصت کے کچھ گھنٹے ڈھو نڈ کر، اُس کی آیا نے اُسے ایک گڑیا
بنا دی۔ اُس نے سر سے پاؤں تک،اس کو کپاس سے بھر دیا،گالوں کے لیے دو سرخ مثلث
ٹانک دیں جو اب سرخ سے زیادہ سیاہ ہو چکی تھیں، آبرو کے لیے ایک سیدھی سیاہ لکیر
اور دو بڑے، زندگی سے عاری گول دائرے جن کو آنکھیں بنانے کے لیے، درمیان میں سیاہ
نشان بنائے گئے تھے۔ ٹھوڑی ایک گول نشان تھا جس کو سیاہ دھاگے کے ساتھ سیا گیا
تھا۔ گڑیا کے بازو اور ٹانگیں شکل اور حجم میں بالکل ایک جیسی تھیں جو تکیہ نما
ایک جسم کے ساتھ لٹکی ہوئی محسوس ہوتیں۔ چاہے بچی اُن کو اُکھاڑنے کی ہزار کوششیں
کرتی لیکن کبھی بھی کامیاب نہ ہوتی اوربالآخر اُس نے یہ خیال ہی ترک کر دیا۔
لڑکی اپنے اردگرد سے غافل
اپنی گڑیا میں کھوئی، کپڑوں کی دُکانوں کی ایک قطار پار کر گئی۔ باپردہ خواتین،
اپنے چہرے مسلم حجاب اور پردے کے پیچھے چھپائے، بازار کے سامنے والے پلیٹ فارم پر
چھوٹے اسٹولوں پر بیٹھی، دکان داروں کے ساتھ لین دین میں مصروف تھیں۔ بالکل نیا
برانڈ کپڑا، کلف کی سختی کے ساتھ، اُن دکانداروں کے سامنے پھیلا ہوا تھا۔ کچھ جلدی
جلدی ایک آدھے میٹر کی لکڑی کے ساتھ کپڑے کی ناپ کر رہے تھے جبکہ کچھ بڑی بڑی
قینچیوں کے ساتھ کپڑا کاٹنے میں مصروف تھے۔ کچھ گاہکوں کے ساتھ ہنستے مسکراتے ہوئے
بات چیت کر رہے تھے جبکہ کچھ ماتھے پر تیوریاں چڑھائے، عورتوں کو کاٹ کھانے کو
دوڑتے دکھائی دیتے تھے۔ لڑکی نے عدم دلچسپی کے ساتھ، اُن پر ایک اُچٹتی ہوئی نگاہ
ڈالی اور گزر گئی۔ اُس نے پیچھے دیکھے بغیر ہی سوچاکہ آیا زیادہ پیچھے نہیں اور
جلد ہی وہ اُس کے ساتھ ہو گی۔وہ کسی بھی لمحے، اپنی آیا کی آوازسُننے اور کچھ میوہ
جات کی اُمید کر رہی تھی۔ ایسا کبھی نہ ہواتھا کہ اُس کی آیا لیٹ ہوئی ہو۔ وہ بھی
اُس سے کچھ دُوری پر خوش تھی کہ اُسے باربار اُس کی بیزارکرنے والی باتیں نہیں
سُننا پڑ رہی تھیں، ”یہ کرو۔۔۔یہ مت کرو“۔ اس بازار کی حیرت انگیز زندگی میں ایسا
کچھ ضرور تھا جس نے اس لڑکی کو آزردہ کر دیا تھا۔ شاید، یہ بہت سی مختلف آوازیں۔۔۔
یا فاصلے سے سنا جانے والا ہنگامہ تھا، شاید یہ مرطوب اور گھٹن زدہ دوپہر کی ہوا
تھی یا اپنے مالکوں کے ساتھ چلتے گدھے یا پھر بہت بھاری بُوجھ اُٹھائے ہوئے مزدور
جو تھکی ہوئی کھردری آوازمیں چلا رہے تھے: ”توجہ۔۔توجہ۔۔ادھر دیکھو۔۔ایک جانب ہو
جاؤ۔۔“یا شاید یہ خاص قسم کی باس تھی جو اس بازار کا خاصہ تھی، جیسے نمی، تمباکو،
پودنیہ، مرچیں اور ہلدی کی بُویا انسانی پسینے میں رچی ہوئی لوبان کی خوش بُو، جس
نے اسے ایک ناقابل شناخت مرکبات کی مہک میں بدل دیا تھا۔ لیکن کیا اُسے معلو م تھا
کہ اُس کی آیا اُس کے پیچھے نہیں آ رہی تھی۔کچھ نیا کھوجنے کی جستجو نے اُس کو بے
نیاز کر دیا۔ وہ شاید رونے لگ جاتی اور جلداز جلد یہاں سے بھاگتی۔
وہ بازار کے پہلے سنگم کے
قریب، کھلونوں کی ایک دُکان کے سامنے رُک گئی۔ جب بھی وہ وہاں سے اپنی آیا کے ساتھ
گزرتی، کھڑکی میں کھڑی گڑیاں اُس پر آنکھیں جھپکتی تھیں۔ وہ ہمیشہ وہاں کھڑا ہوکر
اُن کو دیکھنا چاہتی تھی لیکن اُ س کی آیا اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُسے کھینچ کر دُور
لے جاتی۔ اُس نے صرف و صرف کھلی بڑی آنکھوں والی گڑیوں کو گھورا۔کتنی خوبصورت
مخلوق تھی! وہ شہزادیوں کی طرح بڑے بڑے ڈبوں یااپنے بستروں پر آنکھیں بند کر کے
سوئی ہوئی تھیں۔ یہاں تک کہ اُن کی پلکیں اور کمان کی طرح آبرو بھی تھے۔ اُن کے
گھنگھریالے بھورے بال اورمکئی کے دانوں کے رنگ نے اُن کے چہروں کو گھیرا ہوا تھا۔
اُن کی گالیں اور ٹھوڑیاں اتنی خوبصورت تھیں کہ ہر کسی کا اُن کو چھونے اور پیار
کرنے کا جی کرتا۔ کتنی خوش نصیب تھیں وہ! کتنی خوش لباس تھیں وہ! اُن کے لمبے لمبے
لباس اُن کے گھنٹوں سے نیچے تک تھے۔ یہاں تک کہ اُن کی جرابیں اور جوتے بھی تھے!
اُن کی چولیاں لیس،ربن اور نرم کپڑے سے بنی ہوئی تھیں۔ لڑکی کو وہ بے حد پسند تھیں
اُسے غصہ آتا کہ اُس کے پاس اتنی بُری گُڑیا تھی کہ اُسے اس کے اندر سے گندی کپاس
نکالنے کے لیے اس کے ٹانگیں الگ کرنی پڑتیں۔ اُس نے غور سے اپنی گُڑیا کو دیکھاجسے
دیکھ کر اُسے متلی سی آ رہی تھی۔ اس کے گنجے سر پر ایک گندہ اسکارف تھااور اس کے
کپڑے بہت خوفناک دکھائی دیتے۔ اس کی خالی آنکھیں صرف اس کی مُردنی اور اُداس چہرے
کو واضح کرتیں؛ ٹکی ہوئی ایک لمبی سیاہ لکیر ناک کے طور پر تھی اور اس کے نیچے
ہونٹوں کے بجائے ایک سُرخ نشان تھا۔ اس کے سخت بازوؤں باہر لٹکے ہوئے تھے؛ اس کی
ٹانگیں ایسے مردے کی طرح لمبی تھیں جسے پھانسی پر لٹکایا گیا ہو۔ وہ حیران تھی کہ
کیسے یہ خستہ حال گڑیا اُس کے ساتھ اتنے عرصے تک رہی اور کیوں اس کا وجود اس کے
لیے اتنا اہم تھا؟ وہ حیران تھی کہ کیوں وہ رات کو اس وقت تک نہ سو پاتی جب تک کہ
یہ بھدی کٹھ پتلی اس کے ہمراہ نہ ہوتی۔ وہ اس کے لیے لوریاں گاتی اور اس کو
سینکڑوں بار سہلاتی۔ غیر ارادی طور پر، اُس نے گڑیا کو پھینک دیا۔ لحظے میں، گزرنے
والے ہجوم نے اس کو روند ڈالااور اُسے دور لے گیا۔ اب وہ کھلونوں کی دکان کے سامنے
نہ تھی بلکہ اُس کی اپنی گڑیا بھی کھو گئی تھی۔ اب اُسے کچھ گھبراہٹ ہوئی۔ آہستہ
آہستہ وہ خود کواس بھر ے بازار میں تنہا محسوس کرنے لگی۔ اُس نے احتیاط سے اپنی
کھوئی گڑیا کی تلاش میں نظریں دوڑائیں۔ اُسے اپنا گلہ خشک محسوس ہوااور وہ رونے
لگی۔ وہ چیخنا چاہتی تھی، ”میں کھو چکی ہوں۔ مجھے اپنی آیا کی تلاش ہے۔“ اس نے
گڑیا دوبارہ اُٹھانے کے لیے واپس جانے کا سوچالیکن اُسے معلو م تھا کہ وہ ہمیشہ کے
لیے کھو گئی تھی۔ اُس کے چھوٹے سے دماغ میں بہت بڑا خوف جنم لینے لگا۔ آنسووں کے
درمیان، اُس نے عجیب و غیریب شبہ کے ساتھ اپنے اردگرد کے لوگوں کو دیکھا۔ اس وقت،
اُس نے اپنے کھو جانے کی حقیقت کے یقین کو کسی بھی دھوکے پر ترجیح دی۔ وہ رُکی
اورپیچھے مڑ کر، اپنی جانب آتی سیاہ برقعوں میں ملبوس خواتین کو بہت غور سے دیکھا۔
وہ اپنی آیا کی تلاش میں تھی۔ ساری خواتین ایک جیسی دکھائی دیں، جیسے وہ کوئی سیاہ
بوریاں ہوں جن کو اُوپر اور نیچے سے باندھ دیا گیا ہو۔ اُن کی پہچان کی صرف ایک
نشانی اُن کا بر قعہ تھا کہ آیا وہ نیا ہے یا پُرانا۔ اُس کی آیا کا برقعہ نیا
تھا؛ اُس کا نقاب بھی صاف سھترا تھا اور اس کی آنکھوں کی جگہ پہ لیس لگی ہوئی تھی۔
کھوئی ہوئی بچی نے تمام سیاہ پوش خواتین کو بغور دیکھاجن پر نقاب پڑے تھے لیکن
اُسے اپنی آیا نظر نہ آئی۔
٭٭٭٭٭
تاہم، آیا آرام سے میوہ
جات کی دُکان کے پچھواڑے میں بیٹھی تھی۔ اُس نے چہرے سے نقاب اُٹھایا ہوا تھااور
اپنے سستے چمکدار اور پھولداربالوں کے کلپ کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ اُس کی پیشانی
پہ، چہرے کے نقاب کی پٹی کا ایک سرخ نشان بن گیا تھا۔ بھورے رنگ کا دُکاندار، جس
نے ایک سبز رنگ کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی، نے اُسے للچائی ہوئی نگاہوں سے گھورا اور
اُس سے مخاطب ہوا:
”پیاری بہنا، ایسا
لگتا ہے جیسے ان دنوں، تم کچھ زیادہ ہی معصوم اور خوبصورت ہو گئی ہو۔۔۔اچھا، آج کل
تم کہاں رہ رہی ہو؟میں نے سُنا ہے کہ تم اپنے پرانے مالک کے پاس واپس چلی گئی ہو۔
اُس نے دوبارہ تمہیں کیسے قبول کر لیا؟ شاید تم نے اُسے اپنے عرق کی خوشبو میں
پھنسا لیا ہے؟“
اُس نے چائے کاایک پیالہ
اور چینی کی کچھ ڈلیاں ایک ٹرے میں، اُس کے سامنے رکھ دیں۔ مرمر کو چھوٹی لڑکی کا
ذرہ برابر بھی خیال نہ رہا جو بازار میں ادھر اُدھر ماری ماری پھر رہی تھی۔ اُس نے
کہا،
”اوہو، ایسی باتیں
چھوڑو۔اُن کے ہاں اور کون رہتا یا کام کرتا ہے سوائے میرے؟ اُن کے مختلف عمر کے چھ
بچے ہیں جو صبح سے شام تک ایک سے دوسری جگہ دوڑتے پھرتے ہیں۔ مجھے ہر وقت اُن پر
نظر رکھنی پڑتی ہے۔ مادام کا ان باتوں سے کچھ بھی لینا دینا نہیں: اُنہیں اور بھی
بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔۔۔۔“ دھیرے سے اُس نے چینی کی ایک ڈلی اُٹھائی، اُس کو
اپنے لبوں کے درمیان رکھا اور چائے کی چسکیاں لینے لگی۔
میوہ جات کا دُکان کا
مالک اپنی پُرانی قمیض اور پاجامہ نما پتلون میں مر مر کے سامنے، ایک بدمست سانپ
کی طرح مسحور کن اُکڑاں بیٹھا ہوا تھا۔ یہ واضح تھا کہ وہ اُسے چھیڑناچاہتا تھا۔
وہ اُس کی ساری ادائیں دیکھ کر، اُس کے
ردعمل سے محظوظ ہونا چاہتا تھا۔ اُس نے کہا؛
”اچھا، پیاری! کیا
تم نہیں جانتی؟انہوں نے دیکھا کہ کوئی بھی اُن کا گند تمہاری طرح صاف نہیں کر سکتا!“
مرمر پر دُکاندار کی ان
باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ اُس کا جی چاہا کہ وہ اس کے ساتھ کچھ اور دل
رُبائی کرے۔ دُکاندار نے پُوچھا،
”ویسے کیا تمہیں وہ
دن یاد ہے جس دن مُلا نے پتلی جرابیں پہننے پہ سب کے سامنے تمہیں کوڑے مارے تھے؟
تم نے کیسا عجب منظر پیش کیا تھا!کیا تم ابھی بھی پتلی جرابیں پہننے کا سوچتی ہو؟“
وہ ہنس ہنس کے اتنا لوٹ پوٹ ہو گیا کہ اُس کی آنکھوں سے پانی نکل کر اُس کی گالوں
پہ بہنے لگا۔ جیسے ہی وہ ہنسا، اُس کے پیلے، ناہموار دانت اور جامنی مسوڑے نظر آنے
لگے۔ مرمر نے وہ دن یاد کیا جس کا وہ ذکر کر رہا تھا۔ اُس نے مُلا کوبُرا بھلا کہا
جس نے اُس کے ٹخنوں پر کوڑے لگائے تھے۔۔۔ یہ اتنے سخت نہ تھے بلکہ اُسے بہت بھلے
لگے تھے لیکن اُس نے کراہتے ہوئے اپنے سر کو جھٹکا تھا جس سے سارے کوارٹر کے امن
کی فضامنتشر ہو گئی تھی۔ جب وہ اپنی چائے ختم کر چکی تو اس نے کہا؛
”وہ کمینہ مولوی؛
اس کی اپنی بیٹیاں بد ترین ہیں۔ اُسے اُن کوکچھ کہنے کی ہمت نہیں۔ جونہی وہ گھر سے
باہر نکلتا ہے، لڑکیاں جلدی جلدی بناؤ سنگھارمیں مصروف ہو جاتی ہیں۔ شہوت سے اپنے
کولہے مٹکاتی رہتی ہیں اور اُن کا باپ مجھ پر کوڑے برساتا ہے۔ کیا تم اس پر یقین
کرو گے؟“
یہ واضح تھا کہ مر مر کو
اُس مُلا اور اس کی بیٹیوں کا تذکرہ اچھا نہیں لگا تھا کیونکہ حسد اور غصے کی وجہ
سے اُس کی گردن کی رگیں پھول گئی تھیں اور آواز کانپنے لگی تھی۔ مرمر کو معلوم تھا
کہ دُکاندار مکمل طور پر اُس کی گفتگو سے لطف اندوز ہو رہا تھا اور رازدارانہ طور
پر اُس کی گہری رنگت، چاہ ذقن، اُس کی سیاہ آنکھوں اور آبرو کی تعریف کر رہا تھا۔
اُس نے سادگی سے اپنے جذبات کے اظہار سے انکار کر دیا کیونکہ وہ بہت ہی ضدی اور
خود غرض تھا۔ وہ اُٹھ کھڑ اہوا اور مرمر کے لیے میوہ جات کی ایک بھری ہوئی طشتری
تیار کرنے لگا۔ بغیر کسی تاخیر کے، مرمرنے زور سے اپنا ہاتھ طشتری پر مارا اور
مٹھی بھر میوہ اُٹھا کر جلدی سے اپنے منہ میں ڈال دیا اور کہا، ”تمہارے پاس کتنا
مزیدار میوہ ہے!“
اسی اثنامیں، ابھی تک
اپنی آیا کو ڈھونڈتے ہوئے، لڑکی کی توجہ ایک کونے سے آتی ہوئی موسیقی کی لے کی
جانب کھنچی چلی گئی۔ خوف اور دُکھوں کو بھلا کر، اُس کے قدم آواز کی جانب بڑھتے
چلے گئے جو ایک کپاس اوٹنے کی دُکان سے آ رہی تھی۔ دُکان کے اندر، کپاس کے ایک
ڈھیر نے سارے اسٹور کو برف کی ایک پتلی سی تہہ کی طرح ڈھانپ رکھا تھاجو ہر آنکھ کو
خیرہ کر رہی تھی۔ ایک بوڑھا سفید باریش آدمی، ایک کونے میں اس سفید ڈھیر پر بیٹھا
ہوا تھا اور ایک نوجوان آدمی، لمبے سیاہ لباس میں، دوسرے کونے میں بیٹھ کر، روئی
کو توم رہا تھا۔ روئی کوٹنے کی زم زمبو کی ایک جیسی لیکن دلچسپ دھن نے بچی کو
متحیر کر دیا۔ وہ روئی کے اُڑتے ہوئے گالوں کو دیکھ کر حیر ت زدہ تھی جو اُن بندوں
کے اردگرد بالکل برف کے گالوں کی طرح تھے۔ دھیرے دھیرے، وہ اس اُڑتے ہوئے سفید
مادے کے ساتھ ڈھکتے جا رہے تھے جیسے جیسے یہ نیچے گر رہا تھا۔ کچھ دیر، بچی نے
اس دُھن کا لُطف اُٹھایا؛ یہاں تک کہ وہ
اس دھنائی کی آواز پر ہنسنے لگی، جو مسلسل اس کارڈ پر اُوپر اور نیچے دھنی جارہی
تھی۔ وہ اپنا غم اور پُر ہجوم بازار میں کھوجانے کا خوف بھول گئی۔ وہ وہاں کچھ دیر
ٹھہری رہی۔ لیکن جلد ہی وہ اس سے بھی بیزار ہو گئی کہ اس میں کتنی یکسانیت اور
اُکتاہٹ تھی۔ ایسا دکھائی دیتا تھا کہ یہ کبھی بھی ختم، یہاں تک کہ تبدیل نہیں ہو
گی۔ باربار ایک ہی دُھن دہرا رہی تھی، بالکل ایسے ہی جیسے باربار روئی ہوا میں اُڑ
رہی تھی۔ اُکتاہٹ اور پریشانی کے بعد، لڑکی آگے کی جانب بڑھی اور ایک بار پھر
بازار کا ایک نہ ختم ہونے سلسلہ اُس کے سامنے تھا۔ لمحے کے لیے، اُس نے سوچاکہ وہ کبھی
بھی گھر نہیں پہنچ پائے گی۔ اس خیال سے وہ کانپ گئی اور پاگلوں کی طرح دُوڑنا شروع
کر دیا۔
وہ جلد از جلد اُس پُر
ہجوم بازاراور بے پناہ رش والی جگہ سے بھاگنا چاہتی تھی۔ وہ زیادہ دیر اس دھوکے
باز بازار اور اس کی عارضی تفریح کے لیے، کھڑی نہیں ہو سکتی تھی۔ ان اجنبی لوگوں
کے لیے جو کبھی بھی یہ نہیں سمجھ سکتے تھے کہ وہ کتنی اکیلی تھی اور اُسے کس قدر
تسلی کی ضرورت تھی۔ اُن کو صرف و صرف اپنے کام سے غرض تھی، بغیر کسی خیال کے کہ وہ
کس قدر مایوسی کی حالت میں کھو چکی تھی۔ اگرچہ وہ یہ سمجھ سکتے تھے لیکن انہوں نے
اُس کی زیادہ پرواہ نہیں کی؛ وہ صرف اُس سے ٹکراتے یا اُس کے پاؤں پر اپنے قدم رکھ
دیتے۔ اُس نے خواہش کی کہ وہ یہ دھوکے بازجگہ چھوڑ دے جس نے اُسے دغا دیا تھا۔ وہ
ایک پُر سکون جگہ تلاش کرنا چاہتی تھی جہاں وہ دل کھول کر رُو سکے۔ وہ اپنی آیا کو
تلاش کرکے اُس کے برقعے میں چھپ جانا چاہتی تھی، وہ اتنی مضبوطی کے ساتھ اُس کا بر
قعہ پکڑنا چاہتی تھی کہ دوبارہ کبھی بھی نہ کھو پائے۔ اُس نے خواہش کی کہ اُس کی
آیا دوبارہ کبھی اُسے نہ چھوڑے اور بازار میں کبھی بھی اس طرح نہ جانے دے جس طرح
اُس نے اُسے آج چھوڑا تھا۔
اگرچہ، آیا مکمل طور پر
باتوں میں مگن تھی۔ وہ اب حقہ پی رہی تھی اور بڑے ہی چنچل انداز میں نتھنوں سے دھواں نکالتے ہوئے اپنے ماضی کی
کہانیاں سُنا رہی تھی۔ اُس نے اُن شاموں کو یاد کیا جب اُسے باہر چھت پر سونے کے
لیے بستر لگانے پڑتے تھے۔ جیسے ہی مُلاکا بیٹا، وہی مُلا جس نے اُس کے ٹخنوں پر
کوڑے لگائے تھے، اپنی ٹوٹی ہوئی آواز میں مغرب کی اذان دینے کے لیے چھت پرآتا، وہ
اپنی بغلیں اور چھاتیاں نیم عریاں کر کے بستر پر لیٹ جاتی۔ اُسے وہ شام بھی یاد
تھی، جب ڈھلتے ہوئے سورج میں، وہ پہاڑوں کے خوبصورت نظارے کے بہانے ہمسایوں کی چھت
پر گئی تھی اور اُونچی اور میٹھی زبان میں، اُس نوجوان سے کہا تھا؛
”جناب، اللہ آپ کا
بھلا کرے، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پہاڑ اُمید سے ہے۔ یہ اتنا بڑا ہو چکا ہے کہ
ایسا معلوم پڑتا ہے کہ اس کے جڑواں بچے ہونے والے ہیں۔“ اُسے یاد تھا کہ کیسے اُس
نے ایک ادا سے سرد آہ بھری تھی اور کیسے وہ یہ کہتی چلی گئی تھی: ”یقینا یہ چاند
اور چمکتے ستاروں کی ہی کارستانی ہے کہ انہوں نے اس کو اُمید سے کر دیا ہے۔“اور
نوجوان نے کہا تھا؛
”عورت، تم کون ہو
جو خدا کی تخلیق کے بارے میں اس طرح سے بات کرتی ہو؟ اپنی زبان کو لگا م دو!“اور
مرمر نے جان لیا تھا کہ اُسے اس کے بولنے کا انداز پسند آیا تھا۔ وہ اُس کے
اُوپروالے ہونٹ پر خوبصورت نشان کو گھورے جا رہا تھا اور مرمر نے کہا تھا:
”جناب نے خوبصورت
اور دلکش آواز پائی ہے۔“
مرمر نے حقہ کھولا تاکہ
دھواں نکل جائے، اُوپرپڑے ہوئے کوئلے کو اُڑایا اور ہاتھ کے ساتھ ادھ۔جلے انگاروں
کو دوبارہ ٹھیک کیا۔ پھر اُس نے دوبارہ حقے کو بند کیااور حقہ دُکاندار کو واپس
کرتے ہوئے کہا؛
”ہرروز وہ لڑکا
کبھی ایک بہانے تو کبھی دوسرے بہانے چھت پر آجاتا۔ آخرکار، اُس نے پاجامے میں آنا
شروع کر دیا۔ وہ میرے گھر کی جانب جھانکتا اور مجھے اُوپر آنے کا اشارہ کرتا۔
یقینا، میں سختی سے پیش آتی اور اُسے تنگ کرنے کے لیے چھت پر جانا ترک کر دیا تاکہ
وہ مجھ سے زیادہ سے زیادہ محبت کرے۔ آخرکار، وہ
زیادہ برداشت نہ کر سکااور پاگل ہو گیا۔ اُس کے بڑے سر والے باپ نے اُس کے
لیے ہر قسم کی دُعا کی اور اُس کے علاج کے لیے ہر طرح سے احتیاط کی لیکن اس سے
کوئی فرق نہ پڑا۔ اُس کے خاندان نے یہاں تک سوچا کہ وہ کسی کے عشق میں مبتلا ہے
اور اس لیے اُس کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ لیکن اس کا بھی کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ
ہوا۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ کیوں؟ کیونکہ اُس کا علاج صرف میرے پاس تھا۔ آخرکار،
اُس کے خاندان کے ہوش ٹھکانے آئے اور مجھے عارضی طور پہ اُس کی بیوی تسلیم کر لیا۔
میری سانسوں نے اُس کا اُسی وقت علاج کر دیا۔۔۔“ مرمر اچانک اپنی جگہ سے اُچھلی۔
”مجھے جانا ہے۔ میں نے اُس بچی کو بازار کے داخلی دروازے پر چھوڑا تھااور یہاں آئی
تھی۔ میں اُس کو ہیلو بول کر رُوک بھی نہیں پاتی۔“ دُکاندار نے اُس کا ہاتھ مضبوطی
کے ساتھ دباتے ہوئے کہا؛
”کہاں جا رہی ہو
تم؟ آرام سے بیٹھو۔ وہ بالکل خیریت سے ہوگی۔ آؤ انہی کچھ لمحوں سے، ہم لطف اندوز
ہوتے ہیں۔“
٭٭٭٭٭
ننھی لڑکی، ابھی تک اپنی آیا
کو ڈھونڈ رہی تھی اور خوف اور مایوسی نے اُس کو گھیر لیا تھا۔ وہ اب دوبارہ بازار
کے پہلے سنگم پر پہنچ چکی تھی۔وہ پریشان تھی کہ اُسے کون ساراستہ لینا چاہیے:
کیااُسے وہیں کھڑا رہنا چاہیے جہاں اُس کی آیا نے اُسے چھوڑا تھا؟ یااُسے دائیں
جانب مڑنا چاہیے؟ وہ جانتی تھی کہ گھر کا راستہ بازارکی دائیں جانب تھا؛ لیکن
بالکل آخر میں، گند کے ڈھیر بہت تنگ اور موڑوں سے بھرپور ہو جاتے اور وہ اُن سے
خوفزدہ تھی۔ اگر وہ بائیں جانب مڑتی تووہ ایک بڑے چوک میں جا نکلتی جہاں پر گھوڑا
گاڑیاں ایک قطار میں انتظار کرتی تھیں اور وہ اُن سے خوف کھاتی تھی۔ وہ بڑے بڑے
جانوروں کے اُٹھنے والے قدموں سے ڈرتی تھی۔ اکثر و بیشتر اُس کی آیا اُس کو کتوں،
گھوڑوں اور گدھوں کے بارے میں خبردار کرتی رہتی۔ اُس نے کچھ دیرانتظا رکیااور
پھربالکل سامنے والے راستے پرجانے کافیصلہ کیاجوایک چوراہے سے گزرتا تھا۔گروسری
اسٹور کے سامنے، ایک درویش اُونچی اُونچی آواز میں کہہ رہا تھا، ”یا علی ؑ
مدد۔۔۔یا علی ؑمدد۔“اس آواز نے اُسے اپنی جانب متوجہ کر لیااوروہ اُس کے قریب جا
کر کھڑی ہو گئی۔وہ اُس کی لمبی سفیدداڑھی، سر پر ہیٹ اور اُس کی اُٹھائی ہوئی
ٹوکری کو اشتیاق سے دیکھنے لگی۔ آہستہ آہستہ درویش دُور چلا گیا جو ہر دوسرے ڈگ پر
رُکتا اور بہت سی ایسی باتیں کہتا جو لڑکی کی سمجھ سے باہر تھیں۔ اُس نے اپنی
ٹوکری میں ہاتھ ڈالا، کچھ ٹافیاں نکالیں
اور گھڑے جیسے پیٹ والے دُکاندار کو دیں جومختلف رنگ برنگی اشیاء سے بھری بڑی بڑی
بوریوں کے ساتھ ایک اُونچی سی پلیٹ فارم جیسی جگہ پہ بیٹھا ہوا تھا۔کچھ ادھ بھری
بوریوں نے لڑکی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا دی۔ خاص کر، وہ بوریاں جو کجھور،
کشمش اور اخروٹوں سے بھری ہوئی تھیں لیکن اُس نے ان بوریوں کو یکسر نظر انداز کر
دیا جن میں چاول، مٹر، چنے اور دالیں تھیں۔ صرف ایک بوری جس کے بارے میں وہ نہ جان
پائی، کچھ سفیدگول قسم کی اشیاء سے بھری ہوئی تھیں؛ شاید وہ سوکھا ہوا آب شیر
یاشاید کوئی ٹافی تھی؟ درویش نے ننھی لڑکی کو بھی کچھ ٹافیاں دیں۔ وہ ہچکچائی اور
ایک بارپھر خوفزدہ ہوکر آدمی کا جائزہ لینے لگی۔ اُس کو اپنی آیا کی ’بچوں کے
اغواء‘ کی کئی خوفناک کہانیاں یاد تھیں۔جبلی طور پر، اُس نے یہی اندازہ لگایا کہ
اُس کے سامنے کھڑا یہ عجیب و غریب شخص، جو اُونچی اُونچی آواز میں نہ سمجھ آنے
والے الفاظ بول رہاتھا اور بہت آہستہ آہستہ چلتا تھا۔ وہ ’بچوں کے اغواء کار‘ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہو
سکتا۔ اُس نے سوچا، ”وہ بآسانی مجھے پکڑ سکتا ہے اور اپنی ٹوکری میں ڈال کر، کندھے
پہ اُٹھا کر بھاگ سکتا ہے۔“ اچانک وہ بہت خوفزدہ ہو گئی اور ٹافیاں لینے سے انکار
کر دیااور دوبارہ اُس کی جانب دیکھا تک نہیں۔ اُس نے اپنے قدموں کی رفتار تیز کر
دی اور جلدی سے دوڑنا شروع کر دیا۔
بازار کا فرش ہمیشہ کی
طرح گڑھوں سے بھرا ہوا تھا۔وہ تیز رفتار ی سے درویش سے دوربھاگ رہی تھی کہ ایک
چھوٹا لڑکا زور سے اُس سے ٹکرایا۔ اس سے پہلے کہ وہ خود کو سنبھال پاتی، وہ بہت ہی
بے ڈھنگے انداز میں زمین پر گری۔ اُس کے گھٹنے پر شدید چوٹیں آئیں اور اُس نے رونا
شروع کر دیا۔ اُسے ہر صورت میں، اپنی آیا کی ضرورت تھی۔ لڑکے نے اُس کی اُٹھنے میں
مدد کی،وہ اُس کی جانب دیکھ کر مسکرایا اور اُس کے کپڑوں سے گرد جھاڑنے لگا۔لڑکے
نے اُس کے گھٹنے کا جائزہ لیااور کہا،
”فکر مت کرو، یہ معمولی
سازخم ہے۔ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔ تمہاری ماں کہاں ہے؟“ کھوئی ہوئی لڑکی نے اپنے
آنسووں کے بیچ سے لڑکے کی جانب دیکھا اور مسکرائی۔ اچانک ہی اُس کو سکون سا محسوس
ہوا اور اُس نے سوچا کہ وہ اس چھوٹے لڑکے پر بھروسہ کر سکتی ہے۔
اُس وقت تک، لڑکی کئی
مرتبہ کوشش کر چکی تھیں کہ وہ ان سیاہ برقعے والی خواتین میں سے کسی کو اپنی جانب
متوجہ کر پائے، اُن کو بتا پائے کہ وہ کھو چکی ہے اور اُن سے مدد کی طلب گار ہے۔
لیکن وہ جلدی سے آگے کی جانب بڑھے اور دوبارہ اُن کی جانب نہ دیکھا۔ اب اُسے
چھوٹالڑکا مل گیا تھا اور اُس کے آنسو خشک ہو چکے تھے۔لڑکی نے اُس کا ہاتھ مضبوطی
سے تھام لیا اور اُسے بتا یا کہ وہ کھو چکی ہے۔
اور پھر وہ سب کچھ بھول
گئی؛ اپنے کھو جانے کو بھی؛ اپنے نیچے گرنے، سارے خوف اور پریشانیوں کو۔ اُس کا
چہرہ کھل اُٹھا۔ جب سے وہ اس پُر ہجوم بازار میں داخل ہوئی تھی، یہ اُس کے لیے بہت
ہی آرام دہ اور خوشی بھرے لمحات تھے۔ جو کچھ بھی اب تک اُس کے ساتھ ہوا تھا، اُس
میں سے کسی بھی چیز کا اس چھوٹے لڑکے کے ساتھ ہونے والی میٹھی گفتگو سے کوئی
موازانہ نہ تھا۔خوبصورت گڑیاں دیکھنے اور سفید ریش درویش کو ملنے کی خوشی بہت جلد
ہی ہوا ہو گئی۔ چھوٹے لڑکے کے ساتھ، اگرچہ اُس کو کچھ نیا مل گیا جو اُس کے عدم
تحفظ اورپریشانیوں کو اُس سے بہت دُور لے گیا۔ وہ مختلف دلچسپ راستوں میں اندر اور
باہر کی جانب چلتے رہے اور یہاں تک کہ کچھ راستوں پر پیچھے کی جانب بھی گئے تاکہ
لڑکا اُسے گروسری اسٹور میں کچھ رنگ برنگے لالٹین دکھا سکے۔ انہوں نے چھت کے ساتھ
لٹکتے ہوئے سمندری لالٹین، چائے کے مختلف رنگ برنگے تھیلے اور سفید چینی کی بڑے
بڑے مخروطی مرتبان دیکھ کر لُطف لیا؛ خاص طور پر انہوں نے ”ہزار دستکاریوں کے ڈبے“
کو پسند کیا جو دُکاندار کے ساتھ جبکہ ایک پُرانا ترازو اُس کے سامنے پڑا تھا۔ حسد
سے، انہوں نے رنگ برنگے، صاف ستھرے اوراق میں لپٹے ہوئے لالٹینوں کو دیکھا جو
دوسری تمام اشیاء کے درمیان میں پڑے تھے۔ لڑکے نے اُسے بتایا؛
”تم رات کو اس
لالٹین کے اندر ایک شمع روشن کر سکتی ہواور چھوٹے بازار میں ننھے بچوں کو دکھا
سکتی ہو۔“
”ہاں مجھے معلو م
ہے۔“ لڑکی نے جواب دیا۔
انہوں نے اپنی مہم جاری
رکھی۔ دُکانوں کی آنے والی قطار میں اُن کے لیے دلچسپی کی کوئی چیز نہیں تھی اس
لیے انہوں نے ان کی جانب کوئی توجہ نہیں دی۔ ایک ہی دوکان جس پر لڑکی کی نظر ٹکی،
وہ رنگ برنگے ریشم کے دھاگوں، خوبصورت سوتی کپڑوں، لیس اور ہر رنگ کے خوبصورت
بٹنوں کی دُکان تھی۔ چھوٹے سے ترازو پر ایک دُکاندارتھوڑاسا پیلے رنگ کا ریشم تول
رہا تھا۔ کتنا ہی دلکش ریشم تھا یہ۔۔۔بالکل گڑیا کے بالوں کے رنگ والا!!! لیکن
لڑکا اُسے وہاں سے دُور لے گیااور وہ ہنسی خوشی اُس کے ساتھ چلتی گئی، نہ صرف وہ
اپنی اس پوری مٹر گشت کو بھول چکی تھی بلکہ وہ اپنی آیا کو بھی۔
اور جہاں تک آیا کی بات
ہے۔اس نے میوہ جات کی دُکان کے مالک کی باتوں سے ناطہ جوڑ لیا۔ وہ ابھی تک دُکان کے پچھواڑے میں بیٹھی، بچی کے
بارے میں مکمل طور پر بھول چکی تھی جس کا خیال رکھنا اُس کے فرائض میں شامل تھا۔
وہ دُکاندار کومُلا کے گھر میں، اپنی خوشحال زندگی کی کہانی سُنا رہی تھی۔
”تم تصور بھی نہیں
کر سکتے کہ وہ مجھ سے کتنا پیار کرتا تھا اورمیرے کتنے لاڈاُٹھاتا تھا۔ وہ مجھے
کہتا، ”ان کھردرے فرشوں پہ تم اپنے پاؤں گندے مت کیا کرو؛ اس کے بجائے تم میری
آنکھوں پہ چلا کرو۔ہر رات جب وہ گھرآتا تو میرے لیے مٹھائیوں، ٹافیوں اور لیموں سے
رُومال بھر کر لاتا۔ وہ باغ سے یاسمین کے سارے پھول اور کلیاں چُن کر لاتا اور
میری چھاتیوں کے درمیان بکھیر دیتااور کہتا، ”میری پیاری بُلبل! تم میرے لیے گاتی
کیوں نہیں؟“
دُکاندارنے جلدی سے حقہ
جھاڑا اور طنزیہ انداز میں بولا، ”بُلبل۔۔آہ۔۔؟“
اس حرکت نے مرمر
کو اپنی ساس اور نندوں کی یاد دلا دی۔ اُس نے یاد کیا کہ کیسے وہ خود کوسارا دن ان
خواتین کے سامنے صاف ستھرا رکھتی اور رات کو مُلا کے سامنے بھی مگر اتنا کچھ کرنے
کے باوجود بھی وہ خُوش نہیں تھیں۔ سچ میں، لڑکا اُس کی بہت پرواہ کرتا لیکن اُس کی
ماں اور بہنیں، اُسے ہر صورت میں نیچا دکھانے کی کوشش کرتیں۔ یہی لوگ بد نیتی سے
ہر قسم کے جھوٹ بکتے تاکہ اُسے مجھ سے دُور کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔ ہر دن وہ اُس
کی شادی کے لیے کسی اور لڑکی کا ہاتھ مانگتیں۔وہ میرے سامنے شہر کے معززین کی
بیٹیوں کا نام لیتی تاکہ میں زیادہ سے زیادہ اذیت محسوس کروں، اپنے خاوند کی
آنکھوں میں گر سکوں اور اُس کی آنکھوں میں کسی اور عورت کی شہوت کو جگایا جا سکے۔
مرمر کے خیالات کی ریل
گاڑی کا ردہم ٹوٹا، اُس نے اپنا سر اُٹھایا اور دُکاندار کے ساتھ شیخی بگاڑی،
”اگرچہ میرے خاوند
نے مجھ سے ملکہ جیسا رویہ رکھا، میں اپنے پُرانے مالکوں کو کبھی بھی نہ بھول پائی۔
میں ہر دن اُن کی جانب جاتی، اُن کی ننھی لڑکیوں کو اپنے بازوؤں میں بھرتی اور
کبھی کبھی اُن کے لیے تحفے لے جانا نہ بھولتی جو تحفے مجھے ملتے تھے۔ میرا دل اُن
کے سب سے چھوٹے بچے کے ساتھ بہت لگتا تھا اور میں کوشش کے باوجود بھی اُس کو نہ
بھول پائی۔ تم سوچ بھی نہیں کر سکتے کہ میں اُس کا کتنا خیال رکھتی تھی، اب وہ بہت
بڑی ہو چکی ہے۔“ایک بار پھر، اُسے ننھی لڑکی کی یاد آئی۔ اب کی بار وہ اُٹھ کھڑی
ہوئی اور کہا؛ ”مجھے اب ہر صورت جاناہے۔ ننھی لڑکی اپنی مرضی سے پورے بازار میں
گھومتی پھر رہی ہو گی۔ میں نے جا کر اُسے تلاش کرنا ہے۔“ دُکاندار نے اُسے بیٹھنے
کی درخواست کی اور اُسے یقین دلاتے ہوئے کہا؛
”اب د وبارہ تم
کہاں جا رہی ہو؟ اگر اُس نے کہیں جانا ہوا تو وہ اب تک وہاں پہنچ چکی ہو گی۔“
اس
وقت تک، کھوئی ہوئی لڑکی، لڑکے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے، خوشی اور بے پروائی سے
مختلف گلیوں میں گھومتی پھر رہی تھی۔ وہ دونوں اکٹھے، دوسرے چوک میں موجود گروسری
اسٹور کی جانب چلے گئے جس کے سامنے ایک آدمی ایک لے کے ساتھ ٹن کے ایک ڈبے پر کوئی
دُھن بجا رہا تھا جبکہ دوسرا مختلف مزاحیہ شکلیں بنا تے ہوئے اس دُھن پر ناچ رہا
تھا۔ایک چھوٹا سا ہجوم ان کے اردگرد اکٹھا ہو کر تالیاں بجا رہا تھا۔ نقلیں
اُتارنے والے شخص نے لباس کی جگہ چیٹھڑے پہنے ہوئے تھے؛ اُس کی گندی کالی شلوار
پھٹی ہوئی تھی اور کئی جگہوں سے اس پر ٹاکیاں لگی ہوئی تھیں۔ بچے وہاں کھڑے ہو کر،
خوش دلی سے اس غریب اور بھوکے تماش بین جوڑے کا تماشہ دیکھ کر اپنا وقت گزار رہے
تھے۔ ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے لوگوں کواچھی طرح ہنسانے اور لطف اندوز کر نے کے
علاوہ ان کا کوئی اور کام نہ تھا۔ اُن کی آنکھیں ٹمٹماتیں جب وہ دیوانہ وار ہنستے
اور اپنے جسموں کو اُوپر نیچے اور اردگرد حرکت دیتے۔ناچتا ہوا آدمی واپس مڑا اور
اچانک سارے بچوں کے سامنے آ گیا۔ اُس نے اپنی لمبی زبان باہر نکالی اور اپنی آنکھوں
کو گھمایا، وہ دونوں خوفزدہ ہو گئے اور اتنی تیزی سے بھاگے، جتنی تیزی سے وہ بھاگ
سکتے تھے۔ ایک بار پھر، لڑکی کو اپنی آیا کی یاد آئی اور یہ حقیقت بھی کہ وہ اُسے
کھو چکی ہے۔ آہستہ آہستہ وہ بے تاب ہوتی جا رہی تھی اور اُس کی بے چینی بڑھتی جا
رہی تھی؛ وہ اب بہت بیزار ہو چکی تھی۔
لڑکا بھی اب بہت تنگ ہو
چکا تھااور لڑکی کا مزید رونا دھونا نہیں سُننا چاہتا تھا۔ اُس نے خوش دلی سے اُسے
کہا؛
”یہ بازار شغل سے
بھرپور ہے۔ میں تم جیسی بیزار لڑکی کے بغیر بھی اچھا وقت گزار سکتا ہوں جو مجھے
چمٹے چمٹے گھوم رہی ہے۔ اس کے علاوہ، تم ہمیشہ پیچھے رہ جاتی ہو اور ہر چیز سے
تمہیں ڈر لگتا ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں اور کھلونے، لڑائیاں، عجیب و غریب لوگ اور
پچھلی گلیاں دیکھنا چاہتا ہوں اور دوسری چھوٹی لڑکیوں سے بات کرنا چاہتا
ہوں۔۔۔“اپنی یہ ساری خوفناک باتیں کہنے کے بعد، لڑکے نے اُسے تیسرے چوک میں
چھوڑدیا اور واپس دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔
لڑکی اب تھکن سے چور تھی
اور مکمل طور پر گم ہو چکی تھی۔اُس کی خواہش تھی کہ اُسے کہیں بیٹھنے کے لیے جگہ
مل جائے اور وہ کچھ دیر آرام کر لے۔ لیکن بازار میں ایسی کوئی آرام دہ جگہ نہ تھی،
خاص طور پہ ان تنگ راستوں والی جگہ میں۔ یہ جگہ دوسری تمام جگہوں سے زیادہ گندی
اور خستہ حال تھی۔ یہاں تک کہ یہاں دُکانیں بھی قابل رحم حد تک تباہ شدہ تھیں؛ کچھ
تو بند تھیں اور اُن کے تختے اُوپر کو اُٹھے ہوئے تھے۔ جو دُکانیں کھلی تھیں، اُن
میں لڑکی کی دلچسپی کا کوئی ساماں نہ تھا۔ اُن میں سے ایک دُکان کی چھت کے ساتھ بے
ترتیب سماوار ٹیوبیں، چمٹے اور اسٹول لٹک رہے تھے اور وہ حیران تھی کہ یہ ساری
دھات کی چیزیں کس کام کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں بازار کی چھت زوال پذیر تھی
اور اس کا کچھ حصہ گر چکا تھا۔ لڑکی مایوسی کی حالت میں، وہاں سے جلد از جلد نکلنے
کی کوشش کر رہی تھی جتنی جلدی وہ کر سکتی تھی۔ وہ بازار سے باہر آنا چاہتی تھی۔
شاید، ایک بار وہ چمکتے ہوئے آسمان کو دوبارہ دیکھنا اور اپنی آیا کو بھی تلاش
کرنا چاہتی تھی۔ اُس نے اپنے قدموں کی رفتار بڑھا دی لیکن اُسے رُکنا پڑا کیونکہ
اچانک دو گدھے، ایک دوسرے کے پیچھے، بھوسے کا وزن اُٹھائے اُس کی جانب آئے اور
انہوں نے سارا راستہ گھیر لیا۔ اُس نے گدھوں کی پیٹھ پر سیاہ رسوں سے بندھے ہوئے
بوجھ کو دیکھا؛ وہ بہت ہی کمزور تھے اور ایسا دکھائی دیتا تھا کہ ابھی گر جائیں
گے۔یہاں تک کہ اُن کی پیشانیوں پر روایتی نیلی موتیوں کی جھومر بھی نہ تھی۔ وہ
ہمیشہ اُن کو گن کر لطف اُٹھاتی۔ اُس نے سوچا کہ یہ جانور کسی بھی لمحے گر جائیں
گے اور اُن پر لدا ہوا بھوسہ سارے بازار میں بکھر جائے گا۔ لیکن جانور بہت ہی
آہستگی اور شان و شوکت کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ لوگوں کو ایک جانب ہو کر اپنا
راستہ خود بنانا پڑتاجیسے ہی وہ جانور گزرتے، رہگیر خوش اسلوبی سے اپنے کپڑے
جھاڑنے شروع کر دیتے جو بھوسے سے بھر جاتے۔ لڑکی حیرت زدہ تھی کہ لوگ کتنی جرات
اور بے باکی کے ساتھ ان بڑے بڑے جانوروں کے ساتھ پیش آئے تھے۔ تاہم، وہ بہت خوفزدہ
تھی؛اُسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آیا وہ پلیٹ فارم پر چڑھ جائے یا زمین پر ہی
اکڑوں بیٹھ جائے۔ جانور قریب آتے جا رہے تھے۔ کہیں سے، ایک آدمی کا ہاتھ آگے بڑھا
اور لڑکی کا پتلا سا بازو پکڑ کر اُسے ایک جانب کھینچ لیا۔ پہلا گدھا، جس کا بے
پناہ اوربھاری وزن دیکھ کر، لڑکی نے سوچا تھا کہ یہ کسی بھی لمحے گر جائے گا، وہ
بآسانی گزر گیا۔ اُس نے اس کے پاؤں کی جانب دیکھا جو بہت ہی بڑے اور پتلے تھے اور
جب وہ گڑھوں میں پڑتے تو زور زور سے ہلتے۔ دوسرا گدھا بھی اُس کے قریب سے بغیر کسی
حادثے کے گزر گیا۔
لڑکی نے سکھ کا سانس لیا
اور آدمی کی جانب دیکھا جس نے اُس کا ہاتھ تھام رکھاتھا۔ وہ اُونچا اور پتلا شخص
تھا جس نے گول ہیٹ اور عینک پہنی ہوئی تھی۔ اُس کی باحیا شکل تھی لیکن اُس کا ہاتھ
بہت بڑا اور کھردرا تھا اور لڑکی کا ہاتھ بے چینی سے اس میں کھو سا گیا۔اُس نے
پُوچھا،
”کہاں رہتی ہو تم؟
کس کے ساتھ آئی ہو؟ کس کی بیٹی ہو تم؟“اُس کے جواب کا انتظار کئے بغیر، وہ دوبارہ
گویا ہوا، ”ڈرو مت۔ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں تمہیں گھر تک چھوڑ آؤں گا۔“لڑکی
نے دوبارہ اُس کی جانب دیکھا۔ ایک بچگانہ شک اور خوف اُس کی آنکھوں میں لہرایا۔
اُس نے خود کو کہا، ”یہ وہی ہے۔ یہ بالکل وہی ہے جس کے بار ے میں آیا نے بتایا
تھا۔ یہی وہ یہودی ہے جو مسلمانوں کے بچوں کو اغواء کرکے اپنے کوارٹر میں لے جاتا
ہے۔ اُن کو قتل کر دیتا ہے اور اُن کے خُون سے روٹی بناتا ہے۔۔۔ایک آواز اُس کے
دماغ میں گُونجی: ”یہ وہی ہے۔ یہ وہی ہے۔“
٭٭٭٭٭
وہ وقت جو ننھی لڑکی کے
لیے خوف، شک اور بد قسمتی سے بھرپوراورنہ ختم ہونے والا تھا، دُکاندار اور آیا کے
لیے وہی وقت پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ وہ دونوں ہی وقت سے مکمل طور پر بے خبر تھے۔
اگرچہ مرمر نے کئی مرتبہ لڑکی کے بارے میں سوچا تھا، دُکاندار کی استقامت اور اُس
کی اپنی بے پروائی اور لاعتناہی،اُس کی توجہ باربار بچی سے ہٹا دیتی تھی جس کی
حفاطت کی ذمہ داری اُسے دی گئی تھی۔ دراصل، اُس نے بچی کو گھومانے کا بہانہ بنایا
تھا لیکن اُسے اپنے عاشق سے ملاقات کرنی تھی۔ دُکاندار نے ایک ریشمی رُومال نیچے
زمین پربچھایاجس پر سرخ اور سیاہ رنگ کی لکیریں تھیں اور اس کو گری دار میوہ جات
سے بھرنے لگا جن میں زیادہ تر پستے اور اخروٹ تھے۔ اسی اثنا میں، مرمر اپنے خاوند
کی شہر کے ایک معزز شخص کی بیٹی کے ساتھ شادی کا کڑوا کسیلا واقعہ بیان کر رہی
تھی۔
”اس کی بد نیت
ماں!جس کی لاش میں کسی مردے خانے میں دیکھوں،نے اس کے دل میں، میرے لیے محبت کو
نفرت میں تبدیل کرنے کے لیے ہر قسم کے جادو ٹونے کیے۔ بالآخر وہ ہماری ازدواجی
زندگی کوناکامی سے ہم کنار کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اور پھر ایک دن، انہوں نے میرے
پہلے مالک کی بیوی سے سارے زیوارات اُدھار لیے، خود کو سرکس کے خچروں کی طرح سجایا
اور نئی دلہن کا ہاتھ مانگنے کے لیے چل پڑیں۔ مُلا، اللہ کرے کہ اُس کی پگڑی اُس
کی گردن میں پھنس جائے اور اُس کا گلہ گھونٹ دے! نے اُن دونوں کی شادی کروا دی۔
کچھ راتوں بعد، انہوں نے سونے کاکمرہ تیار کیا اور اُس کو برقعے میں لپیٹ کر گھر
لے آئے۔ میں نے اپنا برقعہ پہنا اور نئے رسمی کمرے کی دہلیز پہ کھڑی ہو گئی جہاں
پر پارٹی شروع ہونے والی تھی۔ اُس کی موٹی بیوقوف ماں آرام سے ٹک نہ رہی تھی؛ وہ
اپنے ہاتھوں سے تالیاں بجاکر، اُوپر نیچے چھلانگیں لگاتی رہی۔ اُس کی احمق بہنیں،
خوشی منانے اورنغمے گانے کے بجائے، واعظ پڑھتی رہیں جیسا کہ وہ اپنے باپ کی رسم قل
میں شامل ہوں۔ رسم والے کمرے میں، ایسا ہنگامہ اور افراتفری تھی کہ قالینوں میں سے
گرد اُڑ رہی تھی۔ میں یہ برداشت نہ کر پائی؛ میں اپنے آنسووں میں نہا گئی۔ لڑکا
سوائے میرے،سب کی جانب ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔اس لیے میں باورچی خانے
میں چلی گئی۔ میں نے اپنا سر چمنی میں ڈالا اور اتنی اُونچی آواز میں چیخی
چلائی،جتنا اُونچامیں چلا سکتی تھی۔ اُس رات، میں اتنا زیادہ روئی کہ میرا تکیہ
بھیگ گیا۔ میں بالکل نہ سو پائی۔ جیسے ہی مسجد نے صبح کے چار بجائے، مجھے اُس وقت
اُونگھ آئی۔ اچانک سہاگ رات منانے کا شورو غُل اور خوشی کی آوازیں شروع ہوئیں۔
اگلی صبح، میں نے بیگ بنایا۔ اپنی کمینی ساس کا کاندھا چومااور اُسے کہا کہ میں
شرمندہ ہوں اگر میں اُن پر کوئی بوجھ یااُن کے لیے کسی تکلیف کا باعث تھی۔ اُس نے
مجھے دو تومان کا نوٹ دیا جسے میں نے رسمالینے سے انکار کر دیا۔ میں نے اُن کوخدا
حافظ کہا اور اُن کا گھر چھوڑ دیا۔ تب سے ابھی تک میں اپنے پُرانے مالک کے لیے کام
کر رہی ہوں۔ وہ واقعی بہت اچھے لوگ ہیں۔ اچھا، میں اب چلتی ہوں، اب تو رات کے
کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔میں نے اُلٹی سیدھی باتیں ہانک کر شاید تمہارے سر میں
درد کر دیا ہو۔ خدا جانتا ہے کہ ننھی بچی اب کہاں ہو گی؛ شایدوہ اپنے راستے میں
آنے والی ہر دُوکان میں ایک بار تو ضرورجھانک چکی ہو گی۔
دُکاندار نے میوہ جات سے
بھرا ہوا رُومال اُس کے حوالے کیا۔ مرمر، نے اپنا نقاب باندھتے ہوئے کہا، ”تم بہت
ہی مہربان ہو۔“اور اُس کو آنکھ ماری۔
”اپنا خیال رکھنا
پیاری،“ دُکاندار نے کہا، ”تم بہت ہی گرم چیز ہو!“
مرمر نے اپنی جرابیں
اُوپرچڑھائیں اور دُوکان سے باہر قدم رکھے۔ اُس نے پہلے جاننے والے ایک شخص سے
پُوچھا کہ کیا اُس نے لڑکی کو دیکھاہے، لیکن کوئی خبر نہ مل سکی۔ سن فارمیسی سے
مڑی ہوئی مونچھوں والا ایک سپاہی اُس کا تعاقب کرنے لگا۔ اُس نے اپنی چھڑی کے ساتھ
مرمر کی ٹانگ کو چھوا۔مرمر واپس مڑی، اپنا نقاب پلٹا اور دلفریبی سے پُوچھا؛
”پیارے آفیسر! مجھے
اپنی چھڑی مت مارو۔ میں ایک شریف عورت ہوں، کیا تمہیں نظر نہیں آ رہا؟“اُس نے اُسے
آنکھ ماری۔ آفیسر نے اُس کا تعاقب جاری رکھا۔ مرمر نے کئی لوگوں سے پُوچھاکہ کیاوہ
لڑکی کے بارے میں جانتے ہیں۔ بازار کے زیادہ تر سوداگر اُسے اچھی طرح جانتے تھے۔
اُس کے سوال پہ کوئی خبر دئیے بغیرانہوں نے اُسے تنگ کرنا جاری رکھا۔ وہ پہلے چوک
سے گزری اور دائیں جانب مڑی۔ وہ ایک آئس کریم اور شربت کی دُوکان پر رُکی اور اُس
کے مالک کے ساتھ بات چیت کرنے لگی۔ آدمی نے جلدی سے شربت کا ایک پیالہ بھرااور اس
کے اُوپر پسی ہوئی چینی جھڑکی۔ مالٹے اور لیموں کے جوس کا ایک چھوٹا جار ایک ٹرے
میں، مر مر کے سامنے رکھ دیا۔
”مزے اُڑاؤ،“اُس نے
کہا۔ ’پیاری! کہاں تھی تم؟ اور اب اس وقت کہاں جا رہی ہو؟“مرمر نے کچھ اداؤں اور
ناز نخرے کے ساتھ، اُس سے شربت لیا اور بے اعتناعی کے ساتھ دور چلی گئی۔ اُس نے جس
کسی کو بھی دیکھا، چاہے کوئی اجنبی یا دوست۔۔۔اُس نے لڑکی کے کپڑوں اور گڑیا کے
بارے میں بتا کر لڑکی کے بارے میں ضرور پُوچھا۔ وہ پوچھتی؛
”کیا تم جانتے ہو
کہ وہ کس راستے پر گئی ہے؟“
لڑکی کھردرے اور اجنبی
آدمی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے چلتی گئی جب تک کہ بازار کا اختیام نہ ہو گیا۔ وہاں،
مارکیٹں بالکل خالی تھیں اور زندگی کے کوئی آثار نہ تھے۔ سورج ڈوبنے والاتھا۔ لڑکی
نے ”بچوں کے اغواء کار“اور شکار ہونے والے بچوں کو مارنے کے طریقے پر سوچنا بند
نہیں کیا تھا۔ اُس نے قتل کے اُن مناظر کے بارے میں تصور کیا۔ جو کچھ بھی اُس کی
چشم تصور میں تھا۔اُس نے باورچی خانے کے چاقو کی جسامت کے برابر بڑے بڑے چاقودیکھے
تھے جن سے اُس کی آیا بڑی مہارت کے ساتھ بھورے تختے پر سبزیاں کاٹتی تھی۔ یہاں تک
کہ وہ یہ شور بھی سنتی جب بھی چاقو تختے کے ساتھ ٹکراتا۔ اُس نے ان چاقووں کا
تصوران تلواروں کے ساتھ کیاجو مرد ماتم کے لیے استعمال کرتے تھے۔وہ مسجد کے سامنے
اکٹھے ہوتے اور زور سے نعرہ بلند کرتے، ”یاحسینؑ“۔ کبھی کبھار وہ اُن سے خوف
کھاتی! جیساکہ وہ اس آدمی سے خوفزدہ تھی جس نے اُس کا ہاتھ تھام رکھا تھا۔ جیسے ہی
وہ بازار کے آخر میں پہنچے، آدمی نے ایک دوست کو سلام کیا اور اُس کا ہاتھ چھوڑ
دیا۔لڑکی لمحہ بھر کے لیے ہچکچائی اور پھر اپنی زندگی کے لیے دوڑ لگا دی۔ اُس کا
دل بُری طرح دھڑک رہا تھا، اُس نے واپس مڑ کر دیکھنے کی بھی جرات نہ کی اور نہ ہی
اُسے اس وقت گڑھوں کا کچھ خیال آیا۔ ایک ناقابل بیان رفتار کے ساتھ، وہ بازار سے
باہر نکلی، دائیں جانب مڑی اور خود کو ایک گھر کے سامنے پایا۔ ڈھلتی ہوئی دوپہر کے
سورج کی آخری کرنیں، گھر کے دوہرے دروازے کی پُرانی دیمک زدہ لکڑی پر چمکیں۔ ایک
دروازہ بند تھا جبکہ دوسرا کھلا تھا۔ گھر کا اندرونی حصہ اور راہداری مکمل اندھیرے
میں ڈوبے ہوئے تھے۔ لڑکی کو کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیسا گھر تھااور اس کے اندر کیا
ہو رہا تھا؟۔ وہ تھک چکی تھی اور اُس کی خراش زدہ ٹانگیں جل رہی تھیں۔ اُس کے کپڑے
مٹی سے اٹے ہوئے تھے؛ وہ ایک ایسے مسافر کی طرح لگ رہی تھی جو طویل ترین سفر سے
آیا ہو۔ وہ گھر کے پاس کھڑی ہو گئی، اپنے اردگرد دیکھااور بازار کی چہل پہل اور سب
کچھ یاد کیا جس جس چیز نے بھی اُس کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی یا اُسے
خوفزدہ کیا تھا۔ اُس نے خود کو مکمل خالی محسوس کیا۔ دلچسپی کا حصہ اور خوف دونوں
عارضی تھے۔ یہاں، آخرکار، وہ اپنے دل کی گہرائی سے چلائی اور فریاد کی کہ کوئی آئے
اور اُس کی مدد کرے۔ لیکن وہ مکمل طور پر تنہا تھی۔ کسی نے بھی اُسے جواب نہ دیا۔
اُس نے بے بسی سے اپناسر پُرانے دروازے کے ساتھ ٹکا دیا۔ چار بڑی میخیں لکڑی سے
باہر نکلی ہوئی تھیں اور ایک گندی کنڈی اُن میخوں کے ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ اُس نے
کنڈی پکڑی اور بہت زور زور سے دروازے کے ساتھ بجانے لگی۔ اچانک، اُس کو گھر کے
اندر جانے کا خیال آیا لیکن یہ ایک اجنبی جگہ تھی۔ اُس نے ادھ کھلے دروازے میں سے
جھانکا؛ گھر میں مکمل اندھیرا تھا۔ شام کے ابتدائی گھنٹوں میں، وہ ایک جھنیگر کا
شور سُن سکتی تھی جو صحن کے کسی نامعلوم درخت سے آرہا تھا۔ ایسا دکھائی دیتا تھا
کہ گھر خالی ہے؛ کسی نے بھی نہیں پوچھا کہ، ”کون ہے؟“۔ ایک ہی شور جو اُسے سنائی
دے رہا تھا، وہ کنڈی کی خشک اور بھدی آوازتھی جو راہداری میں گونج رہی تھی۔ ننھی
لڑکی کو اندھیرے سے خوف آیا اور تنہائی نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ بہت تھک
ہار چکی تھی۔ نااُمید ہو کر، اُس نے چلانا شروع کر دیا۔ وہ زور سے سسکی کہ وہ کھو
چکی ہے لیکن اُس کی آواز کہیں بھی نہ پہنچ پائی۔ کوئی بھی اُس کو بچانے کے لیے نہ
آیا۔
اُس کی آیا ابھی تک اُسے
بازار میں تلاش کر رہی تھی۔ نخرے کے ساتھ وہ ہر کسی سے اُس کے بارے میں پوچھتی
جبکہ ننھی بچی کے رونے کی آواز، کنڈی کی خشک بھدی آواز کی طرح اُس اجنبی گھر کی
اندھیری رہداری میں گُونج رہی تھی۔
(انگریزی سے
اردو ترجمہ)
Title in English : English Title : El bazar Vakil
Written by:
Simin Dāneshvar (Persian: سیمین
دانشور) (28 April 1921 – 8 March 2012) was an
Iranian academic, novelist, fiction
writer and translator.
www.facebook.com/groups/AAKUT/
Comments
Post a Comment