Posts

Showing posts from March, 2025

افسانہ نمبر 669 : کھانے کا تمغہ || تحریر : لیوشن و و (چین) || مترجم : منیر فیاض

Image
  افسانہ نمبر   669 :   کھانے کا تمغہ تحریر : لیوشن و و (چین) مترجم : منیر فیاض (راولپنڈی) وہ چھبیس سال کا تھا۔ اچھے کالج سے پڑھ کر ایم اے کیا تھا اور اچھی نوکری کا حامل تھا۔ اس صبح اس کی کمپنی کے صدر   نے اسے پہلی مرتبہ ایک کاروباری ڈنر پر جانے کے لیے نامزد کیا تھا مگر ذراسی لا پرواہی سے اس نے اپنی شرٹ کے سامنے والے حصے پر جوس گرا لیا تھا۔ اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ اسے کتنی شرمندگی ہوئی ۔ گھر پہنچنے پر اس نے مایوسی سے گہرا سانس لیا۔ جب وہ دروازے سے داخل ہو رہا تھا تو اس کی ماں نے ایک نظر میں اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ لیا اور اس سے اِدھر ادھر کی باتیں کرنا شروع ہوگئی۔ اس نے فورا ًشرٹ اتار کر دھونے کے لیے ماں کے حوالے کر دی۔اس کے باپ نے اسے ڈانٹا نہیں بل کہ اس کے ساتھ چھیڑ خانی شروع کر دی ۔ ” اسے دھونے کی اتنی جلدی کیا ہے۔“ اس نے اپنا پڑھائی والا چشمہ لگاتے ہوئے دھبے کو قریب سے دیکھا۔ میں کہتا ہوں اسے کچھ دن ایسے ہی لٹکا رہنے دو، آخر یہ کھانے کا تمغہ ہے۔“ اسے سمجھ نہیں آئی کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کی ماں نے غصے کی اداکاری کرتے ہوئے اس کے باپ کو بازو پر م...

افسانہ نمبر 668 : سات قاصد || تحریر : دِینو بوتزاتی(اٹلی) || مترجم : خالد فرہاد دھاریوال

Image
  افسانہ نمبر 668 : سات قاصد تحریر : دِینو بوتزاتی(اٹلی) مترجم : خالد فرہاد دھاریوال میں جب سےاپنی آبائی سلطنت کی سیاحت کرنے نکلاہوں،روزبہ روز پاے تخت سے دُور ہی دُور ہوتا جا رہا ہوں اور میرے پاس اطلاعات کی آمد میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ میں جب اس سفر پر روانہ ہوا،تب محض تیس سال کا تھااور آٹھ سال سے زیادہ گزر چکے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک کہوں توآٹھ سال،چھ مہینے اور پندرہ دنوں سے مسلسل سفر میں ہوں۔ جب میں روانہ ہوا، تو سوچا تھا کہ کچھ ہی ہفتوں میں با آسانی سرحدپر پہنچ جاؤں گا، مگر مجھے نئے نئےلوگ ملتےجا رہے ہیں،نئےقریوں اور علاقوں کاپتہ چل رہاہے اورہر کہیں میری زبان بولنے والے،میری رعیت ہونے کادعویٰ کرنے والے لوگ ہیں۔ بعض اوقات مجھےشبہ ہوتا ہے کہ میرا قطب نُماپاگل ہو گیاہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جنوب کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن دراصل ہم دائرے میں چکر لگائے جا رہے ہیں، اور حقیقت میں پاے تخت سے ہمارا فاصلہ بڑھ ہی نہیں رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم مُلک کی سرحد سے ہمکنار نہیں ہو پا رہے۔ لیکن اکثر مجھےیہ خیال بھی ستاتاہے کہ شاید سرحدیں ہیں ہی نہیں، یہ سلطنت بے حد وسیع و عریض ہے...

افسانہ نمبر 667 : نئے سال کا تحفہ || تحریر : الیکساندر سیپکن (روس) || اردو ترجمہ: ڈاکٹر مجاہد مرزا

Image
   افسانہ نمبر 667 : نئے سال کا تحفہ تحریر : الیکساندر سیپکن (روس) روسی سے اردو ترجمہ: ڈاکٹر مجاہد مرزا (روس) اس روز سیوا عورتوں کے بارے میں سب کچھ سمجھ گیا اور ڈر گیا تھا۔ پہلی بار۔ 30 دسمبر کو ویرا ( ارد گرد کے سبھی لوگ اسے اسی نام سے پکارتے تھے ) نے اپنے پوتے سے درخواست کی تھی کہ ان کے طالب علمی کے دور کے دوست چچا یورا کو نئے سال کا تحفہ پہنچانے میں ان کا ساتھ دے۔ پوتا متعجب ہوا تھا کہ اس سے پہلے تو اس نے اس نام کے کسی چچا کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ ” دادی ایسی بات نہیں کہ میں تمہاری زندگی میں آئے مردوں کا سراغ لگانا چاہتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں نے چچا یورا کا نام کبھی نہیں سنا۔“ ” مجھے خود بھی یاد نہیں رہا تھا تا وقتیکہ ریتا کلیمووا نے فون کر کے نہیں بتایا تھا کہ ہماری جوانی کے زمانے کا دوست، اچھے حالات میں نہیں رہ رہا۔ اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں، بوڑھا شخص اکیلا رہ رہا ہے اور کسی حد تک نادار ہے۔ تو دادی کے ساتھ سامان اٹھا کے لے چلنا۔ میری ایک درخواست ہے کہ دادا سے کچھ نہ کہنا، میں جب بھی کسی کو ذاتی طور پہ کچھ دیتی ہوں، وہ ہمیشہ ہی بڑبڑاتا ہے۔ بس چلیں گے، کھانے پینے ک...

افسانہ نمبر 666 : ندی اور بوڑھا (سنہالی ادب) || تحریر : باسل فرننڈو (سری لنکا) || مترجم : حمزہ حسن شیخ

Image
  افسانہ نمبر 666 : ندی اور بوڑھا (سنہالی ادب) تحریر : باسل فرننڈو (سری لنکا) مترجم : حمزہ حسن شیخ (ڈیرہ اسماعیل خان) پچھلے دس یا اس سے بھی کچھ زیادہ سالوں سے، ہر دن بوڑھا زیادہ تر وقت ندی کے کنارے بیٹھا رہتا۔ اُس کی عمر بیاسی برس تھی اور اب اُس نے کام کاج چھوڑ دیا تھا۔ ندی، بالکل اُس کے گھر کے سامنے تھی اور کچھ صدیاں پُرانی تھی۔ اُس کی ساری زندگی اسی ندی کے قریب گزری تھی یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں، کہ اُس کی زندگی اسی ندی سے منسلک تھی۔ وہ دھوبی تھا اور یہ سب کچھ اُس کی ہمسائیگی میں تھا۔ سرکاری طور پر، یہ علاقہ جہاں وہ رہتے تھے، ایک گاؤں کا حصہ تھا۔ لیکن اس کو ایک مجموعی احساس نے گھیرا ہوا تھا، بہت عرصے تک، یہ ہمسائے اُن کو ایک ہی گاؤں سمجھتے آئے تھے۔ درحقیقت، لوگوں کے ذہنوں میں سرحدیں کھینچی ہوئی تھیں جن کے نقشے میں کوئی آثار نہیں تھے۔ سمندر کے قریب ایک علاقہ تھا، جو کاراوامچھیروں سے تعلق رکھتا تھا۔ مچھیرے اور راہدادھوبی عمومی طور پر دوست تھے۔ مچھیروں کے درمیان جان لیوا لڑائیاں تھیں جن کا اختیام قتل و غارت پر ہی ہوتا تھا۔ ایک خاندان ...

افسانہ نمبر 665 : سجا ہوا کمرہ || تحریر : اوہنری (امریکہ) || ترجمہ : رومانیہ نور

Image
افسانہ نمبر 665 : سجا ہوا کمرہ تحریر : اوہنری (امریکہ) ترجمہ : رومانیہ نور (ملتان) زیریں مغربی حصے کے سرخ اینٹوں والے علاقے کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ وقت کی طرح سے بے چین، لگاتار جگہ بدلتے ہوئے، تیزی سے رواں دواں رہتا ہے۔ وہ بے گھر ہیں لیکن ان کے سیکڑوں گھر ہوتے ہیں۔ وہ کرایے کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ ان کی عارضی رہائش گاہوں کی طرح، ان کے دل اور دماغ بھی ہمیشہ عارضی ہوتے ہیں۔ وہ "گھر، پیارے گھر کا راگ الاپتے ہیں؛ وہ گتے کی پیٹی میں کل سامان حیات لیے پھرتے ہیں۔ فطرت سے انہیں کوئی خاص لگاؤ نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک بیلیں وہی ہوتی ہیں جو خواتین کی ٹوپیوں پر کڑھی ہوتی ہیں اور ربڑ کا نقلی پودا ہی ان کے لیے انجیر کا درخت ہوتا ہے۔ لہٰذا اس علاقے کے مکانوں میں، جہاں ہزاروں باشندے رہتے ہیں، ان سے جڑی ایک ہزار کہانیاں ہوں تو کیا اچنبھے کی بات ہے، جن میں سے زیادہ تر کہانیاں غیر دلچسپ ہوتی ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہوگی اگر ان تمام خانہ بدوشوں کے جیون میں ایک دو بھوت پریت شامل نہ ہو سکیں۔ ایک شام اندھیرا چھا جانے کے بعد ایک نوجوان ان ٹوٹی پھوٹی ہوئی سرخ حویلیوں میں ان...