Posts

Showing posts from April, 2025

افسانہ نمبر 674 : کیا میں کتا ہوں || تحریر : باجن (چین) || اردو ترجمہ : فیروز عالم

Image
  افسانہ نمبر 674 :   کیا میں کتا ہوں تحریر : باجن (چین) اردو ترجمہ : فیروز عالم(امریکہ) مجھے نہیں پتا کہ میری عمر کیا ہے یا میرا کیا نام ہے۔ میں تو ایک مٹی کی ٹھیکری کی طرح ہوں جسے کسی نے اس دنیا میں پھینک دیا ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ میرے ماں باپ کون تھے اور اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ کوئی مجھے تلاش کرتا ہوا نہیں آئے گا۔ میرا قد چھوٹا ہے، میرے بال اور آنکھیں سیاہ ہیں اور میری ناک چپٹی ہے۔ مطلب یہ کہ میں ان لاکھوں بلکہ کڑوروں لوگوں کی طرح ہوں جو عام آدمی کہلاتے ہیں اور انکی تقدیر یہی ہوتی ہے کہ وہ عام آدمی ہی کی طرح مر جاتے ہیں۔ ہر شخص کا ایک بچپن ہوتا ہے مگر میرا بچپن شاید سب سے مختلف تھا کہ میں نے کبھی محبت کی گرمی، مامتا کی توجہ اور اچھی غذا نہیں دیکھی۔ مجھے یہ یاد ہے کہ ایک دن ایک بوڑھے آدمی نے جس کا چہرا جھریوں سے بھرا تھا مجھے بازاروں میں بھٹکتے دیکھ کر کہا تھا " اے بچے تیری یہ عمر اسکول میں ہونے کی ہے۔ کیا تو نہیں جانتا کہ زندگی میں سب سے اہم اور قیمتی چیز اچھی تعلیم ہے اس کے اس جملے نے جیسے مجھے جگا دیا میں اپنی بھوک اور سردی سے ٹھڑتے جسم کو بھول کر اسکو...

افسانہ نمبر 673 : سائبان تلے || تحریر : نجیب محفوظ (مصر) || اردو ترجمہ : ڈاکٹر آصف فرخی

Image
افسانہ نمبر 673 : سائبان تلے تحریر : نجیب محفوظ (مصر) اردو ترجمہ : ڈاکٹر آصف فرخی   بادل آنا شروع اور پھر ایسے گھِر کے آئے جیسے رات چھائی جارہی ہو۔ پھر پھوار پڑنے لگی۔ سڑک کے اوپر ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس میں جس کی بو بسی ہوئی تھی۔ وہاں سے گزرنے والوں نے اپنی رفتار تیز کردی، سوائے اس گروہ کے جو بس اسٹاپ کے سائبان کے نیچے جمع ہو گیا تھا۔ اس منظر کا معمولی پن اس پر بے حس و حرکتی کا انجماد طاری کر دیتا، اگر ایک آدمی نہ ہوتا جو بغلی گلی سے پاگلوں کی طرح چیختا ہوا نکلا اور دوسری گلی میں گھس گیا۔ اس کے پیچھے پیچھے مردوں اور نوجوانوں کا ایک گروہ تھا جو زور زور سے چیخ رہا تھا، "چور۔۔۔۔ پکڑو چور کو!" یہ غل غپاڑا آہستہ آہستہ مدھم ہوا پھر اچانک غائب ہوا اور پھوار پڑتی رہی۔ سڑک خالی ہوگئی، یا اس طرح معلوم ہونے لگی اور رہے وہ لوگ جو سائبان کے تلے جمع ہو گئے تھے، ان میں سے کچھ تو بس کا انتظار کر رہے تھے اور کچھ صرف اس لیے وہاں آگئے تھے کہ بھیگنے سے بچ جائیں۔ اس پکڑا دھکڑی کا شور ایک بار پھر جاری ہو گیا اور قریب آنے لگا تو اس کی آواز بلند ہوتی گئی۔ تعاقب کرنے والے پھر سامنے آئے اور ...

افسانہ نمبر 672 : آوارگی کی شب || تحریر : ہنری سلیسر (امریکہ) || اردو ترجمہ : وسیلہ خاتون

Image
افسانہ نمبر 672 : آوارگی کی شب تحریر : ہنری سلیسر (امریکہ) اردو ترجمہ : وسیلہ خاتون مسز رچرڈ نے ڈیزی کے فلیٹ پر دستک دینے سے پہلے بال سنوارے پھر گھڑی میں وقت دیکھا، شام کے ساڑھے سات بج رہے تھے، "ڈیزی ڈارلنگ " مسز رچرڈ نے دروازے پر دستک دیتے ہوئے کسی بچّی کی طرح چلا کر کہا۔ ”سمبا کھیلنے کا وقت ہو گیا ہے۔“ اپنے فلیٹ میں سنگھار میز کے سامنے بیٹھی ہوئی دراز قد سیاہ بالوں والی حسین ڈیزی نے بالوں میں برش پھیرتے ہوئے مسز ر چرڈ کی آواز سنی اور مسکرادی۔ "اندر آ جائے ۔" ڈیزی نے زور سے کہا۔ مسز رچرڈ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے جھجکیں ۔ ”اوہ معاف کرنا ڈیزی ڈیئر ! مجھے معلوم نہیں تھا کہ تم لباس تبدیل کر رہی ہو ۔ " مسزر چرڈ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ "کوئی بات نہیں مسز رچرڈ"، ڈیزی نے کھڑے ہو کر بالوں میں سرخ ربن باندھتے ہوئے قد آدم آئینے میں اپنے سراپا کا غور سے جائزہ لیا اور سوچا یہ درست ہے کہ میں اب کوئی نوخیز لڑکی نہیں ہوں لیکن مسز رچرڈ کی طرح بوڑھی مرغی بھی نہیں ہوں ۔ "کیا .... کیا تم کہیں جا رہی ہو؟ میں سوچ رہی تھی کہ آج کھیل جلد شروع کر دیا جائے ، میں...