Posts

Showing posts from January, 2025

افسانہ نمبر 656 : پھسلتے ہوئے چہرے || تحریر : ولیم سیمسن || مترجم : ڈاکٹر انعام الحق جاوید

Image
  افسانہ نمبر 656 : پھسلتے ہوئے چہرے تحریر : ولیم سیمسن مترجم : ڈاکٹر انعام الحق جاوید   اگر یہ بات اصولی طور پر تسلیم کر لی جائے کہ محبت کرنا، محبت کیے جانے سے بہتر ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ کامیاب ترین قسم کی محبت وہ ہے جس کی جوابی کارروائی کی کوئی توقع ہو نہ امید، یعنی یک طرفہ محبت اور پھر بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس سے مزید استخراج یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ہماری محبت کے لطیف ترین جذبات صرف ایسے چہروں کے لیے ہونے چاہئیں جن سے ہماری کبھی ملاقات ہی نہ ہو سکتی ہو یا ہم ان سے گفتگو نہ کر سکتے ہوں۔ بازار سے گزرتی ہوئی مناسب خدوخال والی لڑکی کا وہ خوبصورت چہرہ جو ایک جھلک دکھا کر بھیٹر میں گم ہو جاتا ہے یا ریلوے اسٹیشن پر کھڑی گاڑی کی کھڑ کی سے جھانکنے والی لڑکی یا بس کے سفر میں برابر والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی کسی نو خیز کلی کا عکس ذہنوں پر مرتسم ہو کر رہ جاتا ہے جس کے پارہ پارہ بدن سے بجلیاں چمک رہی ہوتی ہیں لیکن افسوس کہ اس سے کوئی بات نہیں ہو سکتی . چند منٹ میں بس سٹاپ آ جائے گا اور وہ اُتر کر کہیں کھو جائے گی ۔ وہ آنکھیں دوبارہ نہیں آئیں گی ۔ وہ چہرہ بھی اور وہ بدن بھ...

افسانہ نمبر 655 : میری بیوی || تحریر : گی د موپاساں (فرانس) || فرانسیسی سے اردوترجمہ : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی)

Image
  افسانہ نمبر 655 : میری بیوی تحریر : گی د موپاساں (فرانس) فرانسیسی سے اردوترجمہ : شوکت نواز نیازی (راولپنڈی)   یہ صرف مردوں کی دعوت تھی۔ اپنے غیرشادی شدہ دنوں کی محفلوں کی مانند یہ دوست اب اپنی بیویوں کے بغیر اکثر اکٹھے ہوتے تھے۔ وہ دیر تک کھانے پینے میں مصروف رہتے، دیر تک شراب سے لطف اندوز ہوتے۔ وہ گپ شپ لگاتے، ہر موضوع پر باتیں کیا کرتے، اپنی پرانی اور خوشگوار یادوں کو کھنگالتے اور پھر ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی اور دلوں کی دھڑکن تیز ہو جاتی۔ ان میں ایک کہہ رہا تھا، "جارج، تمہیں ہمارا وہ سینٹ ژرمیں کا سفر یاد ہے جب ہمارے ساتھ موں مارتر کی وہ دو لڑکیاں بھی تھیں ؟" "ہاں، بالکل یاد ہے !" پھر اس سفر کی کچھ چیدہ چیدہ باتیں یاد کی جاتیں اور ان کے دل ایک مرتبہ پھر ان دنوں کی پرمسرت یادوں سے لبریز ہو جاتے۔ جلد ہی گفتگو شادی کے موضوع کی جانب مڑ گئی۔ تقریباً سبھی کا کہنا تھا، "آہ، کاش وہ حسین دن پھر سے لوٹ آتے !" جارج دوُپورتاں بولا، "کتنی عجیب بات ہے کہ یہ سب اتنا یکلخت اور اچانک ہو جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے جوانی میں سب ہی کبھی شادی نہ ک...

افسانہ نمبر 654 : ڈاکیے کا تھیلا || تحریر: کونسٹنٹین اوشینسکی(روس) || مترجم: جاوید بسام (کراچی)

Image
  افسانہ نمبر 654 :  ڈاکیے کا تھیلا   تحریر: کونسٹنٹین اوشینسکی(روس) مترجم: جاوید بسام   (کراچی)     کولیا ایک خوش مزاج، مگر غائب دماغ لڑکا تھا۔ اس نے پیٹرزبرگ میں اپنی دادی کو ایک بہت اچھا خط لکھا۔ جس میں انہیں برائٹ ہالیڈے کی مبارکباد دی، اپنے گاؤں کی زندگی کے بارے میں بتایا، اور یہ کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے، وہ اپنا وقت کیسے گزارتا ہے، سب تفصیل سے بیان کیا۔ ایک جملے میں بس یہ کہا جاسکتا تھا کہ خط بہت اچھا لکھا گیا تھا، لیکن کولیا نے خط کے بجائے خالی کاغذ کی آدھی شیٹ لفافے میں ڈال دی اور خط اسی کتاب میں رہ گیا، جہاں اس نے رکھا تھا۔ اس نے لفافے پر ٹکٹ لگائے، صاف ستھری لکھائی میں پتہ لکھا اور ڈاک خانے کا رخ کیا، جہاں لفافے پر مہر لگائی گئی اور کاغذ کی ایک خالی آدھی شیٹ، کولیا کی دادی کو چھٹی کی مبارک باد دینے سینٹ پیٹرزبرگ روانہ ہوگئی۔   کولیا کے خط نے پانچ سو میل کا فاصلہ سرپٹ دوڑتے ہوئے طے کیا جیسے کسی اہم کام کے لیے جلدی میں ہو۔ ابھی وہ یہاں ہے، ابھی سینٹ پیٹرزبرگ میں اور کچھ دیر بعد ڈاکیے کے تھیلے میں، جو سڑکوں پر سائیکل دوڑاتا، داخلی راست...