انتون چیخوف کا افسانہ " شرط "

عالمی ادب کے اردو تراجم (انتخاب افسانہ)

افسانہ نمبر  9 : شرط

تحریر: انتون    چیخوف (روس)                        

مترجم:  نا معلوم (اس افسانے کے تین  ترجمےاور  ہوئے ہیں۔  علامہ نیاز فتح پوری،   غلام عباس اور ایک منور آکاش صاحب نے کیا ہے۔)

 




خزاں کی ایک اداس شام تھی اور وہ سر جھکائے اپنے کمرے میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک اب تک نہ جانے کتنے چکر کاٹ چکا تھا۔ ایسے میں وہ پندرہ برس پہلے کی اس یادگار اور پُرلطف تقریب کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ جب اس کی ملاقات شراکے سب سے مشہور اور نوجوان وکیل سے ہوئی تھی اور اس کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو بہت جلد ایک انتہائی دلچسپ بحث میں تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ خود ایک بڑا دولت مند یہودی تھا اور دوسری کاروباری فرموں کو سود پر بھاری رقوم قرض دیا کرتا تھا۔ یہ نوجوان وکیل اس کے ساتھ کاروبار کرنے والی ایک فرم کا قانونی مشیر تھا اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اس نے اسے بھی مدعو کر رکھا تھا۔ پیشہ ورانہ ذہانت کے علاوہ یہ نوجوان بلا کا خوبصورت بھی تھا اور اس کی شخصیت بے پناہ سحر انگیز تھی، بحث اس بات پر چل نکلی تھی کہ سزائے موت ایک انتہائی ظالمانہ اور قبیح فعل ہے۔ پارٹی میں پروفیسر، صحافی، مصنف اور دوسرے دانشور بھی تھے۔ اکثریت کا خیال تھا کہ قرونِ اولٰی کی اس یادگار کو بھی ختم کر دینا چاہیئے۔ ہمارا مذہب، معاشرہ اتنی بہیمانہ سزا کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ بعض کا خیال تھا کہ سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دینا چاہیئے۔

 "میں آپ سے اتفاق نہیں کرتا۔" میزبان یہودی نے بڑے پُرجوش طریقے سے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا۔ "اگرچہ مجھے سزائے موت یا عمر قید سے کبھی واسطہ نہیں پڑا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی مجھے ان دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو میں سزائے موت کو اپنے لیے پسند کرلوں گا۔ یہ صرف ایک لمحے کی اذیت ہوگی جبکہ عمر قید کا ہر لمحہ پھانسی سے زیادہ اذیت ناک ہوگا۔ میں عمر قید کو سزائے موت کے مقابلے میں زیادہ غیر انسانی سمجھتا ہوں۔ آپ ہی بتائیے جناب کون سی بات زیادہ بری ہے۔ اچانک جان سے مار دینا یا سسکا سسکا کر بتدریج ہلاک کرنا؟"

 "دونوں ہی غیر انسانی ہیں۔" ایک مہمان نے اظہارِخیال کرتے ہوئے کہا "کیونکہ دونوں کا مقصد قیمتی انسانی جان کو ختم کرنا ہے۔ ریاست یا حکومت خدا نہیں ہوتی۔ اگر یہ کسی کو زندگی نہیں دے سکتی تو اسے زندگی واپس لینے کا بھی حق نہیں دیا جاسکتا۔"

 "آپ ماہرِقانون ہیں۔ آپ کی حتمی رائے کیا ہے؟" ایک شخص نے نوجوان وکیل کو اظہارِخیال کی دعوت دی۔

 " سزائے موت اور عمر قید ۔ دونوں بڑی بھیانک اور غیر انسانی سزائیں ہیں۔ لیکن اگر مجھے ان میں سے ایک کا انتخاب کرنے کے لیے کہا جائے تو میں معزز میزبان کے پرعکس عمر قید کو اپنے لئے پسند کروں گا۔ اس طرح زندگی تو ختم نہ ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں بالکل نہ رہنے سے کسی نہ کسی حال میں زندہ رہنا بہتر ہے۔"

"ہرگز نہیں ہر گزنہیں"

"یہ درست کہتے ہیں، میرا موقف بھی یہی ہے"

"بالکل غلط سراسر غلط"

"ایسا زندہ رہنا موت سے بدتر ہوگا"

بیک وقت کئی آوازوں سے کمرہ گونج اُٹھا۔ بحث میں اچانک شدت پیدا ہوگئی تھی۔

 نوجوان میزبان جو اب تک بڑے تحمل سے باتیں کر رہا تھا۔ اچانک جوش میں آگیا۔ اور ہوا میں مُکے لہرا لہرا کر کہنے لگا۔

 "یہ سب کہنے کی باتیں ہیں۔ عمر بھر کی قید کاٹنا آسان نہیں، نوجوان وکیل مہینے کی قید نہیں کاٹ سکتا۔ عمر بھر کی قید کیا کاٹے گا۔"

 "میں نے کہا ہے اگر دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو میں عمر قید کا انتخاب کروں گا۔" وکیل نے کہا۔

 "یہ جھوٹ ہے، تم قید کے پہلے سال ہی میں چلا اٹھو گے مجھے سزائے موت دے دو۔ مجھے عمر قید نہیں چاہیئے۔"

"ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں ایک سال چھوڑ پندرہ سال یہ مطالبہ نہ کروں گا۔"

"یہ بات ہے توآؤ میں شرط لگاتا ہوں۔ بیس لاکھ ڈالر کی۔"

"بیس لاکھ ڈالر !" نوجوان وکیل ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑگیا۔ "چلو منظور!" پھر وہ چلایا۔

"منظور۔"

 "ہم سب گواہ ہیں۔" سب بیک آواز بول پڑے۔ اور یہودی میزبان اور نوجوان وکیل نے آگے بڑھ کر ہاتھ پر ہاتھ مار کر شرط کو فائنل کر دیا۔

"اور میں اپنی زندگی کے پندرہ برسوں کی قیدِ مسلسل قبول کرتا ہوں!"

"اور میں اس قیدِ مسلسل کی کامیاب تکمیل پر آپ کو بیس لاکھ انعام دینے کا وعدہ کرتا ہوں۔"

 اور یوں باتوں ہی باتوں میں بحث اچانک سنجیدہ شکل اختیار کر گئی اور یہ مضحکہ خیز بلکہ وحشیانہ معاہدہ طے پا گیا۔ کچھ دیر بعد کھانے کی میز پر یہودی میزبان نے چیلنج قبول کرنے والے وکیل سے کہا۔ " میرے پاس بے اندازہ دولت ہے۔ اتنی کہ میں شمار بھی نہیں کر سکتا۔ بیس لاکھ میرے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ لیکن تم اچھی طرح سوچ لو۔ زندگی بھر کی اذیت خرید رہے ہو۔ ایک دفعہ پھر چانس دیتا ہوں ہوش میں آجاؤ۔"

"میں اپنے الفاظ سے پھرنے والا نہیں۔ یہ بھی ایک انوکھا تجربہ ہی سہی۔"

 "میں کہتا ہوں تم اپنی زندگی کے تین چار قیمتی سال یونہی گنوادو گے۔ تین چار سال اسلیئے کہہ رہا ہوں کہ مجھے یقین ہے کہ تم اس سے زیادہ مُدت جیل میں زندہ نہ رہ سکو گے۔ پاگل ہو جاؤ گے یا قید خانے کی دیواروں سے سر ٹکرا کر جان دے دو گے۔"

"ایسا کبھی نہ ہو گا۔ اپنے چیلنج پر قائم رہو۔"

 "میں اپنے چیلنج پر قائم ہوں مگر تم شاید زندگی سے تنگ آئے ہوئے ہو۔ اپنی خوبصورت اُٹھتی جوانی پر رحم کرو۔ ترس کھاؤ۔ یہ مت بھولو کہ اپنی مرضی سے قید کاٹنا جبراً  قید سے زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ یہ خیال کہ جب تم چاہو شرط ہار کر جیل سے باہر آسکتے ہو تو تم پر زندگی کا ایک ایک لمحہ عذاب بنا دے گا۔ نوجوان دوست مجھے تم پر ترس آرہا ہے۔"

 بوڑھا یہودی کمرے میں چکر کاٹتے ہوئے گزرے ہوئے ایک ایک لمحے کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ پورے پندرہ برس۔ ایک مسلسل فلم کی طرح اس کے ذہن کے پردے پر آتے چلے جا رہے تھے۔ اور اب وہ سوچ رہا تھا، میں نے یہ احمقانہ بلکہ ظالمانہ چیلنج دیا ہی کیوں تھا۔ باتوں ہی باتوں میں اتنی جلدی کیوں سنجیدہ ہوگیا تھا۔ وکیل نے اپنی زندگی کے پندرہ سال داؤ پر لگا دیئے تھے اور میں نے بیس لاکھ ڈالر جھونک دیئے تھے۔ لیکن کیا ہماری اس حرکت سے اس بات کا ہمیشہ کیلئے تصفیہ ہو سکتا تھا کہ سزائے موت بہتر ہے یا عمر قید؟ ہر گز نہیں ہر گز نہیں، یہ سب بکواس تھی۔ بیہودگی تھی۔ کاش میں نے ہی عقل کے ناخن لیے ہوتے۔ میری طرف سے یہ بےپناہ دولت کی اندھی نمائش تھی اور نوجوان وکیل کی طرف سے دولت کی حرص کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔

 اب اس کی یاداشت میں پارٹی کے بعد واقع ہونے والی باتیں تازہ ہو رہی تھیں۔ تب یہ معاہدہ طے پایا تھا کہ وکیل اس کے باغ کے ایک کونے میں واقع اس کے مکان کے ایک کونےمیں قیدِ تنہائی میں پندرہ سال رہے گا۔ اس کی کڑی نگرانی کی جائے گی۔ یہ بھی طے پایا کہ اس عرصے میں وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکل سکے گا۔ دوسرے لوگوں سے ملنے اور ان سے باتیں کرنے یا ان کی شکل دیکھنے کی بھی اجازت نہ ہو گی۔ وہ انسانی آوازیں بھی نہ سن سکے گا۔ البتہ اسے روزانہ اخبار اور مطلوبہ کتابیں مہیا کی جاتی رہیں گی۔ اسے موسیقی کا ایک آلہ مہیہ کر دیا جائے گا۔ خط لکھنے اور وصول کرنے کا حق ہو گا۔ شراب اور سگریٹ بھی مہیہ کیے جاتے رہیں گے۔ یہ بھی طے پایا کے وہ بیرونی دنیا سے کمرے میں خاص طور پر بلندی پر بنائے جانے والے دریچے کے ذریعے خاموش رابطہ رکھ سکے گا۔ یعنی اپنی ضروریات کا اظہار رقعہ کے ذریعے کرے گا۔ اسی دریچے سے اسے خوراک اور ضرورت کی دوسری چیزیں مہیا کی جائیں گی۔ معاہدہ تحریری اور قانونی طور پر طے پایا اور اس میں تمام تر تفصیلات قلم بند کر دی گئیں۔ یہ بھی لکھ دیا گیا کہ نوجوان وکیل چیلنج کی رو سے 14 نومبر 1885ء کو رات ٹھیک بارہ بج کر ایک منٹ پر اس کی کوٹھری کا دروازہ کھول کر اسے رہا کر دیا جائے گا اور چیلنج کی کامیاب تکمیل پر اسے بیس لاکھ ڈالر نقد ادا کر دیے جائیں گے لیکن اگر وہ طے شدہ وقت سے دو منٹ بھی پہلے باہر نکلتا ہے یا کسی اور قسم کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو ہو بیس لاکھ ڈالر کا قطعاً  مستحق نہ ہو گا اور شرط ہار جائے گا۔

 دریچے کے راستے باہر بھیجی جانے والی چھوٹی چھوٹی پرچیوں سے یہ اندازہ ہوا کہ قید کے پہلے سال تنہائی اور بوریت سے از حد پریشان رہا۔ اس کے بند کمرے میں دن رات پیانو بجانے کی آوازیں آتی رہتی تھیں۔ اس نے شراب اور تمباکو اور سگریٹ وغیرہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ شراب کے بارے میں اس نے لکھا۔ "یہ خواہشات کو بھڑکاتی ہے اور خواہشات ایک قیدی کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہیں۔" اس نے یہ بھی لکھا۔ "اکیلے مے نوشی کرنے سے زیادہ بور کرنے والی کوئی بات نہیں ہو سکتی۔" اور تمباکو کے بارے میں اس کی رائے یہ تھی کہ "یہ میرے کمرے کی بند فضا کو مزید مکدر کر دیتا ہے۔" قید کے پہلے سال وکیل کواس کے مطالبے پر ہلکی پھلکی کہانیوں کی کتابیں اور ناول مہیا کے۔ گئے۔ اس نے محبت اور جرائم، کامیڈی اور تصوراتی کہانیوں میں زیادہ دلچسپی ظاہر کی۔

 دوسرے برس کے دوران پیانو بجنا بند ہو چکا ہے۔ اسے اب اس ساز سے بھی چڑ ہو گیے تھی۔ اب اس نے زیادہ تر کلاسیکی کتابوں کی فرمائش کی۔ پانچویں برس میں اس کے کمرے سے موسیقی کی آوازیں ابھرنا پھر شروع ہو گئیں اور قیدی نے شراب کی فرمائش بھی شروع کر دی۔ چھپ چھپ کر اس کی جھلک دیکھنے والوں نے بتایا کہ یہ سارا سال وہ کھاتا پیتا اور سوتا رہا۔ وہ اکثر بڑبڑانے لگتا اور اپنے آپ کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیتا۔ اس سال کے دوران اس نے کتابیں بالکل نہ پڑھیں۔ اس سے پہلے کے چار برسوں میں اس کی فرمائش پر تقریباً چھ سو کتابیں خرید کر اسے مہیا کی گئیں تھیں۔ اس کے بے پناہ مطالعے کا نتیجہ یہ تھا کہ ایک روز یہودی کو اس کی طرف سے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا۔

 

"ڈیئر! میں تمھیں یہ خط چھ زبانوں میں لکھ رہا ہوں اسے ان زبانوں کے ماہرین کو

دکھاؤ اور پڑھاؤ اگر انہیں میرے جملوں میں زبان و بیان کی کوئی غلطی نظر آئے

تو میری تم سے درخواست ہے کہ میرے کمرے کے قریب باغ میں کسی جگہ بندوق

کا ایک فائر کر دینا۔ اس آواز سے مجھے پتہ چل جائے گا کہ میں نے یہ زبانیں سیکھنے

کے لئے جو ریاضت کی وہ ضائع نہیں گئی۔ یہی وہ مختلف عالمی زبانیں ہیں جنہیں

مختلف قوموں کے لوگ بولتے ہیں اور جن میں وہ تمام ادوار کے انسانوں کی ذہانت

کے انمول خزانے سمٹ گئے ہیں۔ تم میری خوشیوں کا اندازہ نہیں لگا سکو گے جو

ان زبانوں پر عبور حاصل کرکے ہوتی ہے۔"

 

 مختلف لسانی ماہرین کو اس کا خط پڑھا دینے کے بعد باغ میں بندوق داغ دی گئی۔ آگے چل کر قیدِ تنہائی کے دسویں سال میں عموما" وکیل کو اپنے مطالعہ کی میز پر ایک ہی کتاب کے آگے سر جھکائے دیکھا گیا۔ یہودی حیران تھا کہ وہ شخص جس نے پہلے چار برسوں میں چھ سو ضخیم اور مشکل ترین کتابیں پڑھ ڈالی ہوں پورا سال صرف ایک کتاب ہی کو پڑھتا رہا۔ یہ سال ختم ہونے پر اس نے اس کی جگہ عالمی مذاہب اور عقائد کے بارے میں ایک نئی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیا۔

 قید کے آخری دو برسوں میں وکیل نے ہر قسم کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔ اب جو بھی کتاب اس کے ہاتھ آتی وہ اسے پڑھ ڈالتا۔ اس نے پہلے تو مطالعٔہ فطرت سے متعلق کتابوں کو کھنگال ڈالا۔ پھر بائرن اور شیکسپئر کو پڑھا۔ اب اس کی طرف سے جو رقعے ملتے اور ان پر بیک وقت کیمسٹری، میڈیسن، ناولوں اور فلسفہ و مذاہب سے متعلق رسالوں، کتابوں اور کتابچوں کی  فرمائش کی گئی ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے سمندر میں کشتی شکستہ انسان ہے جو کبھی ایک تختہ کا سہارا لیتا ہے اور کبھی لپک کر دوسرے تختے کو پکڑ لیتا ہے اور یوں خود کو ڈوبنے سے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ یہودی سر جھکائے ٹہلتا ہوا اپنی یاداشتوں کا ایک ورق الٹ رہا تھا۔

 

 کل دوپہرٹھیک بارہ بجے اس کی قید کی معیاد ختم ہو جائے گی۔ پورے پندرہ برس بعد وہ میری قید سے آزاد ہو جائے گا اور معیاد کی رو سے مجھے اس کو بیس لاکھ ڈالر ادا کرنے ہوں گے، میرے پاس اب اتنی بھاری رقم کہاں؟ اور اگر میں اپنا سارا کچھ بیچ باچ اور سارے اثاثے سمیٹ سماٹ کر اسے یہ رقم ادا کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو بالکل تباہ و برباد ہو جاؤں گا۔ دیوالیہ! ایک دم دیوالیہ! پندرہ برس پہلے تو میرے پاس ایک بیس لاکھ کیا کئی بیس لاکھ ڈالر تھے اتنے کے ان کی گنتی اور حساب کتاب رکھنا بھی مشکل تھا لیکن آج میری جمع شدہ پونجی کے مقابلے میں مجھ پر قرضوں کا بوجھ کہیں زیادہ تھا۔ کاروبار میں سٹے بازی نے مجھے بلکل ہی تباہ کر دیا ہے۔ مجھے منہ دکھانے کو نہیں چھوڑا۔ مالی پریشانیوں نے مجھے یوں بھی بہت زیادہ بوڑھا کر دیا ہے۔ مارکیٹ میں میری ساکھ اجڑ چکی ہے۔ خود میں اعتماد کی دولت سے محروم ہوں۔ اب کسی کام میں دل ڈالتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ جن بڑی بڑی فرموں سے رقمیں لینی تھیں اُن میں سے بھی کئی ایک دیوالیہ ہو چکی ہیں۔ مقدر مے بہت بڑی دغا کی ہے! قرض خواہ اپنی رقمیں وصول کرنے کے لئے عدالتوں میں میرے خلاف نالش کرنے کی سوچ رہے ہیں۔ اور پھر یہ نئی مصیبت کل اس بڈھے دانشور وکیل بیس لاکھ ڈالر دینے ہوں گے۔ یا خدا میں کیا کروں، کہاں جاؤں! یہ کہہ کر یہودی نے دونوں ہاتھوں سے الجھے ہوئے سفید بالوں والا سر تھام لیا۔ پھر وہ سوچنے لگا یہ شخص مر کیوں نہیں جاتا۔ مگر ابھی تو اس کی عمر صرف چالیس سال ہے۔ وہ کل مجھ سے بیس لاکھ ڈالر وصول کر لے گا۔ نہ دوں گا تو عدالت کے ذریعے نکلوالے گا۔ اور پھر میرے پیسوں پر عیش کرتا پھرے گا۔ اور پھر مجھے ایک ایک پائی کا محتاج کر جائے گا۔ وہ لکھ پتی بن جائے اور میں گدا گر۔ پھر وہ ہر روز بڑے طنز سے مجھے خیرات دیتے ہوئے یہ جملہ کہا کرے گا۔ "میری یہ امارت و خوشحالی تمہاری وجہ سے ہے آؤ میں تمہاری مدد کروں۔" نہیں نہیں، میں یہ سب کچھ نہیں سن سکتا۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ یہودی چلا اُٹھا اور اُس نے اپنے اُلجھے ہوئے بال پوری وحشت سے نوچ ڈالے۔ پھر اسے اچانک خیال آیا۔ "دیوالیہ ہونے اور رُسوائی و ذلت سے بچنے کا ایک طریقہ ہےکہ وکیل کو مار دیا جائے۔" اس خیال کے آتے ہی یہودی کے مضطرب دل کو سکون آ گیا۔ کلاک نے تین بجائے۔ یہودی اب تک جاگ رہا تھا۔ گھر کا باقی ہر فرد گہری نیند میں غرق تھا۔ باہر بارش میں درختوں کی شائیں شائیں کے سوا کوئی آواز جگائے بغیر اپنی آہنی سیف سے قیدی کے کمرے کی چابی نکالی۔ پندرہ برسوں میں اس چابی کو ایک دفعہ بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اس نے اپنا اوور کوٹ کندھے پر ڈالا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔ باغ میں تاریکی اور بلا کی سردی تھی۔ بارش بھی جاری تھی۔ سرد ہوا کے تھپیڑے درختوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پٹخ رہے تھے۔ یہودی قیدی کے کمرے کے باہر دالان میں پہنچ کر رک گیا۔ اس نے چوکیدار کو دو دفعہ آواز دی لیکن کوئی جواب نہ آیا۔ یوں لگتا تھا کہ خراب موسم کی وجہ سے چوکیدار نے باورچی خانے یا کسی دوسری عمارت میں پناہ لے رکھی ہے اور جا کر سو گیا ہے۔یہودی نے دل ہی دل میں سوچا۔ "مجھ میں ہمت تو ہے۔ میں نے جو پروگرام بنایا ہے اس پر عمل کر گزرتا ہوں۔ شک پڑا بھی تو چوکیدار پر پڑے گا۔ وہ اندھیرے میں ٹٹولتا ٹٹولتا قیدی کے کمرے تک پہنچ گیا۔ پھر اس نے دیا سلائی جلائی اور اس کی روشنی میں اِدھر اُدھر دیکھا۔ گندے برتن جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ ایک جگہ بجھا ہوا اسٹوو پڑا ہوا تھا۔ چوکیدار کا بستر خالی پڑا تھا۔ اور اس پر چادر تک نہ تھی۔ کہیں کسی ذی روح کی موجودگی کااحساس نہ ہوتا تھا۔ دیا سلائی کے بجھتے ہی بوڑھا یہودی کانپتی ہوئی ٹانگوں کو ہاتھ سے پکڑ کرتپائی پر چڑھ گیا۔ اور اس نے روشن دان کے راستے قیدی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ جلتی ہوئی موم بتی آخری دموں پر تھی۔ قیدی میز پر سر جھکائے بیٹھا تھا۔ پیچھے سے بس اس کی دو کرسیاں اور نیچے قالین پر جگہ جگہ کتابیں بکھری پڑی تھیں۔ پانچ منٹ گزر گئے لیکن قیدی کے جسم میں کوئی حرکت یہ ہوئی۔ یہودی نے دریچے کے طاقچوں پر اپنی انگلیوں سے ہلکی سی دستک دی۔ لیکن اس کے جواب میں بھی قیدی کے سال خوردہ جسم نے کوئی حرکت یہ کی۔ اب یہودی نے بڑی آہستگی سے تالے پر مڑے ہوئے کپڑے پر لگی ہوئے سیل کو توڑا۔ کپڑے کو چاقو سے کاٹا اور چابی اس کے اندر اُتار دی۔ تالے کے لیور پندرہ سال تک بند رہنے سے جام ہو گئے تھے تاہم قدرے زور لگانے سے تالا کھل گیا۔ اسے پوری اُمید تھی کہ تالا کھلنے کی آواز کے ساتھ ہی قیدی فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے گا اور دروازے کی طرف لپکے گالیکن ایسا بالکل نہ ہوا۔ تین منٹ گزر گئے۔ خاموشی کو کسی آواز یا حرکت نے نہ توڑا۔ اب اس نے کمرے میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ میز کے آگے جو آدمی بیٹھا وہ عام انسانوں سے مختلف تھا وہ محض ایک انسانی ڈھانچہ تھا۔ غیر صحت مند نحیف و ناتواں ہڈیوں پر سوکھی ہوئی انسانی کھال مڑھی تھی اس کے چہرے کا رنگ زرد مٹیالا تھا۔ گال سوکھ کر اندر دھنس گئے تھے۔ بال چاندی کے تاروں کی طرح چمک رہے تھے اور کوئی بھی شخص اسے دیکھ کر اس بات پر یقین نہیں کر سکتا تھا کہ اس کی عمر صرف چالیس سال ہو گی۔ میز پر اس کے جھکے ہوئے سر کے نیچے ایک کاغذ پڑا تھا جس پر باریک لفظوں میں کچھ عبارت لکھی تھی۔

 "چہ! بیچارہ وکیل!" یہودی نے اس پر ترس کھاتے ہوئے دل ہی دل میں کہا۔ " اس کو تو ٹھکانے لگانے کے لئے مجھے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑے گا۔ نیم مردہ ڈھانچے کو اٹھا کر پلنگ پر ڈالوں گا اور شہ رگ پر تکیہ رکھ کر زور سے دبا دوں گا۔ دوسرے دن کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس کی موت طبعی طریقہ سے واقع ہوئی ہے لیکن اس سے پہلے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ اس نے کاغذ پر کیا لکھ رکھا ہے۔" چنانچہ یہودی نے اس کے سامنے سے کاغذ اُٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا۔

کل رات ٹھیک بارہ بجے میری یہ طویل قیدِ تنہائی ختم ہو جائے گی اور میری آزادیاں بحال ہو جائیں گی اور میں دوسرے لوگوں سے مل سکوں گا۔ لیکن قبل اس کے کہ میں اس کمرے سے باہر نکلوں اور سورج کی روشنی کو دیکھوں میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ تم سے کچھ باتیں کہہ لوں۔ مجھے اپنے پاک، صاف اور بے داغ ضمیر اور اس خداوند کی قسم ہے جو مجھے ہر وقت ہر لمحے دیکھ رہا ہےکہ میں تمہارے سامنے یہ اعلان کر دوں کہ آزادی، زندگی اور صحت غرض ہر چیز میری نظروں میں بے حیثیت و بے وقعت ہے جسے تمہاری کتابیں دنیا کی نعمت قرار دیتی ہیں۔

پورے پندرہ سال تک میں نے بڑے انہماک سے زمینی زندگی کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ میں نے اس عرصے میں نہ زمین دیکھی اور نہ اس پہ بسنے والے لیکن تمہاری مہیا کی ہوئی کتابوں کے ذریعے میں نے اس زمین اور اس کی نعمتوں اور برکتوں کو اچھی طرح چکھا، پرکھا اور محسوس کیا۔ میں نے مہکتی ہوئی شرابیں پیں۔ لہکتے ہوئے گیت گائے۔ جنگلوں، پہاڑوں، وادیوں اور مرغزاروں میں غزالوں کے پیچھے دوڑا۔ ہرنوں کا شکار کیا۔ عورتوں سے محبت کی اور خوبصورت عورتوں نے جو بادلوں کی طرح ہلکی، پاک شفاف بے ریا و بے داغ تھیں اور جنہیں تمہارے شاعروں نے اپنی غیر معمولی قوتِ تخیل سے تخلیق کیا تھا۔ مجھ سے چاندنی راتوں میں ملاقاتوں کیں۔ اور میرے ساتھ تکیے پر سر رکھ کر سرگوشیوں کے انداز میں بے حد و حساب خوبصورت داستانیں سنائیں اور ان کے نشہ شباب سے میں پہروں مست رہا۔ تمہاری کتابوں کے ذریعے میں البرز جیسے بلند و بالا اور پر ہیبت بہاڑوں پر چڑھ گیا اور چوٹیوں سے میں نے سورج کو صبح کے وقت افق سے طلوع ہوتے اور شفق کے دامن میں غروب ہوتے دیکھا۔ میں نے تادیر نیلگوں اور سفید آسمان کے کناروں پر رنگوں کے طلسمات کھلنے کا نظارہ کیا۔ سمندروں کی چھاتیوں پر کرنوں کا رقصِ بسمل دیکھا۔ہواؤں کو ندیوں کا بدن چومتے پایا۔ پہاڑوں کے کناروں پر اندھیرے اجالے کے پھول کھلتے دیکھے۔ رو پہلی کرنوں کو سفید بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے اور سورج کی الوداعی شعاعوں کو سیاہ گھٹاؤں کا سینہ چیرتے دیکھا۔ میں نے سرسبزوشاداب جنگل ہرے بھرے لہلہاتے کھیت، بھرپور دریا اور لبا لب جھلیں۔ ہنستے بستے شہر اور بستیاں دیکھیں میں نے رقص گاہوں کے نیم وا دروازوں سے پھوٹ کر ہوا کی لہروں پہ تیرتی ہوئی موسیقی کی مدھر تانیں سنیں۔ میں نے ان خوبصورت اور پاکیزہ فرشتوں کے پروں کو چھوا جو میرے خواب وصال در آتے ہیں اور مجھ سے خدا کی باتیں کرتے تھے۔ تمہاری کتابوں کے ذریعے میں زمین اور سمندر کی عمیق پہنائیوں میں اتر گیا۔ مجھ سے معجزے رونما ہوئے۔ میں نے شہروں کو جلا کر مسمار کر دیا۔ نئے نئے مذاہب کی تبلیغ کی اور ایک عالم کو مسخر کیا۔

تمہاری کتابوں نے مجھے عقل و دانش عطا کی اور بے فکرے دنوں سے لے کر آج تک انسانی ذہن نے جو کچھ بھی سوچا۔ وہ سب جوہر بن کر میری اس چھوٹی سی کھوپڑی میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہوگیا اور میں جانتا ہوں کہ میں تم سے کہیں زیادہ عقل و خرد کا مالک ہوں۔ تم سے کہیں زیادہ چالاک ہوں! مگر میں تمہاری ان کتابوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں، دنیاوی تخلیق اور دانش میرے سامنے بے وقعت چیزیں ہیں۔ ہر چیز بے حقیقت ہے۔ بے حیثیت ہے۔ فریب ہے، دھوکا ہے، سراب ہے، مانا کہ تم کو خود پر بڑا ناز ہوگا۔ خوبصورت بھی ہو گے۔ اور عقل مند بھی! لیکن ایک ایسی بھی طاقت ہے جسے تم موت کہتے ہو جو زمین پر سے تمہارے وجود کو یوں مٹا کر رکھ دے گی جیسے تمہارا کبھی وجود ہی نہ تھا اور تمہاری خوشحالی کی یہ داستانیں اور تمہارے غیر فانی فلسفیوں اور دانشوروں کا لافانی نام اور کام سب ایک نہ ایک دن اس دنیا کے ساتھ ہی مٹ جائے گا۔

تم پاگل ہو غلط راستے پر چلے گئے ہو۔ تم نے جھوٹ کو سچ کی اور بدصورتی کو خوبصورتی کی جگہ دی۔ اگر بعض حالات کے نتیجے میں درختوں پر پھلوں کی بجائے مینڈک لگنے لگیں تو تم تعجب کرو گے۔ اسی طرح آج میں تم پر تعجب کر رہا ہوں۔ جس نے اس زمین کو جنت کا دل سمجھ رکھا ہے۔ خوبصورتی کا سَودا بدصورتی سے کر رکھا ہے۔ میں تمہیں سمجھانے یا قائل کرنے کی ہر گز کوشش یہ کروں گا! تاہم میں تمہیں آئینہ ضرور دکھانا چاہتا ہوں اور ان چیزوں کیلئے اپنی نفرت کا کھل کر اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ جن کیلئے اور صرف جن کیلئے تم زندہ رہ رہے ہو! میں بیس لاکھ ڈالر کی اس رقم سے دستبردار ہوتا ہوں۔ جسے کبھی میں نے نعمت ارضی سمجھ کر پندرہ سال کی غلامی ہنسی خوشی قبول کرلی تھی۔ اب یہ رقم میرے نزدیک کوئی وقعت نہیں رکھتی۔ اس قسم کے حصول کے حق سے خود کو محروم کر دینے کیلئے میں تحریری معاہدے کی خلاف ورزی کروں گا اور مقررہ وقت سے پانچ منٹ پہلے قیدِ تنہائی سے نکل جاؤں گا۔"

جب یہودی یہ عبارت پڑھ چکا تو اس نے کاغذ کو میز پر واپس رکھ دیا۔ قیدی کے جھکے ہوئے سر پر بوسہ دیا اور پھر اس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ وہ کمرے کو پہلے کی طرح بند کر کے واپس چلا آیا۔ اس سے پہلے زندگی میں کبھی وہ اتنا نادم اور پشیمان نہ ہوا تھا جتنا آج تھا۔ زندگی کے بڑے سے بڑے نقصان پر اس کی یہ حالت کبھی یہ ہوئی تھی۔ اور آج سے پہلے کبھی وہ خود اپنی نظروں میں ذلیل اور حقیر نہ تھا۔ گھر آکر وہ بستر پر پڑ رہا لیکن ضمیر کی لعن طعن اور آنسوؤں کے تسلسل نے نیند کو ایک پل کیلئے بھی اس کے نزدیک نہ آنے دیا۔

اگلی صبح غریب چوکیدار بدحواسی کے عالم میں دوڑتا ہوا اس کے پاس آیا اور اس نے انکشاف کیا کہ قیدی روشن دان کے راستے بھاگ نکلا ہے اور اس نے خود اسے باغ کی دیوار پھلانگتے دیکھا ہے۔ وہ اس کے پیچھے بھاگا لیکن قیدی جلد ہی نظروں سے اُوجھل ہوگیا۔ یہ سن کر یہودی اپنے تمام ملازموں کو ساتھ لے کر قیدی کے کمرے میں پہنچا۔ سب کو قیدی کے فرار کا گواہ بنا لیا اور مزید کسی قانونی اُلجھن سے بچنے کیلئے اس نے میز پر چھوڑی ہوئی قیدی کی آخری تحریر کو اٹھا لیا اور واپس آکر اسے آہنی سیف میں محفوظ کرلیا۔

English Title: The Bet

Written by: (29 January 1860 - 15 July 1904),

Famous Russian Physician, short story Anton Pavlovich Chekhov writer, playwright

نوٹ: اس افسانے پر پی ٹی وی نے ایک ڈرامہ "آزاد قیدی" کے عنوان سے بنایا تھا۔ جو یوٹیوب پر موجود ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=QlhTD2MvIn8&feature=youtu.be

OR Search “Azaad Qaidi” on youtube.




www.facebook.com/groups/AAKUT/

 


Comments

Popular posts from this blog

افسانہ نمبر 642 : زندگی کی صبح || تحریر : پرل ایس بک (امریکہ) || مترجم : یوسف ظفر

رابندر ناتھ ٹیگور کا افسانہ : کابلی والا (Kabuliwala)

افسانہ نمبر 688 : ہیڈ ماسٹر || تحریر : پی پدمراجو (بھارت) || اردو ترجمہ : حنظلة خلیق