منوج کمار پانڈے کا افسانہ : خزانہ

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر53:    خزانہ   

تحریر:  منوج کمار پانڈے  (ہندوستان )

 ہندی زبان سے اردو ترجمہ: خالد فرہاد دھاریوال (سیالکوٹ، پاکستان)

 


تاریخ، جغرافیہ اور روائتیں

 

ہم پنڈت رام ابھیلاش کی اولادتھے۔ جن کے بارے میں گاؤں کے بوڑھے نہ جانے کتنے قصے اپنے بھیتر چھپائے بیٹھے تھے۔ وہ ہمارے علاقے کی لگ بھگ اساطیری شخصیت تھے۔ ہم اس احساس تفاخرسے بھرے پڑے تھے کہ ہم رام ابھیلاش کی اولاد ہیں۔ لیکن کئی بار دوسروں کے ہاں ان سے متعلق قصے کچھ زیادہ ہی ملتے اور اس طرح  ہمیں خود اپنے بارے میں نئی نئی باتیں معلوم ہوتی رہتیں۔

ہم یہاں کے قدیم باشندے نہیں تھے۔ آج سے تقریباََ ڈیڑھ سو سال پہلے ایک بچے کو اپنے ساتھ لئے رام ابھیلاش یہاں وارد ہوئے تھے۔ وہ 1857کی جنگ میں شامل تھے۔ اور اب جبکہ باغی ہار گئے تھے اور جگہ جگہ پیڑوں پر لٹکائے جا رہے تھے وہ اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ بھاگ نکلے تھے۔ ان کے خاندان کے سبھی لوگ پیڑوں پر لٹکا دیئے گئے تھے۔ اب وہاں ان کاکچھ بھی نہیں بچا تھا، واپسی کاکوئی امکان بھی۔

ابھیلاش پور، جہاں ہم آج رہتے ہیں وہاں آمد سے قبل وہ کہاں کہاں بھٹکتے پھرے اس بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں معلوم۔ اس بارے میں خود انہوں نے بھی کبھی کسی کو کچھ بھی نہیں بتایا۔ لیکن 1857 کے دس سال بعد جب وہ یہاں پہنچے تو ایک تیرہ چودہ سال کا بچہ اور ایک کتا ان کے ساتھ تھا۔ وہ دونوں باپ بیٹا کی بجائے گُرو چیلا کی طرح کا برتائو کر رہے تھے۔ اس بچے نے کبھی اکیلے میں بھی انہیں باپ نہیں کہا بلکہ گُروجی ہی کہتا رہا۔ یہ اتنا لمبا چلا کہ رسم ہی چل نکلی۔ تب سے ہمارے خاندان میں باپ کو گُرو اور بیٹے بیٹی کو لگاتارچیلا چیلی کہا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ روایت آج بھی کئی گھروں میں بچی ہوئی ہے۔

ہم رام ابھیلاش کی آٹھویں پیڑھی سے ہیں۔

جب وہ یہاں آئے تو انہوں نے یہاں کے زمیندار لوچن تیواری سے اپنے رہنے کے لئے تھوڑی سی زمین مانگی۔ انہوں نے لوچن سے کہا تھا کہ جو زمین ان کے کسی کام کی نہ ہو وہی انہیں دان میں دے دی جائے۔ اور نہ جانے کس غیبی اشارے سے لوچن کی نگاہیں آپ ہی اس ٹیلے کی طرف اٹھ گئی تھیں۔ لوچن نے انہیں گائوں کی مغربی سمت کا سینکڑوں سالوں سے خالی پڑا ٹیلا دے دیا۔ پورا کا پورا۔ یہ اونچانیچاٹیلا کئی بیگھے زمین پر پھیلا ہوا تھا۔ اس پر نیم اور ببول کے چندپیڑوں کے علاوہ ناگ پھنیوں اور دُوب کا ایک پورا جنگل پھیلا ہوا تھا۔

کہتے ہیں کہ یہاں کبھی کسی چھوٹے موٹے راجا کا محل ہوتا تھا جو ستاون کے لگ بھگ ایک صدی پہلے کے کسی اور ستاون کی لڑائی میں نیست و نابود کر دیا گیا تھا۔ راجا اور اس کے خاندان کے لوگ مار دیئے گئے تھے۔ نوکر چاکر کارندے سب قتل کر دیئے گئے تھے۔ شاید ہی کوئی بچا ہو۔ کہتے ہیں کہ کوئی ایک کنواں تھا جو لاشوں سے پاٹ دیا گیا تھا۔ اور لُوٹ مار کے بعد قلعے میں آگ لگا دی گئی تھی۔ منہدم کردیا گیا تھا اسے۔

اس کے پیچھے کوئی گہری بات نہ ہوکر ایک معمولی سی غیرت کی لڑائی تھی جو دھیرے دھیرے ایک بھیانک اور ناقابلِ برداشت نفرت میں بدل گئی تھی۔ ان کے پاس اس کے برعکس کوئی اور چارہ نہیں بچا تھا کہ وہ انہیں مار کاٹ ڈالیں جن سے کہ وہ نفرت کرتے تھے۔

کہتے ہیں کہ یہ حملہ رات کے تیسرے پہر میں کیا گیا تھا۔ مشعلوں کی روشنی میں چمکتی ہوئی تلواروں اور خنجروں نے نہ جانے کتنے جسموںسے ان کا شعورچھین لیا تھا۔ اور انہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گہری نیند سلا دیا تھا۔ حملہ آوروں نے اپنے چہرے پر کالے کپڑے باندھ رکھے تھے۔ لیکن آنکھیں تو سب کی کھلی تھیں جن میں ایک قاتل نفرت تیر رہی تھی۔ اس کے باوجود مرنے والوں نے مارنے والوں کو پہچان لیا تھا اور حیرت سے ان کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔

لیکن یہ پوری طرح سچ نہیں ہے۔ زیادہ تر مرنے والوں کو تو اپنی موت کا پتہ ہی نہیں چلا تھا۔ سوتے میں ہی ان کاگلا کاٹ دیا گیا تھا۔ اس لئے کیا پتہ کہ وہ آج تک خود کو سوتا ہوا ہی مان رہے ہوں اور اپنے جاگ اُٹھنے کا انتظار کر رہے ہوں۔ انہیں اس بات پر اچنبھاہو رہا ہو کہ اچانک ان کی رات اتنی لمبی اور کالی کیسے ہو گئی ہے! اور اس بیچ انہیں اتنے خون آلود ہ خواب کیوں آ رہے ہیں۔ کیا پتہ کہ بہتوں نے خواب میں ہی دم توڑ دیا ہو اور ابھی تک یہ مانے بیٹھے ہوں کہ نیند کھلتے ہی ان کاسپنا ٹوٹ جائے گا اور وہ پھر سے جی اٹھیں گے۔

لیکن یہ سب تو سینکڑوں سال پرانی باتیں ہیں۔ لگ بھگ ڈھائی سو سال پہلے کی باتیں۔ اب تک تو وہ مسلسل سوتے رہنے سے بھی انتہائی تھک گئے ہو ں گے اور ان کی آنکھیں بھی دُکھنے لگی ہوں گی۔ اسی لئے دوسراجنم بہت ضروری چیز ہے۔

کہتے ہیں کہ لاشوں کے سڑنے کی بدبو وہاں اگلے سو سالوں تک پھیلی رہی۔ لوگوں کے لئے اس کے آس پاس سے گزرنا بھی مشکل بنا رہا۔ یہ تبھی دُور ہوئی جب رام ابھیلاش وہاں آن بسے۔

رام ابھیلاش نے تنہا کنواں کھودا۔ اکیلے ہی اینٹیں پاتھیں اور خود ہی اپنا ایک چھوٹا سا گھر کھڑا کیا۔ جو دُور سے ہی دکھائی دیتا۔ لوگ حیرانی سے بھر جاتے کہ کوئی اکیلا آدمی یہ سب کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن یہ سب سوچتے ہوئے وہ پتہ نہیں کیوں اس پندرہ سالہ لڑکے کو بھول ہی جاتے جو اِن سب کاموںمیں رام ابھیلاش کا برابر کا حصہ دار تھا۔ دونوں نے مل کر اگلے چار پانچ سالوں میں اس ٹیلے کو اتنا خوبصورت بنا دیا کہ یہ لوگوں کے لئے اچنبھا پیدا کرنے والی بات رہی۔ اور یہیں سے تمام اس طرح کی کتھائیں جن میں کہ پنڈت رام ابھیلاش نے ٹیلے پر موجود بُھوتوں کو قابو کر لیا ہے اور یہ انہیں کی محنت کا پھل ہے۔

بُھوتوں کی بات تو رام ا بھیلاش جانیں لیکن یہ ان کی دانشمندی ہی تھی جس نے یہ کر دکھایا تھا۔ انہوں نے اسی کھنڈر میں دبی سینکڑوں سال پرانی اینٹیں کھود نکالی تھیں اور مٹی کے گارے سے ایک پر ایک جماتے گئے تھے۔ اینٹیں باہر آ کر خوش ہو گئی تھیں اور انہوں نے رام ابھیلاش کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ اینٹوں نے ہی انہیں ایک کنوئیں کا بھی راستہ دکھایا تھا جس میں سے کم از کم سو سالوں سے پانی نہیں نکالا گیا تھا۔ ان سو سالوں کا بچا ہوا پانی رام ابھیلاش باپ بیٹے نے اگلے تین چار سالوں میں ہی خرچ کر ڈالا تھا۔ نتیجے میں یہ ٹیلا ایک ہرے بھرے مہکتے ہوئے باغ میں بدل گیا تھا۔

یہ سب اتنا دھیرے دھیرے اور آہستگی سے ہوا کہ اس طرف لوگوں کا دھیان ہی نہیں گیا اور جب گیا تو وہ ششدر رہ گئے۔ لوچن تیواری تک بھی یہ خبر پہنچی اوروہ ایک سہج تجسس کے ساتھ ٹیلے پر پہنچ ہی گئے۔ اوپر لڑکے ،پیڑوں اور طرح طرح کے پھولوں سے آتی ہوئی خوشبو نے ان کاسواگت کیا۔

شاید اس میں ماحول کی کشش کا بھی اثر رہا ہو جب انہوں نے رام ابھیلاش کے خوش رُوبیٹے کو دیکھا۔ جسے ان چار پانچ سالوں میں انہوں نے نہ جانے کتنی بار دیکھا ہوگا۔ لیکن آج کے دیکھنے میں کچھ خاص تھا۔ یہ لڑکا جس کا نام رام اقبال تھا اب لگ بھگ بیس سال کا ہو رہا تھا۔ اور اس کے چہرے پر داڑھی مونچھ آئے ابھی تھوڑا ہی سمے بیتا تھا۔ اچانک لوچن تیواری کے من میں ایک خیال ابھرا اور کسی ارادے کی طرح اندر بیٹھ گیا۔

انہوں نے اسی دن رام ابھیلاش کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی ان کے بیٹے سے کرنا چاہتے ہیں۔ جسے رام ابھیلاش نے بنا کسی ردِعمل کے’ بھگوان کی مرضی ‘کہہ کر قبول کر لیا۔ اور بدلے میں بہو کے ساتھ پچاسوں بیگھے زمین اور ٹیلے پر رہائش کے حقدار ٹھہرے۔

یہ سب بہت پرانی باتیں ہیں۔

 

اب تو رام ابھیلاش کا گھر رام ابھیلاش کی نسل کے وسیلے سے ابھیلاش پور میں بدل گیا ہے۔ جس میں قریب پینتیس گھر ہمارے ہی پٹی داروں کے ہیں۔ باقی پندرہ بیس گھر ان جاتیوں کے ہیں جنہیں ہم نے اپنے کام کے لئے وقتاََ فوقتاََ یہاں لا بسایا۔ اس طرح سے ایک باپ بیٹا یا گُرو چیلا سے شروع ہوا یہ سلسلہ آج ایک پورے گاؤں میں بدل گیا ہے۔

بیچ میں بہت سارے قصے بنے بگڑے۔ بہتیرے لوگوں کا جیسے ماننا تھا کہ رام اقبال رام ابھیلاش کے بیٹے نہیں تھے۔ رام ابھیلاش کا بیٹا تو غدر کے بعد کی دس سالا بدحالی کی بھینٹ چڑھ چکا تھا۔ یہ تو کوئی یتیم لڑکا تھا جس کے عزیز ستاون میں مارے گئے تھے اور جو اِدھر اُدھر بھٹکتے ہوئے چھپتے بھاگتے رام ابھیلاش سے جا ٹکرایا تھا۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ وہ مسلمان لڑکا تھا جسے رام ابھیلاش نے ہندو بناکر پیش کیا تھا۔

ہمارے کچھ پٹی دار جن کے پُرکھے مسلمان ہو گئے تھے اُسے وہ مسلمان ہی مانتے تھے اور اس کا نام اقبال بتاتے تھے جسے رام ابھیلاش نے بدل کر رام اکبال کر دیا تھا۔ خیر یہ سب قصے ہیں۔ یہ کتنا سچ ہیں کتنا جھوٹ، یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی بھی ذریعہ نہیں تھا۔ اور اس سے بھی بڑھ کر بات یہ تھی کہ ان قصوں کے باوجود ہمارا جیون چل رہا تھا۔ ہم زمینداروں کے داماد اور بھانجے بھتیجے تھے۔ ہم پورے علاقے کے معززین تھے۔ اور دھیرے دھیرے پورے علاقے کی پروہتائی اور پنڈتائو پُنے پر ہمارا قبضہ تھا۔ اور کیا چاہئے تھا ہمیں۔ اب ہم ابھیلاش پور کے باشندے تھے اور ابھیلاش پورہمارا تھا۔

 

ہمارا حال یعنی دو کوڑی کے نہ ہونا

 

جیسے جیسے ہمارے گھر تقسیم ہوتے گئے ویسے ویسے ہماری زمینیں اور دولت بھی بٹتی گئی۔ اور آج کی تاریخ میں ہم کوڑی کے تین تھے۔ گائوں کے کچھ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ہمارے پاس ایک شاندار ماضی ضرور تھا لیکن وہ ہمارے کسی کام کا نہیں تھا۔

ہمارے پاس اب تھوڑے تھوڑے کھیت تھے بس۔ پیڑ اور باغ زیادہ تر مشترک ہی تھے۔ اب ہم میں سے کچھ لوگوں کو یہاں سے باہر نکلنے کے بارے میں سوچنا چاہئے تھا۔ لیکن باہر نکلنے کا خیال ہی ہمیں خوفزدہ کرتا تھا۔ باہر نکلتے ہی ہمیں محنت کرنا پڑتی اور محنت ہمیں کسی بُھوت کی طرح ڈراتی تھی۔

ہمارے بیچ سے کچھ لوگ باہر ضرور گئے تھے لیکن وہ گدیوں پر گئے تھے۔ انہوں نے ایسی لڑکیوں سے بیاہ رچایا تھا جن کے بھائی نہیں تھے۔ اور وہ سسرال جاکر بس گئے تھے۔ اسی طرح سے کچھ دوسرے لوگ ابھلاش پور آئے بھی تھے۔

منفرد محض ایک تھے۔ قریباََ پانچ چھ پُشت پہلے ہمارے ایک پٹی دار باہر نکلے تھے۔ اور نہ جانے کن حالات میں وہ کسی مسلم زمیندار کے یہاں کھانا پکانے کی نوکری کر لی۔ جب کئی سال بعد وہ واپس لوٹے تو ان کے لوٹنے سے پہلے ہی ان کے بارے میں تمام اطلاعات ہم تک پہنچ چکی تھیں۔ سو ان کے باقی پٹی داروں نے ان کا ناطقہ بند کر دیا اور ان کے ساتھ روٹی کا ناطہ توڑ لیا۔

بدلے میں کچھ دنوں کی کشمکش کے بعد ایک دن انہوں نے مولوی کوبلوایا اور باقاعدہ مسلمان ہو گئے۔

وہ بھی ہمارے ہی حصہ تھے۔ جو خون ہماری رگوں میں دوڑتا تھا وہی ان کی رگوں میں بھی۔ لیکن مذہب بدلتے ہی وہ ہمارے لئے بیگانے بلکہ اچھوت ہو گئے تھے۔ ہم ان سے دشمنوں کی طرح سے برتائوکرنے لگے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب پاکستان بنا تو وہ اس میں شامل ہونے والے جتھے میں تُرنت ہی شامل ہو گئے۔ دو بیٹے بھی ان کے ساتھ ہی گئے۔ باقی دو بیٹوں اور ان کی بیوی نے ان کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔ اور وہ یہیں رہ گئے ہمارے ساتھ۔ اپنی پوری تمکنت کے ساتھ۔ ایک مسجد بھی کھڑی کر لی ہے۔ اور اب کل ملاکر نو گھر ہیں۔

جو یہاں سے گئے وہ پاکستان پہنچے کہ نہیں، اگر پہنچ گئے تو ان کی اولاد وہاں کس حال میں ہے؟ اس بارے میں ہمیں کچھ بھی پتہ نہیں ہے۔

لیکن ہم جو یہاں رہ گئے تھے اب چھیج رہے تھے دھیرے دھیرے۔ ہمارے کچھ گنے چنے پٹی داروں کو چھوڑ دیں جنہوں نے سرکاری نوکریاں حاصل کیں اور آس پاس کے شہروں میں بس گئے۔ وہ اب ابھیلاش پور کبھی کبھار ہی آتے ہیں۔ زیادہ تر اپنی کھیتی باڑی کا حساب کرنے۔ جوکہ ہم میں سے ہی کوئی جوت رہا ہوتا ہے۔

ایک وقت تھا کہ جب ہمارے خاندان کے لوگ کھیتی کے کاموں کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے تھے۔ پہلے کے زمانے میں بیگار، بعد میں مزدوری اور بٹائی پر ہوتی رہیں کھیتیاں۔ ایک گھمنڈ بھرا خود کو دیا ہوا وچن تھا کہ کھیت میں کام کرنا ہم براہمنوں کا کام نہیں۔ اور کرتے بھی کیوں جب اتنے سستے داموں پر مزدور اور کاشتکار دستیاب تھے۔ یہ لگ بھگ صحیح ہوگا اگر کہا جائے کہ ہم محنت کرنا بھول ہی چکے تھے۔

بعد میں یہ وقت بھی آیا کہ اگر ہم خود کاشتکاری نہ کرتے تو شاید بھوکوں ہی مر جاتے یا کہ ہمیں ابھیلاش پور چھوڑکر کام دھندھے کی تلاش میں کہیں باہر نکلنا پڑتا۔

سب سے پہلے ان لوگوں نے اپنا کام خود کرنا شروع کیا جو مسلمان ہو چکے تھے۔ بعد میں ان کی دیکھا دیکھی چھیدی پنڈت بھی ایک دن ہل اور بیل کے ساتھ کھیت میں دکھائی دیئے۔ یہ ایک نا قابل دید منظرتھا۔ ابھیلاش پور کے زیادہ تر پنڈتوں نے ان کے اس قدم کی بھرپور مذمت کی۔ انہیں برادری سے باہر کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن وہ ڈٹے رہے۔ انہوں نے سیدھے ایک قول سے ساری دھمکیوں کو رد کر دیا کہ برادری کو رکھوں یا اپنے بچوں کا منہ دیکھوں۔

دھیرے دھیرے سبھی لوگوں کو چھیدی پنڈت کے راستے پر چلنا پڑا۔ شروع میں شرم کے مارے کئی لوگوں نے رات کو کام کرنا شروع کیا۔ جس سے کہ کام کرتے ہوئے وہ لوگوں کی نظروں میں آنے سے بچے رہیں۔ یہ ایک جھوٹ موٹھ کا پردہ تھا جس کے آرپار سب کچھ دِکھتا تھا لیکن اسے گرنے میں بھی کئی سال لگ گئے۔

لیکن اس سب کے باوجود حالات بگڑتے ہی چلے گئے۔ ہم خاندانی اعتبار سے صرف پروہتی کا کام جانتے تھے۔ اور اب ابھیلاش پور میں ہی پچاسوں پروہت تھے۔ آس پاس کے دیہاتوں میں بھی ان کی تعداد کم نہیں تھی۔ لوگوں کے دِل میں ہمارا احترام نہیں رہا تھا۔ وہ ہمارے سامنے ہی ہمارا مذاق اڑاتے۔ لالچی، مفت خور، طفیلیئے ، ڈھونگی جیسے القابات سے نوازتے۔ اور ہم سے بہتر یہ کون جانتا تھا کہ ہم یہ سب کچھ سچ مچ تھے۔ اوپر سے پاکیزہ اور روحانی دِکھنے کی کوشش لیکن اندر سے کھوکھلے، محتاج ،لالچی، مفت خور، طفیلئے، ڈھونگی۔

ہم اوروں کے زیر کفالت تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ اب تک ہم جن پر رعب ڈالتے ہوئے پل رہے تھے انہوں نے ہم سے رعب کھانا بند کر دیا تھا۔ پہلے ہم ان پر ترس کھاتے تھے اب وہ ہم پر ترس کھا رہے تھے۔ انہیں ہمارا ڈر نہیں رہا تھا۔

ان کے پاس زمینیں نہیں تھی۔ وہ پہلے بھی اپنی محنت کی کمائی کھا رہے تھے۔ اور اب بھی۔ ابھی ہم میں سے زیادہ تر کی زمینیں کم ہو رہی تھیں اور اسی تناسب سے اُن میں سے زیادہ تر امیر ہو رہے تھے۔

خود ہمارے وہ پٹی دار جو مسلمان ہو گئے تھے ان کی حالت بھی ہم سے بہتر تھی۔ انہیں موٹر رکشہ چلانے سے لے کر کسی قصبے کے کنارے چائے سموسے کی دوکان چلانے تک میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اور ان میں سے ایک لڑکے نے ابھی تھوڑے دن پہلے نزدیکی بازار میں بال کاٹنے کی دوکان کھولی تھی۔ کیا مذہب بدلنے سے اطوار اس قدر بدل جاتے ہیں؟ ہم اکثر سوچتے لیکن بھول جاتے کہ اس کے بعد ان پر سے اس تباہ کن سوچ کا دبائوختم ہو گیا تھا جس سے کہ ہم جوجھ رہے تھے۔ دوسرے مذہب بدلتے ہی انہیں ہمارے مقابلے میں بہت زیادہ جسمانی اور نفسیاتی جدو جہد سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ جس سے کہ ہم شاید کبھی نہیں ہوئے یا کہ اب ہو رہے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ اس کی شروعات کیسے ہوئی تھی لیکن اس مشکل وقت میں جب ہمیں نئے سرے سے کام میں جٹ جانا تھا ہم کچھ ہوائی سپنوں میں کھو گئے۔ ہمارے بیچ سے جو لوگ کام کی تلاش میں یا بہتری کی کھوج میں باہر نکلے ہم نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ ہمیں آگے کی بجائے پیچھے دیکھنے میں زیادہ سُکھ ملتا۔ ایسا کرتے ہوئے کئی بار ہمیں ایک بھیانک اداسی گھیر لیتی لیکن یہ اداسی بھی ہمیں بھلی لگتی۔

یہ ہمیں ماضی کے ان روشن دنوں کی طرف لے جاتی جہاں سب کچھ سنہرا تھا۔ ہم بار بار انہیں دنوں کی طرف لوٹنا چاہتے۔ ہم پھر سے رام ابھیلاش یا رام اکبال کے زمانے میں لوٹ جانا چاہتے۔ یہ سب کرتے ہوئے ہم ایک تصوراتی دنیا میں پہنچ جاتے جہاں رام ابھیلاش یا رام اکبال سیدھا ہماری آنکھوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے جبکہ ہم میں سے کسی نے بھی انہیں نہیں دیکھا تھا۔ اور ان کی کوئی تصویر بھی ہمارے پاس موجود نہیں تھی۔

یہ انہیں دنوں کی بات رہی ہوگی جب ہم میں سے بہتوں نے حقیقت کی بجائے قصوں میں رہنا شروع کیا ہوگا۔ روکھے عہد حاضر کے مقابلے میں قصوں کی دنیا انہیں زیادہ ہری بھری اور رنگین لگی ہوگی۔ اور وہ دھیرے دھیرے ایک دن وہیں پر بس گئے ہو ں گے۔ انہیں حیرت ہوئی ہو گی جب انہوں نے وہاں اپنے کئی آباء کو ،پٹی داروں کو پایا ہوگا۔ اور خوش ہوئے ہو ں گے کہ یہاں وہ اکیلاپن محسوس نہیں کریں گے۔

 

حاشیے کے قصے اور انکا حقیقت میں بدل جانا

 

ہم بچپن سے ہی سنتے آئے تھے کہ ہمارے چاروں طرف خزانے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہمارے نیچے زمین میں جگہ جگہ اتھاہ دھن دولت گڑا ہوا ہے۔ اس بات میں سچائی تھی لیکن رتی بھر ہی۔ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ مشکل وقتوں کے لئے دبا کر رکھا جاتا تھا۔ سکے، مہریں اور زیور ہی نہیں برتن تک زمین میں گاڑ کر رکھے جاتے تھے۔ رازاور حفاظت کے لحاظ سے گھر کا مالک گھر کے افراد کو بھی نہیں بتاتا تھا کہ اس نے دھن کہاں گاڑ رکھا ہے۔ کئی بار وہ یہ بات کسی کو بتائے بغیر ہی مر جاتا تھا۔ ایسے میں وہ دفینہ جہاں کا تہاں گڑا ہی رہ جاتا تھا۔ اور اس کا حصول مکمل طور پر اتفاقات پر منحصرتھا جو کہ کبھی کبھار ہی وقوع پذیر ہوتے تھے۔

میں جب چھوٹا تھا تو ایسے قصے مجھے بہت اپنے سے لگتے تھے جن میں خزانوں کا ذکر ہوتا تھا۔ اور ہمارے علاقے میں ایسے قصوں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ یہ سبھی قصے ہمارے سامنے حقیقت کے اسلوب میں آتے تھے۔ ہمارے نزدیکی آباء و اجداد یا سچ مچ کے لوگ اس میں ہمیشہ کرداروںکے روپ میں موجود رہتے تھے۔ ہم اپنے اجداد سے کچھ اسی طرح سے متعارف ہوئے۔

بہتیرے اجداد بُھوتوں کے رُوپ میں بھی سامنے آتے تھے۔ کچھ خزانوں کی حفاظت کے لئے سانپ بن گئے تھے۔ اسی لئے بچپن سے ہی سانپ اور بُھوت میرے لئے دوہری کشش کی چیز رہے۔ ایک تو ڈر، ان دیکھے بھیدوں کی کشش اور دوسری یہ بات کہ میں اپنے نہ جانے کس جدِ امجد سے ابھی مل رہا ہوں۔

سانپوں کو میں کھوجتا، انکا دُور تک پیچھا کرتا۔ ان کی بلوں تک، پیڑوں کی کھوکھلوں تک جہاں کہ وہ رہتے تھے، اور ان کے دشمن نیولے۔ سانپ نیولے کی لڑائیاں، سانپ کے زہر سے بچائوکی بوٹیوں کے قصے، ناگ منی اور اس کے معجزانہ اثر کے قصے سب کے سب ایک دم حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنے آتے۔ ایک دوسرے سے جڑتے ہوئے، اور خزانوں کا ایک اعلیٰ بیانہ تیار کرتے ہوئے۔

جب میں نے سکول جانا شروع کیا اور اگلے تین چار سال بعد جب میں نے طرح طرح کے حملہ آوروں کے بارے میں جانا تو میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ وہ مشرق کی طرف سے آئے ہو ں گے۔ میں ایسے خواب دیکھتا جن میں کبھی انگریز حملہ کر رہے ہوتے تو کبھی تُرک۔ یہ سب کے سب مشرق سے ہی آتے دکھائی دیتے اور خزانوں کو لوٹنے کے بعد اسی سمت میں واپس لوٹ جاتے۔

اس کے پیچھے ایک دم نجی وجوہات تھیں۔ مشرق کی طرف ہی ہمارا سب سے نزدیکی بازار تھا۔ لوگوں کا زیادہ تر آنا جانا مشرق کی طرف سے ہی تھا۔ بیڑیا بنجارے بھی مشرق کی سمت سے ہی آتے اور اسی تالاب کے کنارے ڈیرا ڈالتے۔ یہ بنجاروں کے بارے میں قاعدے سے کچھ بھی نہ جاننے یا ان کے بارے میں ہمارے گھروں میں پھیلے طرح طرح کے قصوں کا ہی اثر رہا ہوگا کہ میرے خواب میں جب انگریز یا مغل حملہ کرنے کے لئے آتے تو وہ بنجاروں کے ہی بھیس میں ہوتے۔ وہ گھوڑوں کی بجائے بھینسوں پر بیٹھ کر آتے۔ اور ہماری بستیاں ویران ہو جاتیں۔ لوگ پیڑوں پر ٹنگے نظر آتے۔ خواب ختم ہونے کے بعد سبھی لوگ پیڑوں پر سے اُتر آتے اور اپنے اپنے کام میں لگ جاتے۔ اور بنجارے وہیں تالاب کے کنارے پہنچ جاتے۔

تالاب کا نام تھا سُکھوا کا تالاب۔ یہ ایک بہت کم گہراتالاب تھا۔ یہ طول میں کافی بڑا تھا لیکن اسے برسات میں بھی کھڑے کھڑے پار کیا جا سکتا تھا۔ ممکنہ طور پر ٹیلا یہیں کی مٹی سے بنا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کبھی یہ گہرا رہا ہو لیکن اب یہ ایک کم گہرے تالاب میں بدل گیا تھا۔ لگ بھگ پورے ہی تالاب میں کریموا پھیلا ہوا تھا جس کا ساگ اکثر ہمارے گھروں میں پکتا۔

’’ تالاب کا نام سکھوا کیوں ہے ؟‘‘ ایک بار میں نے ہنومان مِسر سے پوچھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے اس طرح سے دوکانیں نہیں ہوتی تھی جہاں سب کچھ مل جائے۔ تو بنجارے آتے تھے کچھ سامان بیچتے کچھ خریدتے اور آگے بڑھ جاتے۔ سُکھوا ایسے ہی ایک بنجاروں کے سردار کا نام تھا جو اکثر اس تالاب کے کنارے ڈیرا ڈالتا تھا۔ اسی کے نام پر اس تالاب کا نام سُکھوا کا تالاب پڑ گیا دھیرے دھیرے۔

یہ گرمیوں میں اس قدر سوکھ جاتا کہ سوکھ کر اس کی مٹی چٹخ جاتی۔ اس میں گہری دراڑیں پڑ جاتیں۔ اسی تالاب کے ساتھ ایک کہاوت منسوب تھی جس سے ہمارے علاقے کا بچہ بچہ واقف تھا۔ کہاوت تھی،’ ایک لاکھ لگائوتو نو لاکھ پائو ،پتہ نہیں سُکھوا اِس پار یا اُس پار‘۔ اس کہاوت میں ایک لاکھ خرچ کرنے پر نو لاکھ ملنے کی خوشخبری تھی لیکن پیسہ خرچ کرنے کا شعبہ اور اس کی جگہ متعین نہیں تھی۔ ہم سب اس میں پورا یقین رکھتے اور نو لاکھ پانے کے خواب دیکھتے۔

اس طرح کی کہاوتوں کی ایک لمبی فہرست تھی۔ ہر دو چار گاؤں کے بعد کوئی نہ کوئی ایسی جگہ ملتی تھی جہاں اس طرح کی کوئی مبہم غیر واضح کہاوت پرچلت ہوتی۔ کہتے ہیں کہ اس طرح کے دھن عموماََبنجاروں کے ہوتے تھے جو  چور وں ، ڈاکوؤں کے ڈر کے مارے وہ جگہ جگہ چھپا دیتے تھے۔ لوگ ان کے بارے میں سوچنے سے بھی ڈرتے تھے۔ لوگوں کا ماننا تھا کہ بنجارے اپنی دھن دولت کو زندہ جاویدبنا دیتے تھے۔ جو اس دھن کی آخر زمانہ تک رکھوالی کیا کرتا تھا۔

خزانے کو جیتا جاگتابنانے کے بھی کئی ایک قصے تھے۔ سب سے زیادہ مشہور قصہ یہ تھا کہ زمین میں جہاں دھن گاڑا جاتا وہیں اندر ایک بچے کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جاتی۔ کچھ اس طرح سے کہ جب وہ جگہ اوپر سے پاٹ دی جائے تب بھی بچے کے بیٹھنے کی جگہ بچی رہے۔ وہاں خزانے کو چھپانے سے پہلے آخری پوجا کی جاتی۔ پوجا میں کسی بچے کو بھی شامل کیا جاتا جسے افیون یا کوئی اور نشیلی چیز پہلے ہی کھلا دی گئی ہوتی۔ بچہ نشے کی قاتل فریبی دنیا میں کھویا رہتا۔ اسے کھیلنے کے لئے کھلونے اور کھانے کے لئے مٹھائیاں دی جاتیں۔ پوجا کے بعد پوجا کا دیپ جلتا چھوڑ دیا جاتا اور گڑھے کو قرینے سے ڈھک دیا جاتا۔ گڑھے کے اندر ایک ساتھ دو حادثے ہوتے ۔ اِدھر دیا بجھتا اُدھر بچے کی سانس رُکتی۔ اسی بچے کی رُوح آخر زمانہ تک اس دفن شدہ خزانے کی رکھوالی کرتی۔

کئی بار خزانے کے مالک بنا رکھوالا مقرر کئے ہی مر جاتے۔ تب ان کی رُوح ہی خزانے کے آس پاس منڈلانے لگتی اور اس کی رکھوالی کرتی۔ کئی بار خزانے کی رکھوالی کر رہی رُوح کا اس سے کوئی سیدھا رشتہ نہ ہوتا لیکن وہ خزانہ دیکھتے ہی اس پر کنڈلی مار کر بیٹھ جاتی۔

کئی بار بنجارے اپنے دھن کو جہاں چھپاتے اس کے آس پاس کہیں کوئی پتھر وغیرہ گاڑدیتے۔ اور اس کے ساتھ کوئی پہیلی نما چیز عام کر دیتے۔ جس کے مطلب میں اس دھن کا راج چھپا ہوتا۔ ان پہیلیوں کو کہاوت کہا جاتا۔ یہ کہاوتیں ہم جیسے ہزاروں لوگوں کے طمع کے ساتھ جنم جنم تک کھیلتے لیکن ان کا اسرار نہ کھلتا۔ لاکھوں میں کوئی بِرلا ہی ہوتا جسے ان خزانوں کے قریب جانے کا موقع ملتا۔ یا کہ اس میں سے کچھ حاصل ہو پاتا۔

اس طرح کے قصوں میں بہت سارے سانپوں کا بھی تذکرہ تھا۔ سانپوں کو دھن دولت سے بہت پیار تھا۔ وہ اکثر خزانے میں ہی رہتے۔ یہ سانپ بڑے دھوکہ باز ہوتے تھے۔ سونا چاندی ہیرے موتی کے بیچ رہتے ہوئے خود ان کا جسم بھی ویسا ہی ہو جاتا۔ ان کے بدن پر ہیرے موتی جڑے ہوتے۔ آنکھیں ایسا چمکدار ہیرا ہوتیں کہ جو کوئی ان میں ایک بار دیکھ لیتا وہ کچھ اور دیکھنے کے قابل ہی نہ رہتا۔ وہ ہمیشہ کے لئے اندھا ہو جاتا۔ اسے بس وہی  چمکدار آنکھیں اپنے چاروں طرف دکھائی دیتیں۔

ہمارے آس پاس ایسے ہزاروں قصے تیر رہے تھے۔ کئی بار لوگ ایسے ہی کسی قصے سے ٹکرا جاتے۔ قصوں سے ٹکرانے کے اس واقعے کے بعد کئی بار وہ ہمیشہ کے لئے بدل جاتے۔ کئی بار وہ خود بھی قصوں میں ہی سما جاتے اور وہاں سے ان کی واپسی کبھی بھی ممکن نہ ہو پاتی۔

تو دوسری طرف ایسے بھی بعض قصے تھے جہاں کسی کی ترقی یا آگے بڑھنے کو کسی نہ کسی قصے سے جوڑکر دیکھا جاتا۔ خود ہم بھی اپنے جدِ امجد رام ابھلاش کی ترقی کو ایسے ہی قصوں سے جوڑکر دیکھتے تھے۔

میں خود بھی ایسے قصوں کا حصہ بننا چاہتا تھا اور اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانے کے لئے تیار تھا۔ میں خزانوں کا کولمبس بننا چاہتا تھا۔ اس کے لئے میں نے بہت سارے قصوں میں اپنی آمد و رفت بنا رکھی تھی۔ اس معاملے میں میں کافی سماجی شخصیت تھا۔ میں اکیلا نہیں تھا میرے جیسے دوسرے بھی کئی تھے۔

خزانہ پارس پتھر تھا۔ جو کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ ایک لمحے کی لاپرواہی بھی ہمیں اس خزانے سے اتنی دُور پھینک سکتی تھی جہاں سے دوبارہ کئی جنموں تک شاید ہی ہم لوٹ پاتے۔ کسی کو بھی دوبارہ موقع نہیں ملنا تھا۔ اس لئے موقعوں کو پہچاننا بے حد ضروری تھا۔

ایک بار جب گھر کے لوگ کہیں باہر گئے ہوئے تھے اور میں گھر میں اکیلا تھا ،میں نے گھر کے مغربی کونے میں اونچی نیچی زمین کی اکیلے ہی کھدائی کی تھی۔ میرا پکا اندازہ تھا کہ وہاں سے کچھ نہ کچھ ضرور نکلنا چاہئے۔

میں بغیر رُکے لگ بھگ دوپہر تک کھو دتا رہا۔ میرے پاس وقت بہت کم تھا۔ شام تک گھر کے لوگ واپس آنے والے تھے۔ میری پٹائی بھی لگ بھگ طے تھی لیکن میں کسی بھی قیمت پر اپنے اندازے کی جانچ کرنا چاہتا تھا۔

تو میں جب لگ بھگ مایوس ہی ہو جانے والا تھا کہ میرا پھاوڑا کسی پتھر سے ٹکرایا۔ میں آہستہ آہستہ مٹی ہٹانے لگا۔ ساری مٹی ہٹانے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہاں چکی کے دو برابر برابر ٹکڑے موجود تھے۔ ان کو میں نے باہر نکال لیا۔ اور کھودا تو مٹی کی ایک ثابت مٹکی ملی جو اوندھی پڑی تھی۔ اسے اٹھایا تو اس کے نیچے ایک سبز رنگ کا بچھو تھا۔ میں نے مٹکی کو جیسے کا تیسا رکھ دیا اور گڑھاپاٹنے لگا۔ اب یہاں کچھ اور ملنا مشکل تھا۔ سبز بچھو نے میری امید ختم کر دی تھی۔

شام کو گھر پر میری خاصی خبر لی گئی۔ لیکن چکی کا وہ آدھا حصہ سِل کے طور پر بہت دنوں تک استعمال کیا جاتا رہا۔ چکی کا دوسرا حصہ بغل کے ہی بالگووند مسر اُٹھا لے گئے۔ لیکن اس واقعے نے مجھے اس بات کا بھروسہ دلا دیا کہ دھرتی کے اندر بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ میں اگر اس کا تھوڑا سا حصہ بھی کھوج نکالوں تو مجھے جیون بھر کچھ اور کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

میں اکیلا نہیں تھا۔ بہت سارے ’میں‘ تھے جو جیون بھر کچھ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے۔

   خزانے کی کھوج عرف ابھیلاش پور کی اُمیدیں

 

ہماری چمڑی کے سب سے اندرونی تہ خانوں میں چھپی ہوئی کنگالی ہی وہ مہمیز رہی ہوگی جس نے ہماری آنکھوں میں اس قدر خزانے کی چمک بھر دی ہوگی۔ ہمارے گھروں کے سب سے اندرونی تہ خانوں میں چھپی کنگالی نے ہی ہم سے ایک دوسرے کے گھر کھدوائے ہو ں گے۔ جو جتنا ہی زیادہ کنگال اس کی آنکھوں میں امیری کے اتنے ہی بڑے خواب۔ اس کے سپنوں کی اتنی ہی لمبی اڑان۔ اور اس اڑان کا محنت یا کام کاج سے کوئی دور کا بھی ناطہ نہیں۔

کام کاج کو لے کر ہمارے اندر دوہری باتیں تھیں۔ ایک تو یہ کہ محنت کرنے کی ہماری کوئی عادت ہی نہیں رہی تھی۔ رام ابھیلاش اور رام اکبال کے ابتدائی دنوں کو چھوڑ دیں تو ہم محنت کرنا کب کا بھول چکے تھے۔ ان دونوں کی ترقی میں بھی ان کی محنت سے بڑا حصہ ، دان کی زمین اور بعد میں بیگار کی مزدوری کا تھا۔ ہم نے اپنے ایسے کسی بھی پُرکھے کے بارے میں نہیں سنا تھا جو محنت کرکے امیر بن گیا ہو۔ ہم نے اپنے آس پاس ایسے کسی کو دیکھا بھی نہیں تھا۔

ہمارے آس پاس جو تمام کاشتکار یا مزدور جاتیاں تھیں، وہ صبح سے شام تک پسینے میں ڈوبی رہتی تھیں۔ پھر بھی اکثر وہ ننگے بدن ہی دکھائی دیتیں۔ کپڑے ان کے بدن پر کبھی کبھار ہی دِکھتے۔ اس کے باوجود وہ اکثر ہمارے باپ داداکے پاس آتے۔ اناج کے لئے، روپئے کے لئے، قرض مانگتے، گڑ گڑاتے۔ اکثر انہیں یہ قرض مل بھی جاتا۔ جسے وہ یک مشت شاید ہی کبھی واپس کر پاتے۔ ہم چاہتے بھی نہیں کہ وہ ہم سے پوری طرح آزاد ہوں کبھی۔ انہیں ان کی اس حالت کی قیمت چکانی پڑتی۔ یہ سمجھنے لائق ہم ذرا بعد میں ہی ہو پائے۔ تب ہم نے بھی قیمت وصولنا سیکھا۔

لیکن قیمت وصولنے کے دن بیت چکے تھے۔ اب قیمت چکانے کے دن تھے اور ہم بھرپور قیمت چکا رہے تھے۔ ہم شاید کسی طرف بھاگ نکلتے ۔ یہاں پر فی الحال ایسا کچھ بھی نہیں تھا جس کا لالچ ہمیں روکے رکھتا۔ حالات روز بہ روز مزید بھیانک ہونے کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ایسے میں ہماری کاہلی کے علاوہ یہ خزانہ ہی تھا جس کی چمک نے ہمیں روکے رکھا۔ ہم میں سے ہر ایک کو لگ رہا تھا کہ خزانہ ملتے ہی ہمارے سارے مسائل ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے۔

خزانہ ہماری مُردہ آنکھوں کا خواب تھا۔ جو اپنی چھوٹی سے چھوٹی شکل میں مل جاتا تو بھی شاید ہم بچ جاتے۔ کیا سچ مچ؟

خزانے کے لئے ہم نے بہتیری کوششیں کیں۔ ان کوششوں میں رُوحوں سے ٹکرانا بھی تھا۔ اس لئے ان کو خوش کرنا بہت ضروری تھا۔ وہ خزانے کی کھوج میں ہماری مدد تو کر ہی سکتی تھیں۔ دوسری رُوحوںکے خلاف سرکشی بھی کر سکتی تھیں۔ اس راستے پر تمام دشمن رُوحیں بھی مل سکتی تھیں اس لئے بجرنگ بلی کی موافقت بھی ضروری تھی۔ اور تو اور اس عمل کو خفیہ رکھنابھی ضروری تھا نہیں تو رُوحیں قریب ہی نہ پھٹکتیں۔

اس طرح کی بہتیری کوششیں ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ جیسے ایک کوشش کے روپ میں پیروں کومیں دھمکاتا ہوا چلتا تھا۔ لگاتار کودتے ہوئے چلنے جیسا۔ اس سے زمین کے ٹھوس، کم ٹھوس یا کھوکھلی ہونے کا پتہ چلنا تھا۔ جہاں نیچے کچھ ہوتا وہاں سے دھات جیسی کھنکناہٹ کی امید تھی۔ جہاں نیچے زمین کھوکھلی ہوتی وہاں دوسری طرح کی گونج سنائی دیتی۔ کم سے کم اتنا تو پتہ چل ہی جاتا کہ یہاں کچھ ہو یا نہ ہو لیکن زمین کبھی نہ کبھی کھودی ضرور گئی ہے۔

ہر آدمی اپنے تئیں کوشش کر رہا تھا۔ اور ہم ایک دوسرے کی نقل بھی کر رہے تھے۔ کودتے ہوئے، زمین کی ٹوہ لیتے ہوئے چلنے کی نقل بھی بہتیرے لوگوں نے کی۔ ہماری چالیں کچھ اس قدر بدل رہی تھیں کہ کسی پڑوسی گائوں کا کوئی آدمی ہمیں دیکھتا تو ہمیں انسانوں سے الگ کوئی اور مخلو ق سمجھ سکتا تھا۔ ہماری آنکھیں عموماََنیچے کی طرف ہوتیں۔ سر اور ہاتھ نیچے جھکے ہوتے۔ ہم ایک دوسرے کی بغل سے نکل جاتے اور ہمیں پتہ بھی نہ چلتا کیونکہ دونوں ہی پیر دھمکاتے ہوئے نیچے دیکھتے، زمین میں کچھ کھوجتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہوتے۔

مشکل یہ تھی کہ جس ٹیلے پر ابھیلاش پور بسا ہوا تھا اسی ٹیلے میں دھن دولت چھپے ہونے کے سب سے زیادہ امکانات تھے۔ ہماری مشکل یہ تھی کہ ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے کہ ایک طرف سے کھدائی شروع کر دیں اور دوسری طرف تک کھودتے چلے جائیں۔ یہ ناممکن تھا۔

ہمیں دوسری حکمتوں سے کام لینا تھا۔ اور دوسروں سے چھپ کر کام کرناتھا۔ یہ تبھی ممکن تھا جب وہ رُوحیں ہمارا ساتھ دیں جو نہ جانے کب سے خزانوں کی رکھوالی میں لگی ہوئی تھیں۔ انہیں ویسے بھی موافق کرنا تھا ہمیں۔

ہم نے تمام ٹونے ٹوٹکوں کا سہارا لیا۔ تمام کالی اور لال کتابیں خریدیں۔ ورہد اِندرجال کے صفحات پلٹے۔ رفع حاجت سے فراغت کے بعد لوٹتے ہوئے بچا ہوا پانی بیر اور ببول کے پیڑوں پر اکیس دن تک چڑھایا اور بُھوتوں پریتوں کے ظاہر ہونے کی خواہش کی۔ اس طرح سے کام سدھ نہ ہوتے دیکھ کر کئی جادو گروں اور کاہنوں کی پناہ میں گئے۔ بہت سے گھروں میں رشتہ دار کے رُوپ میں کاہن جادو گر آن براجے۔

ہم کن سے جھوٹھ بول رہے تھے آخر! چھوٹا سا تو تھا ابھیلاش پور۔ ہم ایک دوسرے کے سارے رشتے ناطے جانتے تھے۔ ان سب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا تھا ہمارا۔ پھر اچانک اتنی بڑی تعداد میں اتنے سارے رشتہ دار کہاں سے وارد ہو گئے تھے۔ کون تھے وہ ہمارے جو ہم نے انہیں اپنے گھروں کے اندر پناہ دی تھی؟ وہ کیا کرنے والے تھے آخر؟

گھر گھر ہوَن ہو رہے تھے۔ انڈے توڑے جارہے تھے۔ قربانیاںکی جا رہی تھیں۔ اور اس طرح وہ ان جگہوں کو کھوجنے کی کوشش کر رہے تھے جہاں خزانہ چھپا ہو سکتا تھا۔ ان سب نے بتایا کہ ابھیلاش پور کے نیچے اتنی دھن دولت دبی ہوئی ہے کہ اس کے آگے سرکاری خزانے کی دولت بھی پانی بھرے۔ اسے نکالنا ہی ہوگا۔ خود وہ دولت بھی باہر آنے کے لئے بے قرار ہے۔ ان کے رکھوالے اب اپنے کام سے نجات چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نئے محافظ ان کی جگہ لیں اور انہیں آزاد کریں۔

اور حیرت کی بات ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر رکھوالے بننے کے لئے راضی تھے۔ پورے علاقے کی ہوا ہی جیسے بدل گئی تھی۔ ہم اس لہر میں سر سے پیر تک ڈوبے ہوئے تھے۔ کئی بار اس ہوا کے اثر سے بچے ہوئے لوگ ہمیں باہر نکالنا چاہتے۔ وہ ہمارا مذاق اڑاتے۔ ہم پر لعنت بھیجتے۔ ہمیں گالیاں بکتے لیکن ہم ان کی زبان بھول گئے تھے۔ کئی بار ہم ایسا منہ بناتے جیسے ہمیں ان کی باتیں سمجھ میں ہی نہ آ رہی ہوں۔ اور یہ پوری طرح سے جھوٹھ بھی نہیں تھا۔ ہمیںخزانے کے علاوہ کوئی اور بات سمجھ میںنہیں آ رہی تھی ان دنوں۔

ہم نے ویسے لوگوں سے بچنے کا سیدھا راستہ نکالا کہ کٹنے لگے ان سے۔ پہچاننا ہی بند کر دیا انہیں۔ ایسے راستوں پر چلنا بند کر دیا جہاں کہ وہ مل سکتے تھے۔ ہم اپنے قصوں میں کھو گئے۔ وہ ملتے بھی تو ہم اپنے اپنے قصو ں سے بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔

ہم میں سے ہر کوئی اکیلا تھا۔ ہم الگ الگ کام کر رہے تھے۔ اس کے باوجود ہم سب کے بھیتر ایک ہی طرح کے سپنے گھر کر رہے تھے۔ ہم میں سے ہر کسی کو بھروسہ تھا کہ اس کے ہاتھ ایک بڑی دولت لگنے والی ہے۔ ہم لگاتار یہ منصوبے بناتے کہ ہم اپنے حصے کی دولت کیسے خرچ کریں گے اور دولت تھی کہ ان سارے منصوبوں کے بعد بھی بچی رہ جا تی تھی۔

سب کچھ بدل رہا تھا۔ ارواح تک اپنی دولت واپس مانگنے لگی تھیں۔ جیسے ساس کے مرنے کے بعد اس کی کردھن، ہنسلی یا ہار کسی بہو نے پہن رکھا ہوتا تو اکثر ساس کی رُوح اس پر سوار ہوکر چلاتی ،’’ اتار میری کردھن۔۔۔۔ اتار میری ہنسلی!‘‘ اور بے بس بہو کردھن یا ہنسلی اتار پھینکتی۔ تھوڑے دن سکون رہتا اور اس کے بعد بہو کا بھی ان زیوروں سے لگائو اتنا گہرا ہوچکا ہوتا کہ وہ دوبارہ انہیں پہنے نظر آتی اور وہی حادثہ پھر سے دوہرایا جاتا۔ کوئی بھی پیچھے ہٹنے کو  تیارنہ ہوتا۔

کوئی نیند میں ہی کسی سے نہ جانے کیا بات کرتے ہوئے چلاتا دکھائی دیتا تو کوئی سوتے ہوئے اچانک ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا۔ جیسے کوئی آگ سی دہکتی رہتی ہمیشہ۔بے چین لوگ ہمیشہ کچھ کھوجتے تلاش کرتے نظر آتے۔ آنکھیں ہمیشہ کٹوروں میں گھومتی رہتیں۔ لوگوں کی نیند غائب ہو گئی تھی۔ لگاتار جاگتے رہنے سے سب کی آنکھیں سوج رہی تھیں۔ اور وحشت سے بھری لال لال آنکھیں کچھ اس طرح لگتی تھیں جیسے ان میں سے خون ٹپک رہا ہو۔ ان میں ایک بھیانک ریگستانی چمک تھی۔

 

اڑھائی سو سال پرانے خواب کا اختتام

 

ایک دن افواہ اُڑی کہ سجیون دُبے کو ایک گاگر بھر سونے کی مہریں ملی ہیں۔ اگلے ہی دن سجیون دُبے کے یہاں ڈکیتی ہوئی۔ ڈکیتوں نے سجیون دُبے کو بہت تڑپایا لیکن چاندی کے دوچار سکوں سے زیادہ کچھ نہیں پا سکے۔ ہوا میں یہ بات سرِ عام تیر رہی تھی کہ سارے کے سارے ڈکیت ابھیلاش پور کے ہی تھے اور تو اور ان میں ایک باپ بیٹے کی جوڑی بھی شامل تھی۔

اگلے دن رادھے شیام کے گھر کی پچھلی دیوار کھودی ہوئی پائی گئی۔ صبح دیکھا تو وہاں مٹی کے پرانے برتنوں کے ٹکڑے ملے اور دوچار چاندی کے سکے بھی۔ اگلے دن رام جس کا پچھواڑا کھدا ہوا تھا۔ وہاں صبح سونے کا ایک سکہ گرا ہوا ملا۔ حالت یہ ہوئی کہ روز کسی نہ کسی طرف سے چلاہٹ مچتی کہ کوئی اس کاگھر کھود رہا ہے۔ اور جب تک لوگ وہاں پہنچتے تب تک کسی دوسرے کا اگواڑاپچھواڑا کُھد جاتا۔ پھائوڑے اور کدالوں کا استعمال بدل گیا تھا۔ اب وہ کھیتوں میں نہیں گھروں میں چل رہے تھے۔

ادھر کاہنوں کی اپنی دنیا تھی جو ہمارے پیچھے پیچھے کام کر رہی تھی۔ بلکہ اب اس نے ہمارے آگے آگے چلنا شروع کر دیا تھا۔ کئی کاہنوں نے بتایا کہ پورے قلعے کی ہی کھدائی کرنی پڑے گی۔ لیکن اگر رکھوالوں کی حمایت حاصل ہو جائے تو کم کھدائی سے بھی کام چل سکتا ہے۔ لیکن یہاں رکھوالے بہت زیادہ ہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں۔ ان میں سے ہر کسی کا ایک الگ مطالبہ ہے جسے پورا کرنا ہی پڑے گا۔

یہ شرطیں بے حد عجیب و غریب تھیں۔ کہیں بیٹے کی قربانی مانگی جا رہی تھی کہیں بیٹی کی۔ کہیں بیٹی کی پہلی ماہواری کا خون مانگا جا رہا تھا تو کہیں پہلی ہم بستری کا۔ اسے ہندئووں سے گائے کی قربانی چاہئے تھی، مسلمانوں سے سور کی۔ کہیں وہ پڑوسی کے بچے کی بلی مانگ رہا تھا تو کہیں کوئی اپنے ہی کسی اپاہج بچے کی قربانی دے کر دولت مند ہونے کا خواب دیکھ رہا تھا جن کی کہ ابھیلاش پور میں کوئی کمی نہیں تھی۔

بہت دھن تھا لیکن بغیرکچھ نقصان اٹھائے ، بنا کسی شرمناک فعل میں ملوث ہوئے اس کا ایک چھوٹا سا حصہ بھی مل پانا معجزہ تھا۔ اور ہم کسی بھی قیمت پر یہ سب کچھ کرنے کے لئے تیار تھے۔ ہمیں وہ ساری دولت چاہئے تھی ، بھلے ہی وہ کسی بھی قیمت پر کیوں نہ ملے۔

رکھوالوں کی رُوحیں ڈھائی سو سال سے سو رہی تھیں۔ ڈھائی سو سال پرانی نیند نے ان کے اندر حرص کا ساگر بھر دیا تھا۔ ان کی ہوس انتہا تک پہنچی ہوئی تھی ۔ وہ رُوحیں اپنی ان ساری خواہشوں کی آبیاری چاہتی تھیں۔ لیکن ان کے پاس بدن نہیں تھا۔ انہیں ہمارا جسم چاہئے تھا۔ اس کے بعد ان کی ساری شرطیں معاف تھیں کیونکہ بدن ملتے ہی وہ خود اتنی مضبوط ہو جانے والی تھیں کہ وہ اپنا من چاہا کچھ بھی حاصل کر لیتیں۔

ہم نے اپنی سمجھ بوجھ پہلے سے ہی ان کے نام کر رکھی تھی۔ بدن دینے میں ہمیں بھلا کیا اعتراض ہوتا۔ اس کے بعد چاروں طرف وہ ہاہا کار مچی کہ آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ بھی اپنا گھربار چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ کچھ بھی انہونا کسی بھی لمحے وقوع پذیر ہو جاتا۔رات کے وقت ایک دن نعرہ گونجا،’’ آج رات جو سوئے گا پتھر کا ہو جائے گا ۔‘‘ نیند ویسے بھی آج کل کسے آ رہی تھی! ہم ایک بوکھلائی ہوئی جلد بازی کے ساتھ باہر آ گئے۔ چاروں طرف بے حد دھیمے لہجے میں عجیب و غریب آوازیں تیر رہی تھیں۔ جیسے کراہٹ، چیخ، سسکی اور بین ملا دیئے گئے ہوں آپس میں۔

جب یہ آوازیں تھوڑی مدھم ہوئیں تو ہم اپنے گھروں میں لوٹے۔ ہمارے گھر بدل چکے تھے ہمیشہ کے لئے۔ گھروں میں سُرنگیں کھودی ہوئی تھیں۔ ان راستوں سے آیا بہت سارا دھن ہمارے گھروں میں تھا۔ اس کی چمک ہمیں اندھا کر رہی تھی۔ اسی چمک پر ہم نے اپنا جیون وار دیا تھا۔ پوری رات ہم اس دولت کا حساب لگانے کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن یہ ہماری استعداد سے باہر کی بات تھی۔

صبح ہوئی۔ کئی صبحیں ہوئیں۔ کئی راتیں بیت گئیں۔ ہم نے رات اور دن کا فرق کھو دیا۔ ہمیں یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ ہمارے پڑوسیوں کے گھروں میں کیا چل رہا ہے۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ خود ہمارے ہی گھروں میں ہمارے ساتھ کیا ہوا ہے۔ ہم نہیں جان پائے کہ ان سُرنگوں میں ہمارے ہی گھروں سے کوئی سسک رہا ہے۔

کئی دنوں بعد ہمیں یہ سوجھی کہ ہم ان سُرنگوں میں بھی جھانکیں جن کے راستے یہ دولت مندی ہمارے گھروں میں آئی ہے۔ ان سُرنگوں میں کسی کی بیٹی تڑپ رہی تھی تو کسی کی بہن۔ بہت سے سر اور دھڑ کٹے ہوئے پڑے تھے۔ وہ ابھی بھی زندہ تھے۔ ایسے بھی تھے جو جلدی ہی پیدا ہونے والے تھے، لیکن اس سے پہلے ہی انہیں کھینچ باہر کیا گیا تھا۔ ان کی کراہٹوں سے پوری سُرنگ بھری ہوئی تھی۔ ابھی تھوڑا عرصہ پہلے تک وہ مجسم ہمارے ساتھ تھے۔ لیکن ہم انہیں پہچان ہی نہیں پائے۔ ان کی کراہیں ہمیں ایک مدہوش کرنے والے سنگیت کی طرح سنائی دیں۔ ہم سُرنگ میں آگے بڑھ گئے۔ اندر ایک غضب کی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔

خزانے کے نئے رکھوالوں کی تقرری ہو چکی تھی۔

 

سُرنگ کے اندر اور باہر

 

خزانے کے ساتھ بہت سارے قصے بھی باہر نکل آئے تھے۔ اور وہ ہمارے جیون میں اس طرح سے گھل مل گئے تھے کہ قصے اور حقیقت کے بیچ کا فرق ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا تھا۔ وہ دیوار جو دونوں کے بیچ ایک متوازن دُوری بناکر چلتی تھی وہ ہم نے کب کی منہدم کردی تھی۔ ہمارا خود پر کوئی زور نہیں بچا تھا۔ اب یہ ہمارے ہاتھ سے نکل گیا تھا کہ کب ہم قصوں کی دنیا میں رہیں گے اور کب حقیقت کی دنیا میں۔ قصے بھی کئی تھے۔ ہر آدمی ایک الگ قصے کی گرفت میں تھا۔

یہ گرفت بہت بھیانک تھی۔ ہم اس گرفت کے علاوہ باقی سب کچھ بھول گئے تھے۔ ہم بغل سے گزر رہے اپنے پڑوسی تک کو نہیں پہچان پا رہے تھے۔ ہم اپنے دوستوں کو بھول گئے تھے۔ ہم اپنے ماں باپ بھائی بہن اولاد سب کو فراموش کرتے جا رہے تھے۔ کبھی کبھار بھولے بھٹکے ہم انہیں پہچانتے بھی تو فوراََ ہی کچھ اس طرح سے پھر بھول جاتے جیسے آدھی رات کو دیکھا گیا کوئی دُھندلا خواب۔

لوگ ہوا میں ہی کسی قصے سے بات کرتے دکھائی دیتے۔ خلاء میں تاکتے اور ٹھاکا لگاتے۔ ہوا میں نہ جانے کس سے ہاتھاپائی کرتے۔ کئی بار دُکھی اور اداس ہوتے، روتے۔ تب بھی انہیں سچ مچ کے کسی دوست کی ضرورت نہ محسوس ہوتی۔

میرے والد خود کو ہی اپنا باپ مان بیٹھے تھے۔ ان کا میرے ساتھ رویہ بدل گیا تھا۔ وہ مجھ سے ایسے مخاطب ہوتے تھے کہ میں ان کا بیٹا نہ ہوکرجیسے پوتا ہوں۔ میرے والددرمیان میں نہ جانے کہاں غائب ہو گئے تھے۔ وہ کون سا قصہ تھا جو ان کو نگل گیا تھا۔ کہ ان کے بدن میں باپ کے والدآ بیٹھے تھے۔ ایسا کرکے شاید وہ اپنے باپ اور دادا سے مکالمہ کر رہے تھے، اس امید میں کہ وہ وہاں سے کچھ سراغ لے کر لوٹیں خزانوں کے بارے میں! یا پھر کیا پتہ۔ انہیں کچھ معلوم بھی ہو جاتا تو کیا پتہ وہ کھدائی کہاں پر کرتے، عہد حاضر میں یا پھر انہیں قصوں کی دنیا میں۔

بلدیو مِسر نے خزانے سے ملے ہوئے دھن سے ایک چمچماتی کار خریدی۔ جب وہ کار لے کر سُرنگ سے باہر نکلے تو اپنے گھر کا راستہ ہی بھول گئے۔ پورے ابھیلاش پور میں ہارن بجاتے ہوئے انہوں نے بیسیوں چکر کاٹے۔ کئی جگہوں پر اتر کر ہوا میں نہ جانے کن لوگوں سے راستہ پوچھا لیکن انہیں اپنے گھر کا راستہ نہیں ملا تو نہیں ملا۔ وہ ابھی بھی ہارن بجاتے ہوئے چکر پر چکر کاٹ رہے ہیں اور نہ جانے کس کس سے اپنے گھر کا راستہ پوچھ رہے ہیں۔

ان کاگھر ان کے انتظار میں کئی سالوں سے بند پڑا ہے۔ دہلیز اور آنگن میں جھاڑ جھنکاڑ اُگ آئے ہیں۔ آنگن میں ایک نہ جانے کون سا پیڑ اُگ آیا ہے جس کی ڈالیوں پر پھلوں کی طرح چمگادڑ لٹکتے رہتے ہیں۔ اس گھر کی طرف کوئی نہیں جاتا۔ لوگوں نے اسے آسیب زدہ گھر مان لیا ہے۔

وہی کیا پورا کا پورا ٹیلا ہی آسیب زدہ مان لیا گیا ہے۔ اب ٹیلے پر صرف وہی لوگ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے خزانوں والے قصوں کی دنیا میں ابھی بھی زبردست آمد و رفت بنا رکھی ہے۔ وہ کسی کو بھی نہیں پہچانتے۔ ہمارے پاس سے نہ جانے کیا بڑبڑاتے ہوئے نکل جاتے ہیں اور ہماری طرف دیکھتے بھی نہیں۔ ہمارے’ رام رام‘ اور’ سلام‘ کا جواب نہیں دیتے۔ ان کے لئے ہم اور ہماری دنیا غائب ہو چکے ہیں۔ شاید ہمیشہ کے لئے۔

میرے جیسے جو لوگ قصوں کی دنیا سے نکلنے میں کامیاب رہے یا کسی دوسرے قصے کے ذریعہ ہی باہر کھینچ لئے گئے، ان سب نے ٹیلا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ دیا۔ کچھ نے اپنے گھروں کو گرا دیا۔ کچھ نے انہیں جیسے کا تیسا رہنے دیا۔ زیادہ تر تو پہلے ہی کھودے پاٹے جا چکے تھے۔

ٹیلا اس زمانے کے مقابلے میں بہت زیادہ ویران دکھائی دیتا ہے، جب رام ابھیلاش نے اس پر اپنا گھر بنایا تھا۔ ٹیلے پر نئے بنے کھنڈروں کے بیچ تمام جھاڑ جھنکاڑ اُگ آئے ہیں۔ اس طرف دیکھنا ہی ایک ڈرائونے احساس سے بھر دیتا ہے۔ راتوں کو ابھی بھی وہاں سے عجیب عجیب آوازیں آتی ہیں جو ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ان آوازوں میں ایک پاگل کشش ہے۔

سُرنگ میں جانے سے بچے ہوئے لوگ آس پاس کے دیہاتوں اور شہروں میں پھیل گئے ہیں۔ کئی نئے ابھیلاش پور بسنے کی راہ پر ہیں۔ آس پاس کے تمام لوگ جنہوں نے خود کو خزانوں کی جان لیوا کشش سے بچا رکھا تھا ہم پر ہنستے ہیں۔ تھوڑی دیر کی ایک شرمندگی بھری خاموشی کے بعد ہم بھی ان کے ساتھ ہنسنے لگتے ہیں۔

 

 

مصنف کا تعارف:

منوج کمار پانڈے لکھاریوں کی موجودہ نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ  7 اکتوبر 1977ء کو الہ آباد، اترپردیش، انڈیا میں پیدا ہوئے۔ الہ آباد یونیورسٹی سے ہندی ادبیات میں ایم اے کیا ہوا ہے۔ افسانہ نگاری سے آپ کو خاص رغبت ہے۔  


www.facebook.com/groups/AAKUT/


Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق