انتون چیخوف کا افسانہ : بھکاری (The Beggar)

 عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر 303 : بھکاری (The Beggar)

تحریر :  انتون  چیخوف  (روس)

مترجم:  عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)

 



"رحم دل صاحب !

 

مہربانی فرمائیں ،غریب کے حال پر ترس کھائیں ۔بھوکا ہوں ۔تین دن سے کچھ نہیں کھایا ۔رات بسری کے لئے پانچ کو پک بھی نہیں ۔اللہ کی قسم پانچ سال تک گاؤں کے مدرسے میں پڑھاتا رہا ہوں ۔لوکل گورنمنٹ کی سازشوں کے باعث مجھے نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے ۔میں جھوٹے گواہوں کا نشانہ بنا ۔سال بھر سے بیروزگار ہوں ۔"

سکو ورٹسوف،جو پیٹرزبرگ کا وکیل تھا ۔نے اس کے پھٹے پرانے نیلے اور کوٹ کو اس کی میلی شرابی آنکھوں کو ،اس کے گالوں پر سرخ دھبوں کو دیکھا ۔اسے محسوس ہوا کہ وہ اس شخص کو پہلے بھی دیکھ چکا ہے ۔

"اور اب مجھے کالوگ صوبے میں تعینات کیا گیا ہے ،لیکن میرے پاس جانے کے اخراجات نہیں ہیں ۔مہربانی فرمائیں میری مدد کریں ۔"

"مجھے مانگتے ہوے شرم آ رہی ہے ،لیکن میں اپنے حالات سے مجبور ہوں ۔"

سکوورٹسوفنے اس کے جوتا پوش پر نظر ڈالی جن میں سے ایک جوتے ہی کی طرح واجبی سا تھا جبکہ دوسرا بوٹ کی طرح ٹانگوں کے اوپر تک آ رہا تھا ۔اسے یکدم یاد آیا ۔

"سنو! پرسوں تم مجھے ساڈوئی سٹریٹ پر ملے تھے ،اس وقت تم نے مجھے یہ تو نہیں بتایا کہ تم گاؤں کے مدرسے کے استاد ہو ،تب تم نے اپنے آپ کو طالبعلم بتلایا تھا ۔"اس نے بھکاری کو جتلایا ۔”یاد ہے تمھیں ؟

"نن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں ۔۔۔ایسا نہیں ہو سکتا  ۔" بھکاری الجھا ہو ا بڑ بڑایا۔

"میں گاؤں میں استاد ہوں،اور اگر آپ تسلی کرنا چاہیں تو میں آپ کو کاغذات دکھا سکتا ہوں ۔"

"کافی جھوٹ بول لیا ۔ تم اس دن اپنے آپ کو طالب علم کہ رہے تھے ،اور سکول سے نکالے جانے کی وجہ بھی بتائی تھی ،یاد ہے ؟ "

یہ کہتے ہوے سکورٹسوف تھوڑا جذباتی ہو گیا ۔بھکاری کے لئے اپنے چہرے پر حقارت کی نظر سجائے  اس پھٹیچر سے منہ موڑ کر پرے ہٹ گیا ۔اور غصے سے چلایا،

"یہ توہین آمیز ہے ، یہ سرا سر دھوکہ ہے ،میں تمھیں پولیس کے حوالے کروں گا ۔لعنت ہے تم پر ،تم بھوکے اور غریب ضرور ہو ،لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم اس ڈھٹائی اور بے شرمی سے جھوٹ بولو ۔"

اس خستہ حال نے دروازے کے ہینڈل کا سہارا لیا۔  پھندے میں پھنسے ہوئے پرندے کی مانند مایوسی سے ہال میں نگاہیں دوڑائیں ۔

"مم ۔۔۔۔۔۔میں جھوٹ نہیں بول رہا ۔میں دستاویزات دکھا سکتا ہوں ۔"وہ پھر بڑبڑایا ۔

"تمھارا اعتبار کون کرے گا؟ " سکورٹسوفنے بات جاری رکھی ۔وہ ابھی تک مشتعل تھا ۔" یہ لوگوں کے استاد اور طالبعلم کے لئے ہمدردانہ جذبات کا استحصال ہے ۔یہ پستی کمینگی اور گندگی کی انتہا ہے ،قابل نفرت ہے ۔"

سکورٹسوف نے غصے سے بھرےہوئے  بھکاری کو خوب لتاڑا ۔اس پھٹیچر کے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولنے سے اسے نفرت اور کراہت محسوس ہوئی ۔ نرم دلی ،حساس دلی اور ناخوش لوگوں کے لئے خدا ترسی جیسی صفات جن کی وجہ سے وہ اپنے آپ پر فخر کرتا تھا ،ان کو زک پہنچانے پر بھکاری کا رویہ اسے جرم محسوس ہوا ۔ اسے بھکاری کا جھوٹ دوسروں کے جذبات سے ظالمانہ کھلواڑ لگا ۔

بھکاری نے پہلے تو اپنا دفاع کیا ،قسمیں اٹھا اٹھا کر احتجاج کیا ،بلا آخر خاموش ہو گیا اور شرمندگی سے سر جھکا دیا ۔

جھکے ہوئے سر کے ساتھ بولا۔

"جناب ! میں واقعی جھوٹ بول رہا تھا ۔نہ تو میں طالب علم ہوں اور نہ ہی استاد ۔یہ سب میری اختراع ہے ۔میں ایک روسی طائفہ میں تھا ۔مجھے میری شراب نوشی کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا ۔لیکن یقین کریں جھوٹ بولنے کے سوا میرے پاس کوئی حل نہیں ۔اگر میں سچ بولوں تو مجھے کوئی خیرات نہیں دے گا ۔سچ کے ساتھ بھوکا مر جاؤں ،رہائش کے بغیر ٹھنڈ سے منجمد ہو جاؤں ۔آپ سچ کہہ رہے ہیں ،میں سمجھ رہا ہوں لیکن میں کر کیا سکتا ہوں ؟"

"تم کیا کر سکتے ہو ؟ تم پوچھتے ہو تم کیا کرو ؟ "

"کام "سکور سٹوف اس کے قریب ہوتےہوئے  چلایا ،”تمھیں کام کرنا چاہیے ، ہر حالت میں کام

"کام ۔۔۔۔۔۔میں بھی جانتا ہوں ،لیکن مجھے کہاں سے ملے گا کام ۔۔۔۔۔؟ "

"بکواس ، تم جوان ہو توانا اور صحت مند ۔۔۔۔۔اگر تم چاہتے تو تم کام ڈھونڈ سکتے تھے ۔۔۔۔۔لیکن تمھیں پتہ ہے ۔۔تم سست ہو ۔بگڑے ہوئے ہو اور نشئی ہو ۔تم سے مے خانے جیسی ووڈکا کی بد بو آرہی ہے ۔جھوٹ اور بے ایمانی تمھاری رگوں میں گھس چکی ہے ۔تم جھوٹ بولنے اور بھیک  مانگنے کے قابل ہی رہ گئے ہو ۔اگر تم سنجیدگی سے کام کرنا چاہتے تو تمھیں کسی دفتر میں کسی روسی طائفے میں یا بلیئرڈ مارکر کی نوکری ہی مل جاتی ۔ جہاں کچھ بھی کئے بغیر تنخواہ ملتی رہتی ۔لیکن تم کیسے جسمانی مشقت کرو ؟ میرے خیال میں تم نہ گھر مزدور اور نہ ہی فیکٹری مزدور بن سکتے ہو ۔تم تو اتنے نخریلے ہو کہ تم سے یہ سب نہیں ہو گا ۔"

" جو آپ کہہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واقعی میں جسمانی مشقت کیسے کر سکتا ہوں ؟ " بھکاری نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا " دکانداری کے لئے بھی دیر ہو گئی ۔تجارت لڑکپن سے ہی شروع کرنی چاہیے ۔گھر مزدور بھی مجھے کوئی نہیں رکھے گا ۔اس لئے کہ میں اس قسم کا نہیں ہوں ۔ فیکٹری میں ملازمت کے لئے کوئی ہنر چاہیے جبکہ مجھے کوئی ہنر نہیں آتا  ۔"

"بکواس ،تم کوئی نہ کوئی بہانہ گھڑ لیتے ہو ۔ کیا تم لکڑیاں کاٹنا پسند کرو گے ؟"

"میں انکار نہیں کروں گا ۔لیکن باقاعدہ لکڑ ہارے بھی آج کل بیکار ہیں ۔"

" اوہو تمام بےروز گار ایسے ہی بحث کرتے ہیں ۔جوں ہی تمہیں کوئی کام بتاؤ تم انکار کر دیتے ہو ۔ کیا تم میرے لئے لکڑیاں کاٹ سکتے ہو ؟۔"

"جی ضرور"

"بہت خوب  !  شاندار ، چلو دیکھتے ہیں ۔"

سکورٹسوف نے خنداں مسکراہٹ لئے جلدی سے اپنی خانساماں کو باورچی خانے سے بلایا ۔

"یہاں ، اولگا ،اس کو شیڈ میں لے جاؤ اور کچھ لکڑی کٹوا لو ۔"

بھکاری نے شانے اچکائے۔کچھ الجھا ہوا اور گو مگو کی کیفیت میں خانساماں کے پیچھے چل پڑا ۔اس کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ وہ لکڑی کاٹنے پر اس لئے راضی نہیں ہوا کہ وہ بھوکا تھا اور کچھ رقم کمانا چاہتا تھا ۔بلکہ محض شرمندگی مٹانے اور عزت نفس کے لیے کیوں کہ وہ اپنے ہی الفاظ پر پکڑا گیا تھا ۔

یہ بھی واضح تھا کہ وہ شراب کے اثر تلے تھا ۔مکمل ٹھیک نہیں ہے اور کام کرنے کی اسے ذرا سی بھی خواہش نہیں ہے ۔سکورٹسوف کھانے کے کمرے میں چلا گیا ۔جہاں کھڑکی سے وہ لکڑی والا شیڈ ،صحن اور ہر چیز دیکھ سکتا تھا ۔ کھڑکی سے اس نے بھکاری اور خانساماں کو پچھلے راستے سے آتے دیکھا ۔

اولگا نے ناراضگی سے اپنے ساتھی کا جائزہ لیا ۔کہنی جھٹکتے ہوے شیڈ کا کنڈا کھولا ۔غصے سے دروازہ جھٹکے سے کھولا ۔

"شاید ہم نے اسے کافی پیتے ہوے ڈسٹرب کیا ۔"سکورٹسوف نے سوچا،"کیسی بد مزاج عورت ہے ۔"

تبھی اس نے اس خود ساختہ بنے ہوئےاستاد (یا طالب علم)  کو لکڑیوں کے گٹھے پر بیٹھتے دیکھا ۔اپنے سرخ گال ہتھیلیؤں پر ٹکائے سوچ میں غرق ۔ خانساماں نے لکڑی اس کے پاؤں میں پھینکی ،غصے سے زمین پر تھوکا ۔سکورٹسوف نے اس کی ہونٹوں کی حرکت سے اندازہ لگایا کہ وہ اسے برا بھلا کہ رہی ہے ۔بھکاری نے لکڑی کا ایک شہتیر اپنی طرف کھینچا ۔بے اعتمادی سے اسے اپنے پاؤں کے درمیان رکھا اور جھجھکتے  ہوئے  اس پر کلہاڑی چلائی ۔لکڑی ڈگمگائی اور اچھل کر گر پڑی ۔بھکاری نے اسے پھر اپنی طرف گھسیٹا ،اپنے منجمد ہوتے ہاتھوں پر پھونک ماری اور اب کے بہت محتاط انداز سے کلہاڑی کا وار کیا جیسے وہ اپنے بوٹ یا انگلیوں پر ضرب لگنے سے ڈر رہا ہو ۔شہتیر دوبارہ سے گر گیا ۔سکورٹسوفکے غصے کی شدت اب تک کم ہو گئی تھی ۔اسے شرمندگی محسوس ہوئی کہ اس نے ایک عادی شرابی اور شاید ایک بیمار آدمی کو ٹھنڈ میں اتنے سخت کام پر لگا دیا ۔

"کوئی بات نہیں "، اس نے ڈائینگ روم سے سٹڈی روم میں جاتے ہوے سوچا ، "میں یہ اسی کے فائدے کے لیے کر رہا ہوں ۔''

ایک گھنٹے بعد اولگا آئی اور بتایا کہ لکڑی کاٹی جا چکی ہے ۔

"اسے آدھا روبل دے دو ۔"،سکورٹسوفبولا ،"اگر وہ پسند کرے تو ہر مہینے آکر لکڑی کاٹ جایا کرے ۔۔۔۔۔۔۔ اسے ہمیشہ کام ملے گا ۔"

اگلے مہینے کی پہلی تاریخ کو بھکاری آیا اور آدھا روبل کما کر لے گیا ۔اس کے بعد وہ اکثر آتا اور کام کرتا ۔کبھی برف گھسیٹ کر اس کا ڈھیر لگا دیتا ،کبھی شیڈ کی صفائی کر جاتا ،کبھی قالین اور دریا ں جھاڑ جاتا ،اور ہمیشہ اسے تیس سے چالیس کو پک مل جاتے ،ایک دفعہ پرانا پاجامہ بھی اسے دیا گیا ۔

جس دن سکورٹسوف نے گھر بدلنا تھا تو بھکاری کو سامان کی پیکنگ اور فرنیچر اٹھانے کے لیے بلایا گیا ۔اس موقع پر بھکاری کافی سنجیدہ ،خاموش اور بغیر نشے کے تھا ۔اس نے شازونادر ہی فرنیچر کو ہاتھ لگایا ۔جھکے سر کے ساتھ فرنیچر وین کے آگے پیچھے ہوتا رہا ۔اور مصروف دکھائی دینے کی کوشش بھی نہیں کی ۔ٹھنڈ سے کانپتا رہا ۔وین والے اس کی کمزوری ،بے کاری ،اور پھٹے پرانے کوٹ (جو کبھی کسی شریف آدمی کا تھا ) کا مزاق اڑاتے رہے ۔آخر میں سکورٹسوف نے اسے بلا بھیجا ۔

" میں دیکھتا ہوں کہ میرے الفاظ کا تم پر مثبت اثر ہوا ۔"  یہ کہتے ہوئے  اسے ایک روبل دیا ۔"میں دیکھ رہا ہوں کہ تم نشے میں بھی نہیں ہو اور کام سے متنفر بھی نہیں ۔تمھارا نام کیا ہے ؟"

"لشکوو"

"لشکوو ! میں تمہیں اس سے بہتر کام دلوا سکتا ہوں ،کیا تم لکھ سکتے ہو ۔؟"

" جی جناب "

" تو بس کل میرا یہ رقعہ لے جاؤ میرے ایک ساتھی کے پاس ۔وہ تمہیں کچھ نقول بنانے کے لئے دے گا ۔کام کرنا ۔شراب مت پینا ۔اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے بھولنا مت ،خدا حافظ "

سکورٹسوف خوش تھا کہ اس نے ایک شخص کو سیدھے رستے پر لگایا۔اس کے بعد اس کے کندھے پر تھپکی دی ،بلکہ رخصت ہوتے  ہوئے  اس سے ہاتھ بھی ملایا ۔

لشکوو نے خط لیا اور چلا گیا اور اس کے بعد کام کرنے نہیں آیا ۔دو سال گزر گئے ۔ایک دن جب سکورٹسوف تھیٹر گھر کے ٹکٹ آفس کے باہر اپنے ٹکٹ کی ادائیگی کے لئے کھڑا تھا تو اس نے اپنے ساتھ کھڑے ایک چھوٹے شخص کو دیکھا ،جو بکری کی کھال کا کالر اور خستہ حال بلی کی کھال کی ٹوپی پہنے تھا اس شخص نے کلرک سے ہچکچاتے ہوئے  گیلری ٹکٹ مانگا اور کو پک میں ادائیگی کی ۔

"لشکوو! کیا یہ تم ہو ؟ “ سکورٹسوف نے اپنے سابقہ لکڑیاں کاٹنے والے کو پہچانتے ہوے پوچھا۔ ۔

"تم کیا کر رہے ہو؟ تم خیریت سے ہو ؟۔"

"بہت اچھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک نوٹری (دستاویزات کی تصدیق ) آفس میں کام کرتا ہوں ۔پینتیس روبلز کما لیتا ہوں ۔"

"بہت خوب ,شکر خدا کا ،خوشی ہوئی ۔تم جانتے ہو تم ایک طرح سے میرے دینی بیٹے (godson) ہو ۔یہ میں تھا جس نے تمہیں سیدھا رستہ دکھایا۔ تمھیں یاد ہے میں نے تمہیں کتنا ڈانٹا تھا ۔تم شرم سے پانی پانی ہو گئے تھے ۔بہرحال بہت شکریہ میرے الفاظ یاد رکھنے کا ۔"

"آپ کا بھی شکریہ ! " لشکوو بولا ۔اگر میں اس دن آپ کی طرف نہ آتا تو شاید میں ابھی تک سکول ماسٹر یا طالبعلم ہی بنا ہوتا ۔جی بالکل آپ کے گھر نے مجھے بچایا ۔اور ذلت کے گڑھے سے نکالا ۔ میں بہت بہت خوش ہوں آپ کے خدا ترسی والے الفاظ اور عمل کا شکریہ ۔اس دن آپ نے جو کچھ کہا وہ شاندار تھا ۔میں آپ کا ممنون رہوں گا ،جب تک زندہ رہوں گا ۔لیکن جس نے مجھے حقیقتا ً بچایا وہ آپ کی خانساماں اولگا تھی ۔"

"وہ کیسے ؟"

"ایسے ہوا کہ میں جب لکڑیاں کاٹنے آتا ،وہ کہتی ،آہ تم شرابی قابل ترس انسان ۔۔۔۔تمہیں موت بھی نہیں آتی ،اور میرے سامنے بیٹھ جاتی ۔ افسوس کرتی ،میرے چہرے کو دیکھتی اور واویلا کرتی ،”تم بد قسمت انسان ! تمہارے لئے دنیا میں کوئی خوشی نہیں اور آخرت میں دوزخ میں جلو گے ۔تم غریب شرابی ، تم غمزدہ مخلوق۔ “  وہ اسی طرح بولتی رہتی ،بہت پریشان ہوتی اور میرے لئے آنسو بہاتی ۔میں بتا نہیں سکتا مجھ پر کس کا زیادہ اثر ہوا ۔وہ میری جگہ میرے لئے لکڑیاں کاٹتی ۔آپ جانتے ہیں جناب ! میں نے کبھی بھی آپ کی لکڑیاں نہیں کاٹیں ۔وہی ہمیشہ کاٹتی ۔اس طرح اس نے مجھے بچایا ۔اسے دیکھتے ہوئے میں نے شراب چھوڑ دی ۔میں نہیں بتا سکتا ،میں اتنا جانتا ہوں جو وہ کہتی اور جس شریفانہ طریقے سے وہ برتاؤ کرتی اس سے میری روح بدلنا شروع ہو گئی ۔میں اسے کبھی نہیں بھلا سکتا ۔اب جانے کا وقت ہے وہ گھنٹی بجانے لگے ہیں۔

لشکوو نے جھک کر تعظیم دی اور گیلری کی طرف بڑھ گیا ۔

(انگریزی سے اردو ترجمہ)

 

English Title: The Beggar

Written by:

 Anton Pavlovich Chekhov (29 January 1860  – 15 July 1904  ) was a Russian  playwright and short-story writer who is considered to be one of the greatest writers of all time. His career as a playwright produced four classics, and his best short stories are held in high esteem by writers and critics.

 

www.facebook.com/groups/AAKUT/

 

Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق