انتون چیخوف کا افسانہ " گھاٹی میں "
عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)
افسانہ نمبر 14: گھاٹی میں
تحریر: انتون چیخوف (روس)
اردو ترجمہ: خورشید جاوید (لاہور، پاکستان)
یوکلی
ؤ(Ukleyevo) گاؤں ایک گھاٹی میں واقع تھا۔ بڑی سڑک اور
ریلوے سٹیشن سے اگر کچھ نظر آتا تو صرف کاٹن کے کارخانوں کی چمنیاں اور گرجے کا
گھنٹہ گھر۔ جب مسافر گزرتے ہوئے پوچھتے کہ وہ کون سا گاﺅں تھا
تو انہیں جواب ملتا ۔ ”یہ وہ
جگہ ہے جہاں سیکٹون (Sexton)دعوتِ مرگ پر
مچھلی کا تمام اچار ہڑپ کر گیا۔“
مل
مالک کوسٹی کوف (Kostyukov) کے خاندان میں کسی مرگ پر بوڑھے سیکٹون کو
دوسری لذیز چیزوں کے علاوہ مچھلی کے اچار کا مرتبان نظر آگیا۔ وہ اس پر ندیدوں کی
طرح ٹوٹ پڑا۔ لوگوں نے کہنی سے ٹہوکا دیا، اس کی آستین کھینچی لیکن اس نے کوئی
پرواہ نہیں کی۔ وہ بے خودی کی حالت میں کھاتا رہا کھاتا رہا۔ مرتبان میں چار پونڈ
اچار تھا مگر وہ تمام ہڑپ کر گیا۔ مدت ہوئی یہ واقعہ ہوا تھا۔ سیکٹون مر کے دفن
بھی ہو چکا تھا مگر ہر کسی کو یاد تھا کہ اس نے کیسے اچار پر ہاتھ صاف کیا ۔ شاید
یہاں کی زندگی واقعات سے خالی تھی یا دس سال قبل گذرے اس غیر اہم واقعہ نے
دیہاتیوں کے ذہن پر اپنا انمٹ نقش ثبت کردیا تھاکہ یوکلیﺅگاﺅں سے
کوئی اور بات منسوب ہی نہیں ہوئی۔
یہاں
اکثر بخار پھیلا رہتا حتیٰ کہ گرمیوں میں بھی، چپکنے والا کیچڑ موجود رہتا، خاص
طور سے مل کے احاطے کے جنگلے کے قدموں میں، جس پر بیدکے قدیم درخت طویل سائے
پھیلائے جھکے رہتے۔ وہاں فیکٹری کے فضلے، پرنٹ کی تکمیل میں استعمال ہونے والے
سرکے کے تیزاب کی بو پھیلی رہتی۔
کاٹن
کی تین فیکٹریاں اور ایک چمڑے کی فیکٹری گاﺅں میں
نہیں تھیں بلکہ مضافات سے بھی ذرا پرے واقع تھیں۔ یہ کوئی بڑی فیکٹریاں نہیں
تھیںمجموعی طور پر کر سب میں چار سو سے زیادہ مزدور نہیں تھے۔ لیکن چمڑا رنگسازی
سے نکلنے والے پانی سے دریا سڑتا رہتا تھا۔ ترائی کی زمین فاضل مواد سے آلودہ ہو
چکی تھی۔ کسانوں کے مویشی دنبل کی بیماری کا شکار رہتے تھے۔ کاغذوں میں چمڑا رنگنے
کا کارخانہ قانوناً بند ہو چکا تھا۔ لیکن مقامی پولیس کے سربراہ اور ضلعی میڈیکل
آفیسر کی اعانت سے خفیہ طور پر چل رہا تھا۔ کارخانے کا مالک ان میں سے ہر ایک کوہر
ماہ دس روبل ادا کرتا تھا۔ گاﺅں میں اینٹوں کے
بنے پکے، آہنی چھتوں والے صرف دو ہی معقول گھر تھے۔ ان میں سے ایک وولسٹ بورڈ آف
ایڈمنسٹریشن(Volost Board of Administration) [1]کی ملکیت تھا دوسرے میں جس کی دو منزلہ
عمارت تھی، گریگوری پیتروچ تسی بکون (Grigory Petrovich Tsibukin)رہتا
تھا۔ وہ فانووف قصبے کے درمیانے طبقے کی نچلی پرت سے تعلق رکھتا تھا۔
گریگوری
کی کریانے کی دکان تھی جو صرف دھوکے کی ٹٹی تھی۔ کیونکہ اس کا اصل کام جانوروں کی
کھالیں، سور، غلہ اور ووڈکا فروخت کرنا تھا۔ غرض جو بھی ہاتھ آتا وہ بیچ ڈالتا۔
مثال کے طور پر جب بیرون ملک خواتین کے ہیٹوں میں مینا کے پر لگانے کا رواج تھا تو
اس نے ایک جوڑی تیس کوپک تک فروخت کی۔ وہ غیر قانونی کٹے درخت خریدتا تھا اور سود
پر رقم دیتا تھا۔ قصہ مختصر وہ ایک بااثر بڈھا تھا۔
اس
کے دو بیٹے تھے۔ بڑا اینسم(Anisim) پولیس کے تفتیشی
محکمے میں ملازم تھا اور عام طور پر باہر ہی رہتا تھا چھوٹا سٹیفن(Stepan)
تجارت
میں آ گیاتھا۔ اور اپنے باپ کی مدد کرتا تھا۔ ویسے
اس کی مدد کا کوئی فائدہ نہیں تھاکیونکہ وہ بہرا تھا اور بیمار رہتا تھا۔ اس کی
بیوی اکسینیا(Aksinya) خوبصورت اور پھرتیلی عورت تھی جو اتوار اور
ولیوں کے دن چھجے دار ٹوپی پہنتی اور ہاتھ میں چھتری لے کر عبادت کے لیے جاتی۔ صبح
سویرے اٹھتی اور رات کو دیر سے سوتی تھی۔ کنجیوں کا گچھا اس کے کمربند سے لٹکا
بجتا رہتا اور وہ اپنے سکرٹ کو اُڑسے گودام سے تہ خانے اور تہ خانے سے دکان تک
دوڑتی پھرتی۔ بوڑھا تسی بکون اسے مسرت سے دیکھتا رہتا۔ جب بھی وہ اسے دیکھتا اس کی
آنکھوں میں چمک آجاتی۔ ساتھ ہی اسے افسوس ہوتا کہ اس نے اس کی شادی چھوٹے بیٹے کی
بجائے بڑے بیٹے سے کیوں نہ کی۔ چھوٹے بہرے بیٹے سے توقع نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ
خواتین کی نزاکتوں کی قدر کرسکے۔
بڈھا
ایک گھریلو آدمی تھا جو اپنے خاندان کو ساری دنیا پر مقدم رکھتا تھا خاص طور سے
بڑے سراغ رساں بیٹے اور اپنی بہو کو۔ اکسینیا جیسے ہی بہرے کی بیوی بنی اس نے اپنے
آپ کو ایک تاجر عورت ثابت کر دیا۔ وہ جانتی تھی کہ خریداری کے لیے کسے قرض دینا ہے
اور کسے نہیں۔ وہ کنجیاں ہمیشہ اپنے پاس رکھتی اور اپنے خاوند پر بھی اعتبار نہیں
کرتی تھی۔ وہ گنتار کی گولیاں تیزی سے گن لیتی تھی، اور گھاگ کسانوں کی طرح گھوڑوں
کے منہ کھول کر دیکھ لیتی تھی۔ وہ یا تو ہنس رہی ہوتی یا کسی کو ڈانٹ رہی ہوتی۔
اور جو کچھ وہ کرتی یا کہہ رہی ہوتی اسے بوڑھا آدمی صرف توصیفی نظروں سے دیکھتا
رہتا۔ وہ بڑبڑاتا۔
”ایسی
ہی بہو ہونی چاہیے تھی۔ کیا بات ہے!“
کچھ
عرصہ وہ رنڈوا رہا لیکن اپنے بیٹے کی شادی کے ایک سال بعد اس میں مزید حوصلہ نہ
رہااور اس نے خود بھی شادی کرلی۔یوکلی¶ سے تیس کوس پرے اس کے لیے ایک لڑکی
منتخب کی گئی جس کا نام ورورانکولائینا(Varvara Nikolayena) تھا جو
ایک اچھے خاندان سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ زیادہ جوان نہیں تھی لیکن ابھی بھی اچھی
شکل صورت کی تھی اور جاذب نظر تھی۔ جیسے ہی وہ اوپر کی منزل میں اپنے چھوٹے سے
کمرے میں رہائش پذیر ہوگئی یوں لگتا تھا جیسے سارا گھر بُقعہ نوربن گیا ہے۔
کھڑکیوں میں نئے شیشے لگا ئے گئے۔ مذہبی شبیہوں کے سامنے لیمپ جلائے گئے۔ برف کی
مانند سفید کپڑے کے میز پوش تمام میزوں پر بچھادئے گئے، کھڑکیوں کے تختے اور سامنے
کے باغ میں سرخ پھول نظر آنے لگے۔ ڈنرپر اب ایک ہی کی بجائےہر کوئی اپنی اپنی پلیٹ
میں کھانا کھاتا تھا۔ وارورا نکولائینا کی مسکراہٹ شیریں اور محبت بھری تھی اور
گھر کی ہر چیز اس کی مسکراہٹ کا جواب دیتی نظر آتی تھی۔ پہلی دفعہ فقیر، زائرین
اور راہب احاطے میں نظر آنے لگے، کھڑکی کے نیچے یوکلیﺅ کی
خواتین کی رحم کی طالب آہ و زاری اور شراب نوشی پر فیکٹری سے نکالے گئے پچکی گالوں
والے بیماروں کی عذر خواہانہ کھانسی سنی جانے لگی۔ وارورا ان کی مصیبتیں پیسے،
روٹی اور پرانے کپڑوں سے دور کرتی۔ بعد میں جب اسے اپنی ذات پر زیادہ اعتماد ہوگیا
تووہ دکان سے ان کو چوری چھپے چیزیں بھی دینے لگی۔ ایک دفعہ بہرے لڑکے نے اسے دکان
سے چائے کے دو پیکٹ لیتے ہوئے دیکھ لیا جس سے وہ بہت پریشان ہوا۔
”ماں نے
دو چھٹانک چائے لی ہے“۔ اس نے بعد میں اپنے باپ کو بتایا۔ ”میں اس کا اندراج کہاں
کروں“۔
بوڑھے
نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ لیکن چند لمحے خاموش کھڑے رہنے کے بعد اس کی بھنویں
پھڑکیں تب وہ اوپر اپنی بیوی سے بات کرنے گیا۔
”پیاری
وارورا” اس نے محبت سے کہا ”جب کبھی تمہیں دکان سے کسی چیز کی ضرورت ہو تو لے لیا
کرو۔ جو چیز بھی تمہیں چاہیے لے لیا کرو، اس کے بارے میں سوچنا بھی نہیں“۔
اگلے
روز بہرے بیٹے نے جب وہ احاطے میں دوڑتا ہوا جا رہا تھا چیختے ہوئے کہا۔
”ماں
اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو لے لیا کرو“۔
اس
کی خیرات بھی مقدس شبیہوں کے سامنے رکھے ہوئے لیمپوں اور سرخ پھولوں کی طرح روشن
اور تازہ تھی۔ *شروٹائیڈ(Shrovetide) پر یا مقامی ولی
کی تین روزہ تعطیلات پر کسانوں کو لکڑی کے پیپے سے نکال کر داغدار گوشت فروخت کیا
جاتا جو اتنا بدبودار ہوتا تھا کہ اس کے قریب کھڑا ہونا محال تھا۔پھر بھی شرابی
اپنی درانتیاں، ٹوپیاں اور اپنی بیویوں کی شالیں کاﺅنٹر پر
دے جاتے ۔ جب مل کے ملازم ووڈکا کے خمار میں، کیچڑ میں گرے آہیں بھرتے رہتے اور
گناہ ہر شے پرگھنے کہرے کی طرح چھایا رہتا اس وقت یہ خیال بہت اچھا لگتا تھاکہ
کہیں کسی گھر میں ایک خاموش اور صاف ستھری عورت کا اس گلے سڑے گوشت اور ووڈکا سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے بے کیف اور کہر آلوددنوں میں اس کی خیرات مشین کے سیفٹی
والو کے طور پر کام کرتی۔
تسی
بکون گھرانے میں سارا دن مصروف ہی گزرتا تھا۔ سورج نکلنے سے پہلے، اکسینیا جب
راہداری میں اپنا چہرہ دھوتی، تو کھانسنے اور ناک صاف کرنے کی آوازیں سنائی دیتیں۔
کچن میں سماورا ابل رہا ہوتا جیسے بھنبھناتی ہوئی بلاﺅں کی
آمد کی اطلاع دے رہا ہو۔ منحنی اور نفیس بوڑھا گریگری پیتورویچ اپنے لمبے سیاہ
کوٹ، پھولدار پینٹ، لمبے چمکیلے بوٹوں میں مشہورزمانہ گانے میں مذکور سُسر کی طرح
کھٹ پٹ چلتا پھرتا۔ پھر دکان کا تالا کھولا جاتا۔ جیسے ہی روشنی ہوتی ایک تیز
رفتاریکہ پورچ میں لایا جاتا، بُڈھا پھرتی سے اس میں چھلانگ لگا کر بیٹھ جاتا اور
اپنی نوکدار ٹوپی اپنے کانوں پر کھینچ لیتا۔ اس کو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا
تھا کہ اس کی عمر چھپن برس ہوچکی ہے۔ اس کی بیوی اور بہو اسے الوداع کہنے آتیں۔
ایسے موقع پر جب بڈھا برش کیے ہوئے صاف کوٹ میں ہوتا یکہ میں تنومند کالی گھوڑی
جُتی ہوتی جو اسے تین سو روبل میں پڑی تھی تو وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسان اس کے پاس
اپنی درخواستیں اور شکایتیں لے کر آئیں۔ کیونکہ وہ کسانوں کو حقارت کی نظرسے
دیکھتا تھا۔
جب
کبھی وہ کسی کو گیٹ کے پاس کھڑا دیکھتا تو غصے سے چلاتا۔
"تم وہاں کیوں کھڑے ہو۔ بھاگ جاؤ یہاں سے ۔"
اور
اگر کوئی فقیر ہوتا تو وہ چلاتا۔
"خدا تمہاری مدد کرے گا ۔"
پھر
وہ گاڑی میں سوار ہو کر اپنے کام پر چلا جاتا۔ اس کی بیوی گہرے رنگ کے لباس پر
سیاہ ایپرن پہنے کمروں کی صفائی کرتی یا باورچی خانے میں مدد کرتی۔ اکسینیا دُکان
میں کاﺅنٹر کے
پیچھے کھڑی نظر آتی۔ سکوں اور بوتلوں کے کھنکنے، اکسینیا کی گاہکوں سے الجھنے،
قہقہوں اور جھڑکیوں کی آوازیں، جب وہ ڈنڈی مارتی احاطہ سے سنائی دیتےں۔ صاف ظاہر
تھا دُکان کے اندر ووڈکا کی خفیہ خریدوفروخت ہو رہی ہے۔ بہرہ لڑکا یا تو دُکان میں
بیٹھا ہوتا یا گلی میںننگے سر ٹہل رہا ہوتا۔ کبھی جھونپڑیوں کو کبھی آسمان کو خالی
الذہن دیکھتا رہتا۔ دن میں چھ بار چائے پی جاتی اور کم از کم چار بار کھانا چُنا
جاتا۔ اور جب شام کو دن بھر کی کمائی گن لی جاتی اور اس کا اندراج کھاتے میں ہو
جاتا تو ہر کوئی بستر میں گہری نیند سو جاتا۔
یوکلیﺅ میں
کپڑے کی تینوں ملوںکے مالکوں خرمن (Khirminis)سینئر، خرمن
جونیئرز اور کوستیکوف (Kostyukov)کے درمیان ٹیلی
فون کے ذریعے رابطہ تھا۔ ٹیلی فون کی لائن ولوسٹ بورڈ تک بھی پہنچ چکی تھی۔ لیکن
کچھ عرصے بعد ہی ناکارہ ہوگئی تھی کیونکہ آلات میں تل چٹے اور کھٹمل داخل ہوگئے
تھے۔ ولوسٹ کے بڑے بوڑھے مشکل سے پڑھ لکھ سکتے تھے اور ہر لفظ بڑے حروف تہجی سے
شروع کرتے تھے لیکن جب ٹیلی فون سسٹم ناکارہ ہوگیا تو وہ کہنے لگے ”ہاں ہاں ٹیلی
فون کے بغیر گزارہ مشکل ہے“۔
سینئر
خرمن کی جونئیر خرمن کے ساتھ قانونی جنگ جاری رہتی جبکہ خرمن جونئیرز اکثر آپس میں
جھگڑتے رہتے اور معاملہ عدالت تک بھی گیا۔ ان کے جھگڑوں کی وجہ سے مل ایک یا دو
ماہ کے لیے بند ہو جاتی۔ تاوقتیکہ ان میں دوبارہ صلح ہوجاتی۔ یوکلیﺅ کے
لوگوں کواس سے کافی تفریح میسر ہوتی ہر جھگڑے سے بہت سی باتوں اور چہ میگویﺅں کے
لیے موقع مل جاتا۔ چھٹی کے دن کو سوتویکوف اور خرمن جونیر گاڑی پر سیر کے لیے
نکلتے۔ وہ یوکلیﺅ کے اندرگاڑی دوڑاتے جس سے بچھڑے کچلے
جاتے۔ ایسے موقع پر اکسینیا بہترین کپڑے پہنے دُکان کے سامنے چکر لگاتی رہتی اس کا
اکڑا ہوا پیٹی کوٹ پھڑپھڑاتا، جونئیر اس کو اپنی گاڑی میں اٹھا کر بٹھا لیتے بظاہر
جیسے سب کچھ اس کی مرضی کے خلاف ہو۔ بوڑھا تسی بکون بھی وارورا کے ہمراہ اپنی نئی
گھوڑی دکھانے کے لیے گاڑی پر نکل پڑتا۔
رات
کو سیر کے بعد، جب دوسرے لوگ بستروں میں سو چکے ہوتے بیش قیمت کنسٹرٹینا کے نغموں
کی آوازیں جونیئرز کے احاطے سے سنائی دیتیں۔ اگر چاندنی رات ہوتی تو موسیقی لوگوں
کے دلوں میں مسرت اور ارتعاش پیدا کردیتی اور یوکلیﺅ اتنا
برا نہیں لگتا تھا۔
۲
بڑا
لڑکا اینسم کبھی کبھار صرف خصوصی تعطیلات پر ہی گھر آتا تھا۔ لیکن وہ اکثر تحائف
اور خطوط بھیجتا رہتا۔ فل اسکیپ سائز کا پورا صفحہ ایک عرضداشت کی طرح ایک اجنبی
خوشنما تحریر سے بھراہوتا۔ خط ایسے جذبات سموئے ہوتا جو اینسم نے زبان سےکبھی ادا
نہیں کیے تھے۔ ”محترم والدین میں آپ کی جسمانی ضروریات کی تسکین کے لیے ہربل چائے
کا ایک پیکٹ ارسال کر رہا ہوں“۔ ہر خط پر ”اینسم تسی بکون“ کے دستخط اس طرح ثبت
ہوتے جیسے کوئی ٹوٹی نب استعمال کی گئی ہو۔ دستخط کے نیچے ایسی ہی خوبصورت تحریر
میں لفظ ”ایجنٹ“ لکھا ہوتا۔
خطوط
بلند آواز میں کئی بار پڑھے جاتے۔ بوڑھا آدمی جذبات سے متاثر ہو کر رندھ جاتا اور
کہتا۔
”وہ
یہاں گھر نہیں بیٹھا رہا۔ پڑھنے کے لیے گیا، خیر، کوئی بات نہیں، میں کہتا ہوں ہر
ایک اپنی مرضی کا مالک ہے“۔
شروٹائیڈ
سے صرف ایک روز پہلے اولوں کے ساتھ سخت بارش ہونے لگی۔ بوڑھا اور وارورا کھڑکی کے
قریب کھڑے باہر دیکھنے لگے۔ انہیں وہاں کون نظر آیا؟ اینسم۔ سٹیشن سے ایک گاڑی میں
آتا ہوا۔ کسی کو اس کے آنے کی توقع نہیں تھی۔ وہ کمرے میں مضطرب داخل ہوا۔ وہ اس
خوف کے زیر سایہ میں تھا جو دور نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن جلد ہی اس نے بے تکلفی کا
تاثر شروع کر دیا۔ اسے جانے کی جلدی نہیں تھی یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کی نوکری
ختم ہوگئی ہے۔ وارورا اس کی آمد سے خوش نظر آتی تھی۔ اس نے کائیاں نظروں سے دیکھا۔
آہ بھری اور اپنے سر کو ہلایا۔
”اوہ
خدایا یہ کیا ہے“۔ وہ حیرانی سے بولی ”اوہ چچ چچ۔لڑکا ستائیس برس کا ہوگیا ہے اور
ابھی تک کنوارہ ہے“۔
ملحقہ
کمرے میں بار بار چچ چچ کے علاوہ وہ کوئی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس نے بوڑھے
اور اکسینیا سے سرگوشی میں مشورہ کیا اور انہوں نے بھی خرانٹ اور پراسرار تاثرات
چہروں پر چڑھا لیے جیسے وہ کسی سازش میں شامل ہوں۔
فیصلہ
یہ ہوا کہ اینسم کی شادی کر دی جائے۔
"تمہارے چھوٹے بھائی کی عرصہ ہوا شادی ہو گئی"۔ وارورا
بولی "اور تم اکیلے پھرتے ہو جیسے کوئی اصیل مرغ بازار میں اینٹھتا پھرتا ہو۔
تم جانتے ہو اس طرح نہیں چلے گا۔ خدا کرے تمہاری شادی ہو جائے۔ پھر تم چاہو تو
اپنی نوکری پر واپس چلے جانا۔ تمہاری بیوی یہیں گھر پر رہے گی اور ہماری مدد کرے
گی۔ تمہاری زندگی میں کوئی سلیقہ نہیں۔ میرے بیٹے تم بھول گئے ہو کہ اپنی زندگی
میں سلیقہ پیدا کرلینے سے کیا ہو جاتا ہے۔ اوہ تم شہری چھوکرے!
چونکہ
وہ امیر لوگ تھے اس لیئے جب بھی تسی بکون خاندان میں سے کوئی شادی کا فیصلہ کرتا
تو اس کے لیے خوبصورت ترین دلہن تلاش کی جاتی۔ اس دفعہ بھی اینسم کے لیے ایک
خوبصورت لڑکی تلاش کی گئی۔ وہ خود غیر اہم، معمولی شکل و صورت، چھوٹے قد اور کمزور
پسلیوں والا آدمی تھا، اس کے گال پھولے ہوئے تھے اور یوں نظر آتا تھا جیسے وہ
پھونکیں مار رہا ہو، نہ جھینپنے والی دو تیز آنکھیں تھیں، اس کی سرخی مائل چھدری
داڑھی تھی اور جب خیالات میں ڈوبا ہوتا تو اسے اپنے منہ میں ٹھونس لیتا اور اس کے
سرے چباتا۔ وہ کثرت سے بے تحاشا شراب پیتا تھا یہاں تک کہ اس کا چہرہ اور چال بدل
جاتی۔ لیکن پھر بھی جب اسے بتایا گیا کہ اس کے لیے بیوی ڈھونڈ لی گئی ہے اور وہ
بہت خوبصورت ہے۔ تو اس نے کہا۔
”میری
بھیڈراونی شکل نہیں ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ تسی بکون خوبصورت لوگ ہیں ۔"
قصبے
سے کچھ ہی باہر توروگیوو(Torguyevo) نامی گاﺅں تھا
اس کا نصف کچھ عرصے سے قصبے کا حصہ بن گیا تھا جبکہ باقی نصف گاﺅںمیں
ہی شامل رہا تھا۔ قصبے والے نصف حصے میں ایک بیوہ اپنے گھر میں رہتی تھی اس کی ایک
بہت غریب بہن تھی جو دن کو کام کاج کے لیے نکل جاتی۔ اس بہن کی ایک لڑکی لائیپا
(Lipa) تھی
جو خود بھی دن میں کام کرتی تھی۔ لائیپا کے حسن کے چرچے پہلے ہی سے شہر میں عام
تھے۔ صرف اس کی غربت ہی تھی جو لوگوں کو اس سے دور رکھتی تھی۔ عمومی رائے یہی تھی
کہ کوئی بوڑھا، شاید کوئی رنڈوا، اس کی غربت کے باوجود اس سے شادی کرلے گایا اس کو
اپنے ساتھ رکھ لے گا۔ اور یوں اس کی ماں کو بھی کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا۔
وارورا نے وچولوں سے لائیپا کے بارے میں پوچھ گچھ کی اور توروگیوو کوچل پڑی۔
دلہن
کی باقاعدہ رونمائی لائیپا کی خالہ کے گھر میں ہوئی۔ شراب اور کھانا پیش کیا گیا۔
لائیپا گلابی رنگ کے لمبے فراک میں جو خصوصی طور پر اس موقع کے لیے سلایا گیا تھا،
پیش ہوئی۔ اس نے شعلہ زبان جیسا قرمزی رنگ کا ربن بالوںمیں لگایا ہوا تھا۔ وہ
زردرو، کمزور، دبلی اور نازک اندام لڑکی تھی۔ اس کی جلد کھیتوں میں کام کرنے سے
سنولا چکی تھی۔ ایک دبی افسردہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر منڈلاتی رہتی۔ لیکن اس کی
بچوں جیسی نظروں میں بھروسہ اور تجسس تھا۔
وہ
بہت نوجوان تھی جیسے کوئی چھوٹی سی لڑکی ہو۔ اس کا سینہ ابھی پوری طرح نہیںاُبھرا
تھا لیکن وہ اتنی بڑی ضرور تھی کہ اس کی شادی کی جا سکے۔ بلاشبہ وہ بہت خوبصورت
تھی۔ اس کے خلاف اگر کچھ کہا جاسکتا تھا تو وہ یہ تھا اس کے بڑے بڑے مردانہ ہاتھ
تھے جو بڑے بڑے سرخ پنجوں کی طرح اس کے پہلوﺅں پر
بے کار لٹکے رہتے۔
"ہمیں جہیز کی پرواہ نہیں۔" بوڑھے آدمی نے خالہ سے کہا۔ "ہم
نے اپنے بیٹے سٹیفن کی شادی بھی ایک غریب گھرانے میں کی تھی۔ ہم اس کی جتنی بھی
تعریف کریں کم ہے۔ وہ گھر اور دُکان میں سارا کام کرتی ہے ۔"
لائیپا
دروازے کے ساتھ کھڑی تھی وہ اپنے سارے وجود سے بول رہی تھی۔ "آپ جو چاہے مجھ
سے سلوک کریں مجھے آپ پر بھروسہ ہے ۔ " جبکہ لوگوں کے گھروں میں کام کرنے
والی، اس کی ماں، بزدلی کے زیراثر باورچی خانہ میں جا چھپی تھی۔ جب وہ جوان تھی
ایک تاجر کے گھر میںفرش کو صاف کر رہی تھی، تو تاجر نے اس کے پاﺅں پر
اپنا پاؤں مار دیا تھا۔ وہ خوف کی وجہ سے دہشت زدہ ہوگئی تھی۔ اس وقت سے اس کا
خوف دور نہیں ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ اور گھٹنے، یہاں تک اس کے گال خوف سے لرزتے رہتے
تھے۔ وہ کچن میں بیٹھی مہمانوں کی باتیں سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے
سینے پر صلیب کا نشان بناتی، اپنی انگلیوں سے ماتھا دباتی اور مقدس شبیہہ پر نظر ڈالتی۔
اینسم تھوڑا نشے میں ڈوبا کبھی کبھی باورچی خانے کا دروازہ کھولتا اور لاپرواہی سے
کہتا ۔"تم ہمارے پاس کیوں نہیں آ
جاتیں۔ ہماری پیاری ماں۔ ہم تمہاری کمی محسوس کر رہے ہیں ۔"
اور
پرسکووا (Proskovya)ہر بار اپنے سوکھے اور ڈھلکے پستانوں پر
ہاتھ رکھ کر کہتی۔
"اوہ حضور آپ کی بڑی مہربانی ۔"
بر
دکھائی کے بعد شادی کا دن مقرر ہوگیا۔ اینسم اپنے گھر کے کمروں میں سیٹیاں بجاتا
پھرتا۔ پھر اچانک اسے کوئی بات یاد آجاتی اور وہ گہری سوچوں میں ڈوب جاتا۔ وہ
سوراخ کر دینے والی نگاہوں سے فرش کو گھورتا جیسے وہ زمین کے اندر دیکھنے کی کوشش
کر رہا ہو۔ اس نے کبھی خوشی کا تاثر ہی نہیں دیا کہ اس کی شادی ہو رہی ہے اور وہ
بھی بہت جلد۔ ایسٹر پر۔ نہ ہی اپنی منگیتر کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ بس صرف
ہلکی ہلکی سیٹیاں بجاتا رہا۔ صاف نظر آتا تھا وہ صرف اپنے باپ اور سوتیلی ماں کی
خوشنودی کے لیے شادی کررہا ہے کیونکہ گاﺅں کا رواج تھا کہ
بیٹا شادی کرلے تاکہ گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹانے والا کوئی آ جائے۔ جب اس کے
جانے کا وقت آیا تو ظاہر ہوتا تھا اسے جانے کی جلدی نہیں۔ اس کا یہ انداز اپنے
پچھلے دوروں کے برعکس تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ اعتماد کے ساتھ بولتا رہا اور جو
بولتا تھا غلط تھا۔
۳
شیسکالووا
نامی گاﺅں میں
دو درزی بہنیں، دونوں*خلستی، رہتی تھیں۔ ان کو شادی کے جوڑے تیار کرنے کا حکم دیا
گیا۔ اکثر وہ تسی بکون کے گھر کپڑوں کی ٹرائی لینے آئیں۔ اس کے بعدوہ کافی دیر
چائے کے لیے بیٹھی رہتیں۔ وارورا کا لباس کتھئی رنگ کا تھا جس پر کالے رنگ کی لیس
اور ستارے لگے تھے۔ اکسینیا کا ہلکے سبز رنگ کا تھا جس کا فرنٹ پیلا تھا اوردامن
لمبا تھا۔ جب درزنوں نے اپنا کام مکمل کرلیا تو تسی بکون نے انہیں اجرت ادا کی
لیکن پیسوں کی صورت میں نہیں بلکہ اپنی دُکان سے چیزیں دے دیں۔ وہ رونی صورت بنائے
وہاں سے رخصت ہوئیں۔ انکے ہاتھوں میں بنڈل تھے جن میں چربی، موم بتیاں اور خشک
سارڈین مچھلی کے ٹن کے ڈبے تھے، یہ چیزیں ان کے کسی
کام کی نہیں تھیں۔ اور جب وہ گاﺅں سے باہر کھیتوں
میں پہنچ گئیں تو ایک ٹیلے پر بیٹھ کر رونے لگیں۔
اینسم
شادی سے تین روز پہلے نئے کپڑے پہنے ہوئے آیا۔ اس نے ربڑ کے چمکدار بوٹ پہنے تھے۔
ٹائی کی جگہ ایک سرخ رسی تھی۔ گٹھان کی جگہ تسبیح کے دانے تھے۔ اس نے بازونئے کوٹ
میں نہیں ڈالے تھے بلکہ اسے کندھوں پر ڈالا ہوا تھا۔
مقدس
شبیہوں کے سامنے خشوع و خضوع سے عبادت کرنے کے بعد اس نے اپنے والد کو سلام کیا
اور ایک روبل اور آدھے روبل کے دس دس سکے دئیے۔ اتنے ہی سکے وارورا کو دئیے لیکن
اکسینیا کو چوتھائی روبل کے بیس سکے دئیے۔ ان تحفوں کی اصل خوبصورتی یہ تھی کہ ہر
سکہ نیا تھا اور سورج کی روشنی میں چمکتا تھا۔ اپنی اس کوشش میں کہ وہ سنجیدہ اور
محترم نظر آئے اینسم نے اپنے چہرے کو سکیڑ لیا تھا اور گالوں کوپھلا لیا تھا ۔ وہ
بڑے ترنگ میں نظر آتا تھا۔ یقینا اس نے ہر سٹیشن کے ریفریشنمنٹ روم کو استعمال کیا
تھا۔ اس کے چلنے پھرنے میں اعتماد اور بناوٹ کی جھلک تھی۔ اینسم اور اس کے باپ نے
چائے پی اور پھرکھانے کے چند لقمے لیے۔ وارورا اپنے ہاتھوں میں نئے روبل سکوں کو
الٹتی پلٹتی رہی اور اپنے ان واقف کاروں کے بارے میں پوچھتی رہی جو اس کے گاﺅں سے
شہر چلے گئے تھے۔
”خدا کا
شکر ہے سب ٹھیک ہیں۔“ اینسم نے جواب دیا۔ ”ہاں یہ سچ ہے کہ ایوان یوگوریف
(Ivan Yegorov) کی خانگی زندگی اچھی نہیں۔ اس کی بوڑھی بیوی سوفیا نکی
فوروینا (Sofia Nikiforovana)مر گئی ہے۔ ٹی بی سے۔ انہوں نے
جنازے کا کھانا بیکری سے تیار کروایا۔ فی آدمی ڈھائی روبل لگے۔ وہاں شراب بھی تھی۔
وہاں ہمارے علاقے کے کچھ زمیندار بھی تھے۔ تمہیں پتہ ہی ہے ان پر بھی ڈھائی روبل
ہی لگے۔ لیکن انہوں نے کھایا کچھ نہیں۔ کسانوں کو چٹنی کے چٹخارے کا کیا پتہ!
"ڈھائی روبل " بوڑھا حیرانی سے اپنا سر ہلاتے ہوئے بولا۔
"ظاہرہے وہ کوئی گاﺅں تو ہے نہیں! تم
کسی ریستوران میں کچھ کھانے کے لیے داخل ہوتے ہو، ایک یاد دو ڈشوںکا آرڈر دیتے ہو،
کچھ دوست آجاتے ہیں تم ان کے ساتھ ایک دو گھونٹ پی لیتے ہو اور پتہ بھی نہیں چلتا
کہ سویرا ہو گیا ہے اور بیرا آجاتا ہے۔ برائے مہربانی تین یا چار روبل دے دیں۔ اور
اگر سموردوف(Samorodov) وہاں پر ہو تو وہ کافی اور برانڈی بھی
منگواتا ہے اور برانڈی کا ایک گلاس ساٹھ کوپک کا پڑتا ہے ۔"
"کیسے جھوٹ بولتا ہے ۔" بوڑھا داد دیتے ہوئے چلایا۔
”اوہ۔
اب تو میں ہمیشہ سموردوف کے ساتھ نکلتا ہوں۔ وہ تو میرے لیے خط بھی لکھتا ہے۔ ماں
تمہیں کیا بتاﺅں
سموردوف کیا آدمی ہے تم یقین نہیں کرو گی ۔ " اینسم وارورا سے مخاطب خوشی سے
بولتا چلا گیا۔ "ہم سب اسے مختار کہتے ہیں۔ وہ آرمینیوں کی طرح ہے۔ مکمل
سانولا۔ میں اسے ایسے ہی جانتا ہوں جیسے اپنی ہتھیلی کو۔ میں اس کے اندر جھانک
سکتا ہوں۔ ماںمجھے اس کے سارے معاشقوں کا پتہ ہے۔ اسے بھی اس کا پتہ ہے۔ وہ میرے ساتھ
چپکا رہتا ہے ہم دونوں جدا نہیں ہوسکتے۔ وہ مجھ سے تھوڑا خوفزدہ ہے لیکن اس کے
باوجود میرے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جہاں کہیں میں جاتا ہوں وہ بھی جاتا ہے۔ ماں میری
نظر بڑی تیز ہے۔ مثلاً ایک کسان ایک قمیض لنڈا بازار میں فروخت کر رہا ہے۔ رک جاﺅ، میں
چلاتا ہوں۔ یہ قمیض چوری کی ہے۔ اور میں صحیح ثابت ہوتا ہوں۔ وہ چوری کی نکلتی ہے ۔"
"تمہیں کیسے پتہ چلتا ہے ۔" وارورا
نے پوچھا۔
"میں نہیں جانتا۔ میرا خیال ہے مجھے خاص نظر عطا ہوئی ہے۔
مجھے قمیض کے بارے میںکچھ پتہ نہیں ہوتا لیکن وہ مجھے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ ہا۔ یہ
چوری کی ہے۔ اور بس اتنی سی بات ہے۔ جب میں کہیں جانے کے لیے باہر نکلتا ہوں تو
دفترمیں لوگ کہتے ہیں ”لو اینسم چلا شکار کو“۔ مسروقہ اشیاءکی نشاندہی کرنے کو یہی
کچھ کہتے ہیں۔ اور ہاں چوری ہر کوئی کرسکتا ہے لیکن اس کو سنبھالنا مشکل ہے۔ دنیا
بہت بڑی ہے لیکن اس میں چوری کی چیزیں رکھنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔"
"چوروں نے پچھلے ہفتے ہمارے گاﺅں میں
ایک بیل اور دو بھیڑیں گنٹروف کے ہاں سے چوری کرلیں“۔ وارورا نے سردآہ بھر کر کہا
”لیکن چوروں کا کھوج لگانے والا کوئی نہیں ہے ۔"
"کیوں نہیں! میں یہ کام کرسکتا ہوں۔ میں نے تو کبھی انکار
نہیں کیا ۔"
اپریل
کے ایک سرد لیکن روشن اور خوشگوار دن شادی کا دن آپہنچا۔ صبح ہی سے تین گھوڑوں
والی اور دو گھوڑوں والی گاڑیوں نے یوکلی میں
ہنگامہ برپا کر دیا۔ گھوڑوں کی ایالوں اور گاڑیوں کے بموں سے بندھے ربن پھڑپھڑا
رہے تھے۔ گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ بید کے درختوں پر بیٹھے کوﺅں نے
شور سے پریشان ہو کر کائیں کائیں شروع کر دی۔ سٹارلنگ(Starlings) مسلسل گا رہے تھے۔
جیسے وہ خوش ہوں کہ تسی بکون کے ہاں کوئی شادی ہو رہی ہے۔
گھر
کے اندر میزیں بچھا دی گئیں تھیں جن پر مچھلی، سور کا گوشت، شکار شدہ دم پخت
پرندے، چھوٹی مچھلیوں کے ٹِن اور ہر قسم کے اچار اور لاتعداد وائن اور ووڈکا کی
بوتلیں تھیں۔ ان سب پر دم پخت ساسیج اور ٹن کے ڈبوں میں بند جھینگوں کی خوشبو
چھائی ہوئی تھی۔ بڈھا میزوں کے گرد چھریوں کو ایک دوسرے سے رگڑ کر تیز کرتا پھرتا
تھا۔ ہرکوئی وارورا کو پکار رہا تھا۔ کبھی یہ مانگ رہا ہے تو کبھی وہ ۔ پھولے
سانسوں کے ساتھ مکمل طور بدحواس وہ کچن کے اندر اور باہر بھاگتی پھر رہی تھی جہاں
پر کوستیکوف کے ہاں سے آیا ہوا طباخ اور خرمن جونئیر کے ہاںسے آیا ہوا ہیڈ باورچی
صبح تڑکے سے کام میں جُتے ہوئے تھے۔ اکسینیا نے بال گھنگھریالے بنائے ہوئے تھے۔
فراک کے او پر کچھ نہیں پہنا تھا۔ چمچماتے بوٹوں میں وہ گرداب کی طرح احاطے میں اس
سبک رفتاری سے دوڑ رہی تھی کہ لوگوں کو صرف اس کے برہنہ گھٹنوں اور کھلے سینے کی
جھلک نظرآتی تھی۔ ہلڑ کے دوران کوسنوں اور قسمیں کھانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ کھلے
ہوئے گیٹ کے سامنے راہ گیر رک جاتے۔ ہر چیز کے سے یہ احساس ہوتا تھا کہ کوئی غیر
معمولی کام ہو رہا ہے۔
"وہ دلہن لینے گئے ہیں! "
گھنٹیوں
کی آوازیں سنائی دیں جو گاﺅں کے باہر آہستہ
آہستہ معدوم ہوگئیں۔ دو بجے کے فوراً بعد گھنٹیوں کی آواز دوبارہ سنائی دی۔ ہجوم
دیکھنے کے لیے آگے بڑھا ۔ وہ دلہن کو لا رہے تھے۔ چرچ بھراہوا تھا۔ بالائی خانچوں
پر شمعیں روشن تھیں اور بجھن منڈلی بوڑھے تسی بکون کی درخواست پر نئی دھن بجا رہی
تھی۔ چراغوں اور رنگین ملبوسات کی چکاچوند نے لائیپا کو خیرہ کردیا اسے یوں محسوس
ہو رہا تھا جیسے گویوں کی بھاری آوازیں اس کے دماغ پرچھوٹے چھوٹے ہتھوڑے برسا رہی
ہیں۔قیمتی لباس جو اس نے زندگی میں پہلی بار پہنا تھا، اور اس کے بوٹ اسے تنگ کر
رہے تھے۔ وہ یوں نظر آرہی تھی جیسے وہ بے ہوشی کے بعد ہوش میں آئی ہو اور ابھی تک
یہ سمجھ نہ پائی ہو کہ وہ کہاںپر ہے۔
اینسم
نے سیاہ کوٹ اور ٹائی کی جگہ سرخ رسی پہنی تھی۔ ایک ہی جگہ پر نظریں جمائے وہ گہری
سوچ میں غرق نظر آتا تھا۔ جب بجھن منڈلی نے بلند آواز میں گانا شروع کیاتو اس نے جلدی
سے صلیب کا نشان بنایا۔ وہ جذباتی ہوگیا تھا اور رونا چاہتا تھا۔ وہ اس چرچ سے اس
وقت سے واقف تھا جب وہ چھوٹا بچہ تھا اور اس کی مرحومہ ماں اسے گود میں لیئے عشائے
ربانی کے لیے آتی تھی۔ بعد میں وہ بچوں کے ساتھ بھجن منڈلی کے سٹیج پر کھڑا ہو کر
مذہبی گیت گاتا تھا۔ وہ چرچ کے ہر کونے اور ہر مذہبی شبیہہ سے واقف تھا۔ اور اب
یہاں اس کی شادی ہو رہی تھی۔ شادی، اس لیے کہ یہ کرنے والا کام تھا۔ وہ اس کے بارے
میں نہیں سوچ رہا تھا۔ یہ حقیقت کہ اس کی شادی ہو رہی ہے اس کے ذہن سے ہی نکل گئی
تھی۔ وہ آنسوﺅں کی
وجہ سے شبیہوں کو مشکل ہی دیکھ پا رہا تھا۔ اس نے دل پر بوجھ محسوس کیا۔ اس نے خدا
سے دعا کی کہ جو طوفان اس کے دماغ پر چھایا ہے اور جو کسی وقت برس سکتا ہے، گزر
جائے۔ ایسے ہی جیسے قحط میں گاﺅں کے اوپر سے پانی
سے بھرے بادل بارش کا ایک قطرہ برسائے بغیر گزر جاتے ہیں۔ اس نے ماضی میں اتنے
گناہ کئے تھے، اتنے زیادہ گناہ اور سب کچھ اتنا ناقابل تلافی تھا کہ معافی مانگنا
بے معنی لگ رہا تھا۔ لیکن پھر بھی اس نے معافی مانگی اور ایک دفعہ تو اونچی آواز
میں سسکی بھی لی لیکن کسی نے توجہ نہیں دی کیونکہ انہوں نے سمجھا کہ شاید وہ نشے
میں ہے۔
ایک
بچے کی خوفزدہ آواز آئی۔
"ماں مجھے یہاں سے لے چلو۔ لے چلو نا ۔"
"خاموش ہو جاؤ ۔" پادری چلایا۔
جیسے
ہی بارات چرچ سے نکلی ہجوم اس کے پیچھے بھاگا۔ دکان کے قریب، گیٹ کے پاس احاطے میں
اور کھڑکی کے نیچے دیوار کے ساتھ بھی ہجوم موجود تھا۔ عورتیں نوجوان جوڑے کو مبارکباد
دینے آئیں۔ جس لمحے ہی نوبیاہتا جوڑے نے مقررہ نشان پار کیا گلوکاروں نے جو داخلے
کے قریب تیار کھڑے تھے اونچی آواز میں گانا شروع کر دیا۔ سازندوں نے جو قصبے کے
باہر سے بلائے گئے تھے ساز بجانے شروع کر دئیے۔ لمبے گلاسوں میں جگمگاتی ڈان
شیمپئین بانٹی جارہی تھی۔ ٹھیکیدار اور بڑھئی یلیساروف(Yelisarov) جو ایک دبلا پتلا
لمبا بوڑھا آدمی تھا اور جس کی پلکیں اتنی گہری تھیں کہ آنکھیں مشکل سے ہی نظر آتی
تھیں، جوڑے سے مخاطب ہوا۔
" اینسم تم۔ اور بچی تم۔ ایک دوسرے کو پیار کرو۔ خدا کی راہ
پر چلو۔ مقدس مریم تمہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑے گی ۔" اس نے بوڑھے تسی بکون کے کندھوں پر اپنا سر رکھ
دیا اور ایک سسکی لی۔
"چلو روئیں، گریگری پیتروچ۔ چلو خوشی میں روئیں ۔" اس نے اپنی بھاری آواز میں سیٹی بجائی۔ پھر وہ
اچانک ہنسا اور گرجدار آواز میں کہنے لگا۔ "ہو ہو ہو۔! تمہاری یہ بہو بھی کتنی
خوبصورت ہے۔ سب کچھ ویسے ہی ہوا جیسے ہونا چاہیے تھا۔ کوئی کھڑکھڑاہٹ نہیں ہوئی۔
پوری روانی سے، مشینری صحیح چلی، تمام پرزے اپنی اپنی جگہ پر ۔"
وہ
یوگوروسک(Yegoryevsk) ضلع سے تھا۔ لیکن وہ نوجوانی سے ہی یوکلیﺅگاں کی
مل میں، یا ارد گرد کام کرتا چلا آیا تھا اور یہی سمجھتا تھا کہ وہ یہاں کا ہی
رہنے والا ہے۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا انہیں یہی لگتا تھا کہ وہ ہمیشہ سے ہی اتنا
بوڑھا، لمبا اور دبلا تھا جتنا اب ہے، سپائک (Spike)کے علاوہ اسے کوئی
دوسرے نام سے نہیں جانتا تھا۔ شاید فیکٹریوں میں چالیس سال نوکری کرنے کی وجہ سے،
جہاں اس نے صرف مرمت کا کام کیا تھا، وہ تمام انسانوں اور بے جاندار چیزوں کو ایک
ہی پیمانے سے ناپتا تھا۔ ان کی پائداری سے، انہیں کہیں مرمت کی ضرورت تو نہیں؟ اس
دن بھی میز پر بیٹھنے سے پہلے اس نے کئی کرسیوں کو جانچا کہ کیا وہ مضبوط ہیں؟
یہاں تک کہ اس نے کھانے سے پہلے سالومن مچھلی کو بھی دبا کر دیکھا۔
شیمپئین
اڑانے کے بعد وہ سب لوگ میزپر بیٹھ گئے۔ مہمانوں نے اپنی کرسیاں آگے کھینچ لیں اور
باتیں شروع کر دیں۔ گویے راہداری میں گاتے رہے۔ بینڈ بجتا رہا۔ اسی دوران عورتوں
نے جو احاطے میں اکٹھی ہوگئی تھیں، شادی کے گیت گانے شروع کر دئیے۔ بے ہنگم آوازوں
کا شور گڈمڈ ہو رہوا تھا۔ اتنا شور تھا کہ سر چکرا جائے۔
سپائک
اپنی کرسی میں بے چین ہو رہا تھا۔ ہمسایوں کو کہنیاں چبھو رہا تھا۔ ہر ایک کی بات
کاٹ رہاتھا۔ اس دوران وہ کبھی ہنستا کبھی روتا۔
"بچو، پیارے بچو، پیارے بچو ۔" وہ تیز تیز بولا "میری پیاری اکسینیا،پیاری وارورا۔ ہم سب
مل کر ایک دوسرے کے ساتھ پیارومحبت سے رہیں۔ میری پیاری چھوٹی چھوٹی کلہاڑیو ۔"
وہ
شراب کا عادی نہیں تھا۔* جِن کے پہلے ہی گلاس سے وہ مدہوش ہوگیا۔
یہ تلخ، متلی کرنے والا مشروب، نہ جانے کس چیز سے کشید کیا گیا تھا کہ جس کسی نے
اسے پیا اس کے ہوش اڑ گئے۔ آوازیں بیٹھ گئیں اور گفتگو بے ربط ہوگئی۔
مقامی
پادری، فیکٹریوں کے فورمین اپنی بیویوں کے ساتھ، تاجر اور نزدیکی دیہاتوں کے شراب
خانوں کے مالک میز کے گرد بیٹھے تھے۔ وولسٹ کا ناظم اور وولوسٹ کا کلرک، جو چودہ
برسوں سے اکٹھے کام کر رہے تھے یہاں ساتھ ساتھ بیٹھے تھے۔ ان تمام برسوں میں انہوں
نے نقصان یا فراڈ کئے بغیر کسی کے کاغذ پر دستخط نہیں کیے تھے۔ وہ فریب اور جھوٹ
سے اتنا تربتر ہو چکے تھے کہ ٹھگی ان کے چہروں کی جلد سے ٹپکتی تھی۔ کلرک کی لاغر
اور بھینگی بیوی اپنے تمام بچوں کو ساتھ لائی تھی اور ندیدے پرندے کی طرح بیٹھی
ہوئی تھی۔ کبھی ایک پلیٹ کو دیکھتی کبھی دوسری کو۔ جو کچھ اس کے سامنے آتا اس پر
جھپٹ پڑتی اپنے اور اپنے بچوں کی جیبوں میں ٹھونستی جاتی۔
لائیپا
بت بنی بیٹھی تھی۔ اس کے چہرے پر وہی تاثرات تھے جو چرچ میں تھے۔ جب سے ان کا
تعارف ہوا تھا اینسم نے اس وقت سے ایک لفظ بھی نہیں بولا تھا اس لیے اس کو ابھی تک
پتہ نہیں تھا کہ اس کی آواز کیسی ہے۔ وہ اس کے قریب خاموشی سے بیٹھا جِن پیتا رہا۔
جب اسے نشہ چڑھ گیا تو وہ میز کی دوسری جانب بیٹھی لائیپا کی خالہ سے بولا۔
”میرا
ایک دوست ہے جس کا نام سموردوف ہے۔وہ عام آدمی نہیں ہے۔ ایک معزز شہری ہے۔ اور
جانتا ہے کہ کیسے بات چیت کی جاتی ہے لیکن میں اس کے اندر جھانک سکتا ہوں۔ آنٹی۔
اور اسے اس بات کا علم ہے۔ آنٹی چلیں سموردوف کی صحت کے لیے جام پئیں“۔
وارورا
میز کے گرد چکر لگا رہی تھی۔ مہمانوں سے اصرار کر رہی تھی کہ وہ کچھ کھائیں۔ وہ
تھکاوٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی تھی۔ مگر خوش تھی کہ کھانے کے لیے بہت کچھ تھا
اور ہر چیز بڑے پیمانے پر ہوئی تھی۔لوگ باتیں نہیں بنا سکتے تھے۔ سورج غروب ہوگیا
لیکن کھانا جاری تھا۔ مہمانوں کو شاید ہی پتہ ہو کہ وہ منہ میں کیا ڈال رہے ہیں۔
کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ کبھی کبھار جب موسیقی کا شور چند لمحوں کے
لیے مدھم ہوتا تو باہر سے ایک کسان عورت کی آواز سنائی دیتی۔
”تم نے
ہمارا خون چوس لیا ہے، ظالمو، پاجیو تمہیں طاعون کی بیماری لگے“۔
شام
کو بینڈ کی دھنوں پر رقص ہوا۔ خرمن جونئیر، خود اپنی شراب لے کر آئے اور ان میں سے
ایک نے کوڈریل* ناچ کے دوران دونوںہاتھوں میں بوتلیں پکڑی تھیں اور دانتوں میں
گلاس دابا ہوا تھا۔ اس منظر سے لوگ بہت محظوظ ہوئے۔ کچھ لوگوں نے کوڈریل(Quadrille) رقص
کاانداز بدل دیا۔ روسی انداز میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور ٹانگیں ہوا میں
چلائیں۔ سبز لباس میں ملبوس اکسینیا اپنے سائے کو ہوامیں اڑاتی ہوئی بجلی کی مانند
کوند رہی تھی۔ ایک رقاص کے پاﺅں کے نیچے آنے سے
اس کے دامن کی جھالر ادھڑ گئی۔
سپائک
چلایا۔
”بچو،
بچو تم نے بنیاد اکھیڑ دی ہے۔“
اکسینیا
کی معصوم آنکھیں بھوری تھیں جو کم ہی جھپکتیں۔ ایک معصوم مسکراہٹ اس کے چہرے پر
ہمیشہ کھیلتی رہتی۔ ان نہ جھپکنے والی آنکھوں میں، لمبی گردن پر چھوٹے سے سر، اور
اس کے جسم کی لوچ میں سانپ جیسی مشابہت تھی۔ سبز لباس، زرد سینے اور مستقل مسکراہٹ
کے ساتھ وہ زہریلے سنپولیے کی طرح نظر آتی تھی جو موسم بہار کی نوخیز رائی کی فصل
میں سے گردن بلند کئے آنے جانے والے مسافروں کو دیکھتا رہتا ہے۔ خرمن برادران اس
کے ساتھ معمول کی جان پہچان ظاہر کر رہے تھے اور یہ بڑا واضح تھا کہ سب سے بڑے
بھائی کے ساتھ اس کے بہت پرانے گہرے تعلقات ہیں۔ لیکن اس کے بہرے خاوند کو کچھ نظر
نہیںآیا بلکہ اس نے ان کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ وہ آلتی
پالتی مارے، بادام کھاتا رہا جن کے خول کے ٹوٹنے سے گولی چلنے کی آواز آتی تھی۔ تب
بوڑھا تسی بکون رقص گاہ میں اپنا رومال لہراتا داخل ہوا۔ جس سے یہ ظاہر کرنا مطلوب
تھا کہ وہ بھی رقص کرنا چاہتا ہے۔ کمرے کے ایک سرے سے دوسرے تک بھنبھناہٹ جیسی
آواز پھیل گئی اور احاطے سے آوازیں آئیں۔
”خود
رقص کرنے لگا ہے۔ خود۔"
رقص
اصل میں صرف وارورا نے کیا۔ بوڑھے نے تو صرف موسیقی کے ساتھ ساتھ رومال لہرایا اور
اپنی ایڑیوں کے ساتھ تال دی۔ لیکن باہرکھڑکی پر اپنا دباﺅ
بڑھاتا ہوا اور درزوں سے جھانکتا ہوا مشتاق ہجوم خوش ہو رہا تھا۔ کچھ دیر کے لیے
انہوں نے اس کی ساری ناانصافیوں اور ساری لوٹ کھسوٹ کو نظر انداز کردیا تھا۔
”گریگوری
پیتروچ کرتے رہو۔لگے رہو“۔ وہ احاطے سے چلائے۔ بوڑھے کتے میں ابھی بھی جان ہے۔ ہا
ہا ہا!“۔
ایک
بجے کے بعد پُرمسرت ہنگامہ ختم ہوا۔ اینسم گلوکاروں اور موسیقاروں کے پاس ڈگمگاتا
ہوا گیا اور الوداعی تحفے کے طور پر ہر ایک کو آدھے روبل کا نیا سکہ پیش کیا۔
بوڑھے
آدمی کے قدموں میں لڑکھڑاہٹ تو نہیں مگر لغزش تھی۔ مہمانوں کو الوداع کہتے ہوئے وہ
ہر ایک سے کہہ رہا تھا۔
”شادی
پر دو ہزار روبل لگ گئے ہیں ۔"
جب
لوگ جا رہے تھے تو یہ خبر ملی کہ کوئی آدمی شکالوف (Shikalovo)کے شراب خانے کے
کسی مالک کا نیا کوٹ لے گیا ہے اور پرانا چھوڑ گیا ہے۔اینسم اچانک چوکس ہوگیا اور
چلایا۔
”ٹھہر
جاﺅ میں
ابھی ڈھونڈ نکالتا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کون لے گیا ہے۔ میں کہتا ہوں ٹھہر جاﺅ۔“
وہ ایک مہمان کو پکڑنے کے لیے باہر سڑک کی
طرف بھاگا لیکن لوگ اسے پسینے میں بھیگے، شراب کے نشے میں چور پکڑ کر گھر لے آئے
اور ایک کمرے میں دھکیل دیا۔ جہاں آنٹی لائیپا کے کپڑے تبدیل کروا رہی تھی۔ دروازہ
ان کے لیے بند کر دیا گیا۔
پانچ
روز گزر گئے۔ جانے سے پہلے اینسم وارورا کو الوداع کہنے بالائی منزل پر گیا۔ مقدس
شبیہوں کے سامنے لیمپ روشن تھے اور کمرے میں لوبان کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔
وارورا کھڑکی کے قریب بیٹھی سرخ رنگ کی اونی جراب بن رہی تھی۔
”ہوں!
تم ہمارے پاس زیادہ عرصہ نہیں رہے۔“ اس نے کہا۔ ”تم ہم سے تنگ آگئے ہو؟ مجھے تو
یہی لگتا ہے! ہماری زندگی یہاں اچھی ہے۔ ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔ ہم نے تمہاری شادی
بڑے اچھے طریقے سے کی۔ سب کچھ ایسے ہی ہوا جیسے کہ ہونا چاہیے تھا۔ بڈھا کہتا ہے
کہ اس پر دو ہزار روبل لگ گئے۔ کہنے کو تو ہم بڑے دولت مندوں کی طرح رہ رہے ہیں۔
لیکن یہاں پر رہنا بے کیف ہے۔ ہم لوگوں کے ساتھ اچھا برتاﺅ نہیں
کرتے۔ میرے بیٹے! میرا دل دکھتا ہے جس طرح کا سلوک ہم ان سے کرتے ہیں۔ اوہ میرے
خدایا! ہم ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں؟ چاہے ہم گھوڑے کا لین دین کریں ،کوئی
چیز خریدیں یا ان کو مزدوری پر رکھیں، ہر چیز میں دھوکا ہوتا ہے۔ دھوکے کے سوا کچھ
نہیں۔ بناسپتی گھی ہماری دُکان پر کھٹا ہوگیا ہے۔ بدبودار۔ تارکول اس سے زیادہ
میٹھا ہوگا۔ اب تم مجھے بتاﺅ کیا تمہارے خیال
میں ہمارے پاس اچھاتیل بیچنے کی استطاعت نہیں ہے۔“
”ماں۔
ہر ایک کا اپنا اپنا مقدر ہے“۔
”کیا ہم
نے مرنا نہیں؟ اوہ! تم اپنے باپ سے بات کیوں نہیں کرتے۔ ابھی نہیں کر سکتے۔؟“
”تم خود
کیوں نہیں بات کرتیں“؟
”آہ! جب
میں اپنے دل کی بات کرتی ہوں تو وہ وہی جواب ملتا ہے جو تم نے دیا ہے۔ ہر ایک کا
اپنا اپنا مقدر ہے۔ لیکن اگلی دنیا میں کوئی نہیں پوچھے گا کہ تمہیں کیا ملا تھا
اور دوسروں کو کیا ملا تھا۔ خدا تو صرف انصاف کرے گا۔“
”
کوئی
نہیں پوچھے گا اس بارے میں۔“ اینسم نے آہ بھری اور کہا۔ ”کوئی خدا نہیں ہے۔ ماں!
اس لیے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا۔“
وارورا
نے اسے حیرت سے دیکھا، ہنسی اور اپنے بازو جھٹکے۔ اس کے بے پایاں تحیر اور اس کے
دیکھنے کے انداز نے جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اسے پاگل سمجھتی ہے، اینسم کو
پریشان کر دیا۔
”خیر،
شاید خدا ہے لیکن اب اس پر کوئی یقین نہیں کرتا“۔ اس نے کہا ”جب میری شادی ہو رہی
تھی تو سب کچھ مجھے مذاق لگ رہا تھا۔یوں لگا جیسے کسی مرغی کے نیچے سے انڈا نکالا
جائے اور اچانک اس کے اندر سے چوزے کی آواز آنی شروع ہو جائے۔ میں نے بھی اپنے
ضمیر کی چوں چوں کی آواز سنی۔ اور جب شادی ہو رہی تھی تو مجھے خیال آیا۔’خدا موجود
ہے۔‘ لیکن جب میں چرچ سے نکلا تو سب ماضی بن چکا تھا۔ اور مجھے پتہ کیسے لگے گا کہ
خدا موجود ہے یانہیں؟ جب ہم بچے تھے ہمیں یہ چیزیں نہیں پڑھائی گئیں۔ جب بچہ اپنی
ماں کی چھاتی سے چمٹا ہوتا ہے تو اسے کوئی اور الفاظ سنائی نہیں دیتے سوائے اس
کے۔’ہر ایک کا اپنا اپنا مقدر ہے۔‘ ابا بھی خدا پر یقین نہیں رکھتے۔ تمہیں یاد ہے
تم نے مجھے ایک دفعہ بتایا تھا کہ گنٹروف کے ہاں سے کچھ بھیڑیں چوری ہوگئیں؟ خیر،
مجھے اس کے بارے میں سب پتہ لگ گیا ہے۔ شیکالوف کے ایک کسان نے انہیں چرایا تھا۔
ہاں یہ اسی نے چرائی تھیں۔ لیکن ان کی کھالیں ابا کی دُکان میں پہنچ گئیں۔ یہی ہے
ان کا دھرم“۔
اینسم
نے آنکھ ماری اور سر ہلایا۔
”دیہات
کے بڑے بوڑھے بھی خدا پر یقین نہیں رکھتے“۔ وہ بولتا چلا گیا ”نہ ہی پادری اور
گرجے کے پاسبان۔ اگر وہ چرچ جاتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں تو اس لیے کہ لوگ باتیں
نہ کریں اور شاید اس لیے کہ کیا پتہ یوم حساب آہی جائے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دنیا
اب ختم ہونے کو ہے، مرد اب کمزور ہوگئے ہیں اپنے والدین کا خیال نہیں رکھتے اور
اسی قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن یہ سب بے کار کی باتیں ہیں۔ ماں میرا تو یہی خیال
ہے۔کہ ہماری ساری مشکلات ان لوگوں کی وجہ سے آتی ہیں جن میں اب ضمیر نام کی شے
نہیں رہی۔ میں لوگوں کے اندر جھانک سکتا ہوں۔ ماں میں انہیں جانتا ہوں۔ میں جب
کوئی چرائی ہوئی قمیض دیکھتا ہوں تو میں جانتا ہوں کہ یہ چرائی ہوئی ہے۔ سرائے میں
بیٹھے ہوئے آدمی کو آپ چائے پیتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن میں نہ صرف یہ دیکھ لیتا
ہوں کہ وہ چائے پی رہا ہے بلکہ یہ بھی کہ اس کا کوئی ضمیر نہیں ہے۔ آپ سارا دن
پھرتے رہیں لیکن ایک آدمی بھی نہیں ملے گا جس کا ضمیر ہو۔ صرف اس لیے کہ کوئی آدمی
نہیں جانتا کہ خدا ہے یا نہیں۔ خیر! ماں۔ خدا حافظ! اپنی صحت کا خیال رکھنا اور
میرے لیے دعا کرنا“۔
اینسم
نے وارورا کے سامنے فرشی سلام کیا۔
”ماں ہم
تمہاری ہر مہربانی کے لیے شکرگزار ہیں۔“ اس نے کہا ”تم ہمارے خاندان کے لیے رحمت
ہو۔ تم ایک نیک عورت ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں۔“
اینسم
جذبات سے مغلوب کمرے سے باہر نکل گیا لیکن پھر لوٹ آیا اورکہا:
”سموردوف
نے کچھ معاملات میں گھسیٹ لیا ہے یا تو میں بہت امیر ہو جاﺅں گا
یا پھر کنگال۔ ماں اگر کوئی ایسی ویسی بات ہوگئی تو میرے والدین کی ڈھارس
بندھانا“۔
”ایسا
مت کہو۔ خدا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ لیکن اینسم! میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی بیوی کا
خیال رکھو۔ تم ایک دوسرے کو جنگلی جانوروں کی طرح دیکھتے ہو۔ کبھی چہرے پر مسکراہٹ
نہیں ہوتی۔ کبھی بھی نہیں۔“
”وہ
عجیب لڑکی ہے“ اینسم نے آہ بھر کر کہا۔ ”وہ کچھ نہیں سمجھتی اور کوئی لفظ زبان سے
نہیں بولتی۔ اس میں ابھی لڑکپن ہے۔ اسے اب بڑا ہو جانا چاہیے“۔
یکے
میں جتا ایک اونچا پلا ہوا سفید گھوڑا پورچ میں اس کا منتظر تھا۔
بوڑھا
تسی بکون بانکپن سے چھلانگ لگا کر یکے میں بیٹھ گیا اور لگامیں سنبھال لیں۔ اینسم
نے اپنے بھائی، وارورا اور اکسینیا کو بوسہ دیا۔ لائیپا بھی پورچ میں کھڑی تھی۔ وہ
بے حس و حرکت کھڑی رہی اور دوسری طرف دیکھتی رہی۔ اور اپنے خاوند کو الوداع کہنے
کے لیے نہیں آئی۔ جیسے وہ پورچ میں نصب ہو۔ اینسم اس کی طرف بڑھا اور ہمیشہ کی طرح
اس کی گالوں کو آہستگی سے ہونٹوں سے مس کیا۔
”خدا
حافظ" اس نے کہا۔
لائیپا
نے اس کی طرف نہیںدیکھا۔ لیکن اس کے چہرے پر ایک عجب سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس کا
چہرہ کپکپایا۔ ہر ایک کو اس کی حالت پر دکھ ہوا۔ یہ جانے بغیر کہ کیوں۔ اینسم بھی
چھلانگ لگا کر گاڑی میں بیٹھ گیا اس کے دونوں ہاتھ کمر پر تھے جیسے اس کو اپنی شکل
و صورت پر بڑا گھمنڈ ہو۔
جب
گاڑی گھاٹی کی چڑھائی چڑھ رہی تھی تو اینسم گاﺅں کی
طرف دیکھتا رہا۔ یہ ایک گرم اور روشن دن تھا۔ نئے سال میں پہلی بار مویشیوں کو
چرنے کے لیے باہر لے جایا جا رہاتھا۔ ان کے ساتھ جاتی ہوئی عورتوں اور لڑکیوں نے
ایسا لباس پہنا تھا جیسے تعطیلات منا رہی ہوں۔ ایک سرخ بیل نے زمین پر سم مارتے
ہوتے زور سے ڈکار لی جیسے اپنی آزادی پر خوشی منا رہا ہو۔ ہر طرف اوپر اور نیچے
لارکیںگیت گارہی تھیں۔ اینسم نے چرچ کی طرف مڑ کر دیکھا جو بہت سفید اور پروقار
نظر آرہاتھا۔ کیونکہ حال ہی میں اس پر سفیدی ہوئی تھی۔ اور اسے یاد آیا کہ پانچ دن
پہلے وہاں پر اس نے کیسے عبادت کی تھی۔ پھر اس نے سکول کی سبز چھت کو دیکھا اور اس
ندی کو جس میں وہ نہاتا تھا اور مچھلیاں پکڑتا تھا۔ اس کے دل میں مسرت پھوٹ پڑی
اور اس کے دل میں خواہش نے جنم لیاکہ اچانک ایک دیوار زمین سے نکل کر کھڑی ہو جائے
اور اسے آگے نہ جانے دے۔ اس کے پاس ماضی کے سوا کچھ نہ رہ جائے۔
جب
وہ اسٹیشن پر پہنچے تو انتظار گاہ گئے اور دونوں نے شیری کا ایک ایک گلاس پیا۔
بوڑھے آدمی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور اس میں سے پرس نکالا لیکن اینسم نے کہا
”پیسے میں دوں گا۔“
بوڑھا
آدمی متاثر ہوا اس نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور بارپر کھڑے آدمی کو آنکھ ماری
جیسے کہہ رہاہو ”دیکھو میرا بیٹا کیسا ہے“۔
”اینسم
میری تمنا ہے کہ تم گھر پر رہو اور بزنس میں میری مدد کرو“۔ اس نے کہا ”تم میرے
لیے انمول ہو۔ میں تمہیں سونے سے نہلا دوں گا“۔
”نہیں
نہیں۔ پاپا میں یہ نہیں کرسکتا“۔
شیری
تلخ تھی اور تارپین کی بُو دے رہی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے ایک ایک گلاس اور
پیا۔
جب
بڈھا سٹیشن سے واپس لوٹا تو اس کے لیے اپنی جوان بہو کو پہچاننا مشکل ہوگیا۔ جیسے
ہی خاوند گھر سے نکلا تھا لائیپا ایک خوش مزاج نوجوان عورت بن چکی تھی۔ پرانی سکرٹ
میں، ننگے پاﺅں،
آستین بازوﺅں تک
چڑھائے وہ پورچ کی سیڑھیاں دھو رہی تھی۔ اونچی اور مترنم آواز میں گارہی تھی اور
جب وہ گندے پانی کا بھاری ٹب باہر لائی اور سورج کی طرف اپنی بچوں والی مسکراہٹ سے
دیکھا تو وہ خود بھی کوئی لارک لگ رہی تھی۔
ایک
بوڑھے آدمی نے جو اس وقت پورچ کے پاس گزر رہا تھا اپنا سر ہلایا اور گلا صاف کیا۔
”گریگری
پیتروچ خدا نے تمہیں کیا بہو دی ہے“۔ پھر خود ہی بولا ”واقعی ایک خزانہ ہے“۔
۵
جولائی
کی آٹھ تاریخ کو، جمعہ کے روز، لائیپا اور یلسیاروف عرف سپائک، کازنسکوئی(Kazanskoye)
نامی
گاﺅں سے
واپس آرہے تھے جہاں وہ کازان میڈونا (Kazan madona)کا دن منانے گئے
تھے۔ جو وہاں کے چرچ کی بڑی ولی تھی۔ ان کے کافی پیچھے لائیپا کی ماں آرہی تھی۔ وہ
بیمار تھی اور اس کا سانس پھول جاتا تھا۔ شام ہونے والی تھی۔
”ہو ہو
اوہ“ سپائک لائیپا کی ”ہو ہو اوہ“ سن کر پکارا۔
”الیامکارچ
مجھے مربہ بہت پسند ہے۔" لائیپا کہہ
رہی تھی۔ ”میں ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہوں چائے پیتی ہوں اور مربے کھاتی ہوں۔ یا
پھر میں وارورا نکولائینا کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتی ہوں۔ وہ مجھے خوبصورت مگر
اداس کردینے والی باتیں سناتی ہے۔ ان کے پاس مربے کے چار مرتبان بھرے پڑے ہیں۔ وہ
مجھے یہی کہتے رہتے ہیں۔ کھاتی جاﺅ لائیپا۔ اپنے آپ
کو بھوکا مت مارو“۔
”چار
مرتبان۔"
”ہاں!
وہ بڑے امیر ہیں۔ وہ چائے کے ساتھ سفید ڈبل روٹی کھاتے ہیں اور گوشت تو جتنا مرضی
کھاﺅ۔ وہ
بہت امیر ہیں۔ لیکن الیا مکارچ میں ہمیشہ پریشان رہتی ہوں۔ اوہ! میں کتنا ڈرتی ہوں۔"
”بیٹے!
تم کس چیز سے ڈرتی ہو“۔ سپائک نے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے کہا کہ کہیں پروسکووا
بہت پیچھے تو نہیں رہ گئی۔
”سب سے
پہلے تو میں شادی کے بعد اینسم گریگوچ سے خوفزدہ تھی۔ وہ برا نہیں ہے اس نے مجھے
کبھی نقصان نہیں پہنچایا لیکن وہ جب کبھی بھی وہ میرے قریب آتا ہے میری جلد ہڈیوں
سے چمٹ جاتی۔ میں رات بھر جاگتی اور کانپتی رہتی ہوں اور دعائیں مانگتی ہوں۔ اور
اب میں الیامکارچ، اکسینیا سے خوفزدہ ہوں۔ ویسے تو وہ ٹھیک ہے۔ وہ ہر وقت ہنستی
رہتی ہے لیکن بعض اوقات جب وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہوتی ہے تو اس کی آنکھوں میں
چمک ہوتی ہے اور اس میں سبز روشنی ہوتی ہے جیسے اندھیرے میں بھیڑئیے کی آنکھوں
میں۔ خرمن جونئیر اس کو بہلا پھسلا رہے ہیں۔ ”تمہارے بوڑھے کے پاس بوتیکینو(Butekino)
میں
زمین کا ایک پلاٹ ہے یہاں سے کوئی چالیس کوس پر“۔ وہ کہتے ہیں۔ ”زمین ریتلی ہے اور
وہاں قریب ندی بھی بہتی ہے۔ تم وہاں اپنا بھٹہ کیوں نہیں لگا لیتی۔ ہم تمہارے
ساجھے دار بن جائیں گے۔“ اینٹیں آج کل بیس روبل کی ایک ہزار ملتی ہیں۔ دولت کا
ڈھیر لگ جائے گا۔ کل رات ڈنر پر اکسینیا نے بوڑھے سے کہا ”میں بوتیکینو میں ایک
بھٹہ لگانا چاہتی ہوں۔ میں اپنا بزنس شروع کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے یہ ہنستے ہوئے
کہا تھا لیکن گریگوری پیتروچ کا چہرے کارنگ سیاہ پڑ گیا۔ اس کی شکل سے معلوم ہو
رہا تھا کہ اسے یہ بات پسند نہیں آئی۔ اس نے کہا ”جب تک میں زندہ ہوں کوئی علیحدہ
کام نہیں کرے گا۔ ہم سب اکٹھے رہیں گے“۔ اکسینیا نے دانت پیسے اور کھا جانے والی
نظروں سے دیکھا۔ جب میٹھی ڈش پیش کی گئی تو اس نے نہیں کھائی۔
”ہا۔“
سپائک چلایا۔ ”اس نے نہیں کھائی۔“
”اور
میں جانتی ہوں وہ کب سوتی ہے“۔ لائیپا بولتی رہی۔ ”وہ آدھ گھنٹہ لیٹی رہتی ہے اور
پھر اٹھ بیٹھتی ہے اور چلنا شروع کر دیتی ہے چلتی رہتی ہے، چلتی رہتی ہے اور ہر
کونے کھدرے میں دیکھتی ہے کہ کسانوں نے کوئی چیز جلا تو نہیں دی یا چرا تو نہیں
لی۔ الیا میکارچ مجھے اس سے خوف آتا ہے۔ اور شادی کے بعد خرمن جونئیرز بھی نہیں
سوئے اور وہ سیدھے عدالت گئے اور لوگ کہتے ہیں یہ سب اکسینیا کی وجہ سے ہے۔ دو
بھائیوں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اسے بھٹہ لگا کر دیں گے لیکن تیسرا اس پر
رضامند نہیں تھا۔ اس لیے مل تقریباً ایک مہینے بند رہی اور میرا چچا پروخور
(Prokhor)بے
روزگار ہوگیا۔ وہ گھر گھر جا کر روٹی مانگتا پھرتا تھا۔ میں نے اس سے کہا۔ تم
کھیتوں میں جاکرکام کرو یا لکڑی کاٹو اس طرح در بدر کیوں پھرتے ہو۔ وہ کہتا ہے میں
اب کھیتوں میں کام کرنا بھول گیا ہوں“۔
وہ
سفیدے کے نوخیز ذخیرے کے قریب رک گئے تاکہ پروسکووا ان کے ساتھ آملے۔ یلیساروف ایک
عرصے سے ٹھیکیداری کررہا تھا لیکن اس کے پاس کوئی گھوڑا نہیں تھا۔ وہ سارے ضلع میں
پیدل گھومتا تھا، اس کے کندھے پر ایک تھیلے میں روٹی اور پیاز ہوتاتھا۔ وہ جھولتے
بازوﺅں کے
ساتھ لمبے ڈگ بھرتا چلتا تو اس کے ساتھ قدم ملانا بڑا مشکل ہوتا۔
جھاڑیوں
کے اختتام پر ایک سنگ میل نصب تھا۔ یلیساروف نے ہاتھ لگا کر دیکھا کہ کیا وہ اتنا
ہی مضبوط ہے جتنا نظر آتا ہے۔ پروسکووا لمبے لمبے سانس لیتی ہوئی ان سے آملی۔ اس
کا جھریوں بھرا اور مستقلاً گھبرایا ہوا چہرہ مسرت سے روشن تھا کیونکہ آج اسے بھی
چرچ جانے کا موقع ملا تھا۔ وہ میلے میں بھی گئی تھی اور وہاں ناشپاتی سے بنی شراب
پی تھی۔ اس کی زندگی میں ایسے موقعے روز روزنہیںآتے تھے۔ اسے لگتا تھا کہ آج کا دن
ہی اس کی زندگی میں خوشی کا دن تھا۔ کچھ دیر سستانے کے بعد وہ تینوں ساتھ ساتھ چل
پڑے۔ سورج ڈوب رہا تھا جھاڑیوں سے چھن چھن کر آتی کرنیں درختوں کے تنوں کو روشن کر
رہی تھی۔ کچھ دور آگے کہیں سے آوازوں کی بھنبھناہٹ سنائی دی۔ یوکلیﺅ کی
لڑکیاں بہت دور سروٹوں کے پیچھے نظر آئیں۔ وہ شاید مشروم ڈھونڈ رہی تھیں۔
”ہائے
لڑکیو! ہائے میری پیاری حسینو!“ یلیساروف چلایا۔ اس کی آواز کا جواب قہقہوں سے
ملا۔” سپائک آیا۔ سپائک، بڈھا کھوسٹ۔“
قہقہوں
کی گونج سنائی دی۔ فیکٹری کی چمنیاں اور گرجے کے گھنٹہ گھر کے اوپر لگی، چمکتی
صلیب نظر آنا شروع ہوگئی۔ گاﺅں آگیا تھا۔ ”وہی
جگہ جہاں دعوتِ مرگ پر سیکٹون مچھلی کا سارا اچار کھا گیا تھا“۔ وہ جلد گھر پہنچ
جائیں گے۔ انہیں اب صرف ڈھلان اترنی تھی۔ لائیپا اور پروسکووا جو ننگے پاﺅں چل
رہی تھیں بیٹھ گئیں تاکہ اپنے جوتے پہن سکیں۔ ٹھیکیدار بھی ان کے ساتھ گھاس پر
بیٹھ گیا۔ بلندی سے یوکلیﺅو اپنے بید کے
درختوں، اپنے سفید چرچ اور چھوٹے سے دریا کی وجہ سے خوبصورت تصویر کی مانند نظر
آرہا تھا۔ لیکن مل کی چھت کی وجہ سے سارا تاثرزائل ہوگیا تھا، جس میں شاید بچت کے
لیے افسردہ رنگ استعمال کیے گئے تھے۔ گھاٹی کی دوسری جانب اترائی پر رائی نظر آتی
تھی۔ جسے کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی طوفان نے پولیوں میں،
گنجیوں میں انہیں لا کر ذخیرہ کردیا ہو۔ جئی بھی پک چکی تھی اور ڈوبتے سورج کی
کرنوں میں آبدار موتیوں کی طرح چمک رہی تھی۔
کٹائی
پورے زوروں پر تھی۔ آج چھٹی کا دن تھا کل وہ پھر جمع ہوں گے۔ پھر اگلا دن اتوارکا
دن ہوگا۔ پھر چھٹی کا دن۔ ہر روز کہیں نزدیک ہی گرج چمک ہوتی تھی۔ فضا میں حبس تھا
یوں لگتا تھا جیسے جلد بارش ہوجائے گی۔ جب انہوں نے کھیتوں پر نگاہ ڈالی تو ہر ایک
نے چاہا کہ وقت پر گندم کاٹ لی جائے۔ اس خیال سے ہرکسی کا سینہ مسرت اور جذبات سے
بھر گیا۔
گنجیاں
لگانے والے اس سال خوب کما رہے تھے۔ دیہاڑی کے ایک روبل اور چالیس کوپک۔
اسی
دوران لوگ کازان سکوئے کے میلے سے واپس لوٹتے رہے۔ عورتیں، بچے، نئی ٹوپیوں میں مل
مزدور، فقیر۔ کسانوں کی ایک گاڑی پاس سے دھول اڑاتی گزرگئی۔ ایک گھوڑا جس کا مالک
اسے بیچ نہ سکاتھا پیچھے دلکی چال چلتے ہوئے آرہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ
اپنے نہ بکنے پر خوش ہو۔ ایک بدمست گائے گزری، جسے سینگوں سے پکڑ کر کھینچا جارہا
تھا۔ ایک اور گاڑی گزری جس پر شراب میں مدہوش کسان بیٹھے تھے جن کی ٹانگیں کناروں
سے لٹکی ہوئی تھیں۔ ایک بوڑھی عورت ایک چھوٹے بچے کا ہاتھ پکڑے جارہی تھی جس کے سر
پر بہت بڑی ٹوپی تھی اور پاﺅں میں نمایاں
اونچے بوٹ تھے۔ لڑکا گرمی اور بھاری بوٹوں سے بدحال ہو گیا تھا۔ اس کے گھٹنے خم
نہیں کھا سکتے تھے لیکن وہ اپنی پوری طاقت سے باجا بجاتاجا رہا تھا۔ وہ اترائی اتر
گئے اور گلی میں مڑ گئے لیکن باجے کی آواز ابھی بھی سنائی دے رہی تھی۔
”ہمارے
مل مالکان اپنے آپ میں نہیں رہے“۔ یلیساروف نے کہا۔ ”کوستیکوف مجھ سے ناراض ہے۔ اس
نے مجھ سے کہا تم نے کارنس میں بہت پتھر لگا دئیے ہیں۔ “
میں
نے اسے کہا ”بہت زیادہ؟ واسیلی دانیلچ میں نے اتنے ہی استعمال کیے ہیں جتنے ضروری
تھے۔ میں پتھر کھا تو نہیں گیا“۔
اس
نے کہا ”تمہیں مجھ سے اس طرح بات کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔ بے وقوف آدمی! تم اپنی
اوقات بھول گئے ہو۔ یہ میں ہی تھا جس نے تمہیں ٹھیکیدار بنا دیا۔“
”ہا۔۔
میں۔۔! اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔” میں نے اسے کہا۔ٹھیکیدار بننے سے پہلے بھی روزانہ
مجھے صبح سویرے چائے تو مل ہی جاتی تھی۔ کیوں یہ بات صحیح نہیں“۔
”تم سب
ذلیل لوگ ہو۔ تم سب“۔ وہ چیخا۔
میں
خاموش رہا۔ میں نے سوچا اس دنیا میں ہم سب ذلیل ہیں۔ لیکن اگلی دنیا میں تم ذلیل
ہوگے۔ ہا۔ ہا۔ اگلے دن وہ نرم پڑا ہوا تھا۔
”اس نے
مجھ سے کہا۔ ”اگر میں نے کوئی ایسی ویسی بات کہہ بھی دی تو تمہیں اس پر ناراض نہیں
ہونا چاہیے تھا۔ تمہیں مجھ سے اس طرح بات نہیں کرنا چاہیے تھی۔ تمہیں برداشت کرنا
چاہیے تھا۔ آخر میں فرسٹ گلڈ کا تاجر ہوں اور تم سے بہتر ہوں“۔
میں
نے اس سے کہا ”یہ درست ہے کہ تم فرسٹ گلڈ کے تاجر ہو اور میں صرف ایک ترکھان“۔
لیکن حضرت یوسف بھی تو ایک ترکھان تھے۔ یہ ایک قابل فخر پیشہ ہے کیونکہ یہ خدا کو
پسند ہے۔ لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ تم مجھ سے بہتر ہو تو تمہاری مرضی۔ واسلی
دانیلچ۔“ اس کے بعد میں سوچنے لگا کہ ہم میں سے کون بہتر ہے؟ فرسٹ گلڈ کا تاجر یا
پھر ترکھان۔ ترکھان۔ بچو۔ ترکھان“۔
سپائک
نے کچھ لمحے سوچا اور کہا۔
ہاں۔
میرے بچو۔ وہ جو محنت کرتا ہے اور برداشت کرتا ہے وہ بہتر ہے“۔
سورج
اب ڈوب چکا تھا اور ندی پر چرچ کے احاطے اور مل کے اردگرد میدانوں پر دودھیا دھند
چھاتی جا رہی تھی۔ تاریکی تیزی سے بڑھتی آرہی تھی۔ نیچے روشنیاں جھلملا رہی تھیں
اور کہرا ایک بے پیندے پاتال کو ڈھانپنے کی کوشش کر رہاتھا۔ لائیپا اور اس کی ماں
جو شدید غربت میں پیدا ہوئی تھیں ساری زندگی کے لیے غربت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکی
تھیں اور اپنا سب کچھ دوسروں پر نچھاور کر دیتی تھیں۔ لیکن اس ایک مختصر لمحے میں
ان کی کمزور اورڈری ہوئی روحیں بھی گھاٹی کی بلندی پر بیٹھ کر خوش ہوئیں اور
مسکرائیں کہ وہ اس پراسرار دنیا میں،ان گنت پھیلی ہوئی مخلوق سے بلند کوئی چیز
ہیں۔ وہ ایک لمحے کے لیے یہ فراموش کر گئیں کہ انہیں جلد یا بدیر نیچے اترنا ہے
اور کھائی میں جانا ہے۔
آخر
وہ گھر پہنچ گئیں۔ گیٹ کے نزدیک زمین پر اور دُکان کے سامنے دیہاڑی دار بیٹھے تھے۔
عموماً یوکلیﺅ کے
کسان تسی بکون کی نوکری نہیں کرتے تھے اور اسے دوسرے دیہاتوں سے دیہاڑی دار لانا
پڑتے تھے۔ نصف روشنی میں یوں لگتا تھا جیسے دائرے میں بیٹھے سب آدمیوں کی لمبی
لمبی سیاہ داڑھیاں ہوں۔ دُکان کھلی ہوئی تھی اور کھلے دروازے سے بہرا ایک بچے کے
ساتھ گوٹیاں کھیلتا نظر آرہا تھا۔ دیہاڑی دار نچلے سروں میں گا رہے تھے اور ان کی
آواز مشکل سے ہی نکل رہی تھی۔ درمیان میں وہ رُک رُک کر اونچی آواز میںاپنے گذشتہ
روز کے معاوضے کا مطالبہ کرتے۔ جو اس خوف سے ادا نہیں کیا گیا تھا کہ وہ صبح ہونے
سے پہلے بھاگ جائیں گے۔ برچ کی ایک ڈال کے نیچے جو پورچ کے آگے جھک آئی تھی، بوڑھا
تسی بکون کوٹ کے بغیر قمیض پر واسکٹ پہنے اکسینیا کے ساتھ چائے پی رہاتھا۔ میزپر
ایک روشن لیمپ دھرا تھا۔
گا۔
آ۔ دھا رے۔ گیٹ کی دوسری طرف سے ایک دیہاڑی دار نے طنزیہ انداز میں تان اٹھائی۔
آدھا دے۔ دے دو۔ آد۔ دھا۔ اس کے بعد قہقہے پڑے اور بہت ہلکی تقریباً نہ سنائی دینے
والی آواز میں گانا۔
سپائک میز پر چائے پینے کے لیے بیٹھ گیا۔
”ہم
میلے پر گئے تھے۔“ اس نے کہانی سنانی شروع کر دی۔ ”ہم نے بڑا اچھا وقت گزارا۔ بچو۔
بہت اچھا وقت۔ خدا کا شکر ہے۔ لیکن بہت ناخوشگوار واقعہ ہوگیا ہے۔ ساشا
(Sasha)لوہار
نے کچھ تمباکو خریدا اور آدھے روبل کا سکہ تاجر کو دیا۔ اور سکہ کھوٹا نکلا۔“
سپائک ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی کے انداز میں بول رہا تھا مگر اس کی نیم پرسکون
اورکھردری آواز ہر کوئی سن رہا تھا۔ ”اور یہ کھوٹا نکلا۔ تم نے کہاں سے لیا۔ انہوں
نے اس سے پوچھا۔ ”اینسم، تسی بکون نے مجھے شادی پر دیا تھا۔ تب انہوں نے سپاہی کو
بلا لیا اور وہ اسے لے کر چلا گیا۔ دیکھو۔ پتروچ خیال رکھنا کہیں مشکل میں نہ پڑ
جانا۔ تمہیں پتہ ہی ہے لوگ باتیں بناتے ہیں۔“
آ۔
آ۔ د۔ دھا۔ گیٹ سے پھر وہی طنزیہ آواز آئی۔ آ۔آ۔دھا۔ھا۔
اس
کے بعد خاموشی چھا گئی۔
”آہ۔
بچو۔ بچو۔ سپائک بار بار ممنایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس پر نیند حاوی ہوگئی تھی۔
”میرے بچو! شکر اور چائے کے لیے شکریہ! سونے کا وقت ہوگیا ہے۔ میں تو گھلتا جا رہا
ہوں۔ میری پسلیاں چٹخ رہی ہیں۔ ہو۔ ہو“۔
جاتے
جاتے وہ مڑا اور اس نے کہا۔
”اس کا
مطلب ہے مرنے کا وقت آگیا ہے“۔ اور اس نے ایک سسکی لی۔
بوڑھے
تسی بکون نے اپنی چائے ختم نہیں کی اور بیٹھا سوچتا رہا۔ یوں لگتا تھا وہ ابھی تک
سپائک کے قدموں کی آواز سن رہاہے اگرچہ وہ گلی میں بہت دور جا چکا تھا۔
اکسینیا
اس کے خیالات جان گئی اور بولی ”ساشا لوہار ضرور جھوٹ بول رہا ہوگا“۔
وہ
گھر کے اندر چلا گیا اور جب چند منٹوں بعد لوٹا تو اس کے ہاتھ میں ایک تھیلی تھی۔
اس نے اسے کھولا اور میز پر چمکتے ہوئے سکے گر پڑے۔ ان میں سے ایک اس نے اٹھا لیا
اور اپنے دانتوں میں داب لیا پھر اس نے اسے ٹرے میں پھینک دیا پھر دوسرا اٹھایا
اور اسے بھی نیچے پھینک دیا۔
اکسینیا
کی طرف اس نے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ”سکے کھوٹے ہیں۔ یہ ہیں وہ جو اینسم لایا
تھا۔ یہ تھا اس کا تحفہ۔ بچے اسے لے لو“۔ اس نے سرگوشی میں اس کے ہاتھ میں بنڈل
ٹھونستے ہوئے کہا۔ ”انہیں لے لو اور کنویں میں پھینک دو۔ ان کی کسے ضرورت ہے؟ اور
دیکھو اس کے بارے میں کسی سے ذکر نہ کرنا۔ کوئی مصیبت گلے پڑ جائے گی۔ سماوار ہٹا
دو۔ لیمپ بجھا دو“۔
لائیپا
اور پراسکووا چھپر کے نیچے بیٹھی رہیں۔ بتیوں کو ایک ایک کر کے بند ہوتے ہوئے
دیکھتی رہیں۔ اوپر کی منزل میں وارورا کی کھڑکی میں مقدس شبیہوں کے سامنے سرخ اور
نیلے لیمپ جل رہے تھے۔ صرف وہاں سے امن، سکون اور معصومیت کی کرنیں پھیل رہی تھیں۔
پروسکووا
کے دل نے کبھی نہیں مانا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی ایک امیر آدمی سے ہو گئی ہے۔
جب بھی وہ اس سے ملنے آتی تو جھینپتے جھینپتے مسکراتے ہوئے جھجکتے جھجکتے ڈیوڑھی
میں داخل ہوتی۔وہ اسے باہر کچھ چائے اور شکر بھیج دیتے۔ لائیپا بھی نہ بدل سکی اور
جب اس کا خاوند چلا گیا تو اپنے بستر پر نہ سوئی۔ وہ کہیں بھی پڑ کرسو جاتی، کچن
میں یا باہر چھپر کے نیچے۔ وہ ہر روز فرش رگڑتی، کپڑے دھوتی اور یہی تصور کرتی تھی
کہ وہ ابھی تک ایک نوکرانی ہی ہے۔ اس وقت بھی، جب وہ اور اس کی ماں زیارت سے واپس
آئیں تھیں انہوں نے باورچن کے ساتھ چائے پی تھی اور چھپر تلے برف گاڑی اور دیوار
کے درمیان بچی جگہ پر جاکر فرش پر لیٹ گئی تھیں۔ وہاں پر اندھیرا تھا اور گھوڑوں
کے سازوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ گھر کی روشنیاں ایک ایک کر کے بجھ گئی تھیں۔ بہرے
کی دُکان بند کرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ دیہاڑی دار احاطہ میںسونے کی تیاریاں
کر رہے تھے۔ دور کہیں، خرمن جونئیر کے ہاں کوئی بیش قیمت ساز بجا رہا تھا۔ لائیپا
اور پروسکووا سوگئیں۔
اور
جب وہ کسی کے قدموں کی آہٹ سے جاگیں تو روشنی ہو چکی تھی کیونکہ چاند طلوع ہو چکا
تھا۔ اکسینیا چھپر کے داخلے پر اپنا بستر بازو میں لیے کھڑی تھی۔
”یہاں
پر سردی ہوگی“۔ اندر داخل ہوتے ہوئے اس نے کہا اور کنارے پر ہی لیٹ گئی۔ اس کا
سارا جسم چاند کی روشنی میں نہا گیا۔
وہ
سوئی نہیں اور اونچی آواز میں آہیں بھرتی رہی۔ گرمی میں کروٹیں بدلتی رہی۔ اس نے
تقریباً سارے ہی کپڑے اتار دئیے۔ چاند کی سحر انگیز روشنی میں وہ بے انتہا خوبصورت
اور بے انتہا بااعتماد حیوان نظر آتی تھی۔ کچھ وقت اور گزرا تو قدموں کی آواز پھر
سنائی دی۔ بوڑھا سفید کپڑوں میں ملبوس دروازے پر نمودار ہوا۔
”اکسینیا۔“
اس نے پکارا ”تم یہاں ہو“۔
”ہاں۔
کیا ہے“ اس نے بے رخی سے جواب دیا۔
”میں نے
تمہیں کنویں میں سکے پھینکنے کے لیے کہا تھا۔ کیا تم نے پھینک دئیے“۔
”میں
اتنی پاگل نہیں ہوں کہ ایسی چیزیں پانی میں پھینک دوں! میں نے انہیں دیہاڑی داروں
کو دے دیا ہے“۔
”اوہ
میرے خدایا“۔ بوڑھے نے کہا۔ اس کی آواز میں سراسیمگی تھی۔ ”تم پکی حرافہ ہو۔ او
میرے خدایا!“
مایوسی
میں اس نے اپنے ہاتھ اٹھائے اوراپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد
اکسینیا اٹھ کر بیٹھ گئی۔ غصے میں آہ بھری۔ اپنا بستر اٹھایا اور چھپر سے باہر نکل
گئی۔
لائیپا
بولی ”ماں تم نے مجھے اس گھر میں کیوں بیاہا تھا“۔
”میرے
بچے! ہر ایک کو شادی کرنی پڑتی ہے۔ یہ فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ ہم نہیںکرتے“۔
وہ
اپنے آپ کو ناقابل تشفی دکھ کے حوالے کرچکی تھیں۔ لیکن پھر بھی محسوس کرتی تھیں کہ
ستاروں بھرے نیلے آسمان کے اوپر سے ان کی طرف کوئی دیکھ رہا ہے۔ وہ سب کچھ جو
یوکلیﺅ میں
ہو رہا ہے۔ ظلم جتنا گھمبیر تھا، رات اتنی ہی خاموش اور سہانی تھی۔ خدا کی کائنات
میں انصاف تھا اور انصاف ہوگا اسی طرح جیسے خوبصورت اور سہانی رات آتی ہے۔ اور آخر
دنیا میں ہر شئے کو انصاف نصیب ہوگا ہے جیسے چاندنی رات میں گھُل جاتی ہے۔
جب
دونوں کو سکون مل گیا تو وہ ایک دوسرے کے قریب ہو کر سوگئیں۔
۶
کافی
دیر سے یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ اینسم جعلی سکے بنانے اور بھگتانے کے الزام میں جیل
میں جا چکا ہے۔ مہینے گزر گئے۔ آدھ سال سے زیادہ۔ طویل موسم سرما ختم ہوچکا تھا۔
بہار شروع ہو چکی تھی، گھر میں اور گاﺅں میں ہر کوئی اس
خیال کا عادی ہو چکا تھا کہ اینسم جیل میں ہے۔ جو کوئی رات کو دکان یا گھر کے
سامنے سے گزرتا تو اسے یاد آجاتا کہ اینسم جیل میں ہے۔ جب کبھی مرنے والوں کی یاد
میں گھنٹیاں بجائی جاتیں تو لوگوں کو یاد آتا کہ اینسم جیل میں ہے اور اس کا مقدمہ
شروع ہو چکا ہے۔
پورے
گھرپر کسی پرچھائیں کا سایہ تھا۔ گھر کی دیواریں زیادہ سیاہ نظر آتی تھی۔ چھت خستہ
ہوگئی تھی۔ دُکان کا سبز، بھاری آہنی دروازہ ٹیڑھا ہوچکا تھا۔ خود بوڑھے تسی بکون
کا رنگ بھی سانولا نظر آتا تھا۔ بہت عرصہ ہوا اس نے بال کٹوانے اور داڑھی ترشوانا
چھوڑ دی تھی۔ اس کی گالوں پر ہر طرف بال اگ آئے تھے اور اب وہ اپنے یکے پر چھلانگ
لگا کر نہیں بیٹھتا تھا یا فقیروں پر چلاتا نہیں تھا۔ ”خدا تمہاری مدد کرے گا۔“
اس
کی طاقت گھٹتی جارہی تھی اور اس کا اظہار ہر چیز میں ہو رہا تھا۔ اب لوگ اس سے
نہیں ڈرتے تھے بلکہ سپاہی تک نے بھی اس کی دُکان میں آکر اس کا بیان ریکارڈ کیا۔
حالانکہ سپاہی حسب معمول اپنا ماہانہ وصول کرچکا تھا۔ بغیر لائسنس شراب فروخت کرنے
کے الزامات میں بڈھے کو تین بار شہر طلب کیا گیا۔ گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے
تین بار پیشی پڑ گئی۔ بڈھا خستہ ہوگیا تھا۔
وہ
اکثر اپنے بیٹے کو جیل میں ملنے جاتا۔ اس کے دفاع کے لیے اس نے ایک وکیل بھی کیا
کچھ جگہوں پر درخواستیں بھی بھیجیں، چرچ میں شمعیں بھی جلائیں۔ جس جیل میں اینسم
قید تھا اس کے محافظ کو چاندی کا گلاس ہولڈر بھی تحفے میں پیش کیا جس پر ”روح کو
اپنی رسائی کا علم ہے“ کندہ تھا اور ایک چاندی کا بڑا چمچ بھی دیا۔
”کوئی
بھی ایسا نہیں ہے جس کی طرف ہم دیکھ سکیں۔ کوئی بھی نہیں“ وارورا بولی۔ ”ہمیں
اشرافیہ میں سے کسی کو کہنا چاہیے کہ وہ بااختیار لوگوں کو لکھے۔ صرف وہی لوگ
مقدمے کے دوران اسے جیل سے نکال سکتے ہیں۔ لڑکا کیوں جیل میں سڑتا پھرے؟“
وہ
دکھی تھی لیکن وہ موٹی اور گداز ہو گئی تھی۔ وہ حسب معمول مقدس شبیہوں کے سامنے
لیمپ روشن رکھتی۔ اور اس بات کا خیال رکھتی تھی کہ گھر میں ہر چیز ترتیب سے ہو۔
مہمانوں کی جام اور سیب جیلی سے خاطر مدارت ہو۔ اکسینیا اور اس کا بہرہ خاوند حسب
معمول دُکان میں کام کرتے رہے۔ ایک نیا انٹرپرائز شروع ہونے والا تھا۔ بوتیکنو میں
بھٹہ کی تعمیر۔ اکسینیا تقریباً ہر روز خود بگھی چلاتی ہوئی وہاں جاتی تھی اور جب
وہ کسی واقف کار کو دیکھتی تھی تو اپنے سر کو اٹھا لیتی۔ جیسا سنپولیا رائی کی فصل
میں سر اٹھاتا ہے۔ اور اپنی پراسرار اور بھولی بھالی مسکراہٹ بکھیر دیتی۔
لائیپا
سارا وقت اپنے بچے کے ساتھ کھیلتی رہتی جو مسیحی روزوں سے پہلے پیدا ہوا تھا۔ یہ
چھوٹا سا بچہ تھا۔ دبلا پتلا اور بیمار۔ اور حیرت ہوتی تھی کہ وہ رو سکتا تھا اور
دیکھ سکتا تھا اور یہ کہ لوگ اسے انسانی بچہ سمجھتے تھے۔ اسے نکوفر
(Nikifor)کہتے
تھے۔ وہ پنگوڑھے میں لیٹا رہتا۔ لائیپا دروازے کی طرف جاتی اور جھک کر کہتی:
”نکوفر اینسمچ۔ آج کا دن مبارک ہو“۔
پھر
وہ دوڑ کر اس کے پاس آتی۔ اسے پیار کرتی۔ پھر دروازے کے قریب واپس جاتی اور جھک کر
کہتی
”نکوفر
اینسمچ(Nikifor Anisimich)۔ آج کا دن مبارک“۔
بچہ
اپنی چھوٹی چھوٹی سرخ ٹانگیں چلاتا۔ یلیساروف ترکھان کی طرح ایک ساتھ ہنستا اور
روتا۔
آخر
مقدمے کی پیشی آگئی۔ بڈھا پیشی سے پانچ روز پہلے ہی شہر چلا گیا۔ یہ بھی سنا گیا
کہ گاﺅں سے
کسانوں کو گواہی کے لیے بلایا گیاہے۔ سمن وصول ہونے پر تسی بکون کے خود اپنے ایک
مزدور کو بھی جانا پڑا۔
مقدمہ
کی تاریخ جمعرات کے روز مقرر تھی۔ لیکن اتوار گزر گیا مگر بڈھا واپس نہیں آیا اور
نہ ہی کوئی خبر آئی۔ منگل کو شام کے وقت وارورا کھلی کھڑکی کے قریب بوڑھے آدمی کی
ٹرین کی آواز سننے کے لیے بیٹھ گئی۔ لائیپا دوسرے کمرے میں بچے کے ساتھ کھیل رہی
تھی۔ وہ اسے اچھال رہی تھی اور خوشی سے گنگنا رہی تھی۔
”تم بڑے
ہو جاﺅ گے۔
بڑے۔ تم آدمی بنو گے اور پھر ہم کہیں جاکر اکٹھے کوئی کام ڈھونڈیں گے۔
اکٹھے۔اکٹھے“۔
”اوہ“
وارورا صدمے سے چلائی۔ یہ کیا بات ہوئی باہر جاکر کام ڈھونڈنے کی، تم پاگل ہو۔ وہ
بڑا ہو کر تاجر بنے گا“۔
لائیپاآہستہ
آہستہ گنگنانے لگی اور پھر بھول گئی کہ کیا کہہ رہی ہے اور بولنے لگی۔
”تم بڑے
ہو جاﺅ گے۔
بڑے اور پھر ہم اکٹھے کام ڈھونڈنے جائیں گے“۔
”تم نے
پھر شروع کر دیا“۔
لائیپا
دروازے میں آکر رک گئی نکوفر اس کے بازوﺅں میں تھا اور اس
نے پوچھا۔
”ماں
مجھے اس سے اتنا پیار کیوں ہے۔ یہ مجھے اتنا پیارا کیوں لگتا ہے؟“ اور اس کی آواز
ٹوٹ گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے ۔ ”کون ہے یہ؟ کیا ہے یہ؟ پروں کی طرح
ہلکا۔ کسی ننھی منی شئے کی طرح اور میں اس سے اس طرح محبت کرتی ہوں جیسے کوئی
حقیقی انسان ہو۔ دیکھو یہ بول بھی نہیں سکتا، ایک لفظ بھی نہیں اور میں سمجھ جاتی
ہوں کہ وہ کیا چاہتا ہے صرف اس کی آنکھوں میں دیکھ کر“۔
وارورا
نے پھر کان لگایا۔ شام والی ٹرین کی سٹیشن پہنچنے کی آواز اس کے کانوں میں آگئی۔
شاید بڈھا اس میں ہو۔ جو لائیپا کہہ رہی تھی نہ اس نے سنا اور نہ اس نے سمجھا۔ نہ
ہی وقت گزرنے پر دھیان دیا۔ لیکن وہ بیٹھی کانپ رہی تھی خوف سے نہیں بلکہ شدید
تجسس سے۔ اس نے ایک چھکڑے کی کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنی جس پر کسان لدے تھے۔ گویا گواہ
سٹیشن سے واپس آرہے تھے۔ جب چھکڑا دُکان کے سامنے سے گزرا تو بوڑھے مزدور نے اس سے
چھلانگ لگائی اور احاطے میں آیا۔ اسے لوگوں کی آوازیں آ رہی تھی جو احاطے میں اس
سے دعا سلام اور سوالات کر رہے تھے۔
”تمام
حقوق اور ملکیت اس سے چھین لی گئی ہے“ اس نے اونچی آواز میں لوگوں کے سوال کا جواب
دیا۔ سائبیریا۔ چھ سال با مشقت“۔
اکسینیا
دُکان کے پچھلے دروازے سے آتی دکھائی دی۔ وہ مٹی کا تیل بیچ رہی تھی اور اس کے ایک
ہاتھ میں بوتل تھی اور دوسرے میں قیف تھی اور دانتوں میں چاندی کے سکے دبے ہوئے
تھے۔
”اور
پاپا کدھر ہیں“۔ اس نے تتلا کر کہا۔
”سٹیشن
پر“۔ مزدور نے جواب دیا۔ ”وہ کہتا ہے جب اندھیرا ہو گا تب گھر آئے گا“۔
جب
گھر میں یہ خبر ہوگئی کہ اینسم کو بامشقت سزا ہوگئی ہے تو باورچن نے باورچی خانے
میں اپنی پوری آواز سے بین کرنے شروع کر دئیے جیسے کسی کی موت پر کئے جاتے ہیں۔
کیونکہ اس کے خیال میں یہ اس کا اخلاقی فرض تھا۔
”اینسم
گریگی وچ تم ہمیں کیوں چھوڑ گئے۔ میرے عقاب“۔
کتے
بھی جاگ پڑے اور انہوں نے بھونکنا شروع کر دیا۔ وارورا دوڑ کر کھڑکی کے پاس گئی
اور اس کے پاس کھڑی رہی۔ شدت غم سے وہ دائیں بائیں ہل رہی تھی۔ وہ گلا پھاڑ کر
باورچن سے چلائی۔
”بند
کرو۔ سیٹپنڈا(Stepanida)۔ بند کرو۔ خدا کے لیے ہمیں اذیت نہ دو“۔
کسی
کو خیال نہیں آیا کہ وہ سماوار گرم کرلے۔ یوں لگتا تھا سب کے دماغ ماﺅف ہو
گئے ہیں۔ صرف لائیپا تھی جسے سمجھ نہیں آئی تھی کہ کیا ہوگیا ہے اور وہ اپنے بچے
سے کھیلتی رہی۔ جب بڈھا سٹیشن سے آیا تو کسی نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے آداب
کا صرف ایک لفظ کہا اور خاموشی سے کمروں میں گھومتا رہا۔ اس نے کھانے سے انکار کر
دیا۔
”کوئی
بھی نہیں جس کے پاس ہم جائیں“۔ جب وہ اکیلے تھے تو وارورا نے اس سے کہا ”میں نے تم
سے کہا تھا کہ اشرافیہ کے کسی آدمی کے پاس جاﺅ...
لیکن اس وقت تم نے میری بات نہیں سنی... تمہیں درخواست دینی چاہیے تھی“۔
”جو میں
کرسکتا تھا میں نے کیا“ بوڑھے نے ہاتھ لہراتے ہوئے کہا۔ ”جب سزا سنائی گئی تو میں
اس شریف آدمی کے پاس گیا جس نے اینسم کا دفاع کیا تھا“۔
”اب تم
کچھ نہیں کرسکتے“ اس نے کہا تھا۔ ”اب دیر ہوگئی ہے“۔
”اینسم
نے بھی یہی الفاظ کہے۔ ’بہت دیر ہوگئی ہے‘۔ لیکن اس کے باوجود میں جب عدالت سے نکل
رہا تھا میں نے ایک وکیل سے بات کی۔ میں نے اسے کچھ رقم بھی دی ہے۔ میں ایک ہفتہ
انتظار کروں گا اور پھر دوبارہ جاﺅں گا۔ ہمارا مقدر
خدا کے ہاتھ میں ہے“۔
بوڑھا
ایک بار پھر خاموشی سے کمروں میں گھوما اور جب وہ وارورا کے پاس لوٹا تو اس نے کہا
”میں ضرور بیمار ہو جاﺅں گا۔ میرا سر
چکرا رہا ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی“۔
تب
اس نے دروازہ بند کر دیا تاکہ لائیپا اسے نہ سن سکے۔ اور کہا ”مجھے اپنی رقم کی
فکر ہے۔ تمہیں یاد ہے! شادی سے پہلے اینسم پورے روبل اور آدھے روبل کے نئے سکے لے
کر آیا تھا، ایسٹر کے ایک ہفتے کے بعد؟ میں نے ایک بنڈل علیحدہ کر لیا تھا اور میں
نے باقی اپنی دولت اس میں ملا دی تھی۔ خدا غریق رحمت کرے جب میرا چچا دمیتری
فلاتیچ(Dmitri Filatich) زندہ تھا تو بعض اوقات وہ کریمیا اور بعض
اوقات ماسکو چیزیں خریدنے جاتا تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی اور وہ بیوی جب وہ چیزیں
خریدنے جاتا تھا تو دوسرے مردوں کے ساتھ پھرتی رہتی تھی۔ ان کے چھ بچے تھے۔ اور جب
میرا چچا زیادہ پی لیتا تھا تو ہنسا کرتا تھا اور کہتا تھا ”میں نہیں جانتا ان میں
سے میراکون سا ہے اور کون سا نہیں ہے“۔ وہ کھلا ڈھلا آدمی تھا۔ اور اب مجھے پتہ
نہیں چلتا کہ میری کون سی دولت اصلی ہے اور کون سی جعلی۔ مجھے اب سب جعلی لگتی
ہے“۔
”خدا کے
لیے ایسا مت کہو“۔
”ہاں
میں خود سٹیشن پر ٹکٹ خریدنے کے لیے گیا، میں نے تین روبل دینے کے لیے نکالے اور
میں سوچتا رہا کہ یہ جعلی تو نہیں ہیں۔ مجھے خوف لگنے لگا۔۔۔ میں بیمار ہو جاﺅں گا“؟
”تم جو
مرضی کہو، ہماری سب کی تقدیر خدا کے ہاتھوں میں ہے۔“ وارورا نے اپنا سر ہلاتے ہوئے
کہا۔
”پیتروچ
ہمیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ تم اب جوان نہیں ہو۔ اگر تم
مرجاﺅ گے تو
تمہارے پوتے کے ساتھ بہت برا سلوک ہوگا۔ میں نکوفر کے بارے میں پریشان رہتی ہوں۔
باپ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ماں نوجوان ہے۔ اور بے وقوف۔ تم کم از کم بوتیکینو
کا پلاٹ اس کے نام کردو۔ پیتروچ تمہیں یہ ضرور کرنا چاہیے۔ اس کے متعلق سوچو“۔
وارورا اس کو قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی۔ ”وہ بہت چھوٹی سی، پیاری سی چیز ہے۔ یہ
شرم کا مقام ہے۔ کل جاﺅ اور کاغذ تیار
کراﺅ۔
انتظار کرنے کا کیا فائدہ؟“
”ہاں
میں بچے کو تو بھول ہی گیا تھا“ تسی بکون نے کہا۔ ”آج میں نے اسے دیکھا ہی نہیں۔
وہ پیارا بچہ ہے۔ ہے نا۔ اچھا۔ اچھا۔ اس کو بڑا ہونے دو۔ خدا اس پر مہربانی کرے گا!“
اس
نے دروازہ کھولا اور لائیپا کو انگلی سے اشارہ کیا۔ لائیپا بچے کو بازوﺅں میں
اٹھائے آگئی۔
”پیاری
لائیپا اگر تمہیں کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تم بس بتا دینا“۔ اس نے کہا ”اور جو
مرضی کھاﺅ۔ ہمیں
تم سے کوئی گلہ نہیں ہے۔ ہم بس صرف یہ چاہتے ہیں کہ تم اچھے طریقے سے رہو“۔ اس نے
بچے پر صلیب کا نشان بنایا۔ ”میرے پوتے کا خیال رکھنا۔ میں نے بیٹا کھو دیاہے لیکن
میرا پوتا تو ابھی ہے“۔
آنسو
اس کے گالوں پر بہہ نکلے اس نے ایک سسکی لی اور چلا گیا۔ اس کے فوراً بعد وہ سونے
کے لیے چلا گیا۔ سات بے خواب راتوں کے بعد وہ گہری نیند سوگیا۔
۷
بڈھا
چند دنوں کے لیے شہر گیا ہوا تھا۔ کسی نے اکسینیا کو بتایا کہ وہ کسی نوٹری پبلک
کے پاس اپنی وصیت لکھوانے گیا تھا اور اپنے پوتے نکوفر کو بوتیکینو کی زمین دے رہا
ہے جہاں پر وہ اینٹیں پکوا رہی تھی۔ اسے یہ بات صبح اس وقت بتائی گئی جب بڈھا اور
وارورا پورچ کے سامنے برچ کے ایک درخت کے نیچے بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ اس نے دُکان
کا سڑک والا اور عقبی دروازہ دونوں بند کردئیے۔ اپنے پاس موجود ساری چابیاں اکٹھی
کیں اور جاکر بڈھے کے سامنے اس کے پاﺅں کے سامنے زمین
پر پھینک دیں۔
”اب میں
تمہارے لیے کام نہیں کروں گی۔“ اس نے سسکیاں بھرنی شروع کردیں اور اونچی آواز میں
چلائی۔ ”اس کا مطلب ہے کہ میں تمہاری بہونہیں صرف ایک نوکرانی ہوں! سارے لوگ ہنستے
ہیں کہ دیکھو تسی بکون خاندان کو کیسی نوکرانی ملی ہے! میں تمہاری نوکر بھرتی نہیں
ہوئی تھی۔ میں بھکارن نہیں ہوں نہ ہی آسمان سے ٹپک پڑی ہوں۔ میرے ماں باپ زندہ
ہیں“۔
اپنے
آنسو صاف کیے بغیر اس نے پانی میں تیرتی ہوئی آنکھیں، جو غصے سے شعلہ بن گئی تھیں
اور بھینگی ہو گئی تھیں، بڈھے کے چہرے پر مرکوز کیں۔ کھنچاﺅ سے اس
کی گردن اور چہرے کا رنگ سرخ ہوگیا تھا۔پوری طاقت سے چلاتے ہوئے اس نے کہا۔
”میں اب
تمہاری نوکری نہیں کروں گی۔ میں تھک گئی ہوں۔ جب کام کا وقت آتا ہے، ہر روز دُکان
پر بیٹھنا پڑتا ہے، را توں کو ووڈکا لانے کے لیے جانا پڑتا ہے تو اس وقت میں ہوتی
ہوں لیکن جب زمین دینے کا وقت آتا ہے تو وہ یاد آجاتی ہے۔ مجرم کی بیوی چھوٹے
شیطان کے ساتھ!۔ وہ یہاں کی مالکہ ہے۔ ایک معزز عورت اور میں اس کی نوکرانی! جو
چاہو کرو۔ ہر چیز اس کو دے دو، عادی مجرم کو۔ شاید اس کا منہ بھر جائے لیکن میں اب
میکے جاﺅں گی۔
اپنے لیے کوئی اور بے وقوف ڈھونڈ لو۔ مردود۔ ظالم۔“
بڈھے
نے اپنی پوری زندگی میں کبھی اپنے بچوں کو نہ ڈانٹا تھا نہ ماراتھا اور وہ تصور
بھی نہیں کرسکتا تھا کہ اس کے گھر کا کوئی فرد اس سے توہین آمیز گفتگو کرے گا یا
اس کی بے عزتی کرے گا۔ اس وقت وہ خوفزدہ ہوگیا تھا اور گھر کے اندر بھاگ گیا۔ وہ
ایک الماری کے پیچھے چھپ گیا۔ لیکن ورورا اتنی سٹپٹا گئی کہ وہ اٹھنے کے قابل نہیں
رہی اور بیٹھے بیٹھے ہاتھ ہلاتی رہی جیسے مکھیاں اڑا رہی ہو۔
”اوہ
خدایا یہ کیا ہے۔ یہ کیا ہے“ وہ سہمی ہوئی منہ میں بڑبڑ کرتی رہی۔ ”کیا اتنی اونچی
آواز میں چلانا ضروری ہے؟ لوگ اس کی آواز سن لیں گے۔ وہ اپنی آواز تھوڑی نیچی
کرلے، صرف تھوڑی سی“۔
”تم نے
مجرم کی بیوی کو بوتیکینو دے دیا ہے“ اکسینیا چلاتی رہی۔ ”دے دو۔ اسے ہرچیز دے دو۔
مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے؟ تم سب جہنم میں جاﺅ۔ تم
سب چوروں کا ٹولہ ہو۔ میں نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے اور میں تم لوگوں سے تنگ آگئی
ہوں۔ تم مسافروں اور راہ گیروں کو لوٹتے ہو۔ تم بدمعاش ہو۔ تم نے جوانوں بوڑھوں سب
کو لوٹا ہے۔ کون ہے جو لائسنس کے بغیر ووڈکا بیچتا ہے؟ اور یہ کھوٹے سکے؟ تمہاری
تجوریاں کھوٹے سکوں سے بھری ہیں۔ اب تمہیں میری ضرورت نہیں رہی“۔
اس
وقت تک کھلے ہوئے گیٹ کے باہر ہجوم اکٹھا ہوگیا تھا جو احاطے میںجھانک رہا تھا۔
”لوگوں کو
دیکھنے دو“ اکسینیا چلائی۔ ”میں تمہیں ان کے سامنے شرمندہ کروں گی۔ میں تمہیں شرم
سے بھسم کر¶ں گی۔ تم میرے قدموں پر ناک رگڑو گے۔ او سٹیفن!“ اس نے
بہرے کو پکارا۔ ”تم اسی وقت میرے ساتھ چلو۔ میرے ماں باپ کے گھر چلو! میں مجرموں
کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اپنی چیزیں سمیٹو!“
احاطے
میں رسی پر کچھ دھلے ہوئے کپڑے لٹکے تھے۔ اس نے اپنے پیٹی کوٹ اور بلاﺅز نوچ
لیے، گیلے ہی جیسے وہ تھے اور انہیں بہرے کے بازوﺅں میں
ٹھونس دیا۔ تب وہ غصے سے لپکی اور رسی سے ہر چیز اتار کر پھینک دی وہ کپڑے بھی جو
اس کے نہیں تھے اور انہیں پاﺅں سے روندنا شروع
کر دیا۔
”اوہ۔
اوہ۔ اسے روکو“۔ وارورانے فریاد کی۔ ”اسے کیا ہوگیا ہے؟ اسے بوتیکینو دے دو۔ خدا
کے لیے اسے بوتیکنیو دے دو“۔
”کتنی
بدذات ہے“۔ لوگ گیٹ پر کہہ رہے تھے۔ تمہارے لیے ایسی ہی رنڈی ہونی چاہیے تھی۔ کیا
تم نے کبھی ایسا غصہ دیکھا ہے؟“
اکسینیا
باورچی خانے کی طرف دوڑی جہاں پر کپڑے دھوئے جارہے تھے۔ لائیپا اکیلی کپڑے دھو رہی
تھی۔ باورچن دریا پر کپڑے کھنگالنے چلی گئی تھی۔ کپڑے دھونے والے ٹب اور چولہے کے
سامنے حوض سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ کچن میںتاریکی اور حبس تھا۔ فرش پر ان دھلے کپڑوں
کا ڈھیر تھا۔ اور اس کے قریب بنچ پر نکوفر لٹایا ہوا تھا تاکہ وہ گر جائے تو اسے
چوٹ نہ لگے۔ وہ اپنی پتلی پتلی سرخ ٹانگیں چلا رہا تھا۔ جیسے اکسینیا اندر داخل
ہوئی لائیپا نے ڈھیر میں سے ایک شمیز کھینچی اور ٹب میں ڈال دی۔ پھر میز پر اُبلے
پانی سے بھرے مگے کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
”مجھے
دو!“ اکسینیا نے اس کی طرف نفرت سے دیکھتے اور اپنی شمیز ٹب سے کھینچتے ہوئے کہا۔
”تم جیسی میرے کپڑوں کو ہاتھ نہیں لگا سکتیں تم مجرم کی بیوی ہو اور تمہیں اپنی
اوقات کا پتہ ہونا چاہیے۔ اور تم ہو کیا!“
لائیپا
نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا جیسے وہ کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہی ہو۔ لیکن اچانک
اکسینیا کی بچے کو دیکھتی ہوئی نظروں کو سمجھ گئی اور خوف سے اکڑ گئی۔
”یہ ہے
وہ جس کے لیے تم میری زمین چھین رہی ہو!“
ان
الفاظ کے ساتھ اکسینیا نے گرم پانی کے مگے کو اٹھایا اور اسے نکوفر پر انڈیل دیا۔
ایک
چیخ نکلی۔ ایک ایسی چیخ جو یوکلیﺅ میں پہلے کبھی
نہیں سنی گئی تھی اور یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ لائیپا جیسی لاغر اورناتواں مخلوق
بھی اتنی شدت سے چیخ سکتی ہے۔ تب پھر احاطے پر گہرا سکوت طاری ہوگیا۔ اکسینیا
خاموشی سے گھر کے اندر چلی گئی۔ اپنی انوکھی معصوم مسکراہٹ کے ساتھ.... بہرے نے جو
احاطے میں اپنے بازوﺅں میں گیلے کپڑے لیے ادھر ادھر پھر رہاتھا،
دوبارہ انہیں رسی پر لٹکانا شروع کر دیا۔ خاموشی سے، بغیر کسی جلدی کے۔ اور جب تک
دریا سے باورچن واپس نہ آگئی کسی کو باورچی خانے میں جانے کا حوصلہ نہ ہوا کہ وہ
دیکھے کہ وہاں کیا ہوگیا ہے۔
۸
نکوفر
کو ضلعی حکومت کے ہسپتال لے جایا گیا جہاں وہ شام کے وقت مر گیا۔ لائیپا نے کسی کو
اطلاع کرنے کا انتظار کیے بغیر اپنے بچے کے مردہ جسم کو ایک کمبل میں لپیٹا اور
گھر کی طرف چل پڑی۔
ہسپتال
پہاڑ کی ایک چوٹی پر نیا نیا تعمیر ہوا تھا۔ اس کی لمبی لمبی کھڑکیاں ڈوبتے سورج
کی کرنوں سے یوں چمک رہی تھیں جیسے آگ لگ گئی ہو۔ نیچے چھوٹا سا گاﺅں
پھیلا ہوا تھا۔ لائیپا سڑک کے ساتھ ساتھ نیچے چلتی گئی اور گاﺅں کے
باہر ایک چھوٹے تالاب کے کنارے بیٹھ گئی۔ ایک عورت تالاب پر گھوڑے کو پانی پلانے
کے لیے لائی تھی لیکن گھوڑا پانی نہیں پی رہا تھا۔
”تم
کیوں نہیں پیتے؟“ عورت نے آہستگی سے، حیرانگی سے کہا، ”کیا مسئلہ ہے؟“
پانی
کے کنارے سرخ قمیض میں ایک بچہ آلتی پالتی مارے اپنے باپ کے بوٹ دھو رہا تھا۔ اس
کے علاوہ کوئی ذی روح نہ تو گاﺅں میں اور نہ ہی
پہاڑی پر نظر آتا تھا۔
”یہ
نہیں پیئے گا“۔ لائیپا نے گھوڑے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
پھر
وہ گھوڑے والی عورت اور لڑکا بوٹ سمیت وہاں سے چلے گئے۔ کوئی شخص دور دور تک نظر
نہیں آتا تھا۔ سورج سنہری اور ارغوانی چادر تانے سو گیا۔ آسمان پر پھیلے سرخ اور
گلابی لمبے لمبے بادل اس کو سوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ کہیں شاید دور، خدا جانے
کہاں، کوئی* بٹرن چلایا۔ اس کی کھوکھلی اداس آواز کسی چھپر کے تلے بندھی گائے کی
چنگاڑ کی طرح لگ رہی تھی۔ اس پراسرار پرندے کی کوک ہر بہار میں سنائی دیتی تھی اور
کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کس طرح کا ہے اور کہاں رہتا ہے۔ پہاڑی کے اوپر ہسپتال
کے ساتھ ، تالاب کے کنارے جھاڑیوں میں، گاﺅں کی
دوسری طرف اور کھیتوں میں ہر طرف بلبلیں اپنے گیت گا رہی تھیں۔ کوئل کسی کو عمر
بتا رہی تھی اور وہ ہر بار گنتی بھول جاتی اور دوبارہ شروع کر دیتی۔ تالاب میں
مینڈک ایک دوسرے کو اپنی غصے بھری کھردری آواز میں پکار رہے تھے۔ بلکہ لفظوں کی
سمجھ بھی آجاتی تھی”تم بہت برے ہو۔ بہت برے“۔ ہر طرف کتنا شور تھا! ہر کسی کو سمجھ
آسکتی تھی کہ یہ کسی مقصد کے تحت گا رہے ہیں اور شور مچا رہے ہیں تاکہ کوئی بھی
موسم بہار کی رات میں نہ سو سکے۔ ہرکوئی، یہاں تک کہ بدمزاج مینڈک بھی اس موسم کے
ہر لمحے کا لطف اٹھا لیں اور اسے یاد رکھیں۔ آخر ہمیں زندگی تو ایک بار ہی ملتی ہے
نا۔
ستاروں
میں گھرا نقری ہلال آسمان پر طلوع ہوا۔ لائیپا کو احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ کتنی
دیر تالاب کے کنارے بیٹھی رہی۔ لیکن جب وہ اٹھی اور چلنا شروع کیا تو وہ دیکھ سکتی
تھی کہ گاﺅں میں
ہر کوئی سو گیا ہے اور بتیاں بجھ گئی ہیں۔ یوکلیﺅ
تقریباً آٹھ میل کے فاصلے پر تھا۔ نہ اس کا جسم ساتھ دے سکتا تھا اور نہ ذہن۔ چاند
آسمان پر چمک رہا تھا۔ کبھی اس کے سامنے، کبھی دائیں کبھی بائیں۔ کوئل اپنی بیٹھی
ہوئی آواز میں چلائی جیسے وہ ہنس رہی ہو اور اس پر طنز کر رہی ہو۔ ”تم نے راستہ
کھو دیا
*
بٹرن۔
بگلے کی نسل کا ایک پرندہ مگر جس کی گردن چھوٹی ہوتی ہے اور کم ہی نظر آتا ہے۔
ہے۔
تم نے راستہ کھو دیا ہے!“ لائیپا نے تیز چلنا شروع کر دیا اور اس کے سر کا رومال
کھل گیا.... اس نے آسمان کی طرف پریشانی سے دیکھا۔ اس کی چھوٹے سے بچے کی روح کہاں
ہوگی۔ کیا وہ اس کا پیچھا کر رہی ہے یا اوپر کہیں ستاروں کے قریب تیر رہی ہے۔ اپنی
ماں کو بھول کر؟ رات کو کھیتوں کے درمیان کتنی تنہائی ہوتی ہے۔ گانوں کے اس شور کے
دوران، جب آپ خود نہیں گا سکتے۔ بے پناہ مسرتوں کے شور کے درمیان جب آپ خود خوشی
نہیںمنا سکتے۔ جب چاند اتنا ہی تنہا جتنا آپ ہیں، آسمان سے نیچے دیکھتا رہتا ہے اس
کی پرواہ کیے بغیر کہ بہار ہے یا خزاں۔ لوگ زندہ ہیں یا مردہ۔ جب دل میں رنج و غم
ہو تو تنہا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ کاش ماں اس کے ساتھ ہوتی، سپائک ہوتا، باورچن ہوتی
یا کوئی بھی کسان۔
”بوہ۔
بٹرن پھر چیخا۔ بوہ۔ ہ“۔
اور
اچانک اس نے دور سے ایک آدمی کی آواز سنی۔
”ادھر آﺅ۔
وائیلا (Vavila)گھوڑے کو پکڑو!“
چند
قدم آگے سڑک کے ساتھ لکڑی جلائی گئی تھی، شعلے بجھ چکے تھے اور صرف کوئلے دہک رہے
تھے۔ گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز آرہی تھی۔ جھٹ پٹے میں دو چھکڑے نظر آرہے تھے جس
میں ایک پر شراب کا ڈرم تھا۔ دوسرا ذرا چھوٹا تھا اس پر بوریاں لدی ہوئی تھیں۔ دو
آدمیوں کی شبیہیں نظر آرہی تھیں ان میں سے ایک گھوڑے کو چھکڑے کی طرف کھینچ رہا
تھا دوسرا آگ کے سامنے بے حس و حرکت پشت پر ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔ چھکڑوں کے نزدیک
ہی کہیں کتا غرا رہا تھا۔
گھوڑے
کو کھینچنے والا آدمی رک گیا اور بولا۔
”کوئی
سڑک پر آرہا ہے“۔
”چپ ہو
جا“۔ دوسرا آدمی کتے پر چلایا۔ اس کی آواز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک بوڑھا آدمی
ہے۔
لائیپا
رک گئی اور بولی۔
”خدا
تمہارا حامی و ناصر ہو۔"
بوڑھا
آدمی اس کے قریب آیا۔ پہلے کچھ نہیں بولا اور پھر کہا۔
”شام
مبارک ہو“
”تمہارا
کتا مجھے کاٹے گاتو نہیں؟ کاٹے گا بڑے میاں؟“
”نہیں
نہیں تم گزر جاﺅ۔ یہ
تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔“
”میں
ہسپتال گئی تھی۔ “ لائیپا
نے کچھ توقف کے بعد کہا۔”وہاں میرا بچہ مر گیا اور میں اسے
لے کر گھر جارہی ہوں ۔ “
اس
نے جو کچھ کہا بوڑھا اس سے پریشان ہوگیا اور اس سے دور ہٹ گیا اور جلدی سے بولا۔
”کوئی
بات نہیں پیاری۔ یہی خدا کی مرضی تھی۔ آجاﺅ بچے۔“
اپنے
ساتھی کو وہ بلاتے ہوئے چیخا۔
”جلدی
کرو۔ تم جلدی نہیں کرسکتے ۔“
”تمہاری
بہنگی یہاں نہیں ہے۔“بچے نے جواب دیا ”مجھے نہیں مل رہی ۔
“
”وائیلاتمہارا
کیا فائدہ ہے! “
بوڑھے
آدمی نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر پھونک ماری جس سے اس کی آنکھیں اور ناک روشن
ہوگئیں اور جب انہیں بہنگی مل گئی تو وہ ہاتھوں میں کوئلہ پکڑے لائیپا کی طرف
متوجہ ہوا اور اسے دیکھا۔ اسکی نظروں میں نرمی اور دردمندی جھلک رہی تھی۔
”تم ایک
ماں ہو۔ “ وہ بولا۔ ”ہر ماں اپنے بچے سے پیار کرتی ہے ۔“
اس
نے آہ بھری اور اپنے سر کو ہلایا۔ وائیلا نے کوئی چیز آگ پر پھینکی اور پھر اسے پاﺅں سے
مسل دیا۔ اچانک گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا اور ایک بار پھر وہاں
پر کھیتوں، تاروں بھرے آسمان، شور مچاتے پرندوں جو ایک دوسرے کو جگائے رکھنا چاہتے
تھے، کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اورشاید اسی جگہ پر تیتر شور مچا رہا تھا جہاں آگ جل
رہی تھی۔ لیکن ایک یا دو منٹ کے بعد بوڑھا آدمی، دبلا پتلا بچہ اور چھکڑے دوبارہ
نظر آنے لگ گئے۔جب چھکڑے دوبارہ سڑک پر لانے لگے تو ان کے پہیے چرچرا رہے تھے۔
”کیا تم
کوئی ولی ہو۔“ لائیپا
نے کہا۔
”نہیں
ہم فرسانوو (Firsanaovo)میں رہتے ہیں ۔“
”جب تم
نے مجھ پر نگاہ ڈالی تو میرا دل موم ہوگیا۔ تمہارے ساتھ جو بچہ ہے کتنا خاموش ہے۔
اس لیے میرے دل نے کہا یہ ضرور ولی ہوں گے“۔
”کیا تم
نے دور جانا ہے؟“
”یوکلیﺅ تک ۔“
”اوپر
بیٹھ جاﺅ ہم
تمہیں کوزمینکی(Kuzmenki) تک لے چلیں گے۔ وہاں سے تم سیدھی چلے جانا،
ہم بائیں مڑ جائیں گے۔“
وائیلا
شراب کے ڈرم والے چھکڑے پر بیٹھ گیا۔ لائیپا اور بوڑھا آدمی دوسرے پر۔ وہ آہستہ
آہستہ چلتے رہے۔ وائیلاکا چھکڑا آگے آگے تھا۔
”میرے
بچے نے سارا دن اذیت میں کاٹا “ لائیپا
بولی۔ ”وہ مجھے اپنی پیاری آنکھوں سے اتنی
خاموشی سے دیکھ رہاتھا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو اور کہہ نہ سکتا ہو۔اے جنتوں کے
مالک خدا، خدا کی مقدس مریم! میں دکھ سے زمین پر پڑی رہی، میں کھڑی ہوتی تھی لیکن
پھر گر پڑتی تھی۔ بڑے میاں مجھے بتاﺅ ایک ننھے منے بچے
کو مرنے سے پہلے کیوں اتنی اذیت سہنی پڑی؟ جب بڑی عمر کے لوگ، مرد اور عورتیں،
تکلیفیں برداشت کرتے ہیں تو ان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لیکن ایک چھوٹے سے بچے کو
کیوں تکلیف اٹھانا پڑے جب اس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو؟ کیوں؟“
”اس کا
جواب کون دے سکتا ہے؟“ بوڑھے آدمی نے کہا۔
وہ
آدھ گھنٹہ خاموشی سے چلتے رہے۔
”ہمیں
پتہ نہیں لگتا۔ کیوں ہوتا ہے اور کس لیے“ بوڑھے آدمی نے کہا۔ ”ایک پرندے کے دو پر ہوتے ہیں چار
نہیں، شاید اس لیے کہ دو اس کے اڑنے کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح آدمی کو طاقت نہیں
دی گئی کہ وہ سب کچھ جان سکے جو وہ جاننا چاہتا ہے۔ آدمی کو صرف اتنا ہی پتہ چلتا
ہے جو اس کی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ شاید آدھا یا پونا۔“
”بڑے
میاں! میرا خیال ہے کہ میرے لیے پیدل چلنا بہتر ہے کیونکہ جھٹکوں سے میرا دل ہلتا
ہے“۔
”فکر نہ
کرو۔ یہاں ہی بیٹھی رہو ۔“
بوڑھے
آدمی نے جمائی لی اور اپنے منہ پر صلیب کا نشان بنایا۔
”فکر نہ
کرو“ اس نے دہرایا۔ ”تمہارا دکھ صرف آدھا دکھ ہے۔ زندگی طویل ہے ابھی اور خوشیاں
اور غم اس میں آئیں گی۔ اوہ عظیم روسی دھرتی ماں۔ وہ سڑک کے دونوں طرف دیکھتے ہوئے
بولا۔ میں پورا روس گھوم چکا ہوں اور جو کچھ دیکھنے کے قابل ہے دیکھ چکا ہوں اس
لیے میری پیاری، تم مجھ پر یقین کرسکتی ہو۔ اچھے دن بھی آتے ہیں اور برے بھی۔ میں
سائیبیریا تک پیدل گیا۔ میں دریائے آمو تک بھی گیا اور التائی کے پہاڑوں پر بھی۔
میں سائیبیریا میں ٹِک گیاتھا اور وہاں پر زمین بھی کاشت کی۔ لیکن پھر مجھے اپنی
دھرتی ماں کی یاد ستانے لگی اور اپنے گاﺅں واپس لوٹ آیا۔
ہم روس پیدل آئے۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ ہم کشتی میں دریا پار کر رہے تھے میں
ناتواں، برے حال، ننگے پاﺅں، سردی میں
ٹھٹھرتا ہوا، روٹی کھا رہا تھا۔ کشتی پر ایک آدمی تھا۔ خدا اسے غریق رحمت کرے اگر
وہ مر گیا ہے تو، اس نے میری طرف دلسوزی سے دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ
نکلے۔
”آہ! “
اس نے کہا۔ ”کالی تمہاری روٹی اور کالی تمہاری زندگی ۔“
اور
جب میں واپس آیا تو جیسے کہتے ہیں نہ میرا گھر تھا نہ بار۔ میری ایک بیوی تھی لیکن
میں اسے سائیبیریا دفن کر آیا تھا۔ پس میں نے محنت مزدوری شروع کر دی۔ تمہیں کیا
بتاﺅں؟
میرے لیے زندگی میں اچھے دن بھی تھے اور برے بھی۔ میری پیاری! میں مرنا نہیں
چاہتا۔ میں مزید بیس سال زندہ رہوں گا تاکہ میں برے دنوں سے زیادہ اچھے دن دیکھ
سکوں۔ آہ روسی دھرتی ماں کتنی عظیم ہے۔“ اس نے
دائیں بائیں اور پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے دوبارہ کہا۔
”بڑے
میاں! “
لائیپا بولی۔”جب کوئی آدمی مر جاتا ہے تو کتنے دن اس کی روح زمین پر
بھٹکتی پھرتی ہے ۔“
”کون
کہہ سکتا ہے؟ ٹھہرو، ہم وائیلا سے پوچھتے ہیں۔ وہ سکول جاتا رہا ہے۔ آج کل وہاں پر
ہر چیز پڑھاتے ہیں۔ وائیلا! “
”ہاں ۔“
”وائیلا
جب کوئی مرجاتا ہے تو کتنے دن اس کی روح زمین پر بھٹکتی رہتی ہے ۔“
واویلا
نے جواب دینے سے پہلے اپنے گھوڑے کو روک لیا۔
”نو دن۔
لیکن جب میرے چچا کاریلا(Kirilla) مرا تھا اس کی روح
ہماری جھونپڑی میں تیرہ دن رہی تھی ۔“
”تمہیں
کیسے پتہ چلا ؟“
”تیرہ
دن تک کوٹھڑی میں چیزیں ہلتی رہی تھیں ۔“
”بہت
اچھا۔ چلتے رہو۔“بوڑھے آدمی نے کہا۔ صاف ظاہر تھا کہ اسے اس کے کسی لفظ
پر بھی یقین نہیں تھا۔
کوزمینکی
کے پاس چھکڑے بڑی سڑک کی طرف مڑ گئے اور لائیپا نے پیدل چلنا شروع کر دیا۔ جب وہ
گھاٹی کی ڈھلوان اتر رہی تھی، صبح کی روشنی پھیل رہی تھی۔ یوکلیﺅ کا
چرچ اور مکان دھند میں چھپے ہوئے تھے۔ اس وقت سردی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے ابھی بھی
وہی کوئل کوک رہی ہے۔
جب
لائیپا گھر پہنچی تو ابھی مویشیوں کو چراگاہ لے جانے کے لیے باہر نہیں نکالا گیا
تھا۔ سب لوگ سوئے ہوئے تھے۔ بڈھا سب سے پہلے باہر نکلا۔ جیسے ہی اس نے اس پر نگاہ
ڈالی وہ سب کچھ سمجھ گیا۔ چند لمحوں کے لیے وہ کچھ بھی نہ بول سکا اور وہاں کھڑا
بڑبڑاتا رہا۔
آخر
وہ بولا ”آہ لائیپا۔ تم میرے پوتے کا خیال نہ رکھ سکی۔۔۔۔۔“
وارورا
نیند سے اٹھ گئی۔ اس نے اپنے ہاتھ جھٹکے سے پھینکے اور رونا شروع کر دیا اور بچے
کو لٹا کر کفن کی تیاری کرنے لگی۔
”اتنا
چھوٹا سا بچہ تھا وہ۔“ وہ بولتی رہی۔ ”تمہارا صرف ایک ہی بچہ تھا اور تم
اس کا خیال بھی نہیں رکھ سکی۔ پاگل لڑکی۔“
صبح
اور شام دونوں وقت بچے کی فوتیدگی کی رسوم ہوئیں۔ اگلے دن بچے کو دفنا دیا گیا۔
دفنانے کے بعد پادری اور مہمان اس طرح حریصانہ کھانے پر ٹوٹ پڑے جس سے کوئی بھی
اندازہ لگا سکتا تھا کہ انہوں نے کئی دن سے کھانا نہیں کھایا۔ لائیپا ایک میزپر
مہمانداری کر رہی تھی۔ پادری نے مشروم کے اچار کو کانٹے پر پرُو کر اٹھایا اور
کہا۔
”بچے کا
زیادہ دکھ نہ کرو۔ ایسے لوگوں کے لیے جنت کی بادشاہت میں جگہ ہے ۔ “
سب
لوگوں کو چلے جانے کے بعد ہی حقیقتاً لائیپا کو سمجھ آئی کہ اب ان کوفکر نہیں ہے
اور کبھی نہیں ہوگا۔ یہ جاننے کے بعد وہ روپڑی۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ کس کمرے میں
جائے اور جا کر روئے کیونکہ وہ محسوس کرتی تھی جب سے اس کا بچہ مرا ہے اس کے لیے
اس گھر میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور یہ کہ اب اس کے کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے اب
وہ غیر ضروری ہوگئی۔ ہر کوئی اس کے بارے میں یہی سوچتا ہے۔
”اچھا۔
تم کیا ماتم کر رہی ہو! “ اکسینیا اچانک دروازے پر آئی اور چلائی۔ جنازے
کی تقریب کے لیے وہ نئے کپڑوں میں ملبوس تھی اور اس کے چہرے پر پاﺅڈر لپا
تھا۔ ”بند کرو اسے! “
لائیپا
نے ضبط کرنے کی کوشش کی لیکن اس کی آہیں مزید بلند ہوگئیں۔
”تمہیں
میری بات سنائی نہیں دے رہی۔“ اکسینیا
نے غصے میں فرش پر پاﺅں مارتے ہوئے کہا۔
”تمہیں پتہ نہیں۔ میں کس سے کہہ رہی ہوں۔ یہاں سے نکل جاﺅ اور
اپنا چہرہ مجھے کبھی مت دکھانا۔ بدمعاش! نکل جاﺅ ۔“
”ادھر
آجاﺅ ادھر
آجاﺅ۔“
بڈھے نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ”اکسینیا خاموش ہوجاﺅ۔ اس
کا رونا فطری بات ہے۔ اس کا بچہ مر گیا ہے ۔“
”فطری،
فطری! “
اکسینیا نے مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ ”آج کی رات وہ ٹھہر سکتی ہے لیکن کل
وہ اپنا سامان باندھے۔ فطری ۔“ اکسینیا
نے دوبارہ کہا اور ہنستی ہوئی دُکان کے اندر چلی گئی۔
اگلے
دن صبح سویرے لائیپا توروگیوو اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔
۹
دُکان
کی چھت پر اور آہنی دروازوں پر اب نیا پینٹ ہو چکا تھا اور وہ اسی طرح چمکتے تھے
جیسے پہلے کھڑکی میں نئے جیرنیم کے مسکراتے ہوئے پھول چمکتے تھے۔ تین برس پہلے
یہاں جو کچھ ہوا تھا سب بھلا دیا گیا تھا۔
بڈھا
گریگوری پیتروچ ابھی بھی مالک تصور ہوتا تھا لیکن درحقیقت ہر شے اکسینیا کے ہاتھوں
میں منقل ہو چکی تھی۔ وہی خریدتی اور وہی بیچتی تھی اور کوئی چیز اس کی مرضی کے
بغیر نہیں ہوتی تھی۔ بھٹہ کا کام صحیح چل رہا تھا۔ ریلوے کے لیے اینٹوں کی مانگ کی
وجہ سے ان کی قیمت چوبیس روبل برائے ایک ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ عورتیں اور لڑکیاں
ٹرک پر یہ اینٹیں لادتی تھیں اور سٹیشن لے جاتی تھیں جن کے عوض پچیس کوپک روزانہ کی
اجرت ملتی تھی۔
اکسینیا
نے خرمن جونیئر کے ساتھ حصہ داری کرلی تھی اور مل کا نام بدل کر ”خرمن جونئیر اینڈ
کو“ رکھ دیا گیا تھا۔ سٹیشن کے نزدیک ایک شراب خانہ کھولا جا چکا تھا۔ اب کارخانے
سے نہیں بلکہ شراب خانے سے بیش قیمت کنسٹرٹینا کی آواز سنائی دیتی تھی۔مقامی پوسٹ
ماسٹر جو نیا بزنس شروع کرنا چاہتا تھا شراب خانے کا چکر لگاتا رہتا تھا۔ اور یہی
کچھ سٹیشن ماسٹر بھی کرتا۔ خرمن جونئیر نے بہرے کو سنہری گھڑی دی تھی جسے وہ اکثر
اپنی جیب سے نکال کر کان سے لگاتا تھا۔
گاﺅں میں
لوگ کہتے تھے اکسینیا بہت طاقتور ہوگئی ہے اور یہ سچ ہی تھا کیونکہ جب وہ صبح
سویرے گاڑی میں سوار ہو کر مسرت سے دمکتے چہرے اور بھولی مسکراہٹ کے ساتھ کام پر
نکلتی ، تمام دن لوگوں کو احکامات جاری کرتی تو کوئی بھی اس کی طاقت کو محسوس کئے
بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ گھر میں، گاﺅں میں، کام پر، ہر
کوئی اس سے ڈرتا تھا۔ جب وہ ڈاکخانے میں نمودار ہوتی تو پوسٹ ماسٹر لپک کر اس کے
پاس جاتا اور کہتا۔
”کیسنیا
براموا(Ksenya Bramova) تشریف رکھئیے۔ رکھیے نا۔“
ایک
دن، درمیانی عمر والا ایک رنگین مزاج زمیندار، جس نے بڑے عمدہ کپڑے کا کوٹ اور
ٹخنوں تک بوٹ پہنے ہوتے تھے، اکسینیا کی باتوں سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے اکسینیا
کی بتائی ہوئی قیمت پر ہی اسے گھوڑا بیچ دیا۔ کافی دیر اس نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ
میں پکڑے رکھا اور اس کی چنچل، شوخ آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”اکسینیا
میں دنیا میں تمہارے لیے سب کچھ کرسکتا ہوں۔ صرف اتنا بتا دو کہ میں تمہیں کب مل
سکتا ہوں۔ جہاں کوئی دوسرا نہ ہو ۔“
”کیوں
نہیں۔ جب تم چاہو“۔
اس
وقت سے درمیانی عمر والا رنگین مزاج زمیندار، تقریباً ہر روز دُکان پر بگھی میں
سوار ہو کر بیئر پینے کے لیے آتا۔ بیئر چرائتے کی طرح کڑوی ہوتی لیکن زمیندار اپنا
سر ہلاتا اور اسے حلق میں اتار دیتا۔
بڈھا
تسی بکون اب بزنس کے روزمرہ معاملات میں مداخلت نہیں کرتا تھا۔ اپنی جیبوں میں
پیسے نہیں رکھتا تھا کیونکہ وہ اصلی اور جعلی سکوں میں تمیز نہیں کرسکتا تھا لیکن
وہ اس بارے میں کوئی بات بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی کو اس
کمزوری کا پتہ چلے۔ وہ سٹھیا گیا تھا اور جب تک اس کے سامنے کھانا رکھا نہیں جاتا
تھا اس کو مانگنے کا خیال اس کے ذہن میں نہیں آتا تھا۔ گھر والے اس کے بغیر ڈنر
کرنے کے عادی ہوگئے تھے اور وارورا اکثر کہا کرتی تھی۔
”آج پھر
وہ کھانا کھائے بغیر سو گیا ہے ۔ وہ یہ بات رواداری میں کہتی تھی کیونکہ وہ بھی اس
کی عادی ہوچکی تھی۔
گرمی
ہو یا سردی وہ کوٹ پہنے گھومتا پھرتا اور صرف بہت گرمی میں گھر پر رہتا۔ اپنے
سردیوں کے کوٹ میں، جس کے کالر اوپر اٹھے ہوئے ہوتے، وہ گاﺅں کی
گلیوں میں گھومتا رہتا، وہ سٹیشن جانے والی سڑک پر چڑھ جاتا یا پھر چرچ کے گیٹ کے
باہر بنچ پر صبح سے رات تک بے حس و حرکت بیٹھا رہتا۔ پاس سے گزرنے والے اسے سلام
کرتے لیکن وہ انکے سلام کا کوئی جواب نہیں دیتا تھا۔ کیونکہ اس کے دل میں ابھی بھی
کسانوں سے نفرت موجود تھی۔ جب کوئی اس سے بات کرتا تو اس کے جواب کافی شستہ اور مدلل
ہوتے لیکن ہمیشہ بہت مختصر۔
گاؤں
میں لوگ کہتے تھے کہ اس کی بہو نے اسے گھر سے نکال دیا ہے اور اسے فاقے مارتی ہے
اور وہ صرف خیراتی روٹی پر زندہ ہے۔ کچھ لوگ اس افواہ پر خوش ہوتے اور کچھ بوڑھے
کی حالت پر افسوس کرتے۔
وارورا
مزید موٹی ہو گئی تھی لیکن اس کا رنگ روپ ابھی بھی باقی تھا۔ وہ ابھی بھی نیاز
بانٹنے جاتی تھی اور اکسینیا اسے نہیں روکتی تھی۔ ہر موسم گرما میں اب اتنا جام
بنتا تھا کہ اس کو کھانے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ نئے سال کی بیریاں پک جاتیں۔
یہی معاملہ کینڈی بسکٹوں کے ساتھ تھا۔ وارورا اکثر روپڑتی کیونکہ اسے سمجھ نہیں
آتی تھی کہ وہ ان کا کیا کرے۔
لوگوں
نے اینسم کو بھولنا شروع کر دیا تھا۔ ایک بار اس کا ایک منظوم خط پٹیشن والے لمبے
صفحے پر خوشخط لکھائی میں موصول ہوا۔ صاف ظاہر تھا کہ اس کادوست سمورودوف اس کے
ساتھ ہی سزا کاٹ رہا ہے۔ نظم کے آخر میں بدخطی سے حروف گھسیٹے گئے تھے۔ ”میں یہاں
پر ہمیشہ بیمار رہتا ہوں اور بہت ناخوش، خدا کے لیے میری مدد کرو۔“
ایک
روشن گرم دوپہر کو بڈھا تسی بکون چرچ کے گیٹ کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اس کے کوٹ کے کالر
اٹھے ہوئے تھے اور اس میں سے صرف اس کی ناک کی نوک اور ٹوپی کی چونچ نظر آرہی تھی۔
لمبے بنچ کے دوسرے کنارے پر یلیساروف بیٹھا تھا اور اس سے آگے سکول کا ستر سالہ
چوکیدار یاکوف (Yakov)جس کے سارے دانت نکل چکے تھے۔ سپائک اور
چوکیدار باتیں کر رہے تھے۔
”بچوں
کو اپنے والدین کا خیال رکھنا چاہیے۔ اپنے ماں باپ کی عزت کرنی چاہیے۔” یاکوف نے غصے سے کہا۔ ”لیکن اُس نے، اس کی بہو نے، خود اسے
اپنے گھر سے نکال دیا ہے۔ بوڑھے آدمی کے پاس نہ کھانے کے لیے کچھ ہے نہ پینے کے
لیے۔ اس کے پاس جانے کے لیے بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔ تین دن سے اس نے کچھ نہیں کھایا
۔”
”تین دن
سے۔” سپائک حیرت سے بولا۔
”ہاں۔
اور یہاں یہ ایک لفظ بولے بغیر بیٹھا رہتاہے۔ اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ بول بھی نہیں
سکتا۔ اس بات کو کیوں چھپایا جائے؟ اسے قانون سے مدد لینی چاہیے۔اور بہو کو
عدالتوں میں گھسیٹا جانا چاہیے۔ وہاں اسے کوئی تھپکی نہیں دے گا ۔”
”عدالت
میں کیا کیا جائے۔” سپائک بولا جو چوکیدار کی ساری بات نہ سن سکا تھا۔ ”تم نے
کیا کہا۔”
”وہ بری
عورت نہیں ہے وہ بڑی محنت کرتی ہے۔ عورتیں اس کے بغیر رہ نہیں سکتیں۔ میرا مطلب ہے
چھوٹے موٹے گناہوں کے بغیر۔“
”اس کو
اس کے اپنے گھر سے نکال دیا۔”یاکوف غصے سے بولتا رہا۔ ”میں کہتا ہوں اپنا گھر لے لو اور ان
سب کو باہر پھینک دو۔ وہ اپنے آپ کو کیا سمجھتی ہے؟ سنڈی کہیں کی ۔”
”اس سے
کیا فرق پڑتا ہے یہ تمہارا اپنا گھرہے یا کسی اور کا۔ جب تک اس میں گرمائش ملتی ہے
اور عورت لڑائی نہیں کرتی“۔ سپائک نے کہا اور ہنسا۔ ”جب میں نوجوان تھا میں اپنی
نتاسیا(Natasya) کو دل و جان سے چاہتا تھا۔ وہ صابر عورت
تھی لیکن مجھے کہتی رہتی تھی: گھر خریدو۔ میکارچ، گھر خریدو! گھر خریدو! جب وہ مر
رہی تھی تب بھی وہ کہہ رہی تھی۔ میکارچ ایک کتا گاڑی خرید لو تاکہ تم پیدل نہ
پھرتے رہو۔ لیکن اس کے لیے اگر میں کچھ خرید سکا تو وہ صرف ادرک والی روٹی تھی۔ اس
سے زیادہ کچھ نہیں۔“
”اس کا
خاوند پیدائشی بہرا ہے۔” یاکوف سپائک کو سنے بغیر بولتا رہا۔ ”واقعی
پیدائشی۔تم ایک بطخ کے سر پر چوٹ لگا¶، اسے پتہ ہی نہیں چلے گا۔ اس میں بھی ایک
بطخ سے زیادہ دماغ نہیں ہے۔ اسے کچھ پتہ نہیں؟”
سپائک
کارخانے کے اندر اپنے گھر جانے کے لیے اٹھا۔ یاکوف بھی اٹھ کھڑا ہوا اور دونوں
اکٹھے باتیں کرتے چلنے لگے۔ جب وہ پچاس قدم یا اتنا چلے ہوں گے کہ تو تسی بکون
اٹھا اور ان کے پیچھے پاﺅں گھسیٹتا چلنے
لگا جیسے وہ برف پر چل رہا ہو۔
گاﺅں
دھندلکے میں ڈوبنے والا تھا۔ سورج صرف سڑک کے اوپرنظر آرہاتھا جو سانپ کی طرح بل
کھاتی ہوئی ڈھلان پر ختم ہوجاتی تھی۔ بوڑھی عورتیں جنگل سے واپس آرہی تھیں۔ بچے ان
کے ساتھ ساتھ بھاگ رہے تھے۔ نوجوان لڑکیاں سٹیشن سے واپس آرہی تھیں جہاں وہ ٹرکوں
پر اینٹیں لاد تی تھیں۔ اینٹوں کا سرخ بوراان کی گالوں پر اور آنکھوں کے نیچے، ان
کی ناک پر اٹا تھا۔ ان کے آگے لائیپا اپنی پتلی آواز میں گاتی آرہی تھی۔ گاتے گاتے
اس نے آسمان کی طرف دیکھا جیسے وہ خوش ہو کہ دن ختم ہوا اور اب آرام کا وقت آگیا
ہے۔ اس کی دیہاڑی دار ماں پروسکویا، لمبے سانس لیتی ہوئی ایک بنڈل اٹھائے ہجوم کے
ساتھ آرہی تھی۔
”شام کا
سلام میکارچ۔“ لائیپانے سپائک کو دیکھ کر کہا۔ ”پیارے
شام کا سلام پیارے“
”شام کا
سلام لائیپا پیاری۔“ سپائک نے خوشی سے کہا۔ “بڈھی کھوسٹو اور
لڑکیو، دولت مند ترکھان پر مہربانی کرو۔ اوہ میرے بچو۔ میرے بچو ۔“
سپائک نے ایک سسکی لی۔ “اوہ میری قیمتی
کلہاڑیو ۔“
سپائک
اور یاکوف چلتے رہے۔ ہر کوئی ان دونوں کی باتیں سن سکتا تھا۔ ہجوم کی مڈبھیڑ بوڑھے
تسی بکون سے ہوگئی اور تب اچانک خاموشی چھا گئی۔ لائیپا اور اس کی ماں اب پیچھے رہ
گئی تھیں اورجیسے بڈھا ان کے قریب پہنچا لائیپا نے اپنے سر کو خم دیا اور کہا۔
”شام کا
سلام گریگوری پیتروچ! “
اس
کی ماں نے بھی گردن جھکائی۔ بوڑھا آدمی رک گیااور ان کی طرف خاموشی سے دیکھتا رہا۔
اس کے ہونٹ کپکپائے اور اس کی آنکھیں آنسوﺅں سے
بھر گئیں۔ لائیپا نے اپنی ماں کے بنڈل میں سے جوار کی روٹی کا ایک ٹکڑا لیا اور
بوڑھے آدمی کی طرف بڑھایا۔ اس نے وہ لے کر کھانا شروع کر دیا۔
سورج
غروب ہو چکا تھا۔ سڑک کے اوپر بھی اب کوئی روشنی نہیں تھی۔ اندھیرا اور سردی بڑھ
رہی تھی۔ پروسکویا اور لائیپا اپنے اوپر صلیب کا نشان بناتے ہوئے اپنے راستے پر
چلتی رہیں۔
حوالہ جات:
[1]
روس میں زار دور
حکومت میں مقامی حکومتوں کی نچلی سطح کا ایک ادارہ
[2]
جِن۔ ایک قسم کی
شراب
English Title: In the Ravine
: Written by
Anton Pavlovich Chekhov (29 January 1860 - 15 July
1904),
.Famous Russian Physician, short story writer, playwright
Comments
Post a Comment